حضرت عبداللہ بن طارقؓ
علامہ زُہری کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن طارق ظَفَرِیؓ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ عروہ نے ان کا نام عبداللہ بن طارق بَلَوِی لکھا ہے جو انصار کے حلیف تھے۔ بعض نے کہا ہے کہ حضرت عبداللہ بن طارق بَلَوِی انصار کے قبیلہ بنو ظَفَر کے حلیف تھے۔ ابنِ ہشام کے مطابق آپ قبیلہ بَلِیّ میں سے تھے اور قبیلہ بنو عبد بن رِزَاحْ کے حلیف تھے۔ حضرت مُعَتِّبْ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عُبَید حضرت عبداللہ بن طارقؓ کے اخیافی بھائی تھے یعنی والدہ کی طرف سے حقیقی بھائی تھے۔ حضرت عبداللہ بن طارقؓ کی والدہ بنو عُذْرَہ کی شاخ بنو کَاھِل سے تھیں۔ حضرت عبداللہ بن طارقؓ اور حضرت مُعَتِّبْ بن عُبَیدؓ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں شامل ہوئے اور واقعہ رجیع کے دن دونوں بھائیوں کو شہادت نصیب ہوئی۔ حضرت عبداللہ بن طارقؓ ان چھ صحابہ، یا بعض روایات کے مطابق جس میں بخاری کی روایت بھی شامل ہے ان کی تعداد دس بتائی جاتی ہے، ان میں شامل تھے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 3؍ ہجری کے آخر میں قبیلہ عَضَلْ اور قَارَہ کے چند آدمیوں کے پاس بھیجا تھا تا کہ وہ انہیں دین کے بارے میں کچھ سمجھ بوجھ دیں اور انہیں قرآن کریم اور اسلامی شریعت کی تعلیم دیں۔ جب یہ لوگ مقامِ رجیع تک پہنچے، جو حجاز میں ایک چشمہ ہے، جو قبیلہ ھُذَیل کی ملکیت تھا تو اس پر قبیلہ ھُذَیل کے لوگوں نے سرکشی اختیار کرتے ہوئے ان صحابہ کا محاصرہ کیا اور بغاوت کرتے ہوئے ان سے قِتال کیا، جنگ کی۔ ان میں سے سات صحابہ کے نام یہ ہیں:
حضرت عاصم بن ثابتؓ، حضرت مَرْثَد بن اَبُو مَرْثَدؓ، حضرت خُبَیب بن عَدِیؓ، حضرت خالد بن بُکَیرؓ، حضرت زید بن دَثِنہؓ، حضرت عبداللہ بن طارقؓ اور حضرتمُعَتِّبْبن عُبَیدؓ۔ ان میں حضرت مرثدؓ، حضرت خالدؓ اور حضرت عاصمؓ اور حضرتمُعَتِّبْبن عُبَیؓ د تو وہیں شہید ہو گئے تھے۔ حضرت خُبیبؓ اور حضرت عبداللہ بن طارقؓ اور حضرت زیدؓ نے ہتھیار ڈال دیے تو کافروں نے انہیں قید کر لیا اور ان کو مکہ کی طرف لے کر چلنے لگے۔ جب وہ مقام ِظَہْرَان (ظہران مکہ سے پانچ میل کے فاصلے پر ایک وادی ہے، وہاں) پہنچے تو حضرت عبداللہ بن طارقؓ نے رسی سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا اور اپنی تلوار ہاتھ میں لے لی۔ یہ کیفیت دیکھ کر مشرکین ان سے پیچھے ہٹ گئے اور آپؓ کو پتھروں سے مارنا شروع کر دیا یہاں تک کہ آپؓ شہید ہو گئے۔ اور آپؓ کی قبر ظَہْرَان میں ہے۔ واقعۂ رجیع ہجرت کے بعد 36 ویں مہینے میں، جو صفر کا مہینہ ہے اس میں ہوا۔ (سیرت ابنِ ہشام صفحہ 464 دار الکتب العلمیہ بیروت 2001ء) (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 284-285 عبد اللہ بن طارق دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء) (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 347 عبد اللہ بن طارق و اخوہ لأمہ معتب بن عبید دار الکتب العلمیہ 1990ء) (صحیح البخاری کتاب الجہاد باب ھل یستأسر الرجل …… الخ حدیث 3045) (معجم البلدان جلد 4 صفحہ 247 دار احیاء التراث العربی بیروت)
حضرت حسانؓ اپنے اشعار میں ان اصحاب کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ
وَابْنُ الدَّثِنَۃِ وَابْنُ طَارِقٍ مِنْہُمْ
