حضرت عبداللہؓ بن عبداللہ بن اُبی بن سلول
حضرت عبداللہ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو عوف سے تھا۔ یہ رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی بن سلول کے بیٹے تھے اور نہایت ہی مخلص اور جاں ثار اور فدائی صحابیٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ حضرت عبداللہؓ کی والدہ کا نام خولہ بنت منذر تھا۔ (السیرة النبویة لابن ہشام صفحہ 468 “الانصار و من معھم” دارالکتب العلمیة بیروت لبنان2001ء) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزءثالث صفحہ 408 “عبد اللہ بن عبد اللہ”۔ دارالکتب العلمیة بیروت لبنان1990ء)
حضرت عبداللہ کا نام جاہلیت کے زمانے میں حُباب تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کا نام بدل کر عبداللہ رکھ دیا اور فرمایا حُباب شیطان کا نام ہے۔ سلول عبداللہ بن اُبی رئیس المنافقین کی دادی کا نام تھا جس کا قبیلہ خزاعہ سے تعلق تھا۔ اُبی اپنی ماں کی نسبت سے مشہور تھا۔ اس لیے عبداللہ بن ابی بن سلول کہلاتا تھا۔ عبداللہ بن اُبی بن سلول ابوعامر راہب کی خالہ کا بیٹا تھا۔ ابوعامر ان لوگوں میں سے تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا لوگوں میں ذکر کیا کرتا تھا کہ ایک نبی مبعوث ہونے والا ہے اور اس نبی پر ایمان لانے کا اظہار کرتا تھا اور آپؐ کے ظہور کا لوگوں سے وعدہ کیا کرتا تھا کہ ظہور ہونے والا ہے۔ ابوعامر نے جاہلیت میں ٹاٹ پہن لیا تھا، بڑے موٹے کپڑے پہنتا تھا اور رہبانیت اختیار کر لی تھی۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کر دیا تو پھر بجائے اس کے کہ جو تلقین کیا کرتا تھا اس کے الٹ ہو گیا اور حسد میں مبتلا ہو گیا، حسد کرنے لگا اور اس نے بغاوت کی اور اپنے کفر پر قائم رہا۔ مشرکین کے ساتھ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے نکلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام فاسق رکھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزءثالث صفحہ 408-409 “عبد اللہ بن عبد اللہ”۔ دارالکتب العلمیة بیروت لبنان1990ء)
حضرت عبداللہ کی اولاد میں عبادہ، جلیحہ، خیثمہ اور خولی اور امامہ کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت عبداللہ اسلام لائے اور ان کا اسلام بہت اچھا تھا۔ یہ جلیل القدر صحابہ میں شامل تھے۔ حضرت عبداللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم راہ غزوۂ بدر، احد اور دیگر تمام غزوات میں شامل ہوئے۔ حضرت عبداللہ لکھنا پڑھنا بھی جانتے تھے۔ حضرت عائشہؓ نے حضرت عبداللہ سے احادیث روایت کی ہیں۔ حضرت عبداللہ کو کاتبِ وحی ہونے کا بھی شرف حاصل تھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزءالثالث صفحہ 409 “عبد اللہ بن عبد اللہ”۔ دارالکتب العلمیة بیروت لبنان1990ء) (سیر الصحابہ از سعید انصاری جلد 3 صفحہ 425 دارالاشاعت اردو بازار کراچی 2004ء)
ایک روایت میں آتا ہے کہ غزوۂ احد میں حضرت عبداللہ کا ناک کٹ گیا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سونے کا ناک لگوانے کا ارشاد فرمایا جبکہ ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ غزوہ احد کے موقعےپر حضرت عبداللہ کے دو دانت ٹوٹ گئے تھے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سونے کے دانت لگوانے کا ارشاد فرمایا تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ دانت والی روایت زیادہ مشہور ہے اور درست ہے۔ (اسد الغابة فی معرفة الصحابة جزءثالث صفحہ298″عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی” دارالکتب العلمیة بیروت لبنان2008ء)
اور یہی درست لگتی ہے۔ بعض دفعہ بعض بیان کرنے و الے مبالغہ کر لیتے ہیں یا بعض دفعہ صحیح پیغام آگے نہیں سمجھ سکتے تو ناک کی بات تو نہیں دانتوں کی بات ہی صحیح لگتی ہے کہ دانت ٹوٹ گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سونے کے دانت لگوا لو اور وہی لگوایا کرتے تھے، اس زمانے میں بھی کراؤن (crown) چڑھایا کرتے تھے۔
غزوۂ احد میں ابوسفیان نے مسلمانوں کو چیلنج دیا تھا کہ اگلے سال ہم دوبارہ بدر کے میدان میں ملیں گے۔ اس واقعےکا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے مختلف تواریخ سے لے کے جو نتیجہ نکالا ہے وہ ہے کہ
غزوۂ احد کے بعد میدان سے لوٹتے ہوئے ابوسفیان نے مسلمانوں کو یہ چیلنج دیا تھا کہ آئندہ سال بدر کے مقام پر ہماری تمہاری جنگ ہو گی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیلنج کو قبول کرنے کا اعلان فرمایا تھا۔ اس لیے دوسرے سال یعنی 4ہجری میں جب شوال کے مہینے کاآخر آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ڈیڑھ ہزار صحابہ کی جمعیت کو ساتھ لے کرمدینے سے نکلے اور آپ نے اپنے پیچھے عبداللہ بن عبداللہ بن ابی بن سلول کوامیر مقرر فرمایا۔ حضرت عبداللہ کو مدینےکا امیر مقرر فرمایا جب آپ لشکر لے کر نکلے۔ دوسری طرف ابوسفیان بن حرب بھی دوہزار قریش کے لشکر کے ساتھ مکے سے نکلا مگر باوجود احد کی فتح اور اتنی بڑی جمعیت کے ساتھ ہونے کے اس کا دل خائف تھا اور اسلام کی تباہی کے درپے ہونے کے باوجود وہ چاہتا تھا کہ جب تک بہت زیادہ جمعیت کاانتظام نہ ہوجائے وہ مسلمانوں کے سامنے نہ ہو۔ چنانچہ ابھی وہ مکہ میں ہی تھا کہ اس نے نعیم نامی ایک شخص کوجوایک غیر جانب دار قبیلے سے تعلق رکھتا تھا مدینہ کی طرف روانہ کردیا اور اسے تاکید کی کہ جس طرح بھی ہو مسلمانوں کو ڈرا دھمکا کراور جھوٹ سچ باتیں بنا کر جنگ سے نکلنے سے باز رکھو۔ چنانچہ یہ شخص مدینہ میں آیا اور قریش کی تیاری اور طاقت اور ان کے جوش وخروش کے جھوٹے قصے سنا کر اس نے مدینہ میں ایک بے چینی کی حالت پیدا کردی حتٰی کہ بعض کم زور طبیعت لوگ اس غزوےمیں شامل ہونے سے خائف ہونے لگے لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکلنے کی تحریک فرمائی اور آپؐ نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ہم نے کفار کے چیلنج کوقبول کرکے اس موقع پر نکلنے کا وعدہ کیا ہے اس لیے ہم اس سے تخلّف نہیں کرسکتے، اس کے خلاف نہیں چلیں گے خواہ مجھے اکیلا جانا پڑے، تم لوگ ڈر رہے ہو، اکیلا بھی جانا پڑے تو میں جاؤں گا اور دشمن کے مقابل پراکیلا سینہ سپر ہوں گا۔ لوگوں کاخوف یہ باتیں سن کر جاتا رہا اور وہ بڑے جوش اور اخلاص کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلنے کوتیار ہو گئے۔
بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ڈیڑھ ہزار صحابہ کے ساتھ مدینے سے روانہ ہوئے اور دوسری طرف ابوسفیان اپنے دوہزار سپاہیوں کے ہمراہ مکّے سے نکلا لیکن خدائی تصرف کچھ ایسا ہوا کہ مسلمان توبدر میں اپنے وعدے پرپہنچ گئے مگر قریش کا لشکر تھوڑی دور آگے جا کر پھر مکہ لوٹ گیا اور اس کا قصہ یوں ہوا، کس طرح وہ لوٹا کہ جب ابوسفیان کونعیم کی ناکامی کاعلم ہوا، مسلمانوں کو ڈرانے کے لیے جو آدمی بھیجا تھا جب یہ پتا لگ گیا کہ مسلمان تو نہیں ڈرے، وہ تو باہر آ گئے ہیں تو وہ دل میں خائف ہوا اور اپنے لشکر کو یہ تلقین کرتا ہوا راستے سے لوٹا کرواپس لے گیا کہ اس سال قحط بہت زیادہ ہے اور لوگوں کوتنگی ہے اس لیے اس وقت لڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ جب کشائش ہوگی، حالات ٹھیک ہوں گے تو زیادہ تیاری کے ساتھ مدینے پر حملہ کریں گے۔
بہرحال اسلامی لشکر آٹھ دن تک بدر میں ٹھہرا اور چونکہ وہاں اس جگہ، اس میدان میں ماہ ذوقعدہ کے شروع میں ہرسال میلے لگا کرتا تھا تو ان دنوں میں بہت سے صحابیوں نے اس میلہ میں تجارت کرکے نفع کمایا۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں تک کہ انہوں نے اس آٹھ روزہ تجارت میں اپنے راس المال کودوگنا کرلیا۔ جو ان کا اپنا سرمایا تھا اس تجارت کی وجہ سے وہ دوگنا ہو گیاجب میلے کا اختتام ہوگیا اور لشکر قریش نہ آیا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بدر سے کوچ کرکے مدینے واپس تشریف لے آئے اور قریش نے مکے میں واپس پہنچ کر دوبارہ مدینے پر حملے کی تیاریاں شروع کردیں۔ یہ جو غزوہ ہے یہ غزوہ بدرالموعد کہلاتا ہے جس کے لیے یہ لشکر نکلا تھا۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ 529-530)
حضرت عبداللہ 12؍ہجری میں حضرت ابوبکرؓ کی خلافت میں جنگ یمامہ میں شہید ہوئےتھے۔ (الاستیعاب فی معرفة الاصحاب جزء 3 صفحہ72 “عبد اللہ بن عبد اللہ انصاری” دارالکتب العلمیة بیروت2010ء)
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ کے والد عبداللہ بن اُبی بن سلول کے بارے میں ایک روایت ہے۔ یہ روایتیں بھی مَیں بعض اس لیے بیان کر دیتا ہوں تا کہ تاریخ کا بھی پتا لگتا رہے جو براہ ِراست تعلق نہ بھی ہو۔
حضرت اسامہ بن زیدؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر فدک کی بنی ہوئی چادر ڈالی ہوئی تھی اور آپؐ نے حضرت اسامہ بن زیدؓ کو اپنے پیچھے بٹھا لیا۔ آپؐ حضرت سعد بن عبادہؓ کی عیادت کو جا رہے تھے جو بنو حارث بن خزرج کے محلے میں رہتے تھے۔ یہ واقعہ غزوۂ بدر سے پہلے کا ہے۔ حضرت اسامہؓ کہتے تھے کہ چلتے چلتے آپؐ ایک ایسی مجلس کے پاس سے گزرے جس میں عبداللہ بن اُبی بن سلول تھا اور یہ اس وقت کا واقعہ ہے کہ عبداللہ بن اُبی ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا، جو منافقانہ اسلام لایا تھا وہ بھی ابھی نہیں تھا۔ اس مجلس میں کچھ مشرک بھی بیٹھے تھے اور کچھ یہودی بھی تھے، کچھ مسلمان بیٹھے ہوئے تھے۔ سب ملے جلے لوگ تھے۔ مجلس میں حضرت عبداللہ بن رواحہؓ بھی تھے۔ جب اس جانور کی گرد مجلس پر پڑی تو عبداللہ بن اُبی نے اپنی چادر سے اپنی ناک ڈھانکی اور کہنے لگا غالباً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے یہ کہا کہ ہم پر گردنہ اڑاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام کہنے کے بعد ٹھہرے اور جانور سے اترے۔ آپؐ نے انہیں اللہ کی طرف بلایا اور انہیں قرآن پڑھ کر سنایا۔ عبداللہ بن اُبی بن سلول نے کہا اے شخص! جو بات تم کہتے ہو اس سے اچھی کوئی اَور بات نہیں۔ ٹھیک ہے تم کہتے ہو یا یہ مطلب تھا کہ تمہارے نزدیک اس سے اچھی کوئی اَور بات نہیں یا کوئی اَور اچھی بات نہیں تم کہہ سکتے؟ کئی مطلب اس کے ہو سکتے ہیں۔ بہرحال ترجمہ کرنے میں کس طرح کیا گیا ہے یہ تو اصل حوالے سے پتا لگ سکتا ہے۔ بہرحال اس نے یہ کہا اگر یہ سچ ہے کہ تمہاری اس بات سے کوئی اچھی بات نہیں تو ہماری مجلس میں آ کر اس سے تکلیف نہ دیا کرو، اپنے ٹھکانے پر ہی واپس جاؤ اور پھر جو تمہارے پاس آئے اس سے بیان کیا کرو۔ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے یہ سن کر کہا کہ نہیں یا رسول اللہ ! ہماری ان مجلسوں ہی میں آپؐ آ کر ہمیں پڑھ کر سنایا کریں۔ ہمیں تو یہ بات پسند ہے۔ اس پر مسلمان اور مشرک اور یہودی ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے۔ قریب تھا کہ وہ ایک دوسرے پر حملہ کرتے مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےان کا جوش دبایا، دباتے رہے اور سمجھاتے رہے۔ آخر وہ رک گئے۔ پھر اس کے بعدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جانور پر سوار ہو کر چلے گئے یہاں تک کہ حضرت سعد بن عبادہؓ کے پاس آئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ اے سعد! کیا تم نے نہیں سنا جو ابو حُباب نے آج مجھے کہا ہے؟ آپؐ کی مراد عبداللہ بن اُبی سے تھی۔ آپؐ نے فرمایا اس نے مجھے یوں یوں کہا ہے، ساری بات بتائی۔ حضرت سعد بن عبادہؓ نے کہا یا رسول اللہ !آپؐ اس کو معاف کر دیں اور اس سے درگزر کیجیے۔ اس ذات کی قسم ہے جس نے آپؐ پر کتاب نازل فرمائی ہے اللہ تعالیٰ اب وہ حق یہاں لے آیا ہے جس کو اس نے آپؐ پر نازل کیا ہے۔ اس بستی والوں نے تو یہ فیصلہ کیا تھا کہ اس یعنی عبداللہ بن اُبی کو سرداری کا تاج پہنا کر عمامہ اس کے سر پر باندھیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس حق کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو عطا کیا ہے یہ منظور نہ کیا تو وہ حسد کی آگ میں جل گیا۔ اس لیے اس نے وہ کچھ کہا جو آپؐ نے دیکھا۔ یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے درگزر کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ مشرکوں اور اہل کتاب سے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا درگزر کیا کرتے تھے اور ان کی ایذادہی پر، تکلیفوں پر صبر کیا کرتے تھے۔ اللہ عزّ وجلّ نے فرمایا ہے کہ
وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِینَ أُوْتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ أَشْرَکُوْا أَذًى کَثِیرًا۔ (آل عمران 187) اور تم ضرور ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور ان سے جنہوں نے شرک کیا بہت تکلیف دہ باتیں سنو گے اور اللہ تعالیٰ نے پھر فرمایا کہ
وَدَّ کَثِیْرٌ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِنْ بَعْدِ إِیمَانِکُمْ کُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ أَنْفُسِہِمْ۔ (البقرة 110) اہلِ کتاب میں سے بہت سے ایسے ہیں جو چاہتے ہیں کہ کاش تمہیں تمہارے ایمان لانے کے بعد ایک دفعہ پھر کفاّر بنا دیں بوجہ اُس حسد کے جو ان کے اپنے دلوں سے پیدا ہوتا ہے۔ پس تم اس وقت تک کہ اللہ اپنے حکم کو نازل فرمائے انہیں معاف کرو اور ان سے درگزرکرو اور اللہ یقینا ًہر ایک امر پر پورا پورا قادر ہے۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عفو کو ہی مناسب سمجھتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو حکم دیا تھا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ان کو اجازت دے دی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے مقام پر اُن کا مقابلہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس لڑائی میں کفار قریش کے بڑے بڑے سرگرم مار ڈالے تو عبداللہ بن اُبی بن سلول اور جو اس کے ساتھ مشرک اور بت پرست تھے کہنے لگے اب تو یہ سلسلہ شان دار ہو گیا ہے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر قائم رہنے کی بیعت کر لی اور مسلمان ہو گئے۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر باب و لتسمعن من الذین ……حدیث نمبر 4566)
