حضرت عبداللہ بن مسعودؓ
ان کی کنیت عبدالرحمٰن ہے۔ ان کا تعلق بنو ھُذَیل قبیلہ سے تھا اور ان کی والدہ کا نام اُمِّ عبد ہے۔ ان کی وفات 32ہجری میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام مسعود بن غافل تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کا شمار ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے ہوتا ہے۔ حضرت عمر کی ہمشیرہ حضرت فاطمہ بنت خطاب اور ان کے شوہر حضرت سعید بن زید نے جب اسلام قبول کیا تو آپ بھی اسی وقت مسلمان ہوئے تھے(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 381-382، 387مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دارارقم میں داخل ہونے سے قبل ہی ایمان لے آئے تھے،(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 112مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) وہ جگہ جو مکہ میں مسلمانوں کے اکٹھے ہونے کے لئے بنائی گئی تھی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ میں اسلام قبول کرنے والا چھٹا شخص تھا۔ اس وقت روئے زمین پر ہم چھ اشخاص کے علاوہ کوئی مسلمان نہیں تھا۔ اپنے اسلام قبول کرنے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ میں سن تمیز کو جب پہنچ گیا، ایسی عمر کو جب پہنچ گیا جب صحیح پہچان بھی ہوتی ہے، اچھے برے کا فرق پتہ لگ جاتا ہے، بلوغت کی عمر ہوتی ہے۔ ایک دن عقبہ بن ابی مُعَیط کی بکریاں چرا رہا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور حضرت ابوبکر بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اے لڑکے تیرے پاس کچھ دودھ ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ہے مگر میں امین ہوں دے نہیں سکتا۔ بچپن سے ہی ان میں بڑی نیکی تھی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی بکری لے آؤ جو گابھن نہ ہو، ایسی بکری جو گابھن نہیں ہے، دودھ نہیں دے رہی اسے لے آؤ۔ کہتے ہیں مَیں ایک جوان بکری آپ کے پاس لے گیا تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پاؤں باندھ دئیے، اس کے تھن پر ہاتھ پھیرنا شروع کیا اور دعا کی یہاں تک کہ اس کا دودھ اتر آیا۔ پھر حضرت ابوبکر ایک برتن لے آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برتن میں اس کا دودھ دھویا اور حضرت ابوبکر سے فرمایا کہ پیو۔ حضرت ابوبکر نے دودھ پیا۔ بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا اور پھر آپ نے تھنوں پہ اپنا ہاتھ پھیرا اور کہا کہ سکڑ جاؤ اور وہ سکڑ گئے اور پہلے جیسے ہو گئے۔ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ مجھے بھی اس کلام میں سے کچھ سکھا دیں جو آپ نے پڑھا ہے۔ اس پر آپ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا تم سیکھے سکھائے نوجوان ہو۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا واسطہ قرآن کریم کی ستّر سورتیں یاد کی ہیں ، براہِ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے یاد کی تھیں ۔(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 382 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) ان کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی سیرۃ خاتم النبیین میں لکھتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود جو غیر قریشی تھے اور قبیلہ ہُذَیل سے تعلق رکھتے تھے ایک بہت غریب آدمی تھے اور عقبہ بن ابی معیط رئیس قریش کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آگئے اور آپ کی صحبت سے بالآخر نہایت عالم و فاضل بن گئے۔ فقہ حنفی کی بنیاد زیادہ تر انہی کے اقوال و اجتہادات پر مبنی ہے۔(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ ایم اے صفحہ 124)
ان کے دینی علم کی فضیلت کے بارے میں یہ روایت ہے: حضرت ابن مسعود کہتے ہیں کہ لوگ جانتے ہیں کہ میں ان سب میں سے کتاب اللہ کا خوب عالم ہوں ۔ قرآن مجید میں کوئی سورۃ یا آیت نہیں مگر میں جانتا ہوں کہ وہ کب اتری اور کہاں اتری۔ ابووائل راوی کہتے ہیں کہ اس بیان کا کسی نے انکار نہیں کیا(اصحاب بدر از قاضی محمد سلیمان صفحہ 107مکتبہ اسلامیہ لاہور 2015ء) جب حضرت عبداللہ بن مسعود نے یہ بات کہی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چار صحابہ سے قرآن کریم پڑھنے اور سیکھنے کی نصیحت فرمائی ان میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا نام سرفہرست ہے۔(صحیح البخاری کتاب المناقب باب مناقب عبد اللہ بن مسعودؓ حدیث 3760) دیباچہ تفسیر القرآن میں اس کی تفصیل حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرح بیان فرمائی ہے کہ چونکہ لوگوں میں حفظ قرآن کریم کا اشتیاق بہت تیز ہو گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم پڑھانے والے استادوں کی ایک جماعت مقرر فرمائی جو سارا قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حفظ کر کے آگے لوگوں کو پڑھاتے تھے۔ یہ چار چوٹی کے استاد تھے جن کا کام یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن شریف پڑھیں اور لوگوں کو قرآن پڑھائیں ۔ پھر ان کے ماتحت اور بہت سے صحابہ ایسے تھے جو لوگوں کو قرآن شریف پڑھاتے تھے۔ ان چار بڑے استادوں کے نام یہ ہیں : عبداللہ بن مسعود، سالم مولیٰ ابی حذیفہ، معاذ بن جبل اور ابی بن کعب۔ ان میں سے پہلے دو مہاجر ہیں اور دوسرے دو انصاری۔ کاموں کے لحاظ سے عبداللہ بن مسعود ایک مزدور تھے، سالم ایک آزاد شدہ غلام تھے، معاذ بن جبل اور ابی بن کعب مدینہ کے رؤسا میں سے تھے۔ گویا ہر گروہ میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام گروہوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قاری مقرر کر دئیے تھے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ خُذُواالْقُرْاٰنَ مِنْ اَرْبَعَۃٍ مِنْ عَبْدِاللہِ ابْنِ مَسْعُوْد وَسَالِمٍ وَ مَعَاذِ ابْنِ جَبَل وَ أُبَیْ بِن کَعْبٍ۔ جن لوگوں نے قرآن پڑھنا ہو وہ ان چار سے قرآن پڑھیں ۔ عبداللہ بن مسعود، سالم، معاذ بن جبل اور اُبی بن کعب۔ حضرت مصلح موعودؓ بعد میں لکھتے ہیں کہ یہ چار تو وہ تھے جنہوں نے سارا قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا یا آپ کو سنا کر اس کی تصحیح کرا لی لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سے صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست بھی کچھ نہ کچھ قرآن سیکھتے رہتے تھے۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ عبداللہ بن مسعود نے ایک لفظ کو اَور طرح پڑھا تو حضرت عمر نے ان کو روکا اور کہا کہ اس طرح نہیں اس طرح پڑھنا چاہئے۔ اس پر عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ نہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح سکھایا ہے۔ حضرت عمر اُن کو پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے کہا کہ یہ قرآن غلط پڑھتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ عبداللہ بن مسعود پڑھ کر سناؤ ۔ جب انہوں نے پڑھ کر سنایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو ٹھیک ہے۔ حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ! مجھے تو آپ نے یہ لفظ اور رنگ میں سکھایا تھا۔ آپ نے فرمایا یہ بھی ٹھیک ہے جس طرح تم پڑھ رہے ہو۔ تو حضرت مصلح موعودؓنے نتیجہ نکالا کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف یہی چار صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن نہیں پڑھتے تھے بلکہ دوسرے لوگ بھی پڑھتے تھے۔ چنانچہ حضرت عمر کا یہ سوال کہ مجھے آپ نے اس طرح پڑھایا ہے بتاتا ہے کہ حضرت عمر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھتے تھے۔ (ماخوذ از دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 427-428)
ایک روایت میں ہے کہ مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے قرآن کو علی الاعلان پڑھنے والے حضرت عبداللہ بن مسعود ہی تھے۔ چنانچہ یہ واقعہ اس طرح ملتا ہے کہ ایک دن صحابہ جمع تھے اور آپس میں کہہ رہے تھے کہ قریش نے قرآن کی بلند آواز تلاوت کبھی نہیں سنی۔ کیا کوئی شخص ان کو سنا سکتا ہے؟ حضرت عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ مَیں سنا سکتا ہوں ۔ لوگوں نے کہا کہ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں کفار تمہیں تکلیف نہ پہنچائیں ۔ تم تو مزدور آدمی ہو تا تمہارے بجائے کوئی اور با اثر شخص ہو کہ کفار اگر اسے مارنا بھی چاہیں گے تو اس کا قبیلہ اسے بچا لے گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کہنے لگے کہ اس کی فکر نہ کرو مجھے اللہ بچائے گا۔ عجیب جوش تھا ان صحابہ میں ۔ دوسرے دن چاشت کے وقت صبح کو آپ نے مقام ابراہیم پہنچ کر بلند آواز سے قرآن کریم کی تلاوت شروع کر دی۔ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ پڑھنا شروع کر دیا۔ قریش جو کہ اپنی مجالس میں بیٹھے تھے آپ کے اس عمل سے حیران ہوئے۔ بعض نے کہا یہ تو انہی عبارتوں میں سے پڑھ رہا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرتے ہیں ۔ یہ سن کر سب اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کے منہ پر مارنا شروع کر دیا مگر آپ پڑھتے رہے اور جتنا پڑھنے کا ارادہ کیا تھا پڑھا۔ بعد میں جب حضرت عبداللہ بن مسعود اصحاب کے پاس واپس گئے تو آپ کے منہ پر طمانچوں کے نشان دیکھ کر صحابہ کہنے لگے کہ ہمیں اسی بات کا خطرہ تھا کہ تمہیں مار پڑے گی۔ اس پر حضرت عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ یہ خدا کے دشمن میری نظر میں اتنے بے حقیقت کبھی نہ تھے جتنے اس وقت تھے جب وہ مجھے مار رہے تھے۔ اگر تم چاہو تو میں کل بھی ایسا ہی کرنے کو تیار ہوں ۔ صحابہ نے کہا نہیں اتنا ہی کافی ہے تم نے انہیں وہ چیز سنا دی ہے جسے وہ سننا ہی نہیں چاہتے تھے۔ (اسد الغابہ جلد 3صفحہ 383مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
حضرت عبداللہ بن مسعود کے اسلام قبول کرنے کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے پاس رکھ لیا۔ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے فرما دیا تھا کہ جب تم میری آواز سن لیا کرو اور گھر میں پردہ نہ پڑا ہو تو بلا اجازت اندر آ جایا کرو۔ گھر میں اگر پردہ گرا ہوا ہے تو پھر بغیر پوچھے نہیں آنا اور اگر پردہ اٹھا ہوا ہے، دروازہ کھلا ہے میری آواز سن لی ہے تم نے تو آجایا کرو تمہیں اجازت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں کوئی اس وقت، کوئی خواتین وغیرہ نہیں ہیں ۔ آپ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر کام کرتے تھے۔ آپ کو جوتی پہناتے۔ کہیں ساتھ جانے کی ضرورت ہوتی تو ساتھ جاتے۔ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم غسل فرماتے تو آپ پردہ لے کر کھڑے رہتے۔ صحابہ میں آپ صاحب السواک کے لقب سے مشہور تھے۔(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 383مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) ایک اور روایت کے مطابق آپ کو صاحب السواک، صاحب الوساد اور صاحب النعلین بھی کہا جاتا ہے۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 113مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) عبداللہ بن مسعود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رازدار، آپ کا بستر بچھانے والے، آپ کی مسواک اور نعلین وغیرہ رکھنے والے تھے۔ یہ جو عربی کے لفظ بولے گئے ہیں وہ یہ تھے کہ آپؐ کا بستر بچھانے والے تھے، مسواک کرواتے تھے، وضو کرواتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہانے کا انتظام کرتے تھے، آپ کا بستر بچھاتے تھے۔ بستر بچھانے والے کو صاحب السواد کہتے ہیں ۔ اور آپ کی نعلین مبارک، جوتیاں رکھنے اور ٹھیک کرنے کا کام بھی کرتے تھے اس لئے صاحب النعلین بھی آپ کو کہا جاتا ہے۔ وضو کا پانی رکھنے والے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی سفر میں ہوتے تو آپ ہی یہ کام کرتے۔
ابوملیح سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل فرماتے تو حضرت عبداللہ بن مسعود پردہ کرتے تھے اور جب آپ سوتے تو آپ کو بیدار کرتے تھے۔ آپ کے ہمراہ سفرمیں مسلح ہو کر جاتے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 113مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت ابوموسیٰ روایت کرتے ہیں کہ جب ہم یمن سے نئے نئے پہلی دفعہ آئےتو یہی سمجھتے تھے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے ہیں کیونکہ ان کی اور ان کی والدہ کی آمد و رفت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں بہت زیادہ تھی،(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 384 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) گھر میں آنا جانا بہت زیادہ تھا۔ جتنا کام کرتے تھے اوروالدہ بھی آتی جاتی تھیں تو اس سے یہ کہتے ہیں کہ ہم جب نئے نئے مدینہ میں آئے تو ہم سمجھے کہ یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود دونوں ہجرتوں میں شامل تھے ہجرت حبشہ میں بھی اور ہجرت مدینہ میں بھی۔ غزوۂ بدر، احد، خندق اور بیعت رضوان وغیرہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جنگ یرموک میں بھی شامل ہوئے۔ آپ ان صحابہ میں بھی شامل تھے جنہیں حضورؐ نے ان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت دی تھی۔(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 383 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