وَافَاہُ ثَمَّ حِمَامُہُ الْمَکْتُوْبُ
پھر یہ جو نظم ہے اس کا پہلا شعر ہے:
صَلَّى الْإِلٰہُ عَلَى الَّذِیْنَ تَتَابَعُوْا
یَوْمَ الرَّجِیْعِ فَأُکْرِمُوْا وَأُثِیْبُوْا
پہلے شعر کا ترجمہ یہ ہے کہ حضرت ابن دَثِنَہؓ اور حضرت ابن طارقؓ ان میں سے تھے وہیں موت ان سے جا ملی جہاں وہ ان کے لیے مقدر تھی۔ اور پھر جو پہلا شعر ان کی نظم کا تھا اس میں وہ کہتے ہیں کہ خدائے معبودنے ان پر رحمت نازل کی جو غزوۂ رجیع کے دن پے در پے شہید ہوئے۔ پس انہیں اعزاز بخشا گیا اور انہیں ثواب دیا گیا۔ (الاستیعاب جلد 3 صفحہ 928-929، عبد اللہ بن طارق، دارالجیل بیروت 1992ء)
واقعۂ رجیع کے بارے میں کچھ صحابہ کے واقعات میں پہلے بھی میں بیان کر چکا ہوں۔ کچھ تو یہاں بھی یہ بیان ہوگیا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے جوتفصیل لکھی ہے اس کا مزید خلاصہ بیان کرتا ہوں کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چاروں طرف سے کفار کے حملوں کی، ان کے منصوبوں کی بڑی خوفناک خبریں آ رہی تھیں اور جنگِ احد کی وجہ سے کفار جو تھے وہ بڑے دلیر بھی ہو رہے تھے، شوخ بھی ہو رہے تھے اور ان کی طرف سے خطرہ بہت زیادہ محسوس ہو رہا تھا۔ اس بات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چار ہجری میں صفر کا جو اسلامی مہینہ ہے اس میں اپنے دس صحابیوں کی پارٹی تیار کی اور ان پر عاصم بن ثابتؓ کو امیر مقرر فرمایا اور ان کو یہ حکم دیا کہ وہ خفیہ خفیہ مکہ کے قریب جا کر قریش کے حالات دریافت کریں، دیکھیں کہ ان کے کیا ارادے ہیں اور ان کی کارروائیوں اور ارادوں سے پھر آپؐ کو اطلاع دیں۔ لیکن ابھی یہ پارٹی روانہ نہیں ہوئی تھی کہ قبائل عَضَل اور قَارَہ کے چند لوگ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارے قبائل میں بہت سے آدمی اسلام کی طرف مائل ہیں۔ اور ہمارے ساتھ آپؐ چند آدمی روانہ کریں جو ہمیں اسلام کے بارے میں بتائیں اور اسلام کی تعلیم دیں تا کہ ہم مسلمان ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ خواہش معلوم کرکے وہی خبر رساں پارٹی جو مکہ کی طرف بھیجنے کے لیے تیار کی گئی تھی وہ وہاں کی بجائے ان کے ساتھ روانہ کر دی۔ لیکن جیسا کہ ثابت ہوا کہ یہ لوگ جھوٹے تھے اور بَنُو لِحْیَان کے بھڑکانے پر مدینہ آئے تھے، ان کے کہنے پر مدینہ آئے تھے جنہوں نے اپنے رئیس سفیان بن خالد کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے یہ چال چلی تھی کہ اس بہانے سے کچھ مسلمان مدینہ سے نکلیں تو ان پر حملہ کر دیا جائے اور بَنُو لِحْیَان نے اس خدمت کے معاوضے میں عَضَل اور قَارَہ کے لوگوں کے لیے بہت سے اونٹ انعام کے طور پر مقرر کیے تھے۔ جب عَضَل اور قَارَہ کے یہ غدّار لوگ عُسْفَان اور مکہ کے درمیان پہنچے تو انہوں نے بَنُو لِحْیَان کو خفیہ خفیہ اطلاع بھجوا دی کہ مسلمان ہمارے ساتھ آ رہے ہیں۔ تم بدلہ لینے کے لیے آجاؤ۔ جس پر قبیلہ بَنُو لِحْیَان کے دو سو نوجوان، جن میں سے ایک سو تیر انداز تھے، مسلمانوں کے تعاقب میں نکلے۔ یعنی ان کے بلانے پے وہاں آ گئے اور مقام رجیع میں ان کا آمنے سامنے مقابلہ ہو گیا۔
