حضرت عبداللہ بن عمروؓ
حضرت عبداللہ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنوسلمہ سے تھا۔ آپ کے والد کا نام عَمرِو بن حَرَام اور والدہ کا نام رُبَاب بنت ِقَیس تھا۔ (الطبقات الکبریٰ جز3صفحہ 423، عبد اللّٰہ بن عمرو، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 2012ء)
حضرت عبداللہ بن عمرو ہجرتِ نبوی سے تقریباً چالیس سال قبل پیدا ہوئے۔ (صحابہ کرام انسائیکلوپیڈیا از ڈاکٹر ذوالفقار کاظم صفحہ 486، عبد اللہ بن عمروؓ، بیت العلوم پرانی انارکلی لاہور)
یعنی ہجرت کے وقت ان کی عمر چالیس سال تھی۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ایک مشہور صحابی حضرت جابر بن عبداللہؓ کے والد تھے۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابہ جزو4 صفحہ 162، عبد اللّٰہ بن عمرو، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2005ء)
حضرت عبداللہ بن عمروؓ حضرت عَمرِ وبن جَمُوحؓ کے برادر نسبتی تھے۔ (خطابات طاہر (تقاریر جلسہ سالانہ قبل از خلافت)، تقریر جلسہ سالانہ 1979ء، صفحہ 349)
حضرت عبداللہ بن عمروؓ بیعتِ عقبہ ثانیہ میں شامل تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ بارہ نقیبوں میں سے ایک تھے۔ آپؓ غزوۂ بدر میں شامل ہوئے اور غزوۂ اُحُد میں شہید ہوئے۔ بعض کے نزدیک حضرت عبداللہ بن عمروؓ غزوۂ اُحُد میں مسلمانوں کی طرف سے سب سے پہلے شہید تھے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جز3 صفحہ 84، عبد اللّٰہ بن عمرو، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 2002ء)
ان کے ایمان لانے کا واقعہ اس طرح بیان ہوتا ہے کہ حضرت کعب بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایام ِتشریق یعنی ایام حج کے آخری تین دن جو گیارہ سے تیرہ ذوالحجہ تک ہے اس کے درمیانی دن عقبہ میں ملنے کا وعدہ کیا۔ عقبہ مکہ اور منیٰ کے درمیان واقع ہے پہلے بھی بیان کر چکا ہوں۔ جب ہم حج سے فارغ ہوئے اور وہ رات آ گئی جس کا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا تھا تو ہمارے ساتھ عبداللہ بن عمرو بھی تھے جو ہمارے سرداروں میں سے ایک سردار تھے اور ہمارے شرفاء میں سے تھے۔ ہم نے انہیں اپنے ساتھ لیا۔ ہم نے اپنے لوگوں میں سے مشرکین سے اپنا معاملہ چھپایا ہوا تھا۔ ہم نے ان سے کہا اے ابوجابرؓ ! آپ ہمارے سرداروں میں سے ایک ہیں اور ہمارے شرفاء میں سے ہیں۔ ان کی کنیت ابوجابر تھی اس لیے ان کو ابوجابر بھی کہتے تھے۔ تو کہتے ہیں ہم نے ان سے کہا کہ اے ابوجابر! آپ ہمارے سرداروں میں سے ایک ہیں اور ہمارے شرفاء میں سے ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ آپ جہنم کا ایندھن بنیں۔ پس ہم نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عقبہ مقام میں جانے کی خبر دی۔ وہ کہتے ہیں انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور بیعت عقبہ میں شامل ہوئے اور نقیب مقرر ہوئے۔ (سیرت ابن ہشام جز 1صفحہ 236، امر العقبۃ الثانیۃ، دار ابن حزم بیروت 2009ء) (اردودائرہ معارف اسلامیہ جلد6صفحہ413مطبوعہ شعبہ اردودائرہ معارف لاہور)
حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں اور میرے والد اور میرے دو ماموں اصحابِ عَقَبہ میں سے ہیں۔ ابن عُیَیْنَہ ایک راوی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان میں سے ایک حضرت بَرَاء بن مَعْرُورؓ ہیں۔ (صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار باب وفود الانصار الی النبیﷺ بمکۃ و بیعۃ العقبۃ حدیث نمبر3890- – 3891)