غزوہ بدر میں ابوجہل کو انجام تک پہنچانے میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا بھی حصہ ہے۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ غزوۂ بدر کے اختتام پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا کوئی ہے جو ابوجہل کے بارے میں درست خبر لائے۔ عبداللہ بن مسعود گئے اور دیکھا کہ ابوجہل جنگ کے میدان میں شدید زخمی ہے اور جان کنی کی حالت میں پڑا ہے۔ اسے عفراء کے بیٹوں نے اس حالت میں پہنچایا تھا۔ حضرت ابن مسعود نے اس کی داڑھی سے پکڑ کر کہا کہ کیا تم ہی ابوجہل ہو؟ اس نے اس حالت میں بھی بڑے غرور سے جواب دیا۔ کیا کبھی مجھ سے بڑا سردار بھی تم نے مارا ہے۔(صحیح البخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جہل حدیث 3962) پہلی روایت تو بخاری کی تھی اس کے بارے میں صحیح مسلم کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس کی داڑھی کو پکڑ کر کہا کہ کیا تو ابوجہل ہے؟ اس پر ابوجہل نے کہا کیا تم نے آج سے پہلے میرے جیسا بڑا آدمی قتل کیا ہے؟ راوی کہتے ہیں ابوجہل نے کہا اے کاش کہ میں ایک کسان کے ہاتھوں سے قتل نہ ہوتا۔(صحیح مسلم کتاب الجہاد والسیر باب قتل ابی جھل حدیث 4662)مدینہ کے دو لڑکے تھے جنہوں نے قتل کیا تھا۔ اس کو اس حالت میں پہنچایا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے بھی تفسیر کبیر میں اس کی تفصیل لکھی ہے کہ کس طرح دشمن حسد کی آگ میں ساری عمر جلتے رہےاور پھر مرتے ہوئے بھی اسی آگ میں جل رہے تھے۔ آپ لکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ جنگ کے بعد میں نے دیکھا کہ ابوجہل ایک جگہ زخموں کی شدت کی وجہ سے کراہ رہاہے۔ میں اس کے پاس گیا اور میں نے کہا سناؤ کیا حال ہے؟ اس نے کہا مجھے اپنی موت کا کوئی غم نہیں ، سپاہی آخر مرا ہی کرتے ہیں ۔ مجھے تو یہ غم ہے کہ مدینہ کے دو انصاری لڑکوں کے ہاتھوں سے مَیں مارا گیا۔ مر تو مَیں رہا ہوں تم صرف اتنا احسان کرو میرے پہ کہ تلوار سے میری گردن کاٹ دو تا کہ میری یہ تکلیف ختم ہو جائے۔ مگر دیکھنا میری گردن ذرا لمبی کاٹنا کیونکہ جرنیلوں کی گردن ہمیشہ لمبی کاٹی جاتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ میں تیری اس آخری حسرت کو بھی کبھی پورا نہیں ہونے دوں گا اور تھوڑی کے قریب سے تیری گردن کاٹوں گا۔چنانچہ انہوں نے تھوڑی کے قریب تلوار رکھ کراس کا سر تن سے جدا کر دیا۔ حضرت مصلح موعود نے لکھا ہے کہ دیکھویہ کتنی بڑی آگ تھی جو ابو جہل کو جلا کر راکھ کر رہی تھی کہ ساری عمر اس بات پر جلتا رہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو نقصان ہم پہنچانا چاہتے ہیں وہ پہنچا نہیں سکے۔ پھر مرنے لگا، موت کی جو حالت آئی تو اس وقت اس آگ میں جل رہا تھا کہ مدینہ کے دو ناتجربہ کار نوعمر لڑکوں کے ہاتھوں مارا جا رہا ہے۔ اور پھر مرتے وقت اس نے جو آخری خواہش کی تھی وہ بھی پوری نہیں ہوئی اور تھوڑی کے پاس سے اس کی گردن کاٹی گئی ۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 461) غرضیکہ ہر قسم کی آگوں میں جلتا ہوا ہی وہ دنیا سے چلا گیا۔
جب حضرت عبداللہ بن مسعود ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو حضرت معاذ بن جبل کے ہاں آپ کا قیام تھا۔ بعض کے مطابق آپ حضرت سعد بن خیثمہ کے ہاں ٹھہرے تھے۔ مکہ میں آپ کی مؤاخات حضرت زبیر بن العوام سے ہوئی تھی جبکہ مدینہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذبن جبل کو آپ کا دینی بھائی بنایا۔ مدینہ کے ابتدائی ایام میں آپ کے مالی حالات اچھے نہیں تھے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مہاجرین کے لئے مسجد نبوی کے قریب رہائش کا کچھ انتظام کیا تو بنو زہرہ کے بعض لوگوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود کو اپنے ساتھ رکھنے میں کچھ ہچکچاہٹ ظاہر کی کہ یہ مزدور آدمی ہے، غریب آدمی ہے، ہم لوگ بڑے آدمی ہیں ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب علم ہوا تو آپ نے اپنے اس غریب اور کمزور خادم کے لئے غیرت دکھاتے ہوئے فرمایا کہ کیا خدا نے مجھے اس لئے مبعوث فرمایا ہے کہ تم لوگ یہ فرق رکھو۔ یاد رکھو خدا تعالیٰ اس قوم کو کبھی برکت عطا نہیں کرتا جس میں کمزور کو اس کا حق نہیں دیا جاتا اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود کو مسجد کے قریب جگہ دی جبکہ بنو زہرہ کو مسجد کے پیچھے ایک کونے میں جگہ دی۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 112-113مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)،(سیرت صحابہ رسول اللہﷺ از حافظ مظفر احمد صفحہ 275 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ 2009ء) حضرت ابن مسعود بیان کرتے ہیں ،خود ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ مجھے سورۃ نساء پڑھ کر سناؤ۔ عبداللہ بن مسعود اپنا خود واقعہ بیان کر رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے سورۃ نساء پڑھ کر سناؤ۔ میں نے عرض کی کہ میں بھلا کیا آپ کو سناؤں یہ آپ ہی پر تو نازل ہوئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے پسند ہے کہ کوئی دوسرا شخص تلاوت کرے اور میں سنوں ۔ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے پڑھنا شروع کیا اور جب اس آیت پر پہنچا کہ فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰؤُلَآءِ شَہِیْدًا(النساء:42)۔ پس کیا حال ہو گا جب ہم ہر ایک امت میں سے ایک گواہ لے کر آئیں گے اور ہم تجھے ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ روایات میں آتا ہے کہ آپ نے کہا بس کرو۔ (اسد الغابہ جلد 3صفحہ 384مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)،(صحیح البخاری کتاب فضائل القرآن باب قول المقری للقاری حسبک حدیث 5050)
