حضرت عبداللہ بن سہلؓ
حضرت عبداللہ بن سہلؓ کا تعلق قبیلہ بنی زَعُوْرَاءسے تھا جو کہ بنو عبدالاشہل کے حلیف تھے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپؓ غسّانی تھے۔ حضرت عبداللہ کے دادا کا نام بعض نے زید اور بعض نے رافع بھی بیان کیا ہے۔ حضرت عبداللہ کی والدہ کا نام صَعْبَہ بنت تَیِّہَان تھا جو حضرت اَبُوالہَیْثَم بن تَیِّہَانؓ کی بہن تھیں۔ آپؓ حضرت رافع بن سہلؓ کے بھائی تھے۔ حضرت عبداللہ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے۔ آپؓ کے بھائی حضرت رافعؓ آپؓ کے ہمراہ غزوۂ احد اور خندق میں شریک ہوئے۔ حضرت عبداللہ غزوۂ خندق میں شہید ہوئے۔ بنو عُوَیْف کے ایک شخص نے آپؓ کو تیر مار کر شہید کیا تھا۔ (السیرة النبویة لابن ہشام صفحہ 464، الانصار ومن معھم، دارالکتب العلمیه بیروت2001ء) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 236، عبداللہ بن سھل، داراحیاء التراث العربی 1996ء) (اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ لابن اثیر جلد3، صفحہ269 عبداللہ بن سھل، دارالکتب العلمیه بیروت2008ء)
مُغَیْرَہ بن حکیم بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ سے پوچھا کہ کیا آپؓ غزوۂ بدر میں شریک تھے؟ آپؓ نے جواب دیا کہ ہاں اَور میں بیعتِ عقبہ میں بھی شامل تھا۔ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد لعلی بن ابی بکر جلد6 صفحہ108، کتاب المغازی والسیر باب قد حضر بدرا جماعۃ، حدیث10044، دارالکتب العلمیہ بیروت2001ء)
حضرت عبداللہ کے غزوۂ حَمْرَاءُ الْاَسَد، جو مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے، (معجم البلدان جلد 2 صفحہ 181 زیر لفظ حمراء الاسد) اس میں شامل ہونے کا ذکر بھی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب‘سُبُلُ الْھُدیٰ’میں یوں ملتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن سہلؓ اور حضرت رافع بن سہلؓ دونوں بھائی جو قبیلہ بنو عبدالاشہل میں سے تھے جب وہ دونوں غزوۂ احد سے واپس آئے تو وہ شدید زخمی تھے۔ جنگ میں زخمی ہو گئے اور حضرت عبداللہ زیادہ زخمی تھے۔ جب ان دونوں بھائیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حَمْرَاءُ الْاَسَد کی طرف جانے اور اس میں شمولیت کی بابت آپؐ کے حکم کے بارے میں سنا تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا۔ بخدا اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوہ میں شرکت نہ کر سکے تو یہ ایک بہت بڑی محرومی ہو گی۔ زخمی حالت میں تھے لیکن اس کے باوجود بھی ایک جذبہ تھا۔ ایمان میں پختگی تھی۔ پھر کہنے لگے بخدا ہمارے پاس کوئی سواری بھی نہیں ہے جس پر ہم سوار ہوں اور نہ ہی ہم جانتے ہیں کہ ہم کس طرح یہ کام کریں۔ حضرت عبداللہ نے کہا کہ آؤ میرے ساتھ ہم پیدل چلتے ہیں۔ حضرت رافعؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! مجھے تو زخموں کی وجہ سے چلنے کی سکت بھی نہیں ہے۔ آپؓ کے بھائی نے کہا کہ آؤ ہم آہستہ آہستہ چلتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ دونوں گرتے پڑتے چلنے لگے۔ حضرت رافعؓ نے کبھی کمزوری محسوس کی تو حضرت عبداللہ نے حضرت رافعؓ کو اپنی پیٹھ پر اٹھا لیا۔ کبھی وہ پیدل چلنے لگے۔ ایسی حالت تھی کہ دونوں ہی زخمی تھے لیکن جو بہتر تھے وہ زیادہ زخمی کو اپنی پیٹھ پر اٹھا لیتے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلتے رہے۔ کمزوری کی وجہ سے بعض دفعہ ایسی حالت ہوتی تھی کہ وہ حرکت بھی نہیں کر سکتے تھے۔ یہاں تک کہ عشاء کے وقت وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ صحابہ کرامؓ اس وقت آگ جلا رہے تھے۔ ایک ڈیرہ ڈال لیا تھا۔ رات کا وقت تھا تو آپ دونوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ اس رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہرے پر حضرت عَبَّاد بِن بِشرؓ متعین تھے۔ جب یہ پہنچے وہاں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے، دونوں سے پوچھا کہ کس چیز نے تمہیں روکے رکھا تو ان دونوں نے اس کا سبب بتایا کہ کیا وجہ ہو گئی۔ اس پر آپؐ نے ان دونوں کو دعائے خیر دیتے ہوئے فرمایا اگر تم دونوں کو لمبی عمر نصیب ہوئی تو تم دیکھو گے کہ تم لوگوں کو گھوڑے اور خچر اور اونٹ بطور سواریوں کے نصیب ہوں گے۔ ابھی تو تم گرتے پڑتے پیدل آئے ہو لیکن لمبی زندگی پاؤ گے تو یہ دیکھو گے کہ یہ سب سواریاں تمہیں میسر آ جائیں گی لیکن ساتھ یہ بھی فرمایا کہ لیکن وہ تمہارے لیے تم دونوں کے اس سفر سے بہتر نہیں ہوں گی جو تم نے پیدل گرتے پڑتے کیا ہے۔ (سُبُل الھدٰی والرشاد فی سیرة خیر العباد لمحمد بن یوسف، جلد 4 صفحہ310، الباب الرابع عشر فی غزوہ حمراء الاسد، دارالکتب العلمیہ بیروت1993ء) جو اِس کا ثواب ہے اور جواِس کا اجر ملے گا اور جو اِس کی برکات ہیں وہ بہت زیادہ ہیں۔ غزوہ حَمْرَاءُ الْاَسَد کی تفصیل کہ یہ کیا تھا جس کے لیے یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے گئے تھے اس کے بارے میں کچھ تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھی ہے۔ نبی کریم اور آپؐ کے اصحابؓ کی غزوۂ احد سے واپسی اور غزوۂ حَمْرَاءُ الْاَسَد کی تفصیل اس طرح ہے کہ احد کی جنگ کے بعد مدینہ میں جو رات تھی ایک سخت خوف کی رات تھی کیونکہ باوجوداس کے کہ بظاہر لشکر ِقریش نے مکہ کی راہ لے لی تھی یہ اندیشہ تھا کہ یہ فعل مسلمانوں کوغافل کرنے کی نیت سے نہ ہو۔ بظاہر تو احد کی جنگ میں وہ جیتے ہوئے تھے اور مکہ واپس لوٹ رہے تھے لیکن مسلمانوں کو یہ فکر تھی کہ کہیں یہ نہ ہو کہ یہ بھی کوئی چال ہواور مدینے پر حملہ کرنے کے لیے پھر واپس لوٹ آئیں اور اچانک لوٹ کر مدینہ پر حملہ آور ہو جائیں۔ لہٰذا اس رات کو مدینے میں اسی احتیاط کی وجہ سے، شک کی وجہ سے پہرے کا انتظام کیا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کا خصوصیت سے تمام رات صحابہ نے پہرہ دیا۔
صبح ہوئی تو پتا لگا کہ یہ اندیشہ محض خیالی نہیں تھا کیونکہ فجر کی نماز سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع پہنچی کہ قریش کالشکر مدینے سے چند میل کے فاصلے پر ٹھہر گیا ہے اور رؤسائے قریش میں یہ سرگرم بحث جاری ہے کہ اس فتح سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کیوں نہ مدینے پرحملہ کردیا جائے اور بعض قریش ایک دوسرے کوطعنہ دے رہے تھے کہ نہ تو تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کوقتل کیا اور نہ مسلمان عورتوں کو لونڈیاں بنایا اور نہ ان کے مال و متاع پرقابض ہوئے، قبضہ کیا بلکہ جب تم ان پر غالب آئے اور تمہیں یہ موقع ملا کہ تم ان کو ملیا میٹ کردیتے توتم انہیں یونہی چھوڑ کرواپس چلے آئے ہو تاکہ وہ پھرزور پکڑ جائیں۔ پس اب بھی موقع ہے کہ واپس چلو اور مدینے پرحملہ کرکے مسلمانوں کی جڑکاٹ دو۔ اس کے مقابل بعض دوسرے یہ بھی کہتے تھے کہ تمہیں ایک فتح حاصل ہوئی ہے۔ اسے غنیمت سمجھو اور مکہ واپس لوٹ چلو۔ ایسا نہ ہوکہ یہ شہرت بھی کھو بیٹھو جو تمہیں حاصل ہوئی ہے اور یہ فتح جو ہے وہ شکست کی صورت میں بدل جائے کیونکہ اب اگرتم لوگ واپس لَوٹے اور مدینے پر حملہ آور ہوئے تویقیناً مسلمان جان توڑ کرلڑیں گے اور جو لوگ احد میں شامل نہیں ہوئے تھے وہ بھی میدان میں نکل آئیں گے۔ مگر بالآخر جوشیلے لوگوں کی رائے غالب آئی اور قریش مدینہ کی طرف واپس لوٹنے کے لیے تیار ہو گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوجب ان واقعات کی اطلاع ہوئی تو آپؐ نے فوراً اعلان فرمایا کہ مسلمان تیار ہو جائیں مگر ساتھ ہی یہ بھی حکم دیا کہ سوائے ان لوگوں کے جو احد میں شریک ہوئے تھے اَورکوئی شخص ہمارے ساتھ نہ نکلے۔ چنانچہ احد کے مجاہدین جن میں سے اکثرزخمی تھے (اور دو زخمیوں کا ذکر تو میں نے کر ہی دیا) اپنے زخموں کوباندھ کراپنے آقا کے ساتھ ہولیے اور لکھا ہے کہ اس موقعے پرمسلمان ایسی خوشی اور جوش کے ساتھ نکلے کہ جیسے کوئی فاتح لشکر فتح کے بعد دشمن کے تعاقب میں نکلتا ہے۔ آٹھ میل کا فاصلہ طَے کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حَمْرَاءُ الْاَسَد میں پہنچے جہاں دو مسلمانوں کی نعشیں، لاشیں ان کو میدان میں پڑی ہوئی ملی تھیں۔ تحقیقات پرمعلوم ہوا کہ یہ وہ جاسوس تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے پیچھے روانہ کیے تھے مگر جنہیں قریش نے موقع پا کر قتل کردیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شہداء کوایک قبر کھدوا کراس میں اکٹھا دفن کروا دیا اور اب چونکہ شام ہوچکی تھی آپؐ نے وہیں ڈیراڈالنے کا حکم دیا اور فرمایا که میدان میں مختلف مقامات پر آگ روشن کردی جائے۔ وسیع جگہ پر آگیں جلا دی جائیں۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے حَمْرَاء الْاَسَد کے میدان میں پانچ سو آگیں شعلہ زن ہوگئیں جو ہردُور سے دیکھنے والے کے دل کو مرعوب کرتی تھیں۔ بڑا رعب پڑنے لگ گیا۔ مختلف لوگ سمجھیں کہ یہ آبادی ہے اور بڑے بڑے مختلف کیمپ بنے ہوئے ہیں۔ غالباً اسی موقع پر قبیلہ خُزَاعَہ کاایک مشرک رئیس مَعْبَدنامی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اور آپؐ سے احد کے مقتولین کے متعلق اظہارِ ہمدردی کی اور پھر اپنے راستے پرروانہ ہوگیا۔ دوسرے دن جب وہ مقام رَوْحَاء (یہ بھی ایک مقام ہے، جگہ ہے جو مدینہ سے چالیس میل کے فاصلے پر ہے۔ وہاں ) پہنچا توکیا دیکھتا ہے کہ قریش کالشکر وہاں ڈیرا ڈالے پڑا ہے (جو بحث کر کے واپس مدینہ میں آ رہے تھے) اور مدینہ کی طرف واپس چلنے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ مَعْبَد فوراً ابوسفیان کے پاس گیااوراسے جاکر کہنے لگا کہ تم کیا کرنے لگے ہو۔ اللہ کی قَسم! میں نے تو ابھی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر کو حَمْرَاء الْاَسَد میں چھوڑا ہے۔ میں انہیں وہاں چھوڑ کر آیاہوں اور ایسا بارعب لشکر ہے جو میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ اور احد کی ہزیمت کی ندامت، (جو جنگ ہاری ہے اس کی ندامت) میں ان کو اتنا جوش ہے کہ تمہیں دیکھتے ہی وہ بھسم کر دیں گے، کھا جائیں گے، ختم کر دیں گے۔ ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں پرمعبد کی ان باتوں سے ایسارعب پڑا کہ وہ مدینے کی طرف لوٹنے کا ارادہ ترک کرکے فوراً مکّے کی طرف روانہ ہوگئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کولشکر ِقریش کے اس طرح بھاگ نکلنے کی اطلاع موصول ہوئی تو آپؐ نے خدا کاشکر اداکیا اور فرمایا کہ یہ خدا کارعب ہے جو اس نے کفار کے دلوں پر مسلط کردیا ہے۔ اس کے بعد آپ نے حَمْرَاء الْاَسَد میں دوتین دن اَورقیام فرمایا اور پھر پانچ دن کی غیر حاضری کے بعد مدینے میں واپس تشریف لے آئے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ صفحه 504-505)(لغات الحدیث جلد 2 صفحه 149 زیر لفظ روحاء)