عَقَبہ ثانیہ کے بارے میں ’سیرت خاتم النبیین‘ سے مَیں ایک صحابی کے ذکر میں بلکہ دو کے ذکر میں پہلے ایک تفصیل بیان کر چکا ہوں۔ یہاں تھوڑا سا حصہ دوبارہ بیان کرتا ہوں۔ بیعتِ عقبہ ثانیہ کے بارے میں ’سیرت خاتم النبیین‘ میں جو لکھا گیا ہے اس میں جو حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے متعلقہ حصہ ہے، بیان کرتا ہوں۔ تیرہ نبوی کا جو مہینہ ہے ذی الحجہ، اس میں حج کے موقعے پر اوس اور خزرج کے کئی سو آدمی مکے میں آئے۔ ان میں ستّر شخص ایسے شامل تھے جو یا تو مسلمان ہو چکے تھے اور یا اب مسلمان ہونا چاہتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے مکے آئے تھے۔
اس موقعے پر ایک اجتماعی اور خلوت کی ملاقات کی ضرورت تھی اس لیے مراسِم حج کے بعد ماہ ذی الحجہ کی وسطی تاریخ مقرر کی گئی۔ کہ اس دن نصف شب کے قریب یہ سب لوگ گذشتہ سال والی گھاٹی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آکر ملیں۔ یہ مقرر کیا گیا تاکہ اطمینان اور یکسوئی کے ساتھ علیحدگی میں بات چیت ہو سکے۔ اور آپؐ نے انصار کو تاکید فرمائی کہ اکٹھے نہ آئیں بلکہ ایک ایک دو دو کر کے وقت مقررہ پر گھاٹی میں پہنچ جائیں اور سوتے کو نہ جگائیں اور نہ غیر حاضر کا انتظار کریں۔ چنانچہ جب مقررہ تاریخ آئی تو رات کے وقت جبکہ ایک تہائی رات جاچکی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے گھر سے نکلے اور راستہ میں اپنے چچا عباس کو ساتھ لیا جو ابھی تک مشرک تھے مگر آپؐ سے محبت رکھتے تھے اور خاندانِ ہاشم کے رئیس تھے اور پھر دونوں مل کر اس گھاٹی میں پہنچے۔ ابھی زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ انصار بھی ایک ایک دو دو کر کے آپہنچے۔ یہ ستّر اشخاص تھے اور اوس اور خزرج دونوں قبیلوں سے تعلق رکھنے والے تھے۔
سب سے پہلے عباس نے گفتگو شروع کی اور کہا کہ اے خزرج کے گروہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خاندان میں معزز و محبوب ہے اور وہ خاندان آج تک اس کی حفاظت کا ضامن رہا ہے اور ہر خطرہ کے وقت میں اس کے لیے سینہ سپر ہوا ہے۔ مگر اب محمد کا ارادہ اپنا وطن چھوڑکر تمہارے پاس چلے آنے کا ہے۔ سو اگر تم اسے اپنے پاس لے جانے کی خواہش رکھتے ہو تو تمہیں اس کی ہر طرح حفاظت کرنی ہو گی اور ہر دشمن کے سامنے سینہ سپر ہونا پڑے گا۔ اگر تم اس کے لیے تیار ہو تو بہتر ورنہ ابھی سے صاف صاف جواب دے دو کیونکہ صاف صاف بات اچھی ہوتی ہے۔ بَرَاء بن مَعْرُور جو انصار کے قبیلے کے ایک معمر اور بااثر بزرگ تھے انہوں نے کہا عَبَّاس! ہم نے تمہاری بات سن لی ہے مگر ہم چاہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی زبانِ مبارک سے کچھ فرما دیں اور جو ذمہ داری ہم پر ڈالنا چاہتے ہیں وہ بیان فرما دیں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن شریف کی چند آیات تلاوت فرمائیں اور پھر ایک مختصر سی تقریر فرمائی جس میں اسلام کی تعلیم بیان فرمائی اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اپنے لیے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ جس طرح تم اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کی حفاظت کرتے ہو اسی طرح اگر ضرورت پیش آئے تو میرے ساتھ معاملہ کرو۔ جب آپؐ تقریر ختم کر چکے تو بَرَاء بن مَعْرُور نے عرب کے دستور کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا یا رسول اللہؐ ! ہمیں اس خدا کی قسم ہے جس نے آپؐ کو حق و صداقت کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے کہ ہم اپنی جانوں کی طرح آپؐ کی حفاظت کریں گے۔ ان میں سے ایک شخص کے کہنے پر کہ یہ تو ہم عہد کرتے ہیں کہ کریں گے لیکن یہ بتائیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ جب آپؐ کو غلبہ ملے گا تو ہمیں چھوڑ تو نہیں جائیں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہنس کر فرمایا کہ تمہارا خون میرا خون ہو گا۔ تمہارے دوست میرے دوست ہوں گے۔ تمہارے دشمن میرے دشمن ہوں گے۔ اس پر عباس بن عُبَادَہ انصاری نے اپنے ساتھیوں پر نظر ڈال کر کہاکہ لوگو !کیا تم سمجھتے ہوکہ اس عہد اور پیمان کے کیا معنے ہیں؟ اس کا یہ مطلب ہے کہ اب تمہیں ہر اسود و احمر، ہر کالے گورے، سرخ سفید کے ساتھ مقابلہ کے لیے تیار ہوجانا چاہیے اور ہر قربانی کے لیے آمادہ رہنا چاہیے۔ لوگوں نے کہا ہاں ہم جانتے ہیں۔ مگر یا رسول اللہؐ ! اس کے بدلہ میں ہمیں کیا ملے گا؟ آپؐ نے فرمایا تمہیں خدا کی جنت ملے گی جو اس کے سارے انعاموں میں سے بڑا انعام ہے۔ سب نے کہا ہمیں یہ سودا منظور ہے۔ یا رسول اللہؐ ! اپنا ہاتھ آگے کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک آگے بڑھادیا اور یہ ستّر جاں نثاروں کی جماعت ایک دفاعی معاہدہ میں آپؐ کے ہاتھ پر بِک گئی۔ اس بیعت کا نام بیعتِ عَقَبہ ثانیہ ہے۔
جب بیعت ہو چکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ موسیٰ نے اپنی قوم میں سے بارہ نقیب چنے تھے جو موسیٰ کی طرف سے ان کے نگران اور محافظ تھے۔ مَیں بھی تم میں سے بارہ نقیب مقرر کرنا چاہتا ہوں جو تمہارے نگران اور محافظ ہوں گے اور وہ میرے لیے عیسیٰ کے حواریوں کی طرح ہوں گے اور میرے سامنے اپنی قوم کے متعلق جوابدہ ہوں گے۔ پس تم مناسب لوگوں کے نام تجویز کر کے میرے سامنے پیش کرو۔ چنانچہ بارہ آدمی تجویز کیے گئے جنہیں آپ نے منظور فرمایا اور انہیں ایک ایک قبیلہ کا نگران مقرر کر کے ان کے فرائض سمجھا دیے اور بعض قبائل کے لیے آپ نے دو دو نقیب مقرر فرمائے۔ بہرحال ان بارہ نقیبوں میں عبداللہ بن عمرو کا نام بھی شامل تھا اور ان کو بھی آپ نے نقیب مقرر فرمایا۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 227تا231)
ایک روایت میں آتا ہے کہ غزوۂ اُحُد کے موقع پر جب عبداللہ بن اُبَیّ بن سَلُول نے جو منافقین مدینہ کا سردار تھا غداری کی تو حضرت عبداللہ بن عمرو نے ان لوگوں کو نصیحت کرنے کی کوشش کی۔ (غزوہ اُحد از علامہ محمد احمد باشمیل صفحہ 215، نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی، 1989ء)
حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد حضرت عبداللہ بن عَمرو اور ماموں غزوہ اُحُد میں شہید ہو گئے تو میری والدہ جبکہ دوسری روایت میں ہے کہ پھوپھی جو حضرت عَمرِو بن جَمُوحؓ کی اہلیہ تھیں ان دونوں کو اونٹنی پر رکھ کر مدینہ لا رہی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان کرنے والے نے اعلان کیا کہ اپنے مقتولوں کو ان کے لڑنے کی جگہ پر دفناؤ۔ اس پر ان دونوں کو واپس لے جایا گیا اور ان کے لڑنے کی جگہ پر ہی دفنا دیا گیا۔ (الطبقات الکبریٰ جز3 صفحہ 423، عبد اللّٰہ بن عمرو، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 2012ء) (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد2صفحہ 287 عبداللّٰہ بن عمرودارالکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)