ایک دفعہ حضرت عمر فاروق عرفات کے مقام پر ٹھہرے ہوئے تھے کہ ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ اے امیر المومنین!(ان کی خلافت کے بعد کی بات ہے) مَیں کوفہ سے آیا ہوں ۔ وہاں میں نے دیکھا ہے کہ ایک شخص بِنا دیکھے قرآن کی آیات کی املاء کرتا ہے۔ اس پر آپؓ نے غصہ کی حالت میں کہا کہ تیرا برا ہو ۔( عربوں کا انداز ہے۔) کون ہے وہ شخص؟ اس نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ عبداللہ بن مسعود۔ یہ سن کر حضرت عمر کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا یہاں تک کہ پہلی حالت میں واپس آ گئے۔ پھر فرمانے لگے کہ میں اس کام کا عبداللہ بن مسعود سے زیادہ کسی اور کو حقدار نہیں سمجھتا۔(مسند احمد بن حنبل جلد 1صفحہ 128 حدیث 175 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء) وہ بغیر دیکھے قرآن کریم لکھ سکتے ہیں ۔ حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رات کے وقت حضرت ابوبکرؓ اور میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس سے گزرے۔ وہ نوافل ادا کر رہے تھے اور ان میں قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے۔ قیام میں کھڑے تھے، تلاوت ہو رہی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر آپ کی تلاوت سننے لگے۔ پھر حضرت عبداللہ بن مسعود رکوع میں گئے پھر سجدہ کیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عبداللہ اب جو مانگو گے وہ تمہیں عطا کیا جائے گا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے رخصت ہو گئے اور فرمایا کہ جس شخص کی خوشی اس بات میں ہو کہ وہ قرآن کریم کو اس طرح تازگی سے پڑھے جس طرح وہ نازل کیا گیا تو اسے عبداللہ بن مسعود سے قرآن شریف پڑھنا چاہئے۔ مسند احمد بن حنبل میں یہ روایت ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 1صفحہ 156- 157 حدیث 265 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998)
حضرت عبدالرحمٰن بن یزید یہ روایت کرتے ہیں کہ ہم حضرت حذیفہ کے پاس گئے اور کہا کہ ہمیں ایسے شخص کا پتہ بتا دیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روش سے زیادہ قریب ہو، اس طریق پر چلنے والا ہو اور وہی کام کرنے والا ہو یا قریب ترین ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے تا کہ ہم اس سے علم حاصل کریں اور حدیثیں سنیں ۔ تو انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روش سے سب سے زیادہ قریب عبداللہ بن مسعود ہیں ۔(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 385مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) ان کا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے کے شوق و جذبہ کا یہ عالم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ سے جب یہ سوال کیا جاتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عادات و خصائل اور سیرت و شمائل کے لحاظ سے آپ کے صحابہ میں سے قریب ترین کون ہے جس کا طریق ہم بھی اختیار کریں تو حضرت حذیفہ بیان فرماتے تھے کہ میرے علم کے مطابق چال ڈھال، گفتگو اور اخلاق و اطوار کے لحاظ سے عبداللہ بن مسعود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نبی کریم فرماتے تھے کہ مجھے اپنی امّت کے لئے وہی باتیں پسند ہیں جو عبداللہ بن مسعود کو مرغوب ہیں ۔یہ بخاری کی حدیث ہے۔ (صحیح البخاری کتاب المناقب باب مناقب عبد اللہ بن مسعودؓ حدیث 3762)
حضرت علقمہ سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کو ان کے طریق، ان کے حسن سیرت اور ان کی میانہ روی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تشبیہہ دی جاتی تھی۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 114مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) حضرت عبداللہ بن مسعود کے بیٹے عبیداللہ بیان کرتے ہیں کہ آپ کی عادت تھی کہ جب رات کو لوگ سو جاتے تو وہ تہجد کے لئے اٹھتے۔ ایک رات میں نے انہیں صبح تک گنگناتے ہوئے سنا جیسے شہد کی مکھی گنگناتی ہے(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 386مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)، یعنی دعا میں ہلکی ہلکی گنگناہٹ کے ساتھ دعائیں کر رہے تھے یا تلاوت کر رہے تھے۔
حضرت علی سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں بغیر مشورے کے کسی کو امیر بناتا تو عبداللہ بن مسعود کو بناتا۔ (اسد الغابہ جلد 3صفحہ 385مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
پھر ایک جگہ حضرت علی کی یہی بات اس طرح بیان ہوئی ہے، طبقات الکُبْرٰی میں لکھا ہے کہ حضرت علی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اگر میں مسلمانوں کی مجلس شوریٰ کے علاوہ کسی اور کوامیر بناتا تو عبداللہ بن مسعود کو امیر بناتا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ میں اسلام قبول کرنے کے بعد کبھی بھی چاشت کے وقت نہیں سویا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 114مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
عبداللہ بن مسعود اپنے بیوی بچوں سے محبت رکھتے تھے۔ گھر میں داخل ہوتے تو کھنکھارتے اور بلند آواز سے کچھ بولتے تا کہ گھر کے لوگ باخبر ہو جائیں ۔ آپ کی اہلیہ حضرت زینب بیان کرتی ہیں کہ ایک روز عبداللہ گھر داخل ہوئے اس وقت ایک بوڑھی عورت مجھے تعویذ پہنا رہی تھی۔ عورتوں کو عادت ہوتی ہے بعض دفعہ کہ تعویذ گنڈا بھی کر لیں شاید برکت حاصل کرنے کے لئے تو ان کو پتہ تھا کہ عبداللہ بن مسعود کو یہ چیز پسند نہیں ہے۔ کہتی ہیں مَیں نے انکے ڈر سے اسے اپنے پلنگ کے نیچے چھپا دیا، جہاں بیٹھ کر کر رہی تھی۔ آپ میرے پاس آکر بیٹھ گئے اور میرے گلے کی طرف دیکھ کر پوچھا کہ یہ دھاگہ کیسا ہے جو تم نے گلے میں ڈالا ہوا ہے؟ مَیں نے کہا تعویذہے۔ انہوں نے اس کو توڑ کے اسی وقت پھینک دیا اور کہا کہ عبداللہ کا خاندان شرک سے بری ہے۔ پھر عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے کہ تعویذ گنڈے شرک میں داخل ہیں ۔ مَیں نے کہا یہ آپ کیا فرماتے ہیں ؟ میری آنکھیں جوش کر آتی تھیں تو میں فلاں یہودی سے تعویذ لینے جایا کرتی تھی۔ بعض دفعہ میری آنکھوں میں تکلیف ہوا کرتی تھی، آنکھیں پھول جاتی تھیں ، پانی نکلتا تھا تو میں تو یہودی سے اس کا تعویذ لیتی تھی اور اسکے تعویذ سے مجھے سکون ہو جاتا تھا۔ تو عبداللہ بن مسعود بولے کہ یہ سب شیطانی عمل ہے۔ تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا ہی کافی ہے اور وہ دعا یہ ہے کہ اَذْھِبِ الْبَاْسَ رَبَّ النَّاسِ اِشْفِ وَاَنْتَ الشَّافِیْ لَا شِفَاء اِلَّا شِفَاءُکَ شِفَائً لَا یُغَادِرُ سَقَمًا۔ اے لوگوں کے پروردگار میری تکلیف کو دور فرما تو شفا دے صرف تو ہی شفا دینے والا ہے تیری شفا کے سوا کوئی شفا کارگر نہیں ۔ ایسی شفا جو کسی بیماری کو نہ چھوڑے۔ (سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 225مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)
اب وہ لوگ جو پیروں فقیروں کے دروں پہ جاتے ہیں وہ لوگ جو سارا دن بھنگ اور چرس پی رہے ہوتےہیں ، کبھی نمازیں بھی نہیں پڑھتے اور ان سے تعویذ گنڈا کرا کے اور پھر کہتے ہیں کہ ہم صحت یاب ہو گئے یا ہم پہ بڑا فضل ہو گیا اور ہمیں اولاد مل گئی اور فلاں ہو گیا۔ یہ سب باتیں ان لوگوں کا جواب ہے۔
