حضرت عبداللہ بن عبدالاسَدہؓ
ان کا نام عبداللہ تھا اور کنیت ابوسلمہ۔ آپ کی والدہ بَرَّہ بنت عبدالمطلب تھیں اور آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت حمزہ کے رضاعی بھائی بھی تھے۔ انہوں نے ابولہب کی لونڈی ثُوَیْبَہ کا دودھ پیا تھا۔ حضرت اُمّ المومنین اُمّ سلمہ پہلے آپ کے نکاح میں تھیں۔ (اسدالغابہ جلد 3 صفحہ295، عبداللہ بن عبدالاسد، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)
اس کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی سیرت خاتم النبیین میں لکھا ہے کہ:
’’ابوسلمہ بن عبدالاسد تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی تھے اور بنو مخزوم سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی وفات پر ان کی بیوہ اُمّ سلمہ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی ہوئی۔‘‘ (سیرت خاتم النبینﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے صفحہ124)
حضرت عبداللہ بن عبدالاسد اسلام میں سبقت کرنے والے لوگوں میں سے ہیں۔ ابن اسحاق کے مطابق دس آدمیوں کے بعد آپ اسلام لائے۔ یعنی ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، جلد سوم صفحہ 71، عبد اللہ بن عبد الاسد، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2002ء)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوعبیدۃ بن حارث، حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسد، حضرت ارقم بن ابو ارقم اور حضرت عثمان بن مظعون حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن مجید پڑھ کر سنایا جس پر انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور یہ شہادت دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہدایت اور راستی پر ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عبدالاسد اپنی بیوی حضرت اُمِّ سلمہ کے ہمراہ پہلی ہجرت حبشہ میں شامل ہوئے۔ حبشہ سے واپس مکہ آنے کے بعد مدینہ ہجرت کی۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد خامس صفحہ 153، ابو سلمہ، مکتبہ دارالفکر بیروت لبنان 2003ء)
سیرت خاتم النبیین میں ان کی ہجرت حبشہ کا ذکر ملتا ہے کہ جب مسلمانوں کی تکلیف انتہا کو پہنچ گئی اور قریش اپنی ایذا رسانی میں ترقی کرتے گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا کہ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں اور فرمایا کہ حبشہ کا بادشاہ عادل اور انصاف پسند ہے۔ اس کی حکومت میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ حبشہ کا ملک جسے انگریزی میں ایتھوپیا یا ابے سینیا کہتے ہیں براعظم افریقہ کے شمال مشرق میں واقعہ ہے اور جائے وقوع کے لحاظ سے جنوبی عرب کے بالکل مقابل پر ہے اور درمیان میں بحر احمر کے سوا کوئی اور ملک حائل نہیں۔ اس زمانے میں حبشہ میں ایک مضبوط عیسائی حکومت قائم تھی اور وہاں کا بادشاہ نجاشی کہلاتا تھا بلکہ اب تک بھی وہاں کا حکمران اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔ حبشہ کے ساتھ عرب کے تجارتی تعلقات تھے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ان ایام میں جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں حبشہ کا دارالسلطنت اکسوم تھا جو موجودہ شہر عدوا کے قریب واقعہ ہے اور اب تک ایک مقدس شہر کی صورت میں آباد چلا آتا ہے۔ اکسوم ان دنوں میں ایک بڑی طاقتور حکومت کا مرکز تھا اور اس وقت کے نجاشی کا ذاتی نام اَصْحَمَہ تھا جو ایک عادل اور بیدار مغز اور مضبوط بادشاہ تھا۔ بہرحال جب مسلمانوں کی تکلیف انتہا کو پہنچ گئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا کہ جن جن سے ممکن ہو حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے پر ماہ رجب 5 نبوی میں گیارہ مرد اور چار عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ ان میں سے زیادہ معروف کے نام یہ ہیں عثمان بن عفان اور ان کی زوجہ رقیہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، عبدالرحمن بن عوف، زبیر بن العوام، ابو حذیفہ بن عتبہ، عثمان بن مظعون، مصعب بن عمیر، ابوسلمہ بن عبدالاسد اور ان کی زوجہ حضرت اُمّ سلمہ۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ ابتدائی مہاجرین میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جو قریش کے طاقتور قبائل سے تعلق رکھتے تھے اور کمزور لوگ کم نظر آتے ہیں جس سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے۔ اوّل یہ کہ طاقتور قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی قریش کے مظالم سے محفوظ نہ تھے۔ دوسرے یہ کہ کمزور لوگ مثلاً غلام وغیرہ اس وقت ایسی کمزوری اور بے بسی کی حالت میں تھے کہ ہجرت کی بھی طاقت نہ رکھتے تھے۔ جب یہ مہاجرین جنوب کی طرف سفر کرتے ہوئے شُعَیْبَہ پہنچے جو اس زمانے میں عرب کا ایک بندرگاہ تھا تو اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ ان کو ایک تجارتی جہاز مل گیا جو حبشہ کی طرف روانہ ہونے کو بالکل تیار تھا۔ چنانچہ یہ سب امن سے اس میں سوار ہو گئے اور جہاز روانہ ہو گیا۔ قریش مکہ کو ان کی ہجرت کا علم ہوا تو سخت برہم ہوئے کہ یہ شکار مفت میں ہاتھ سے نکل گیا۔ (ان کا پیچھا کر رہے تھے کہ جانے نہیں دینا لیکن وہ چلے گئے۔) چنانچہ انہوں نے ان مہاجرین کا پیچھا کیا مگر جب ان کے آدمی ساحل پر پہنچے تو جہاز روانہ ہو چکا تھا اس لئے خائب و خاسر واپس لَوٹے۔ حبشہ میں پہنچ کر مسلمانوں کو نہایت امن کی زندگی نصیب ہوئی اور خدا خدا کر کے قریش کے مظالم سے چھٹکارا ملا۔ (سیرت خاتم النبینﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے صفحہ146۔ 147)
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب حضرت ابوسلمہ نے (حبشہ سے واپس آنے کے بعد) حضرت ابوطالب سے پناہ طلب کی تو بنو مخزوم میں سے چند اشخاص ابوطالب کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ تم نے اپنے بھتیجے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اپنی پناہ میں رکھا ہی ہوا ہے مگر ہمارے بھائی ابوسلمہ کو تم نے کیوں پناہ دی ہے؟ ابوطالب نے کہا اس نے مجھ سے پناہ طلب کی اور وہ میرا بھانجا بھی ہے اور اگر اپنے بھتیجے کو پناہ نہ دیتا تو بھانجے کو بھی پناہ نہ دیتا۔ ابولہب نے بنو مخزوم کے لوگوں سے کہا کہ تم ہمیشہ ہمارے بزرگ ابوطالب کو آ کر ستاتے ہو اور طرح طرح کی باتیں کرتے ہو بخدا یا تو تم اس سے باز آ جاؤ ورنہ ہم ہر ایک کام میں ان کے ساتھ شریک ہوں گے یہانتک کہ وہ اپنے ارادے کی تکمیل کر لے۔ اس پر ان لوگوں نے (ابولہب کو مخاطب کرتے ہوئے) کہا کہ اے ابوعتبہ! جس چیز کو تو ناپسند کرتا ہے ہم بھی اس سے پیچھے ہٹتے ہیں۔ ابولہب کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بنو مخزوم کا دوست تھا اور مددگار بھی تھا اس لئے وہ لوگ اس بات سے باز آ گئے کہ ان کو ابوسلمہ کے بارے میں کچھ زور دیں یا زیادتی کریں۔ ابوطالب کو ابو لہب سے موافقت کی بات سن کر (جب انہوں نے موافقت کی بات سنی کہ وہ میرے موافق بات کر رہا ہے اور دوسرے قبیلہ کو روک دیا ہے) امید بندھی کہ یہ بھی ہماری امداد پر آمادہ ہو جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے چند اشعار کہے جن میں ابولہب کی تعریف کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امداد پر اسے ترغیب دلائی۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 269-270، قصۃابی سلمۃؓ فی جوارہ، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2001)
لیکن بہرحال اس کا اثر کوئی نہیں ہوا اور مخالفت میں بڑھتا چلا گیا۔
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہؓ سے روایت ہے کہ جب میرے خاوند حضرت ابوسلمہؓ نے مدینہ جانے کا قصد کیا تو اپنے اونٹ کو تیار کیا اور مجھے اور بیٹے سلمہ کو جو میری گود میں تھا اس پر سوار کروایا اور پھر چل پڑے۔ آگے جا کر بنو مخزوم کے چند لوگوں نے گھیر لیا اور کہا کہ اُمّ سلمہ ہماری لڑکی ہے ہم اس کو تمہارے ساتھ نہیں جانے دیں گے کہ تم اسے لے کر شہر بہ شہر پھرتے رہو۔ حضرت اُمّ سلمہ کہتی ہیں غرض یہ کہ ان لوگوں نے میرے خاوند کو مجھ سے چھین لیا۔ حضرت ابو سلمہ کے قبیلہ بنو عبدالاسد کے لوگ اس بات پر بہت خفا ہوئے اور انہوں نے کہا کہ یہ لڑکا ابوسلمہ کا ہے اس کو ہم تمہارے پاس نہیں چھوڑیں گے چنانچہ وہ میرے بچے کو لے گئے۔ (لڑکی کو اس کے قبیلے نے رکھ لیا اور جو بچہ تھا وہ مردکے قبیلے والے نے لے لیا۔) اور کہتی ہیں کہ میں بالکل تنہا رہ گئی۔ میں ایک سال تک اسی مصیبت میں گرفتار رہی کہ ہر روز اَبْطَح مقام پر جا کر مَیں روتی رہی۔ ایک روز میرے چچا کے بیٹوں میں سے ایک شخص نے مجھے وہاں روتے دیکھا تو اس کو مجھ پر رحم آیا اور اس نے میری قوم بنو مُغِیرۃ سے جا کر کہا کہ تم اس مسکین عورت کو کیوں ستاتے ہو۔ تم نے اس کو اس کے خاوند اور بچے سے جدا کر دیا ہے اس کو چھوڑ دو۔ اس پر انہوں نے مجھے کہہ دیا کہ اپنے خاوند کے پاس چلی جاؤ۔ حضرت اُمّ سلمہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد میرے بیٹے کو بنی عبدالاسدنے واپس کر دیا۔ پھر میں نے اپنے اونٹ کو تیار کیا اور اپنے بچے کو ساتھ لے کر اس پر سوار ہوئی۔ جب میں مدینہ کو روانہ ہوئی تو کوئی بھی مددگار میرے ساتھ نہ تھا۔ جب مقام تنعیم میں پہنچی تو وہاں پر مجھے حضرت عثمان بن ابو طلحہ، (یہ اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے سَن 6ہجری میں اسلام قبول کیا تھا) ملے اور مجھے کہنے لگے کہ اے اُمّ سلمہ کدھر جا رہی ہیں؟ میں نے کہا کہ میں اپنے خاوند کے پاس مدینہ جا رہی ہوں۔ حضرت عثمان نے دریافت کیا کہ کیا تمہارے ساتھ کوئی ہے؟ میں نے کہا کہ خدا کی قسم! کوئی بھی نہیں۔ صرف میرا یہ بیٹا اور خدا میرے ساتھ ہے۔ عثمان نے کہا کہ اللہ کی قسم! اس طرح تن تنہا میں تمہیں ہرگز نہیں جانے دوں گا۔ میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ پھر انہوں نے میرے اونٹ کی مہار پکڑ لی۔ حضرت اُمّ سلمہ بیان کرتی ہیں کہ اللہ کی قسم! میں نے عرب کے آدمیوں میں سے اتنا معزز شخص کوئی نہیں دیکھا۔ جب منزل پر پہنچتے تو اونٹ کو بٹھا کر الگ ہو جاتے۔ (مختلف جگہوں پہ پڑاؤ ڈالتے ہوئے جاتے تھے۔ جب ایک منزل پر پہنچتے تواونٹ کو بٹھاتے اور الگ ہو جاتے۔) میں جس وقت اونٹ سے اترتی تو وہ اونٹ پر سے اس کا کجاوہ اتار کر اسے درخت سے باندھ دیتے اور علیحدہ درخت کے سائے میں جا کر سو جاتے۔ جب چلنے کا وقت ہوتا تو وہ اونٹ کو تیار کر دیتے اور پھر میں اس پر سوار ہو جاتی اور وہ نکیل پکڑ کر چل پڑتے یہاں تک کہ ہم اسی طرح مدینہ پہنچ گئے۔ حضرت عثمان بن ابوطلحہ نے جب قبا میں بنو عمرو بن عوف کے گاؤں کو دیکھا تو مجھ سے کہا کہ اے اُمّ سلمہ! تمہارے خاوند ابو سلمہ یہیں پر ٹھہرے ہوئے ہیں۔ تم خدا کی برکت کے ساتھ اس جگہ میں داخل ہو جاؤ اور پھر عثمان واپس مکّہ کو چلے گئے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 333، ذکر المہاجرین الی المدینہ، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2001)
ہجرت کے دوسرے سال جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ عُشَیْرَہ کے لئے نکلے تو ابو سلمہ کو مدینہ میں امیر مقرر فرمایا۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، جلد سوم صفحہ 71، عبد اللہ بن عبد الاسد، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2002ء)
غزوہ عُشَیْرَہ کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ’’جمادی الاولیٰ میں پھر قریش مکہ کی طرف سے کوئی خبر پاکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ مدینہ سے نکلے اور اپنے پیچھے اپنے رضاعی بھائی ابو سلمہ بن عبدالاسد کو امیر مقرر فرمایا۔ اس غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کئی چکر کاٹتے ہوئے بالآخر ساحل سمندر کے قریب یَنْبُع کے مقام عُشَیْرَہ تک پہنچے۔ اور گو قریش کا مقابلہ نہیں ہوا مگر اس میں آپ نے قبیلہ بنو مُدْلِجْ کے ساتھ انہی شرائط پر جو بنو ضَمْرَہ کے ساتھ قرار پائی تھیں ایک معاہدہ طے فرمایا اور پھر واپس تشریف لے آئے۔‘‘ (سیرت خاتم النبینﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے صفحہ329)
بنو ضَمْرَہ کے ساتھ یہ شرائط طے پائی تھیں کہ بنو ضَمْرَہ مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں گے اور مسلمانوں کے خلاف کسی دشمن کی مددنہیں کریں گے اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مسلمانوں کی مدد کے لئے بلائیں گے تو وہ فوراً آ جائیں گے۔ دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی طرف سے یہ عہد کیا کہ مسلمان قبیلہ بنو ضَمْرَہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں گے اور بوقت ضرورت ان کی مدد کریں گے۔ یہ معاہدہ باقاعدہ لکھا گیا اور فریقین کے اس پر دستخط ہوئے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد اوّل صفحہ 133 باب ذکر بعثہ رسول اللہﷺ الرسل بکتبہ۔ ۔ ۔ الخ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
پھر سیرۃ خاتم النبیین میں لکھا ہے کہ جنگ اُحد میں جو ہزیمت مسلمانوں کو پہنچی اس نےقبائل عرب کو مسلمانوں کے خلاف سر اٹھانے پر آگے سے بھی زیادہ دلیر کر دیا۔ چنانچہ ابھی جنگ اُحد پر زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا اور صحابہ ابھی اپنے زخموں کے علاج سے بھی پوری طرح فارغ نہیں ہوئے تھے کہ محرم 4ہجری میں اچانک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں یہ اطلاع پہنچی کہ قبیلہ اسد کا رئیس طُلَیْحَہ بن خُوَیلد اور اس کا بھائی سلمہ بن خُوَیلد اپنے علاقہ کے لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کرنے کے لئے آمادہ کر رہے ہیں۔ اس خبر کے ملتے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اپنے ملک کے حالات کے ماتحت اس قسم کی خبروں کے خطرات کو خوب سمجھتے تھے فوراً ڈیڑھ سو صحابیوں کا ایک تیز رَو دستہ تیار کر کے اس پر ابوسلمہ بن عبدالاسد کو امیر مقرر فرمایا اور انہیں تاکید کی کہ یلغار کرتے ہوئے پہنچیں اور پیشتر اس کے کہ بنو اسد اپنی عداوت کو عملی جامہ پہنا سکیں انہیں منتشر کر دیں۔ چنانچہ ابوسلمہ تیزی مگر خاموشی کے ساتھ بڑھتے ہوئے وسط عرب کے مقام قَطَنْ میں بنو اسد تک پہنچ گئے اور انہیں جا لیا۔ لیکن کوئی لڑائی نہیں ہوئی بلکہ بنو اسد کے لوگ مسلمانوں کو دیکھتے ہی اِدھر اُدھر منتشر ہو گئے۔ اور ابو سلمہ چند دن کی غیر حاضری کے بعد مدینہ واپس پہنچ گئے۔ اس سفر کی غیر معمولی مشقت سے ابو سلمہ کا وہ زخم جو انہیں اُحد میں آیا تھا اور اب بظاہر مندمل ہو چکا تھا پھر خراب ہو گیا اور باوجود علاج معالجہ کے بگڑتا ہی گیا اور بالآخر اسی بیماری میں اس مخلص اور پرانے صحابی نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی بھی تھے وفات پائی۔ (سیرت خاتم النبینﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے صفحہ511)
انہیں اَلْیَسِیْرَۃ کنوئیں کے پانی سے غسل دیا گیا جو عَالِیہ مقام پر بنو اُمّیّہ بن زید کی ملکیت میں تھا۔ اس کنوئیں کا نام جاہلیت میں العَبِیْر تھا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدل کر اَلْیَسِیْرَۃ رکھ دیا تھا۔ اور حضرت ابو سلمہ کو مدینہ میں دفن کیا گیا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 128 ابو سلمہ بن عبدالاسد داراحیاء التراث بیروت لبنان 1996ء)
حضرت ابوسلمہ کی جب وفات ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی کھلی آنکھوں کو بند کیا اور ان کی وفات کے بعد یہ دعا کی کہ اے اللہ! ابوسلمہ سے مغفرت کا سلوک فرما اور اس کے درجات ہدایت یافتہ لوگوں میں بلند کر دے اور پیچھے رہ جانے والے اس کے پسماندگان میں خود اس کا قائمقام ہو جا۔ اے تمام جہانوں کے رب! اسے بخش دے اور ہمیں بھی۔ ایک روایت میں یہ ہے کہ جب حضرت ابوسلمہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے یہ دعا کی کہ اے خدا میرے اہل پر میرا جانشین بہترین شخص کو بنانا۔ چنانچہ یہ دعا قبول ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُمّ سلمہ سے نکاح کر لیا۔ (اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ جز ثالث صفحہ296، عبداللہ بن عبدالاسد، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)
حضرت اُمّ سلمہ کے بیٹے بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوسلمہ حضرت اُمّ سلمہ کے ہاں تشریف لائے اور فرمانے لگے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سنی ہے جو مجھے فلاں فلاں چیز سے زیادہ عزیز ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جس شخص کو جو بھی مصیبت پہنچے اس پر وہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہہ کر یہ کہے کہ اے اللہ! مَیں اپنی اس مصیبت کا آپ کے ہاں سے ثواب طلب کرتا ہوں۔ اے اللہ! مجھے اس کا بدل عطا فرما تو اللہ تعالیٰ اسے عطا کر دیتا ہے۔ حضرت اُمّ سلمہ بیان کرتی ہیں کہ جب ابوسلمہ شہید ہوئے تو میں نے یہ دعا مانگی جبکہ میرا دل پسندنہیں کر رہا تھا کہ میں دعا مانگوں کہ اے اللہ! مجھے ان یعنی حضرت ابوسلمہ کا بدل عطا فرما۔ پھر میں نے کہا ابوسلمہ سے بہتر کون ہو سکتا ہے؟ کیا وہ ایسے نہ تھے؟ کیا وہ ویسے نہ تھے؟ یعنی ایسی ایسی خوبیوں اور صفات حسنہ کے مالک تھے۔ پھر بھی میں یہ دعا پڑھتی رہی۔ جب حضرت اُمّ سلمہ کی عدت پوری ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے پیغام نکاح آیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ شادی کرلی۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 4 صفحہ 132 مکتبہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2005ء)
شادی کا تذکرۃ کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیین میں لکھا کہ اسی سال (4ہجری) ماہ شوال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمّ سلمہ سے شادی فرمائی۔ اُمّ سلمہ قریش کے ایک معزز گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اور اس سے پہلے ابوسلمہ بن عبدالاسد کے عقد میں تھیں جو ایک نہایت مخلص اور پرانے صحابی تھے اور اسی سال فوت ہوئے تھے۔ جب اُمّ سلمہ کی عدت (یعنی وہ میعاد جو اسلامی شریعت کی رو سے ایک بیوہ یا مطلقہ عورت پر گزرنی ضروری ہوتی ہے اور اس سے پہلے وہ نکاح نہیں کر سکتی وہ) گزر گئی تو چونکہ اُمّ سلمہ ایک نہایت سمجھدار اور باسلیقہ اور قابل خاتون تھیں اس لئے حضرت ابوبکر کو ان کے ساتھ شادی کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ مگر اُمّ سلمہ نے انکار کیا۔ آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اپنے لئے ان کا خیال آیا جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اُمّ سلمہ کی ذاتی خوبیوں کے علاوہ جن کی وجہ سے وہ ایک شارع نبی کی بیوی بننے کی اہل تھیں وہ ایک بہت بڑے پائے کے قدیم صحابی کی بیوہ تھیں اور پھر صاحب اولاد بھی تھیں جس کی وجہ سے ان کا کوئی خاص انتظام ہونا ضروری تھا۔ علاوہ ازیں چونکہ ابوسلمہ بن عبدالاسد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی بھی تھے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے پسماندگان کا خاص خیال تھا۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمّ سلمہ کو اپنی طرف سے شادی کا پیغام بھیجا۔ پہلے تواُمّ سلمہ نے اپنی بعض معذوریوں کی وجہ سے کچھ تامّل کیا اور یہ عذر بھی پیش کیا کہ میری عمر اب بہت زیادہ ہو گئی ہے اور مَیں اولاد کے قابل نہیں رہی۔ لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غرض اَور تھی اس لئے بالآخر وہ رضا مند ہو گئیں اور ان کی طرف سے ان کے لڑکے نے ماں کا ولی ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی شادی کر دی۔ جیساکہ بیان کیا جا چکا ہے اُمّ سلمہ ایک خاص پائے کی خاتون تھیں اور نہایت فہیم اور ذکی ہونے کے علاوہ اخلاص و ایمان میں بھی ایک اعلیٰ مرتبہ رکھتی تھیں اور ان لوگوں میں سے تھیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ابتداء ً حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ مدینہ کی ہجرت میں بھی وہ سب مستورات سے اوّل نمبر پر تھیں۔ حضرت اُم سلمہؓ پڑھنا بھی جانتی تھیں اور مسلمان مستورات کی تعلیم و تربیت میں انہوں نے خاص حصہ لیا۔ چنانچہ کتب حدیث میں بہت سی روایات اور احادیث ان سے مروی ہیں اور اس جہت سے ان کا درجہ ازواج النبی میں دوسرے نمبر پر اور کُل صحابہ (مردو زن) میں بارہویں نمبر پر ہے۔‘‘ (ماخوذ از سیرت خاتم النبینﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے صفحہ530۔ 531)