اسلام بھی ان کا اسی طرح تھا کہ جب دیکھا کہ جنگِ بدر میں کامیاب ہو گئے ہیں تو خوف پیدا ہوا اور اسلام لے آئے۔
تو بہرحال یہ روایتیں جیسا کہ میں نے کہا ان کا براہ ِراست تعلق نہیں بھی ہے تو بیان کرتا ہوں تا کہ اس حوالے سے تاریخ کا بھی پتا لگتا چلا جائے۔ پھر اس عبداللہ بن اُبی بن سلول کے کردار کی تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بیان کی ہے۔
غزوہ احد کے موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو جمع کر کے ان سے قریش کے اس حملے کے متعلق مشورہ مانگا کہ آیا مدینے میں ہی ٹھہرا جاوے یاباہر نکل کر مقابلہ کیا جاوے۔ اس مشورے پر عبداللہ بن اُبی بن سلول بھی شریک تھا جودراصل تو منافق تھا مگر بدر کے بعد بظاہر مسلمان ہوچکا تھا اور یہ پہلا موقع تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مشورے میں شرکت کی دعوت دی۔ مشورے سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے حملے اور ان کے خونی ارادوں کاذکر فرمایا اور فرمایا کہ آج رات کو مَیں نے خواب میں ایک گائے دیکھی ہے نیز میں نے دیکھا کہ میری تلوار کاسر ٹوٹ گیا ہے اور پھر میں نے دیکھا کہ وہ گائے ذبح کی جارہی ہے اور میں نے دیکھا کہ میں نے اپنا ہاتھ ایک مضبوط زرہ کے اندر ڈالا ہے۔ اور ایک روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ میں نے دیکھا ہے کہ ایک مینڈھا ہے جس کی پیٹھ پر میں سوارہوں۔ صحابہ نے دریافت کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپؐ نے اس خواب کی کیا تعبیر فرمائی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گائے کے ذبح ہونے سے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرے صحابہ میں سے بعض کاشہید ہونا مراد ہے اور میری تلوار کے کنارے کے ٹوٹنے سے میرے عزیزوں میں سے کسی کی شہادت کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے یا شاید خود مجھے اس مہم میں کوئی تکلیف پہنچے اور زرہ کے اندر ہاتھ ڈالنے سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس حملے کے مقابلے کے لیے ہمارا مدینے کے اندر ٹھہرنا زیادہ مناسب ہے اور مینڈھے پرسوار ہونے والے خواب کی آپ نے یہ تاویل فرمائی کہ اس سے کفار کے لشکر کاسردار یعنی علَم بردار مراد ہے، جھنڈا اٹھانے والا جو ان شا ءاللہ مسلمانوں کے ہاتھ سے مارا جائے گا۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ طلب فرمایا کہ موجودہ صورت میں کیا کرنا چاہیے۔ بعض بڑے صحابہؓ نے حالات کے اونچ نیچ کی وجہ سے اور سوچ کراورشاید کسی قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب سے متاثر ہوکریہ رائے دی کہ مدینے میں ہی ٹھہر کر مقابلہ کرنا مناسب ہے۔ یہی رائے عبداللہ بن اُبی بن سلول جو رئیس المنافقین تھا اس نے بھی دی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی رائے کوپسند فرمایا اور کہا کہ بہتر یہی معلوم ہوتاہے کہ ہم مدینے کے اندر رہ کر مقابلہ کریں لیکن اکثر صحابہ نے اور خصوصاً ان نوجوانوں نے جو بدر کی جنگ میں شامل نہیں ہوئے تھے اور اپنی شہادت سے خدمتِ دین کا موقع حاصل کرنا چاہتے تھے اور بڑے بے تاب ہورہے تھے اس کے لیے بڑے اصرار کے ساتھ عرض کیا کہ شہر سے باہر نکل کرکھلے میدان میں مقابلہ کرنا چاہیے۔ ان لوگوں نے اس قدر اصرار کیا اور اپنی رائے کوپیش کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جوش کو دیکھ کران کی بات مان لی اور فیصلہ فرمایا کہ ہم کھلے میدان میں نکل کر کفار کامقابلہ کریں گے اور پھر جمعہ کی نماز کے بعد آپؐ نے مسلمانوں میں عام تحریک فرمائی کہ وہ جہاد فی سبیل اللہ کی غرض سے اس غزوے میں شامل ہوکر ثواب حاصل کریں۔ اس کے بعد آپؐ اندرون خانہ تشریف لے گئے، گھر چلے گئے جہاں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی مدد سے آپؐ نے عمامہ باندھا اور جنگی لباس پہنا اور پھر ہتھیار لگا کر اللہ تعالیٰ کانام لیتے ہوئے باہر تشریف لے آئے لیکن اتنے عرصے میں حضرت سعدبن معاذؓ رئیس قبیلۂ اوس اور دوسرے اکابر صحابہ کے سمجھانے سے نوجوان لوگوں کواپنی غلطی محسوس ہونے لگی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے کے مقابلے میں اپنی رائے پراصرار نہیں کرنا چاہیے اور اکثر ان میں سے پشیمانی کی طرف مائل تھے۔
جب ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوہتھیار لگائے اور دہری زرہ اور خود وغیرہ پہنے ہوئے دیکھا کہ آپ تشریف لائے ہیں توان کو اور بھی زیادہ ندامت ہوگئی اور زیادہ پریشان ہو گئے۔ اور انہوں نے قریباً ایک زبان ہو کر عرض کیا کہ یارسول اللہ ہم سے غلطی ہو گئی کہ ہم نے آپؐ کی رائے کے مقابلے میں اپنی رائے پر اصرار کیا۔ آپؐ جس طرح مناسب خیال فرماتے ہیں اسی طرح کارروائی فرمائیں۔ ان شا ءاللہ اسی میں برکت ہوگی۔ آپؐ نے بڑے جوش سے فرمایا کہ خدا کے نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ ہتھیار لگا کر پھر اسے اتار دے قبل اس کے کہ خدا کوئی فیصلہ کرے۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا۔ یہ خدا کے نبی کی شان نہیں ہے کہ ہتھیار لگائے اور پھر انہیں اتار دے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہو۔ پس اب اللہ کا نام لے کر چلو اور اگرتم نے صبر سے کام لیا تو یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہارے ساتھ ہوگی۔
اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکرِ اسلامی کے لیے تین جھنڈے تیار کروائے۔ قبیلہ اوس کا جھنڈا اُسَیدبن حضیر کے سپرد کیا گیا اور قبیلہ خزرج کاجھنڈا حباب بن منذر کے ہاتھ میں دیا گیا اور مہاجرین کاجھنڈا حضرت علیؓ کودیا گیا اور پھر مدینے میں عبداللہ بن امِ مکتوم کو امام الصلوٰة مقرر کرکے آپؐ صحابہ کی بڑی جماعت کے ہم راہ نمازِ عصر کے بعد مدینے سے نکلے۔ قبیلہ اوس اور خزرج کے رؤساء سعد بن معاذؓ اور سعد بن عبادہؓ آپؐ کی سواری کے سامنے آہستہ آہستہ دوڑتے جاتے تھے اور باقی صحابہؓ آپؐ کے دائیں اور بائیں اور پیچھے چل رہے تھے۔ احدکا پہاڑ مدینے کے شمال کی طرف قریباً تین میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کے نصف میں پہنچ کر، آدھا سفر طَے کر کے اس مقام پر جسے شیخین کہتے ہیں، یہ مدینے کے قریب ایک مقام کا نام ہے وہاں آپؐ نے قیام فرمایا اور لشکرِ اسلام کاجائزہ لیے جانے کا حکم دیا۔ کم عمر بچے جو جہاد کے شوق میں ساتھ آگئے تھے وہ واپس کیے گئے چنانچہ عبداللہ بن عمر، اسامہ بن زید، ابوسعید خدری وغیرہ سب واپس کیے گئے۔ رافع بن خدیج انہیں بچوں کے ہم عمر تھے مگرتیراندازی میں اچھی مہارت رکھتے تھے۔ ان کی اس خوبی کی وجہ سے ان کے والدنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ان کی سفارش کی کہ ان کو شریکِ جہاد ہونے کی اجازت دی جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رافع کی طرف نظر اٹھاکردیکھا تو وہ سپاہیوں کی طرح خوب تن کرکھڑے ہوگئے تاکہ چست اور لمبے نظر آئیں چنانچہ ان کا یہ داؤ چل گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی ساتھ چلنے کی اجازت دے دی۔ اس پر ایک اور بچہ سمرہ بن جندب جسے واپسی کا حکم مل چکا تھا اپنے باپ کے پاس گیا اور کہا کہ اگر رافع کولیا گیا ہے تو مجھے بھی اجازت ملنی چاہیے کیونکہ میں رافع سے مضبوط ہوں اور کُشتی میں اسے گرا لیتا ہوں۔ باپ کو بیٹے کے اس اخلاص پر بڑی خوشی ہوئی۔ اسے ساتھ لے کر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے بیٹے کی خواہش بیان کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا اچھا یہ بات ہے تو پھر رافع اور سمرہ کی کُشتی کروا دیتے ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ کون زیادہ مضبوط ہے۔ چنانچہ مقابلہ ہوا اور واقعہ میں سمرہ نے تھوڑی دیر میں ہی رافع کواٹھا کردے مارا، پچھاڑ دیا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سمرہ کو بھی ساتھ چلنے کی اجازت مرحمت فرمائی اور اس معصوم بچے کا دل خوش ہو گیا۔ اب چونکہ شام ہوچکی تھی اس لیے بلالؓ نے اذان کہی اور صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کی۔ پھررات کے واسطے مسلمانوں نے یہیں ڈیرے ڈال دیے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے پہرے کے لیے محمد بن مسلمہ کومنتظم مقررفرمایا جنہوں نے پچاس صحابہ کی جماعت کے ساتھ رات بھر لشکرِ اسلامی کے اردگرد چکر لگاتے ہوئے پہرہ دیا۔
دوسرے دن یعنی 15؍ شوال 3ہجری جو 31؍مارچ 624عیسوی بنتی ہے ہفتے کے دن سحری کے وقت یہ اسلامی لشکر آگے بڑھا اور راستے میں نماز اداکرتے ہوئے صبح ہوتے ہی احد کے دامن میں پہنچ گیا۔ اس موقعےپر عبداللہ بن اُبی بن سلول رئیس المنافقین نے غدّاری کی اور اپنے تین سو ساتھیوں کے ساتھ مسلمانوں کے لشکر سے ہٹ کریہ کہتا ہوا مدینے کی طرف واپس لَوٹ گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بات نہیں مانی اور ناتجربہ کار نوجوانوں کے کہنے میں آکر باہرنکل آئے ہیں اس لیے میں ان کے ساتھ ہوکر نہیں لڑ سکتا۔ بعض لوگوں نے بطور خود اُسے سمجھایا کہ یہ غدّاری ٹھیک نہیں ہے مگر اس نے ایک نہیں سنی اور یہی کہتا گیا کہ یہ کوئی لڑائی ہوتی ہے۔ اگر لڑائی ہوتی تومیں شامل ہوتامگر یہ لڑائی نہیں ہے بلکہ خودکو ہلاکت کے منہ میں ڈالنا ہے۔ اب مسلمانوں کی طاقت صرف سات سو لوگوں پر مشتمل تھی جو کفار کے تین ہزار سپاہیوں کے مقابلے میں چوتھائی حصے سے بھی کم تھی۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 484تا487) (معجم البلدان جلد 3 صفحہ 168زیر لفظ ’’شیخان‘‘)
حضرت عبداللہؓ کے باپ عبداللہ بن اُبی بن سلول کا ذکر جہاں مَیں نے ختم کیا تھا وہ جنگِ احد کے حوالے سے ہوا تھا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں کی بات مان کر مدینے سے باہر جا کر دشمن کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا تو عبداللہ بن ابی پہلے تو اپنے ساتھیوں سمیت ساتھ چل پڑا لیکن احد کے دامن میں پہنچ کر اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر غدّاری دکھاتے ہوئے مدینے کی طرف یہ کہتے ہوئے واپس لوٹ گیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بات نہیں مانی اور مدینے میں رہ کر دشمن کا دفاع نہیں کیا جو ہم چاہتے تھے اور یہ بھی کہا کہ یہ بھی کوئی لڑائی ہے۔ یہ تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والی بات ہے اور وہ کہنے لگا کہ مَیں اس ہلاکت میں اپنے آپ کو نہیں ڈالتا۔ بہرحال اس کے دل میں شروع سے ہی نفاق تھا، منافقت تھی اور منافق بزدل ہوتا ہے اور یہ بزدلی یہاں آ کے ظاہر بھی ہو گئی۔ بہرحال اس کے اپنے ساتھیوں سمیت جانے کے بعد مسلمانوں کی تعداد صرف سات سو رہ گئی تھی۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 487)
اس کے باوجود جب جنگ ہوئی ہے تو اس میں مسلمانوں کا پلڑا بھاری تھا۔ تقریباً فتح ہو گئی تھی لیکن آخر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر پوری طرح عمل نہ کرنے کی وجہ سے اور درّہ چھوڑنے کی وجہ سے مسلمانوں کو بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اس صورتِ حال کے بعد عبداللہ بن ابی بن سلول کا جو رویہ تھا کس طرح کا تھا اور کس کس طرح اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے بارے میں تکلیف دہ اور استہزا کی باتیں کرنی شروع کر دیں۔ اس کی کچھ تفصیل اب مَیں بیان کروں گا۔ اس میں حضرت عبداللہؓ کی اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت بھی ظاہر ہوتی ہے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان کے لیے اپنے باپ کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانے میں کوئی امر مانع نہ تھا اگر وہ اسلام کی عزت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر حملے کرتا۔
اس بارے میں سیرت خاتم النبیینؐ میں شروع کا جو ذکر ہے کہ کس طرح ان لوگوں نے تمسخر اڑانا شروع کیا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ غزوۂ احد کے بعد مدینے کے یہود اور منافقین جو جنگِ بدر کے نتیجے میں کچھ مرعوب ہو گئے تھے اب کچھ دلیر ہو گئے بلکہ عبداللہ بن اُبی اور اس کے ساتھیوں نے تو کھلم کھلا تمسخر اڑانا اور طعنے دینا شروع کر دیے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ506) لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں سے صرفِ نظر ہی فرماتے رہے اور بجائے اس کے کہ اس نرمی کے سلوک سے ان کو کچھ شرمندگی ہوتی یہ لوگ ڈھٹائی میں اور دریدہ دہنی میں بڑھتے چلے گئے۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی کی دریدہ دہنی اور اس کے بیٹے حضرت عبداللہؓ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور فدائیت کا اظہار اس ایک واقعے سے ہو جاتا ہے کہ 5؍ہجری میں غزوۂ بنو مصطلق سے واپسی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چند دن مریسیع میں قیام فرمایا۔ یہ بنو مصطلق کے پانی کے ایک چشمے کا نام ہے۔ مگر اس قیام کے دوران منافقین کی طرف سے ایک ایسا ناگوار واقعہ پیش آیا جس سے قریب تھا کہ کم زور مسلمانوں میں خانہ جنگی تک نوبت پہنچ جاتی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موقع شناسی اور آپؐ کے مقناطیسی اثر نے اس فتنے کے خطرناک نتائج سے مسلمانوں کو بچا لیا۔ واقعہ یوں ہوا کہ حضرت عمرؓ کا ایک نوکر جَہْجَاہْ نامی تھا وہ مریسیع کے مقامی چشمے پر پانی لینے کے لیے گیا۔ اتفاقاً اس وقت ایک دوسرا شخص سنان نامی بھی پانی لینے کے لیے وہاں پہنچا جو انصار کے حلیفوں میں سے تھا۔ یہ دونوں شخص جاہل تھے اور بالکل عامی لوگوں میں سے تھے۔ چشمے پر یہ دونوں شخص آپس میں جھگڑپڑے اور جَہْجَاہْ نے سنان کو ایک ضرب لگائی، اس کو مارا۔ بس پھر سنان نے زور زور سے شور مچانا شروع کر دیا، چلّانا شروع کردیا کہ اے انصار کے گروہ! میری مدد کوپہنچو کہ مَیں پِٹ گیا اور مجھ پر حملہ ہو گیا۔ جب جَہْجَاہْ نے دیکھا کہ سنان نے اپنی قوم کوبلایا ہے تو وہ بھی جاہل آدمی تھا، اس نے بھی اپنی قوم کے لوگوں کو پکارنا شروع کردیا کہ اے مہاجرین! بھاگو دوڑو۔ انصاراور مہاجرین کے کانوں میں یہ آوازیں پہنچیں تو وہ اپنی تلواریں لے کر بے تحاشا اس چشمے کی طرف لپکے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ایک اچھا خاصامجمع جمع ہوگیا اور قریب تھا کہ بعض جاہل نوجوان ایک دوسرے پر حملہ آور ہوجاتے لیکن اتنے میں بعض سمجھ دار اور مخلص مہاجرین وانصار بھی موقعےپر پہنچ گئے اور انہوں نے فوراً لوگوں کو علیحدہ علیحدہ کرکے صلح صفائی کروادی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ خبر پہنچی توآپؐ نے فرمایا کہ یہ ایک جاہلیت کامظاہرہ ہے اور اس پر ناراضگی کااظہار فرمایا اور بہرحال اس طرح معاملہ بہرحال رفع دفع ہوگیا لیکن جب منافقین کے سردار عبداللہ بن اُبی بن سلول کوجو اس غزوے میں شامل تھا جو بنو مصطلق میں تھا، جس میں آپ گئے تھے اس میں شامل تھا اس واقعے کی اطلاع پہنچی تواس بدبخت نے اس فتنےکوپھر جگانا چاہا اور اپنے ساتھیوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف بہت کچھ اکسایا اور یہ کہا کہ یہ سب تمہارا قصور ہے کہ تم نے ان بے خانماں، بے سہارا مسلمانوں کوپناہ دے کر ان کو سر پر چڑھا لیا ہے۔ اب بھی تمہیں چاہیے کہ ان کی مدد سے ان کی اعانت سے دست بردار ہو جاؤ۔ پھر یہ خود بخود مدینےکو چھوڑ چھاڑ کر چلے جائیں گے اور بالآخر اس بدبخت نے یہاں تک کہہ دیا کہ لَئِنْ رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِینَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْہَا الْأَذَلَّ (المنافقون: 9) کہ قرآن شریف میں، سورة المنافقون میں ہے کہ یعنی دیکھو تو اب مدینے میں جاکر عزت والا شخص یا گروہ جو ہے وہ ذلیل شخص یا گروہ کواپنے شہر سے باہرنکال دیتاہے کہ نہیں؟ اس وقت ایک مخلص مسلمان بچہ زید بن ارقم بھی وہاں بیٹھاہوا تھا اس نے عبداللہ کے منہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ الفاظ سنے تو بے تاب ہو گیا اور فوراً اپنے چچا کے ذریعےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعےکی اطلاع دی۔ اب یہ دیکھیں کہ بچے بھی کس حد تک اخلاص اور وفا رکھتے تھے اور بڑے ہوشیار رہتے تھے اور سمجھتے تھے کہ کیا بات غلط ہے اور کیا صحیح۔ بہرحال اس نے اپنے چچا کو اطلاع دی۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت عمرؓ بھی بیٹھے تھے۔ وہ یہ الفاظ سن کر غصے اور غیرت سے بھرگئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرنے لگے کہ یارسول اللہ!مجھے اجازت دیں کہ مَیں اس منافق فتنہ پرداز کی گردن اڑا دوں۔ آپؐ نے فرمایاعمر! جانے دو۔ کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہوکہ لوگوں میں یہ چرچا ہو کہ محمداپنے ساتھیوں کوقتل کرواتا پھرتا ہے۔ پھر آپؐ نے عبداللہ بن اُبی اور اس کے ساتھیوں کو بلوایااوران سے دریافت فرمایا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ یہ بات مَیں نے سنی ہے۔ وہ سب قسمیں کھاگئے کہ ہم نے تو کوئی ایسی بات نہیں کی۔ بعض انصار نے بھی بطریق سفارش، سفارش کے طور پر یہ عرض کیا کہ زیدبن ارقم کوغلطی لگی ہوگی یہ اس طرح بات نہیں کر سکتا۔ آپؐ نے اس وقت عبداللہ بن اُبی اور اس کے ساتھیوں کے بیان کو قبول فرمالیا اور زید کی بات ردّ کر دی جس سے زیدؓ کو سخت تکلیف پہنچی اور صدمہ ہوا مگر بعد میں قرآنی وحی نے جو آیت مَیں نے پڑھی ہے زیدؓ کی بات کی تصدیق فرمائی اور منافقین کوجھوٹا قرار دیا۔
اِدھر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن اُبی وغیرہ کو بلاکراس بات کی تصدیق شروع فرما دی اور اُدھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ سے ارشاد فرمایا کہ اسی وقت لوگوں کو کُوچ کاحکم دو۔ یہ وقت دوپہر کا تھاجبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عموماً دوپہر کو کُوچ نہیں فرمایا کرتے تھے، سفر نہیں شروع کیا کرتے تھے کیونکہ عرب کے موسم کے لحاظ سے یہ وقت سخت گرمی کا وقت ہوتا ہے اور اس میں سفر کرنا بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کے حالات کے مطابق یہی مناسب خیال فرمایا کہ ابھی یہاں سے روانہ ہو جایا جائے۔ چنانچہ آپؐ کے حکم کے ماتحت فوراً اسلامی لشکر واپسی کے لیے تیار ہو گیا۔ غالباً اسی موقعے پر اُسیدبن حضیر انصاریؓ جوقبیلہ اوس کے نہایت نامور رئیس تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسولؐ اللہ! آپؐ تو عموماً ایسے وقت میں سفر نہیں فرمایا کرتے آج کیا معاملہ ہے کہ اس وقت دوپہر کو سفر شروع کرنے لگے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اُسید! کیا تم نے نہیں سنا کہ عبداللہ بن ابی نے کیا الفاظ کہے ہیں؟ وہ کہتا ہے کہ ہم مدینہ چل لیں وہاں پہنچ کر عزت والا شخص ذلیل شخص کو باہر نکال دے گا۔ اُسیدنے بے ساختہ عرض کیا کہ ہاں یارسولؐ اللہ! ٹھیک ہے۔ یہ بات تو ہے لیکن آپؐ چاہیں توبے شک عبداللہ کو مدینے سے باہر نکال سکتے ہیں کیونکہ واللہ ! عزت والے آپؐ ہیں وہ نہیں اور وہی ذلیل ہے۔ پھر اُسید بن حضیر نے عرض کیا کہ یارسولؐ اللہ! آپؐ جانتے ہیں کہ آپؐ کے تشریف لانے سے پہلے عبداللہ بن ابی اپنی قوم میں بہت معزز تھا اور اس کی قوم اس کو اپنا بادشاہ بنانے کی تجویز میں تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے سے اس کی کوششیں جو خاک میں مل گئیں۔ پس اس وجہ سے اس کے دل میں آپ کے متعلق حسد بیٹھ گیا ہے۔ اس لیے آپؐ اس کی اس بکواس کی کچھ پروا نہ کریں اور اس سے درگزر فرمائیں۔ تھوڑی دیر میں عبداللہ بن ابی کالڑکا جس کا نام حباب تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بدل کر عبداللہ کردیا تھا یعنی یہی حضرت عبداللہؓ جن کا ذکر ہو رہا ہے۔ وہ ایک نہایت مخلص صحابی تھے، گھبرائے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے۔ یارسولؐ اللہ! مَیں نے سنا ہے کہ آپؐ میرے باپ کی گستاخی اور فتنہ انگیزی کی وجہ سے اس کے قتل کا حکم دینا چاہتے ہیں۔ اگر آپؐ کا یہی فیصلہ ہے توآپؐ مجھے حکم فرمائیں مَیں ابھی اپنے باپ کا سر کاٹ کر آپؐ کے قدموں میں لا ڈالتا ہوں مگر آپؐ کسی اَور کوایسا ارشادنہ فرمائیں کیونکہ مَیں ڈرتا ہوں کہ جاہلیت کی کوئی رگ کسی وقت میرے بدن میں جوش مارے اور مَیں اپنے باپ کے قاتل کو کوئی نقصان پہنچا بیٹھوں اور خدا کی رضا چاہتا ہوابھی جہنم میں جا گروں۔ چاہتا تو مَیں یہ ہوں کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کروں لیکن ایک مسلمان کو قتل کر کے مَیں جہنم میں چلا جاؤں۔ آپؐ نے انہیں تسلی دی اور فرمایا کہ ہمارا ہرگز یہ ارادہ نہیں ہے بلکہ ہم بہرحال تمہارے والد کے ساتھ نرمی اور احسان کا معاملہ کریں گے۔
مگر عبداللہ بن عبداللہ بن ابی کواپنے باپ کے خلاف اتنا جوش تھا کہ جب لشکرِ اسلامی مدینے کی طرف لوٹا توعبداللہ اپنے باپ کا راستہ روک کر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے کہ خدا کی قسم! مَیں تمہیں واپس نہیں جانے دوں گا جب تک تم اپنے منہ سے یہ اقرار نہ کرو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معزز ہیں اور تم ذلیل ہو اور عبداللہ نے اس اصرار سے اپنے باپ پر زور ڈالا کہ آخر اس نے مجبور ہوکر یہ الفاظ کہہ دیے جس پر عبداللہ نے اس کا راستہ چھوڑ دیا۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ557، 559تا561)
ابن سعدنے ان الفاظ میں یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو کُوچ کا حکم دیا تو عبداللہ بن ابی کے بیٹے حضرت عبداللہؓ نے اپنے والد کا راستہ روک لیا اور اونٹ سے نیچے اتر آئے اور اپنے والد سے کہنے لگے کہ جب تک تم یہ اقرار نہیں کرتے کہ تُو ذلیل ترین اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) عزیز ترین ہیں تب تک مَیں تجھے نہیں چھوڑوں گا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پاس سے گزرے تو آپؐ نے فرمایا اسے چھوڑ دو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دیکھ لیا۔ فرمایا اسے چھوڑ دو۔ آپؐ نے فرمایا کہ میری عمر کی قسم ! ہم اس سے ضرور اچھا برتاؤ کریں گے جب تک یہ ہمارے درمیان زندہ ہے۔ (الطبقات الکبریٰ جزء 2 صفحہ 50 غزوۃ رسول اللّٰہ المریسیع، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء) یہ طبقات الکبریٰ میں درج ہے اور اس کے علاوہ یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ حضرت عبداللہ کے والد عبداللہ بن ابی نے یہ کہا کہ لَیُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْہَا الْأَذَلَّ۔ یعنی عزت والا شخص یا گروہ ذلیل شخص یا گروہ کو اپنے شہر سے باہر نکال دے گا تو حضرت عبداللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! وہی ذلیل ہے اور آپ ہی عزیز ہیں۔ خود بیٹے نے اپنے باپ کے بارے میں کہا۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء ثالث صفحہ941 “عبد اللہ بن عبد اللہ انصاری” دار الجیل بیروت)
پھر ایک ناپاک تہمت جو منافقین کی طرف سے لگائی گئی، واقعۂ افک سے اس کا تعلق ہے جس کا بانی مبانی عبداللہ بن اُبی بن سلول تھا۔ غزوۂ بنو مصطلق سے واپسی پر افک کا واقعہ پیش آیا جس میں حضرت عائشہؓ کی ذات پر گندے الزامات لگائے گئے تھے اور اس تہمت کا بانی عبداللہ بن ابی بن سلول تھا۔ واقعہ ٔافک کے متعلق گذشتہ سال کے آخر میں ایک خطبے میں تفصیل بیان کر چکا ہوں (خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍دسمبر 2018ء، الفضل انٹرنیشنل 4؍جنوری 2019) لیکن اس حوالے سے بھی یہاں کچھ بیان کر دیتا ہوں۔ حضرت عائشہؓ کی روایت بھی یہی ہے۔ وہ پوری روایت تو نہیں اس کا کچھ حصہ بیان کروں گا۔
آپؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر میں نکلنے کا ارادہ فرماتے تو آپؐ اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے۔ پھر جس کا قرعہ نکلتا آپؐ اس کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ چنانچہ اس سفر میں ہمارے درمیان قرعہ ڈالا گیا تو میرا قرعہ نکلا۔ مَیں آپؐ کے ساتھ گئی۔ اس وقت حجاب کا حکم اتر چکا تھا۔ پردے کا حکم آ گیا تھا۔ مَیں ہودج میں بٹھائی جاتی اور ہودج سمیت اتاری جاتی رہی۔ ایک بند کرسی تھی، پردے لٹکے ہوتے تھے، اس میں بٹھایا جاتا اور وہ اونٹ پر رکھ دیا جاتا تھا۔ کہتی ہیں ہم اسی طرح سفر میں رہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہم سے فارغ ہوئے اور واپس آئے اور ہم مدینے کے قریب ہی تھے کہ ایک رات آپؐ نے کوچ کا حکم دیا۔ جب لوگوں نے کُوچ کا اعلان کیا تو مَیں بھی چل پڑی اور فوج سے آگے نکل گئی۔ حاجت کی ضرورت تھی، جب مَیں اپنی حاجت سے فارغ ہوئی تو اپنے ہودج کی طرف آئی اور مَیں نے اپنے سینے کو ہاتھ لگایا تو کیا دیکھتی ہوں کہ کالے نگینوں کا ایک ہار تھا وہ ٹوٹ کر میرے گلے سےگر گیا ہے۔ مَیں واپس لوٹی۔ اپنا ہار ڈھونڈنے لگی۔ اتنے میں وہ لوگ جو میرے اونٹ کو تیار کرتے تھے، آئے اور انہوں نے میرا ہودج اٹھا لیا اور وہ ہودج میرے اونٹ پر رکھ دیا جس پر مَیں سوار ہوا کرتی تھی۔ وہ سمجھے کہ مَیں اسی میں بیٹھی ہوئی ہوں۔ بہرحال انہوں نے اونٹ کو اٹھا کر چلا دیا اور خود بھی چل پڑے۔ جب سارا لشکر گزر چکا تو اس کے بعد مَیں نے اپناگما ہوا ہار جو تھا اس کو پالیا۔ دیکھ لیا اٹھا لیا۔ مجھے مل گیا۔ پھر مَیں اپنے اس ڈیرے کی طرف گئی، اس جگہ گئی جس میں مَیں تھی اور مَیں نے خیال کیا کہ وہ مجھے نہ پائیں گے اور میرے پاس لوٹ آئیں گے۔ کہتی ہیں مَیں ڈیرے پر گئی تووہاں کوئی بھی نہیں تھا تو پھر مَیں نے بہرحال یہی خیال کیا کہ مجھے جب ہودج میں نہیں دیکھیں گے تو واپس میری طرف آئیں گے۔ کہتی ہیں مَیں بیٹھی ہوئی تھی تو اسی اثنا میں آنکھ لگ گئی اور مَیں سو گئی۔ صفوان بن معطل سلمی ذکوانی فوج کے پیچھے یہ دیکھنے کے لیے رہا کرتے تھے کہ کوئی چیز پیچھے تو نہیں رہ گئی۔ کہتے ہیں وہ صبح ڈیرے پر آئے جہاں ہمارا پڑاؤ تھا اور انہوں نے ایک سوئے ہوئے انسان کا وجود دیکھا اور میرے پاس آئے اور حجاب کے حکم سے پہلے کیونکہ وہ مجھے دیکھا کرتے تھے تو انہوں نے جب دیکھا کہ مَیں ہوں تو انہوں نے اِنَّا لِلّٰہِ پڑھا۔ ان کے اِنَّا لِلّٰہِ پڑھنے پر مَیں جاگ گئی۔ بہرحال اس کے بعد انہوں نے اپنی اونٹنی بٹھائی اور مَیں اس پر سوار ہو گئی۔ وہ اونٹنی کی نکیل پکڑ کر چل پڑے یہاں تک کہ ہم اس وقت فوج میں پہنچے جب لوگ ٹھیک دوپہر کے وقت آرام کرنے کے لیے ڈیروں میں تھے۔ پھر کہتی ہیں کہ جس کو ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہو گیا۔ یعنی الزام لگا کر اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال لیا اور اس تہمت کا بانی عبداللہ بن ابی بن سلول تھا۔ بہرحال کہتی ہیں ہم مدینے پہنچے۔ مَیں وہاں ایک ماہ تک بیمار رہی۔ کسی وجہ سے بیمار ہو گئی تھی۔ میری اس بیماری کے اثنا میں تہمت لگانے والوں کی باتوں کا لوگ چرچا کرتے رہے اور جو بات ان کو نہیں پتا لگا کہ کیا باتیں ہو رہی ہیں لیکن اس اثنا میں کہتی ہیں جو بات مجھے شک میں ڈالتی تھی وہ یہ تھی کہ مَیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ مہربانی نہ دیکھتی تھی جو مَیں آپؐ سے اپنی بیماری میں دیکھا کرتی تھی۔ آپؐ صرف اندر آتے اور السلام علیکم کہتے۔ پھر پوچھتے اب وہ کیسی ہے؟ کہتی ہیں مجھے اس تہمت کا کچھ بھی علم نہیں تھا۔ کہتی ہیں ایک دن ام مسطح کے ساتھ مَیں باہر گئی۔ رفع حاجت کے لیے باہر جایا کرتے تھے۔ تب اس نے مجھے تہمت لگانے والوں کی بات سنائی۔ جب مَیں اپنے گھر لوٹی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور آپؐ نے السلام علیکم کہا اور آپؐ نے پوچھا اب تم کیسی ہو؟ مَیں نے اس پر عرض کیا کہ مجھے اپنے والدین کے پاس جانے دیں۔ آپؐ نے مجھے اجازت دے دی۔ مَیں اپنے والدین کے پاس آئی تو مَیں نے اپنی ماں سے پوچھا لوگ کیا باتیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا بیٹی اس بات سے اپنی جان کو جنجال میں نہ ڈالو۔ اطمینان سے رہو۔ لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں۔ مَیں نے کہا سبحان اللہ! لوگ ایسی بات کا چرچا کر رہے ہیں۔ کہتی تھیں کہ جب مجھے یہ پتا لگا کہ میرے پہ یہ تہمت لگی ہے تو مَیں نے وہ رات اس طرح کاٹی کہ صبح تک نہ میرے آنسو تھمے اور نہ مجھے نیند آئی۔ بہرحال اس تہمت کی باتیں ہوتی رہیں بعض صحابہ سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کیا اور کہتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو جو ذاتی خدمت کے لیے حضرت عائشہؓ کی خادمہ تھیں ان کو بلایا اور آپؐ نے کہا کہ بریرہ کیا تم نے اس میں یعنی حضرت عائشہ میں کوئی ایسی بات دیکھی ہے جو تمہیں شبہ میں ڈالے؟ بریرہ نے کہا کہ ہرگز نہیں۔ کوئی ایسی بات میں نے نہیں دیکھی اور کہنے لگی کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے مَیں نے حضرت عائشہؓ میں اس سے زیادہ کوئی اور بات نہیں دیکھی جس کو مَیں ان کے لیے معیوب سمجھوں یعنی سب سے بڑی کم زوری جو مَیں نے دیکھی ہے وہ یہی ہے کہ وہ کم عمر لڑکی ہیں۔ لڑکپن ہے اور نیند زیادہ آتی ہے اور آٹا چھوڑ کر بعض دفعہ سو جاتی ہیں اور گھر میں بکری آتی ہے اور وہ کھا جاتی ہے یعنی کہ بس بے احتیاطی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں یا ان کو نیند زیادہ آتی ہے۔ یہ سن کر اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب فرمایا اور عبداللہ بن ابی بن سلول کی شکایت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسے شخص کو کون سنبھالے جس نے میری بیوی کے بارے میں مجھے دکھ دیا ہے۔ اور آپؐ نے فرمایا کہ مَیں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ اپنی بیوی میں سوائے بھلائی کے اور کوئی بات مجھے معلوم نہیں اور ان لوگوں نےجس پر الزام لگایا تھا اس کے بارے میں آپؐ نے فرمایا کہ ایسے شخص کا ذکر کیا ہے جس کی بابت بھی مجھے بھلائی کے سوا کوئی علم نہیں اور میرے گھر والوں کے پاس جب بھی وہ آیا کرتے ہیں تو میرے ساتھ ہی آتے تھے کبھی اکیلے نہیں آئے۔
بہرحال مختصر یہ کہ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے بھی براہِ راست اس بارے میں پوچھا تو مَیں نے کہا کہ بخدا مجھے معلوم ہو چکا ہے کہ آپ لوگوں نے وہ بات سنی ہے جس کا لوگ آپس میں تذکرہ کرتے ہیں۔ باتیں کر رہے ہیں۔ مجھ پر الزام لگا رہے ہیں۔ اگر مَیں آپؐ سے یہ کہوں کہ مَیں بَری ہوں مَیں نے کوئی ایسی بات نہیں کی اور اللہ جانتا ہے کہ مَیں فی الواقعہ بَری ہوں۔ آپؐ مجھے سچا نہیں سمجھیں گے اور اگر مَیں آپؐ کے پاس کسی بات کا اقرار کر لوں حالانکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ مَیں بَری ہوں۔ مَیں نے کوئی ایسی بات نہیں کی مگر آپؐ اس اقرارمیں مجھے سچا سمجھ لیں گے کیونکہ لوگوں میں یہ اتنا مشہور ہو چکا ہے۔ ہر ایک قائل ہو چکا ہے۔ بعض صحابہ جو ہیں وہ بھی ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ پھر کہتی ہیں مَیں نے کہا اللہ کی قسم ! مَیں اپنی اور آپ کی کوئی مثال نہیں پاتی سوائے یوسف کے باپ کی۔ انہوں نے کہا تھا کہ فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ کہ صبر کرنا ہی اچھا ہے اور اللہ ہی سے مدد مانگنی چاہیے اس بات میں جو تم لوگ بیان کر رہے ہو۔ یہ سورۂ یوسف میں ہے۔ اس کے بعد کہتی ہیں مَیں ایک طرف ہٹ کر اپنے بستر پر آ گئی اور مَیں امید کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ مجھے ضرور بَری کرے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائے گا کہ مَیں اس الزام سے بری ہوں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اس واقعہ کے بعد، جب مَیں نے یہ بات کہی اس کے بعد اللہ کی قسم ! آپؐ ابھی بیٹھنے کی جگہ سے الگ نہیں ہوئے تھے جب آپؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات کہی ہے۔ تو اس وقت حضرت ابوبکرؓ بھی تھے اور عائشہؓ کی والدہ بھی تھیں، دونوں تھے۔ کہتی ہیں کہ آپ، نہ گھر والے بھی کوئی اور نہ اہلِ بیت میں سے کوئی باہر گیا تھا، سب گھر والے وہیں تھے۔ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی اور سخت تکلیف آپؐ کو ہوا کرتی تھی جب وحی ہوتی تھی۔ وہ آپؐ کو ہونے لگی۔ جسم پسینے سے شرابور ہو جاتا تھا۔ کہتی ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی کی حالت جاتی رہی تو آپؐ مسکرا رہے تھے اور پہلی بات جو آپؐ نے فرمائی یہ تھی کہ عائشہؓ! اللہ کا شکر بجا لاؤ کیونکہ اللہ نے تمہاری بریت کر دی ہے۔ میری ماں نے مجھ سے کہا کہ اٹھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ۔ مَیں نے کہا اللہ کی قسم !ہرگز نہیں۔ ان کا شکریہ ادا نہیں کروں گی۔ مَیں ان کے پاس اٹھ کر نہیں جاؤں گی اور اللہ کے سوا کسی کا شکریہ ادا نہیں کروں گی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ وحی کی تھی کہ إِنَّ الَّذِیْنَ جَاءُوْا بِالْإِفْکِ عُصْبَۃٌ مِّنْکُمْ کہ وہ لوگ جنہوں نے بہتان باندھا ہے وہ تم ہی میں سے ایک گروہ ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود بہرحال یہ بریت ہو گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کر دیا۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرما دی بلکہ حضرت عائشہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ مجھے خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رؤیا یا کسی اَور رنگ میں بتا دے گا۔ یہ مجھے امیدنہیں تھی کہ قرآن کریم کی آیت اس بارے میں اترآئے گی۔ (صحیح بخاری کتاب الشہادات باب تعدیل النساء بعضہن بعضاحدیث نمبر2661)