عبداللہ بن مسعود ایک دفعہ اپنے ایک دوست ابو عمیر سے ملنے گئے۔ اتفاق سے وہ موجود نہیں تھے تو انہوں نے ان کی بیوی کو سلام بھیجا اور پینے کے لئے پانی مانگا۔ گھر میں پینے کا پانی موجود نہیں تھا۔ انہوں نے ایک لونڈی کو کسی ہمسائے کے پاس بھیجا۔ اس سے پانی لینے گئی اور دیر تک واپس نہیں آئی۔ ابوعمیر کی بیوی نے اس کام کرنے والی لونڈی کو اس بات پر سخت سست کہا اور اس پر لعنت بھیجی۔ حضرت عبداللہ یہ سن کر پیاسے ہی واپس پلٹ گئے۔ دوسرے دن ابوعمیر سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اتنی جلدی واپس چلے جانے کی وجہ پوچھی کہ تم پانی پئے بغیر ہی چلے گئے؟ انہوں نے جواب دیا کہ تمہاری بیوی نے جب خادمہ پر لعنت بھیجی تھی تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات یاد آ گئی کہ جس پر لعنت بھیجی جاتی ہے اگر وہ بے قصور ہو تو لعنت بھیجنے والے پر واپس آ جاتی ہے۔ تو میں نے سوچا کہ خادمہ اگر بے قصور ہوئی تو میں بے وجہ اس لعنت کے واپس آنے کا باعث بنوں گا(سیر الصحابہ جلد 2صفحہ 223مطبوعہ دار الاشاعت کراچی) اس لئے بہتر ہے کہ میں چلا جاؤں اور پانی نہ پیوں ۔ تو خدا تعالیٰ کے خوف کا یہ حال تھا کہ کہیں شائبہ بھی ہو کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہو سکتی ہے کسی وجہ سے تو یہ لوگ اس سے بچتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود دبلے جسم پتلے قد اور گندم گوں رنگ کے مالک تھے لیکن لباس بڑا اچھا پہنتےتھے۔ سفید کپڑا پہنتے خوشبو لگاتے تھے۔ حضرت طلحہ سے مروی ہے کہ آپ اپنی خوشبو سے پہچانے جاتے تھے۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ116-117 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام کے لئے عبداللہ بن مسعود کو ایک درخت پر چڑھنے کا حکم دیا۔ صحابہ آپ کی دبلی اور بظاہر کمزور پنڈلیوں کو دیکھ کر ہنسی مذاق کرنے لگے، بڑی کمزور سی دبلی پتلی ٹانگیں تھیں ، ہنسی مذاق کرنے لگے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں ہنستے ہو؟ عبداللہ کی نیکیوں کا پلڑا قیامت کے دن احد پہاڑ سے بھی زیادہ وزنی ہو گا۔(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 385مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) حضرت عبداللہ بن مسعود کے بال ایسے تھے جن کو وہ اپنے کانوں تک اٹھاتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ کے بال گردن تک پہنچتے تھے۔ جب آپ نماز پڑھتے تو انہیں کانوں کے پیچھے کر لیتے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 117مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
زید بن وہب بیان کرتے ہیں کہ مَیں ایک دن حضرت عمر کے پاس بیٹھا ہوا تھا اتنے میں حضرت عبداللہ بن مسعود آئے۔ چونکہ وہ پست قد کے تھے اس لئے اور لوگ جو بیٹھے ہوئے تھے ان میں چھپنے کے قریب ہو گئے۔ان کا قد چھوٹا تھا۔ دوسرے لوگ بہت لمبے لمبے قد کے بیٹھے ہوئے تھے یا اس طرح بیٹھے ہوں گے کہ بیٹھنے کی وجہ سے چھپ گئے۔ قریباً چھپنے والے تھے یا صحیح نظر نہیں طرح آ رہے تھے۔ حضرت عمر نے جب ان کو دیکھا تو مسکرانے لگے۔ پھر حضرت عمر نے آپ سے ہی باتیں کیں اور ہنس ہنس کر باتیں کرنے لگے۔ اس دوران حضرت عبداللہ کھڑے رہے، جب باتیں کر رہے تھے حضرت عمر سے تو حضرت عبداللہ کھڑے ہو گئے تا کہ چھپیں نہ اور باتیں کرتے رہیں ۔ باتیں کرنے کے بعد جب حضرت عبداللہ وہاں سے چلے گئے تو حضرت عمر نے آپ کو جاتے ہوئے دیکھا اور پیچھے سے دیکھتے رہےیہاں تک کہ وہ نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ پھر حضرت عمر نے فرمایا کہ یہ شخص علم سے بھرا ہوا ایک بڑا برتن ہے ۔(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 386مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) حضرت ابن مسعود کے علمی مقام یعنی عبداللہ بن مسعود کے علمی مقام اور مرتبہ کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب حضرت معاذ بن جبل کی وفات کا وقت آیا اور ان سے درخواست کی گئی کہ ہمیں کوئی نصیحت کریں تو انہوں نے فرمایا کہ علم اور ایمان کا ایک مقام ہے جو بھی اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے کامیاب ہوتا ہے۔ پھر علم اور ایمان سیکھنے کے لئے حضرت معاذ بن جبل نے جن چار عالم با عمل بزرگوں کے نام لئے ان میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا نام بھی تھا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 7صفحہ 375حدیث 22455مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998)
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت عمر نے آپ کو اہل کوفہ کی تعلیم و تربیت کے لئے بطور مربی بھیجا جبکہ حضرت عمار بن یاسر کو حاکم بنا کر بھیجا۔ ساتھ ہی اہل کوفہ کو یہ بھی لکھا کہ یہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے چنیدہ لوگ ہیں ، بڑے خاص لوگ ہیں ، اہل بدر میں سے ہیں تم لوگ ان کی پیروی کرو، ان کے احکام کی اطاعت کرو اور ان کی باتیں سنو، مَیں نے عبداللہ بن مسعودکے متعلق اپنی ذات پر تمہیں ترجیح دی ہے۔(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 385مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب عبداللہ بن مسعود کی آخری بیماری تھی آپ کی عیادت کے لئے تشریف لائے اور پوچھا کہ کیا آپ کو کوئی شکایت ہے؟ تو انہوں نے عرض کیا شکایت پوچھتے ہیں میرے سے تو پھر شکایت مجھے اپنے گناہوں کی ہے کہ میں نے اتنے گناہ کئے ہیں ۔ پھر حضرت عثمان نے پوچھا کہ کیا آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ پروردگار کی رحمت چاہتا ہوں ۔ حضرت عثمان نے کہا کہ آپ کے لئے کوئی طبیب تجویز کر دوں ، کوئی ڈاکٹر تجویز کر دوں جو آپ کا علاج وغیرہ کرے۔ انہوں نے پھر عرض کی طبیب نے ہی تو مجھے بیمار بنایا ہے۔ یعنی کہ اللہ تعالیٰ کی رضا پہ میں راضی ہوں جو ہو رہا ہے۔ پھر حضرت عثمان نے کہا کہ کیا آپ کا وظیفہ مقرر کر دوں ؟ تو کہنے لگے مجھے اس کی ضرورت نہیں ۔ حضرت عثمان نے کہا کہ آپ کی لڑکیوں کے کام آئے گا۔ کہنے لگے کیا آپ کو میری لڑکیوں کے محتاج ہو جانے کا خدشہ ہے جو یہ بات کی ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ مَیں نے اپنی بیٹیوں کو حکم دے رکھا ہےکہ ہر شب سورۃ واقعہ پڑھ لیا کرو۔ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے کہ جو بھی ہر روز رات کو سورۃ واقعہ پڑھ لیا کرے اسے کبھی فاقے کی مصیبت پیش نہ آئے گی۔(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 386-387مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) یہ تھا توکل علی اللہ اور قناعت کی حالت ان چمکتے ستاروں کی۔