دس مسلمان آدمی تھے بعض روایات میں سات ہے تو یہ لوگ پوری طرح ہتھیاروں سے لیس لوگوں کا، دو سو سپاہیوں کا، دو سو کفار کا، مقابلہ کیا کر سکتے تھے؟ لیکن مسلمان! اللہ تعالیٰ کے فضل سےان مسلمانوں میں ایمانی جوش تھا اور ہتھیار ڈالنا تو ان کی سرشت میں نہیں تھا۔ انہوں نےفوری طور پر، یہ حکمت ِعملی اختیار کی کہ ایک قریبی ٹیلے پر چڑھ گئے تا کہ مقابلے کے لیے تیار ہو جائیں۔ کفار نے، جن کے نزدیک دھوکا دینا کوئی ایسی معیوب بات نہیں تھی، ان کو آواز دی کہ تم پہاڑی پر سے نیچے اتر آؤ ہم تم سے بڑا پختہ عہد کرتے ہیں کہ تمہیں قتل نہیں کریں گے۔ عاصمؓ نے جواب دیا کہ ہمیں تمہارے یہ جو عہد و پیمان ہیں ان پے کوئی اعتبار نہیں ہے۔ ہم تمہاری اس ذمہ داری پر نہیں اتر سکتے اور پھر حضرت عاصمؓ نے آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہا کہ اے خدا! تُو ہماری حالت کو دیکھ رہا ہے۔ اپنے رسول کو ہماری اس حالت سے اطلاع پہنچا دے۔ بہرحال عاصمؓ اور اس کے ساتھیوں نے مقابلہ کیا اور بالآخر لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ جب سات صحابہ مارے گئے اور صرف خُبَیب بن عَدِیؓ اور زید بن دَثِنَہؓ اور عبداللہ بن طارقؓ باقی رہ گئے تو کفار نے جن کی اصل خواہش یہ تھی کہ ان لوگوں کو زندہ پکڑ لیں، پھر آواز دی کہ اب بھی نیچے اتر آؤ اور ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمہیں کوئی تکلیف نہیں دیں گے۔ اس دفعہ ان لوگوں نے ان کے وعدے پے یقین کر لیا اور ان کے اس جال میں آ کے نیچے اتر آئے مگر نیچے اترتے ہی کفار نے انہیں اپنی تیر کمانوں کی تندیوں سے باندھ دیا۔ اس پر خُبَیبؓ اور زیدؓ اور عبداللہ بن طارقؓ، سے صبر نہ ہوسکا۔ انہوں نے پکار کے کہا یہ تمہاری بدعہدی ہے اور اب دوبارہ تم نے ہمارے ساتھ کی ہے اور آگے چل کے نامعلوم کیا کرو گے، ہمیں نہیں پتا۔ عبداللہ نے ان کے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا جس پر کفار تھوڑی دیر تک تو عبداللہ کو گھسیٹتے ہوئے اور زدو کوب کرتے ہوئے لے گئے اور پھر انہیں قتل کر کے وہیں پھینک دیا۔ (عبداللہ سے مراد عبداللہ بن طارقؓ ہیں۔) اس روایت میں یہ درج ہے کہ اس طرح ان کو لے گئے اور ایک روایت میں یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ہاتھ چھڑا لیے اور لڑائی کے لیے تیار ہو گئے۔ اس پر انہوں نے پتھر مار کے شہید کر دیا۔ لیکن جو بھی تھا ان کو بہرحال یہاں شہید کر دیا گیا اور وہیں پھینک دیا۔ اب چونکہ ان کا انتقام پورا ہو چکا تھا، قریش کو خوش کرنے کے لیے اور روپے کے لالچ سے خبیبؓ اور زیدؓ کو ساتھ لے کر یہ لوگ مکہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہاں پہنچ کر انہیں قریش کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ چنانچہ خُبیب کو تو حَارِث بن عامِر بن نوفل کے لڑکوں نے خرید لیا کیونکہ خُبَیبؓ نے بدر کی جنگ میں حَارِث کو قتل کیا تھا اور زیدؓ کو صَفْوَان بن امیہ نے خرید لیا۔
یہ حضرت خبیبؓ ہی ہیں جن کے بارے میں یہ بھی روایت ہے کہ جب یہ قید میں تھے تو جس گھر میں یہ تھے ان کافروں کا ایک بچہ کھیلتا ہوا ان کے پاس آ گیا اور خبیبؓ نے اس کو اپنی گود میں بٹھا لیا۔ اس پر اس کی ماں بڑی پریشان تھی تو حضرت خبیبؓ نے اسے کہا کہ پریشان نہ ہو۔ اس کو میں کچھ نہیں کہوں گا حالانکہ اس وقت ان کے ہاتھ میں اُسترا تھا۔ اس استرے کی وجہ سے وہ ڈر گئی تھی وہاں۔ تو بہرحال یہ حضرت عبداللہ بن طارقؓ رجیع کے واقعہ میں اس طرح شہید ہوئے تھے کہ انہوں نے کافروں کے ساتھ آگے جانے سے انکار کر دیا تھا اور وہیں لڑے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ513تا 515)