تو یہ معاملہ ختم ہوا اور یہ الزامات لگتے رہے اور مختلف حرکتیں ہوتی رہیں لیکن ان سب باتوں کے باوجود اس رئیس المنافقین کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحمةٌ للعالمین کا جو سلوک تھا وہ کیا تھا؟ حضرت عبداللہؓ کے والد کی جو وفات ہوئی یعنی عبداللہ بن ابی کی تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے والد کی نمازِ جنازہ کے لیے درخواست کی۔ اسی طرح انہوں نےیہ بھی درخواست کی کہ آپؐ اپنی قمیض عنایت فرمائیں تا کہ وہ بطور کفن اپنے والد کے لیے استعمال کر سکے اور اس طرح شاید میرے والد سے تخفیف ہو سکے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کرتہ عنایت فرمایا۔ ایک دوسری روایت میں یہ بھی الفاظ ملتے ہیں کہ جب حضرت عبداللہؓ کا والد یعنی عبداللہ بن اُبی بن سلول فوت ہوا تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپؐ اپنی قمیض دیں تا کہ مَیں اپنے والد کو اس کے ذریعےکفن دوں اور اس پر نمازِ جنازہ پڑھیں اور اس کے لیے استغفار کر دیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی قمیض عطا کی اور فرمایا کہ جب تم لوگ تجہیز و تکفین کے معاملات سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے بلا لینا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ جنازہ پڑھنے لگے تو حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو منافقین کی نمازِ جنازہ سے منع کیا ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اختیار دیا گیا ہے کہ مَیں ان کے لیے استغفار کروں یا نہ کروں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی پھر جب اللہ تعالیٰ نے ایسے افراد کی نمازِ جنازہ نہ پڑھنے کی کلیةً ممانعت فرما دی تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کی نمازِ جنازہ پڑھانی بند کر دی۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء ثالث صفحہ941 “عبد اللہ بن عبد اللہ انصاری” دار الجیل بیروت)
یہ بھی روایت ہے کہ جب آپؐ پہنچے تو اس کو قبر میں رکھا جا چکا تھا۔ آپؐ نے باہر نکلوایا۔ اپنی ٹانگوں پر اس کا سر رکھا اور پھر اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالا اور پھر دعا کی اور قمیض کرتہ اتار کے دیا۔ (صحیح بخاری کتاب الجنائز باب ھل یخرج المیت من القبرحدیث نمبر 1350)
ایک روایت یہ بھی ہے حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ جب بدر کی جنگ ہوئی تو کافروں کے قیدی لائے گئے اور عباس بھی لائے گئے ان پر کوئی کپڑا نہ تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے کرتہ تلاش کیا لوگوں نے عبداللہ بن اُبی کا کرتہ ان کے لیے ٹھیک پایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی ان کو پہنا دیا اور اس وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کے لیے اس کے مرنے کے بعد اپنا کرتہ اتار کر اسے دے دیا کہ اسے پہنایا جائے۔
ابن عیینہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نے نیک سلوک کیا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ اس سے نیک سلوک فرمائیں۔ (بخاری کتاب الجہاد باب الکسوۃ للاساری حدیث 3008)
ایسی روایت گو کہ صحیح بخاری کے حوالے سے بھی ہے لیکن یہ اتنی authentic صحیح بھی نہیں لگتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحمةٌ للعالمین تھے۔ صرف اسی سلوک کی وجہ سے یہ بات یا صرف یہی بات نہیں ہو سکتی۔ ایک تو یہ ہے کہ بعضوں کے نزدیک اس وقت بدر کی جنگ میں یہ مسلمان بھی نہیں تھا اور اگر بالفرض قمیض اتار کے دی بھی تھی تو اس دوران میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پہ بے شمار احسانات کیے تھے۔ بہرحال یہ شفقت کا سلوک تھا جو میرے خیال میں تو حضرت عبداللہؓ کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا کہ بیٹے نے جو ہر معاملے میں اسلام کی غیرت رکھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرت رکھی اور اپنے ایمان کو بچایا اور اپنے باپ پر سختی بھی کی تو اس لیے بچے کی دل داری کے لیے، بیٹے کی دل داری کے لیے یا اس کی خواہش کی وجہ سے آپؐ نے یہ قمیض اتار کے دی تھی۔
حضرت عمر بن خطابؓ فرماتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابی بن سلول مر گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی گئی (یہ روایت حضرت عمرؓ نے براہ راست بھی بیان فرمائی ہے) کہ آپؐ اس کی نمازِ جنازہ پڑھائیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو مَیں آپؐ کی طرف لپکا اور مَیں نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا آپؐ ابن ابی کا نمازِ جنازہ پڑھتے ہیں اور اس نے تو فلاں دن یہ بات کہی تھی اور فلاں دن یہ بات کہی تھی۔ مَیں نے باتیں گنوانی شروع کر دیں۔ مَیں اس کے خلاف اس کی باتیں گننے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا عمر ہٹ جاؤ۔ جب مَیں نے آپؐ سے بہت اصرار کیا تو آپؐ نے فرمایا مجھے تو اختیار دیا گیا ہے سو مَیں نے اختیار کر لیا ہے اور اگر مَیں یہ جانوں اور مجھے یہ پتا ہو کہ مَیں ستّر بار سے زیادہ اس کے لیے دعائے مغفرت کروں اور وہ بخشا جائے گا تو مَیں ضرور اس سے بھی زیادہ کروں۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں چنانچہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھی۔ پھر آپؐ لَوٹ آئے اور تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ سورۂ براء یعنی سورہ ٔتوبہ کی یہ دو آیتیں نازل ہوئیں کہ وَلَا تُصَلِّ عَلٰی أَحَدٍ مِّنْہُمْ مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلٰى قَبْرِہٖ إِنَّہُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَمَاتُوْا وَہُمْ فَاسِقُوْنَ (التوبۃ: 84) یعنی تُو ان میں سے کسی کی بھی جو مر جائے کبھی نمازِ جنازہ نہ پڑھ اور تو اس کی قبر پہ کھڑا نہ ہو کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا اور وہ ایسی حالت میں مر گئے کہ وہ بد عہد تھے۔ حضرت عمرؓ کہتے تھے کہ اس کے بعد مَیں نے اپنی جسارت پر تعجب کیا کہ مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بولنے کی یہ جرأت کس طرح کر لی جو مَیں نے اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دکھائی تھی اور اللہ اور اس کا رسولؐ بہتر جانتے ہیں۔ (بخاری کتاب الجنائز باب ما یکرہ من الصلاۃ علی المنافقین حدیث 1366)