سلمیٰ بن تمام کہتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے ملاقات کی اور اپنی ایک خواب بیان کرتے ہوئے کہنے لگا کہ میں نے رات آپ کو خواب میں د یکھا ہے اور یہ کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونچے منبر پر بیٹھے ہیں اور آپ اس منبر کے نیچے ہیں ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے ہیں کہ اے ابن مسعود میرے پاس آ جاؤ تم نے میرے بعد بڑی بے رغبتی اختیار کر لی ہے۔ عبداللہ بن مسعود نے پوچھا کہ خدا کی قسم کیا تو نے یہ خواب دیکھا ہے؟ اس نے شخص نے کہا ہاں ۔ پھر اس پر آپ نے فرمایا کہ کیا تو مدینہ سے میری نماز جنازہ پڑھنے آیا ہے؟ پھر اس کا مطلب ہے اب تو میرا وقت قریب ہی ہے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی ان کی وفات ہو گئی(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 386مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) لیکن وفات سے قبل حضرت عثمان کو جب ان کی بیماری کا علم ہوا تو آپ کو کوفہ سے مدینہ بلوا لیا۔ کوفہ کے لوگوں نے آپ کو کوفہ ہی میں رکنے کا کہا اور یہ بھی کہا کہ ہم آپ کی حفاظت کریں گے۔شایدبیماری نہ تھی لیکن ویسے ہی حضرت عثمان نے ان کو بلا لیا تھا۔ بہرحال وہ تو صحت کی حالت میں لگ رہا تھا کہ جب اس شخص نے خواب سنائی۔ اس کے بعد پھر یہ واقعہ ہوا کہ حضرت عثمان نے ان کو کوفہ سے بلوا لیا باوجود اس کے کہ کوفہ کے لوگ یہی چاہتے تھے کہ آپ وہیں رکے رہیں اور یہ کہا کہ ہم آپ کی حفاظت کریں گے لیکن آپ نے فرمایا کہ خلیفہ وقت کا حکم اور ان کی اطاعت میرے لئے ضروری ہے۔ پھر آپ نے یہ بھی کہا کہ عنقریب کچھ فتنے ہوں گے اور میں نہیں چاہتا کہ فتنوں کا شروع کرنے والا مَیں ہوں ۔ یہ کہہ کر خلیفہ وقت کے پاس چلے آئے۔ آپ کی وفات 32 ہجری میں مدینہ میں ہوئی۔ حضرت عثمان نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔ وفات کے وقت آپ کی عمر 60 سال سے کچھ زیادہ تھی۔ (اسد الغابہ جلد 3صفحہ 387مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
ایک اور روایت کے مطابق وفات کے وقت آپ کی عمر 70 برس سے کچھ زائد تھی۔(طبقات الکبریٰ مترجم از عبد اللہ العمادی حصہ سوم صفحہ 230 مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی) حضرت عبداللہ بن مسعود کی وفات پر حضرت ابو موسیٰ نے حضرت ابو مسعود سے کہا کہ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے اپنے بعد ایسی خوبیوں والا اور کوئی شخص پیچھے چھوڑا ہے؟ حضرت ابو مسعود کہنے لگے کہ بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں جب ہمیں جانے کی اجازت نہ ہوتی اس وقت حضرت عبداللہ بن مسعود کو داخل ہونے کی اجازت ملتی تھی۔ اور جب ہم آپ کی مجلس سے غائب ہوتے اس وقت حضرت عبداللہ بن مسعود خدمت کی توفیق پاتے اور آپؐ کی صحبتوں سے فیضیاب ہوتے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کوئی اور شخص ان کی خوبیوں والا ہو۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 119مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) حضرت عبداللہ بن مسعود سنت نبوی پر خوب کاربند تھے۔ ایک دفعہ حضرت عائشہ سے پوچھا گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو صحابہ میں سے ایک صحابی روزہ افطار کرنے میں جلدی کرتا ہے یعنی غروب آفتاب کے ساتھ ہی افطار کرتے ہیں اور نماز بھی غروب آفتاب کے فوراً بعد جلدی ادا کرتے ہیں جبکہ دوسرے صحابی یہ دونوں کام نسبتاً دیر سے کرتے ہیں ۔ حضرت عائشہ نے پوچھا کہ جلدی کون کرتا ہے تو انہیں بتایا گیا کہ عبداللہ بن مسعود ایسا کرتے ہیں تو حضرت عائشہ نے اس پر فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی دستور تھا جو عبداللہ بن مسعود کرتے ہیں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی عمل تھا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 8صفحہ 51حدیث 24716مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے بارے میں بزرگ صحابہ کہا کرتے تھے کہ عبداللہ بن مسعود اللہ تعالیٰ سے قرب اور تعلق میں غیر معمولی مقام رکھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جن صحابہ کے نمونے کو مشعل راہ بنانے کے لئے بطور خاص ہدایت فرماتے تھے ان میں حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ کے علاوہ عبداللہ بن مسعودؓ کا نام بھی شامل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ عبداللہ بن مسعود کا طریق مضبوطی سے پکڑو۔(جامع الترمذی ابواب المناقب باب مناقب عبد اللہ بن مسعودؓ حدیث3805) ایک روایت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خاص اعتماد تھا آپ پر اور عبداللہ بن مسعودؓ کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ایک غیر معمولی عشق تھا۔ ان کے بعض واقعات میں نے بیان بھی کئے تھے۔ اَور بھی واقعات ہیں ، بعض دفعہ ملتے جلتے واقعات ہیں لیکن مختلف زاویوں سے بیان کئے گئے ہیں ۔
ان کے بارے میں لکھا ہے کہ باطنی لحاظ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نے حضرت ابن مسعود یعنی عبداللہ بن مسعود کو ایک متقی، پرہیز گار اور عبادت گزار انسان بنا دیا تھا۔ عبادت اور نوافل سے ایسی رغبت تھی کہ فرض نمازوں اور تہجد کے علاوہ چاشت کے وقت کی نماز کا بھی اہتمام فرماتے تھے۔ اسی طرح ہر سوموار اور جمعرات کو نفلی روزہ رکھتے تھے اور پھر بھی یہ احساس غالب رہتا تھا کہ وہ کم روزے رکھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرمایا کرتے تھے کہ تہجد وغیرہ کی ادائیگی کے لئے بدن میں کمزوری محسوس ہونے لگتی ہے۔ (تہجد بھی بڑی لمبی اور غیر معمولی پڑھنے والے تھے اور اگر حقیقت میں حق ادا کرتے ہوئے نوافل اور تہجد اد اکی جائے تو انسان بڑی کمزوری محسوس کرتا ہے۔) اس لئے فرماتے تھے کہ نماز کو روزے پر ترجیح دیتے ہوئے نسبتاً کم نفلی روزوں کا اہتمام کرتا ہوں ۔(سیرت صحابہ رسول ﷺاز حافظ مظفر احمد صفحہ283 نظارت اشاعت ربوہ 2009ء)
ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختصر خطاب کے بعد حضرت ابو بکرؓ سے فرمایا کہ اب وہ لوگوں سے وعظ کریں ، یعنی حضرت ابوبکر وعظ کریں ۔ حضرت ابوبکر نے مختصر وعظ کیا پھر حضرت عمر سے فرمایا۔ انہوں نے حضرت ابوبکر سے بھی مختصر وعظ کیا۔ پھر کسی اور شخص سے فرمایا تو اس نے لمبی تقریر شروع کر دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ یا فرمایا خاموش ہو جاؤ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن مسعودؓ سے تقریر کے لئے فرمایا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا کی اس کے بعد صرف یہ کہا کہ اے لوگو! اللہ ہمارا رب ہے، قرآن ہمارا رہنما ہے، بیت اللہ ہمارا قبلہ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے نبی ہیں ۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم اللہ کے رب ہونے اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہیں اور مجھے تمہارے لئے وہ پسند ہے جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ ابن مسعود نے درست کہا اور مجھے بھی اپنی امت کے لئے وہ پسند ہے جو ابن مسعود نے پسند کیا۔(سیرت صحابہ رسول ﷺاز حافظ مظفر احمد صفحہ284-285 نظارت اشاعت ربوہ 2009)