ایک اَور روایت میں ہے کہ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ اُحُد کے موقعے پر اہلِ مدینہ میں خبر پھیل گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں۔ یہ خبر سن کر مدینے میں آہ و بکا ہونے لگی اس پر انصار کی ایک عورت بھی اُحُد کی طرف نکلی تو راستے میں اس نے اپنے والد، بیٹے، خاوند اور بھائی کی نعشوں کو دیکھا۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ معلوم نہیں سب سے پہلے اس نے کسے دیکھا۔ جب وہ ان میں سے کسی کے پاس سے گزرتی تو وہ کہتی یہ کون ہے؟ لوگ کہتے تمہارا والد ہے، تمہارا بھائی ہے، تمہارا خاوند ہے، تمہارا بیٹا ہے۔ وہ کہتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے سامنے ہیں یہاں تک کہ وہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کے کپڑے کا دامن پکڑ کر عرض کرنے لگی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں جب آپؐ صحیح سلامت ہیں تو مجھے کسی کی موت کی کوئی پروا نہیں۔ (مجمع الزوائد جز6صفحہ120، کتاب المغازی والسیرباب فیمن استصغر یوم احد، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 2001ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ خلافت سے دو تین سال پہلے کی بات ہے جلسہ سالانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور غزوات پر تقریر کیا کرتے تھے وہاں حضرت عبداللہ بن عمروؓ کے بارے میں جو ایک بیان کیا وہ بھی میں یہاں پڑھ دیتا ہوں۔ فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو کی بہن یعنی حضرت عَمرِو بن جَموحؓ کی اہلیہ بھی اپنے بھائی ہی کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سراپا رنگین تھیں۔ خاوند اس جنگ میں شہید ہوا۔ بھائی اس جنگ میں شہید ہوا۔ بیٹا اس جنگ میں شہید ہوا لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سلامتی کی خوشی ان سب غموں پر غالب آ گئی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ مَیں میدانِ جنگ کی طرف حالات معلوم کرنے جا رہی تھی کہ راستے میں مجھے عَمرِو بن جَموح کی بیوی ہِند ایک اونٹ کی مہار پکڑے مدینہ کی طرف جاتی ہوئی ملی۔ مَیں نے اس سے پوچھا میدانِ جنگ کی کیا خبر ہے؟ اس نے جواب دیا الحمد للہ سب خیریت ہے۔ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم خیریت سے ہیں۔ اتنے میں میری نظر اونٹ پر پڑی جس پر کچھ لدا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا یہ اونٹ پر کیا لدا ہوا ہے؟ کہنے لگی میرے خاوند عَمرِو بن جَموح کی نعش ہے، میرے بھائی عبداللہ بن عمرو کی نعش ہے، میرے بیٹے خَلّاد کی نعش ہے۔ یہ کہہ کر وہ مدینہ کی طرف جانے لگی مگر اونٹ بیٹھ گیا اور کسی طرح اٹھنے میں نہ آتا تھا۔ آخر جب وہ اٹھا تو مدینہ کی طرف جانے سے انکار کر دیا تب اس نے یعنی اس خاتون نے اس کی مہار پھر اُحُد کے میدان کی طرف موڑ دی تو وہ خوشی خوشی چلنے لگا۔ پھر لکھتے ہیں کہ ادھر تو عورت کا یہ ماجرا گزر رہا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت کی یہ داستان تھی اور ادھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے یہ فرما رہے تھے کہ جاؤ عَمرِو بن جَموح اور عبداللہ بن عمرو کی نعشیں تلاش کرو کہ انہیں اکٹھا دفن کیا جائے گا کیونکہ وہ اس دنیامیں بھی ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے تھے۔ (ماخوذ از خطابات طاہر (تقاریر جلسہ سالانہ قبل از خلافت) تقریر جلسہ سالانہ 1979ء، صفحہ 350-351)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ان دونوں کا بڑا خیال تھا۔ ایک روایت میں مذکور ہے کہ جب حضرت عبداللہ بن عمروؓ نے غزوۂ اُحُد کے لیے نکلنے کا ارادہ کیا تو اپنے بیٹے حضرت جابر کو بلایا اور ان سے کہا اے میرے بیٹے! مَیں دیکھتا ہوں کہ مَیں اوّلین شہداء میں سے ہوں گا اور اللہ کی قسم! مَیں اپنے پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے بعد تمہارے علاوہ کسی کو نہیں چھوڑ کے جا رہا جو مجھے زیادہ عزیز ہو۔ میرے ذمہ کچھ قرض ہے میرا وہ قرض میری طرف سے ادا کر دینا اور مَیں تمہیں تمہاری بہنوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔ حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ اگلی صبح میرے والد صاحب سب سے پہلے شہید ہوئے اور دشمنوں نے ان کی ناک اور کان کاٹ ڈالے تھے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابہ جلد3 صفحہ 344، عبد اللّٰہ بن عمرو، دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُحُد کے شہداء کو دفن کرنے کے لیے تشریف لائے تو آپؐ نے فرمایا کہ ان کو ان کے زخموں سمیت ہی کفن دے دو کیونکہ میں ان پر گواہ ہوں اور کوئی مسلمان ایسا نہیں جو اللہ کی راہ میں زخمی کیا جائے مگر وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کا خون بہ رہا ہو گا اور اس کا رنگ زعفران کا ہو گا اور اس کی خوشبو کستوری کی ہو گی۔ یعنی کہ یہ پسندیدہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے۔ انہیں نہلانے اور کفنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انہی کا لباس ان کا کفن ہے۔
حضرت جابر کہتے ہیں کہ میرے والد کو ایک چادر کا کفن دیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ ان میں سے کون زیادہ قرآن جاننے والا ہے؟ جب یہ شہداء دفن کیے جارہے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ کون زیادہ قرآن جاننے والا ہے؟ جب کسی ایک کی طرف اشارہ کیا جاتا تو آپؐ فرماتے کہ اس کو قبر میں اس کے ساتھیوں سے پہلے اتارو یعنی جو قرآن جاننے والے لوگ تھے ان کو آپؐ پہلے دفن کرواتے جاتے تھے اور لوگ کہتے کہ حضرت عبداللہ بن عمروؓ اُحُد کے روز سب سے پہلے شہید ہوئے۔ اس وقت یہ بھی لوگوں میں باتیں ہو رہی تھیں کہ سب سے پہلے جو شہید تھے عبداللہ بن عمروؓ تھے۔ سفیان بن عبد شمس نے آپؓ کو شہید کیا تھا۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہزیمت سے قبل آپ کی نماز جنازہ ادا کی۔ دوبارہ جو حملہ ہوا ہے اس سے پہلے ہی آپؓ کی نماز جنازہ ادا کر دی تھی اور فرمایا کہ عبداللہ بن عمروؓ اور عمرو بن جَموحؓ کو ایک ہی قبر میں دفن کرو کیونکہ ان کے درمیان اخلاص اور محبت تھی۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں کو جو دنیا میں باہم محبت کرنے والے تھے ایک ہی قبر میں دفن کرو۔ وہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمروؓ سرخ رنگ کے تھے اور آپؓ کے سر کے اگلے حصے پر بال نہ تھے اور قد زیادہ لمبا نہ تھا جبکہ حضرت عَمرِو بن جَموحؓ لمبے قد والے تھے اس لیے دونوں پہچان لیے گئے اور دونوں کو ایک ہی قبر میں دفن کر دیا گیا۔ (الطبقات الکبریٰ جزو 3 صفحہ 424، عبد اللّٰہ بن عمرو، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 2012ء)