حضرت عبداللہ بن سُہَیْلؓ
پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام حضرت عبداللہ بن سُہَیْلؓ ہے۔ حضرت عبداللہ کے والد کا نام سُہَیْل بن عَمرو اور والدہ کا نام فَاخْتَہ بنتِ عَمرو تھا۔ ان کے بھائی کا نام ابوجَنْدَل تھا۔ حضرت عبداللہ اپنے بھائی ابوجَنْدَل سے عمر میں بڑے تھے۔ حضرت عبداللہ کی کنیت ابوسُہَیْل تھی۔ حضرت عبداللہ بن سُہَیْل کا تعلق قبیلہ قریش کے خاندان بنو عَامِر بن لُؤَیّ سے تھا۔ تاریخ کی جو کتاب ہے اس میں ابن اسحاق نے مہاجرین حبشہ ثانیہ میں ان کا ذکر کیا ہے۔ جب حضرت عبداللہ بن سُہَیْلؓ حبشہ سے لوٹے تو ان کے والدنے انہیں پکڑ کر ان کے دین سے ہٹا دیا یعنی زبردستی کی ان پہ۔ حضرت عبداللہ بن سُہَیْلؓ نے رجوع کا اظہار کیا اور آپؓ مشرکین کے ہمراہ مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بدر کی طرف روانہ ہوئے یعنی انہوں نے باپ کو کہا کہ ٹھیک ہے میں اس دین سے واپس آتا ہوں، اسلام سے توبہ کرتا ہوں۔ کہہ تو یہ دیا لیکن دل میں تسلی نہیں تھی۔ بہرحال مشرکین کے ساتھ بدر کی جنگ کے لیے آ گئے۔ حضرت عبداللہ اپنے والد سُہَیْل بن عمرو کے ساتھ ان کے نفقہ اور انہی کی سواری میں سوار تھے۔ ان کے والد کو کسی قسم کا شک نہ تھا کہ اس نے اپنے دین کی طرف رجوع کر لیا ہے یعنی اسلام چھوڑ کے واپس آ گیا ہے۔ جب بدر کے مقام پر مسلمان اور مشرکین مقابلہ کے لیے آمنے سامنے ہوئے اور دونوں لشکروں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا تو حضرت عبداللہ بن سُہَیْل مسلمانوں کی طرف پلٹ آئے اور لڑائی سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ یوں آپؓ بحالتِ اسلام غزوہ بدر میں شامل ہوئے تھے۔ اس وقت ان کی عمر 27 سال تھی۔ حضرت عبداللہ کے ایسا کرنے کی وجہ سے ان کے والد سُہَیْل بن عمرو کو شدید غصہ آیا۔ حضرت عبداللہ بن سُہَیْلؓ بدر، احد، خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک ہوئے۔ حضرت عبداللہؓ نے فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے والد کے واسطے امان لی یعنی کہ ان کو معاف کر دیں۔ پناہ میں لے لیں۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا آپؐ میرے والد کو امان دیں گے۔ آپؐ نے جواب دیا کہ وہ اللہ کی امان کی وجہ سے امن میں ہے۔ ٹھیک ہے اسے چاہیے کہ وہ باہر آ جائے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارد گرد احباب سے فرمایا جو شخص سُہَیْل بن عمرو کو دیکھے تو اسے حقارت کی نظر سے نہ دیکھے۔ میری زندگی کی قسم ہے کہ یقینا ًسُہَیْل عقل مند اور شریف آدمی ہے اور سُہَیْل جیسا شخص اسلام سے ناواقف نہیں رہ سکتا۔ حضرت عبداللہ بن سُہَیْلؓ اٹھ کر اپنے والد کے پاس گئے اور ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو سے آگاہ کیا۔ سُہَیْل نے کہا کہ اللہ کی قسم! وہ بڑھاپے اور بچپن میں نیکو کار تھے۔ یوں حضرت عبداللہ کے والد سُہَیْل نے اس موقعے پر اسلام قبول کر لیا۔ حضرت سُہَیْلؓ امان والے واقعہ کے بعد کہتے تھے کہ اللہ نے اسلام میں میرے بیٹے کے لیے بہت زیادہ بھلائی رکھ دی ہے۔ حضرت عبداللہ جنگِ یمامہ میں بھی شریک ہوئے تھے اور اسی جنگ میں بارہ ہجری میں دورِ خلافت حضرت ابوبکر صدیقؓ میں شہید ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر 38 سال تھی۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب اپنے دورِ خلافت میں حج کے لیے مکہ تشریف لائے تو حضرت عبداللہ بن سُہَیْلؓ کے والد حضرت سُہَیل بن عمرو مکہ میں حضرت ابوبکرؓ سے ملنے آئے تب حضرت ابوبکرؓ نے ان سے ان کے بیٹے عبداللہ کی تعزیت کی۔ اس پر حضرت سُہَیْلؓ نے کہا کہ مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شہید اپنے اہل میں سے ستر افراد کی شفاعت کرے گا تو میں یہ امید رکھتا ہوں کہ میرا بیٹا مجھ سے قبل کسی اور سے آغاز نہ کرے گا یعنی میں جب مروں تو وہ میری بخشش کی سفارش کرے۔ اسی طرح دوسری رائے کے مطابق حضرت عبداللہ بحرین کے علاقہ جُوَاثَاء میں 88سال کی عمر میں شہید ہوئے تھے۔ جَوَاثَاء بحرین میں عَبْدُالقَیْس کا قلعہ ہے جس کو عَلَاء بن حَضْرَمِینے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں 12؍ ہجری میں فتح کیا تھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 216-217عَبْدُاللہْ بِنْ سُھَیْل، داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء) (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 4 صفحہ107 عَبْدُاللہْ بِنْ سُھَیْل، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء) (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃالجزءالثالث صفحہ 272 عَبْدُاللہْ بِنْ سُھَیْل، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء) (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃالجزءالثانی صفحہ585 سُہَیْل بن عمرو قرشی، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء) (معجم البلدان جلد2صفحہ84 دار احیاء الترث العربی بیروت)
بہرحال یہ دو روایتیں ہیں۔