حضرت علی جب کوفہ میں تشریف لے گئے تو آپ کی مجلس میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا کچھ تذکرہ ہوا۔ یہ وہاں پہلےرہ چکے تھے۔ لوگوں نے ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اے امیر المؤمنین! ہم نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے بڑھ کر اعلیٰ اخلاق والا اور نرمی سے تعلیم دینے والا اور بہترین صحبت اور مجلس کرنے والا اور انتہائی خداترس اور کوئی نہیں دیکھا۔ حضرت علی نے بغرض آزمائش ان سب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ سچ سچ بتاؤ کہ عبداللہ بن مسعود کے متعلق یہ گواہی صدق دل سے دیتے ہو۔ سب نے کہا ہاں ۔ اس پر حضرت علی نے فرمایا کہ اے اللہ! گواہ رہنا۔ اے اللہ! میں بھی عبداللہ بن مسعود کے بارے میں یہی رائے رکھتا ہوں جو ان لوگوں کی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ بہتر رائے رکھتا ہوں ۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3صفحہ115 ومن حلفاء بنی زھرہ بن کلاب… ’’عبد اللہ بن مسعود‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت1990ء)
حضرت عبداللہ بن مسعود نے اپنے دینی بھائی حضرت زبیر بن العوام کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم فرمودہ مؤاخات کا حق بھی خوب ادا کیا۔ ان پر کامل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے یہ وصیت فرمائی کہ میرے جملہ مالی امور کی نگرانی اور سپردداری، یعنی تمام کام جو ہیں ان کو سنبھالنا جومیری جائیداد پیچھے رہ جائے گی، حضرت زبیر بن العوام اور ان کے صاحبزادے عبداللہ بن زبیر کے ذمہ ہو گی اور خاندانی معاملات میں ان کے فیصلے قطعی اور نافذ العمل ہوں گے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد3صفحہ118 ومن حلفاءبنی زھرہ بن کلاب… ’’عبد اللہ بن مسعود‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت1990ء)
ابووائل سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ایک شخص کی تہہ بند ٹخنوں سے نیچے دیکھی تو اسے ٹخنوں سے اوپر کرنے کا کہا۔ اس پر اس شخص نے جواباً آپ سے کہا کہ آپ بھی اپنی تہہ بندٹخنوں سے اوپرکریں ۔ آپ نے فرمایا کہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں ۔ میری پنڈلیاں باریک ہیں اور میں دبلا بھی ہوں ۔ حضرت عمرؓ کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو انہوں نے اس شخص کو حضرت ابن مسعود سے اس طرح مخاطب ہونے اور جواب دینے کے سبب سزا بھی دی۔(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد4صفحہ201 ’’عبد اللہ بن مسعود‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت1995ء) یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس شخص میں تکبر ہو اور اس زمانے میں تکبر کی وجہ سے کپڑے لمبے رکھنے کا رواج تھا تو اس پر انہوں نے اس کو سمجھایا ہو اور اس نے بغیر دیکھے کہ یہ کتنے عاجز شخص ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر کتنا عمل کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی کس قدر خشیت ہے آگے سے یہ جواب دیا اور حضرت عمر کو جب پتہ لگا تو آپ نے اس کی سرزنش کی۔
حضرت عبداللہ بن مسعود کی اطاعتِ رسول کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ایک جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ حدیثوں میں ایک واقعہ آتا ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ اُن میں کس قدر فرمانبرداری کی روح پائی جاتی تھی۔ بظاہر وہ ایک ایسی بات ہے جسے سن کر کوئی انسان کہہ سکتا ہے یہ کیسی بیوقوفی کی بات ہے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا( حضرت خلیفۃ ثانی کہتے ہیں ) کہ ان کی ترقی کا راز اسی میں مضمر تھا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے جب کوئی حکم سنتے تو اسی وقت اس پر عمل کرنے کے لئے آمادہ ہو جاتے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اس کو بیان کر رہے ہیں کہ احادیث میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کی طرف آ رہے تھے تو آپ ابھی گلی میں ہی تھے کہ آپ کے کانوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ آواز آئی کہ بیٹھ جاؤ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہجوم زیادہ ہو گا اور کچھ لوگ کناروں پر کھڑے ہوں گے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ جو ابھی مجلس میں نہیں پہنچے تھے اور گلی میں انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ آواز سنی تو وہیں بیٹھ گئے اور بیٹھے بیٹھے جیسے بچے چلتے ہیں گھسٹ گھسٹ کر مسجد میں پہنچے۔ کسی شخص نے جو اس راز کو نہیں سمجھتا تھا کہ اطاعت اور فرمانبرداری کی روح ہی دنیا میں قوموں کو کس طرح کامیاب کرتی ہے جب حضرت عبداللہ بن مسعود کو اس طرح چلتے دیکھا تو اس نے اعتراض کیا اور کہا کہ یہ کیسی بیوقوفی کی بات ہے۔ وہ اس کو بیوقوفی سمجھ رہا تھا۔ اس کو یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ قوموں کی ترقی کے لئے اصل چیز اطاعت ہے۔ بہرحال اس نے اس کو کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب تو یہ تھا کہ مسجد میں جو لوگ کناروں پر کھڑے ہیں وہ بیٹھ جائیں مگر آپ گلی میں ہی بیٹھ گئے ہیں اور گھسٹتے ہوئے مسجد میں آئے ہیں ۔ آپ کو چاہئے تھا کہ جب مسجد پہنچتے تو اس وقت بیٹھتے، گلی میں بیٹھ جانے کا کیا فائدہ تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے جواب دیا ہاں ہو تو سکتا تھا لیکن اگر مسجد پہنچنے سے پہلے ہی میں مر جاتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم میرے عمل میں نہ آتا اور کم سے کم ایک بات ایسی ضرور رہ جاتی جس پر میں نے عمل نہ کیا ہوتا۔ اب یہ شوق تھا ان لوگوں کا کہ کوئی بات جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلے یہ نہ ہو کہ ہم اس پر عمل نہ کریں ۔ اس پر انہوں نے کہا میں نے یہ بات سنی اور مجھے یہ فکر پیدا ہوئی کہ اگر میں اس دوران مر جاتا تو پھر میرے نامہ اعمال میں کہیں یہ نہ لکھا جائے کہ یہ ایک آخری بات تھی جس پر تم نے سننے کے باوجود عمل نہیں کیا۔ تو بہرحال انہوں نے اس سے کہا کہ اس لئے میں نے مناسب نہ سمجھا کہ میں چلتا ہوا آؤں اور پھر مسجد میں آ کر بیٹھوں ۔ میں نے خیال کیا کہ زندگی کا کیا اعتبار ہے شاید میں مسجد میں پہنچوں یا نہ پہنچوں اس لئے ابھی بیٹھ جانا چاہئے تا کہ اس حکم پر بھی عمل ہو جائے۔ یہ لوگ اتنی باریکی سے چیزوں کو دیکھنے والے تھے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ مزید لکھتے ہیں کہ انہی عبداللہ بن مسعودؓ کا واقعہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں ایک دفعہ حج کے ایام میں مکّہ مکرمہ میں چار رکعتیں پڑھیں ۔ حج پر گئے ہوئے تھے، قیام تھوڑا تھا، وہاں چار رکعتیں پڑھیں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب حج کے لئے تشریف لائے تھے تو آپ نے وہاں دو رکعتیں پڑھی تھیں کیونکہ مسافر کو دو رکعت نماز پڑھنے کا ہی حکم ہے۔ پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے زمانہ خلافت میں تشریف لائے تو آپ نے بھی دو ہی رکعتیں پڑھیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ حج کے لئے تشریف لائے تو انہوں نے بھی دو ہی پڑھیں یعنی قصرنماز کا جہاں حکم ہے وہاں قصر کی مگر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چار رکعتیں پڑھا دیں ۔ اس پر لوگوں میں ایک شور برپا ہو گیا، بڑا شور مچایا لوگوں نے اور انہوں نے کہا کہ حضرت عثمانؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو بدل دیا ہے۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ کے پاس لوگ آئے اور انہوں نے دریافت کیا کہ آپ نے چار رکعتیں کیوں پڑھی ہیں ؟ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ میں نے ایک اجتہاد کیا اور وہ یہ اجتہاد تھا کہ اب دور دور کے لوگ مسلمان ہو گئے ہیں ۔ بہت سے لوگ دور دور سے حج کے لئے بھی آنے لگ گئے ہیں اور ان میں سے اکثر کو اب اسلامی مسائل اتنے معلوم نہیں جتنے پہلے لوگوں کو معلوم ہوا کرتے تھے۔ اب وہ صرف ہمارے افعال کو دیکھتے ہیں ۔ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ہم پرانے مسلمان کیا کر رہے ہیں ، اور جس رنگ میں وہ ہمیں کوئی کام کرتا دیکھتے ہیں اسی رنگ میں خود کرنے لگ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہی اسلام کا حکم ہے۔ یہ لوگ چونکہ مدینہ میں بہت کم آتے ہیں اور انہیں وہاں رہ کر ہماری نمازیں دیکھنے کا موقع نہیں ملتا تو اس لئے میں نے یہی خیال کیا کہ اب حج کے موقع پر انہوں نے مجھےدو رکعت نماز پڑھتے دیکھا، قصر کرتے دیکھا تو اپنے علاقے میں جاتے ہی کہنے لگ جائیں گے کہ خلیفہ کو ہم نے دو رکعت نماز پڑھاتے دیکھا ہے اس لئے اسلام کا اصل حکم یہی ہے کہ دو رکعت نماز پڑھی جائے۔حضرت عثمانؓ نے کہا کہ جب یہ اپنے علاقے میں جا کے بتائیں گے تو لوگ چونکہ اس بات سے ناواقف ہوں گے کہ دو رکعت نماز سفر کی وجہ سے پڑھی گئی ہے اس لئے اسلام میں اختلاف پیدا ہو جائے گا اور لوگوں کو ٹھوکر لگے گی۔ یہ حضرت عثمانؓ نے اجتہاد کیا۔ تو حضرت عثمانؓ نے کہا پس میں نے مناسب سمجھاکہ چار رکعت نماز پڑھا دوں تا کہ نماز کی چار رکعت انہیں نہ بھولیں ۔ باقی رہا یہ کہ میرے لئے چار رکعت پڑھنا جائز کس طرح ہو گیا۔ اس کا بھی حضرت عثمانؓ نے جواب دیا کہ میں نے کیوں چار رکعت پڑھیں اور کیوں میرے لئے یہ جائز ہے۔ آپ نے اس کا جواب دیا کہ میں نے یہاں شادی کی ہوئی ہے، مکہ میں میری شادی ہوئی ہوئی ہے اور بیوی کا سارا خاندان وہاں تھا ،سسرال وہیں تھا۔ چونکہ بیوی کا وطن بھی اپنا ہی وطن ہوتا ہے، اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ مسافر نہیں ہوں اور مجھے پوری نماز پڑھنی چاہئے۔
اپنے اجتہاد کی یہ ایک اور دلیل انہوں نے دی۔ غرض حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چار رکعت نماز پڑھانے کی یہ وجہ بیان فرمائی اور اس توجیہہ کا مقصد آپ نے یہ بتایا کہ باہر کے لوگوں کو دھوکہ نہ لگے اور وہ اسلام کی صحیح تعلیم کو سمجھنے میں ٹھوکر نہ کھائیں ۔ ان کی یہ بات بھی بڑی لطیف تھی، بڑی باریک گہری بات تھی اور جب صحابہ نے سنی تو اکثر لوگ سمجھ گئے اور بعض نہ سمجھے مگر خاموش رہے۔ مگر دوسرے لوگوں نے جو فتنہ پیدا کرنے والے تھے انہوں نے شور مچا دیا اور کہنا شروع کر دیا کہ حضرت عثمانؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف عمل کیا ہے۔ چنانچہ جو لوگ شور مچانے والے تھے، فتنہ پرداز تھے انہی میں سے کچھ لوگ حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس بھی پہنچے اور کہنے لگے آپ نے دیکھا کہ آج کیا ہوا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا کیا کرتے تھے اور عثمان ؓنے آج کیا کیا۔ ان لوگوں نے عبداللہ بن مسعودؓکوکہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو حج کے دنوں میں مکہ آکر صرف دو رکعتیں پڑھایا کرتے تھے مگر حضرت عثمانؓ نے چار رکعتیں پڑھائیں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے یہ سن کر کہا کہ دیکھو ہمارا کام یہ نہیں کہ ہم فتنہ اٹھائیں کیونکہ خلیفہ وقت نے کسی حکمت کے ماتحت ہی ایسا کام کیا ہو گا، کوئی حکمت ہو گی جو ہمیں سمجھ نہیں آئی۔ پس تم فتنہ نہ اٹھاؤ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ مَیں نے بھی ان کی اقتداء میں چار رکعتیں ہی پڑھی ہیں ۔ مَیں بھی نماز پڑھنے والوں میں شامل تھا اور میں نے بھی چار رکعتیں ہی پڑھی ہیں مگر نماز کے بعد میں نے ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ لی کہ خدایا تو ان چار رکعتوں میں سے میری وہی دو رکعتیں قبول فرمانا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم پڑھا کرتے تھے اور باقی دو رکعتوں کو میری نماز نہ سمجھنا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں یہ کیسا عشق کا رنگ ہے جو حضرت عبداللہ بن مسعود میں پایا جاتا تھا کہ انہوں نے چار رکعتیں پڑھ تو لیں مگر انہیں وہ ثواب بھی پسند نہ آیا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پڑھی ہوئی دو رکعتوں سے زیادہ تھا اور دعا مانگی کہ الٰہی دو رکعتیں ہی قبول فرمانا چار نہ قبول کرنا۔ اب جو مقتدی تھے انہوں نے تو خلیفہ وقت کے پیچھے چار رکعتیں پڑھیں اور اطاعت میں پڑھ لیں ۔ نماز کا بھی ثواب ہے، اطاعت کا بھی ثواب ہے لیکن عبداللہ بن مسعود کا اپنا ایک نظریہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ اطاعت میں نے کر لی لیکن اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ میں یہ نہیں چاہتا کہ اس سے زیادہ ثواب لوں جتنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے نمازیں پڑھ کے، ہمیں حاصل کرنے والا بنایا اور اس لئے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ دو رکعتوں کا قبول کرنا۔
اور پھر حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ پھر خلافت کی اطاعت کا بھی اس میں کیسا عمدہ نمونہ پایا جاتا ہے۔ ان کو معلوم نہ تھا کہ حضرت عثمانؓ نے کس وجہ سے دو کی بجائے چار رکعتیں پڑھی ہیں حالانکہ یہ وجہ ایسی ہے جسے بہت سے لوگ صحیح قرار دیتے ہیں ۔ وہ بیوی کے گھر جاتے ہیں تو اسے سفر نہیں سمجھتے، بیٹے کے گھر جاتے ہیں تو اسے سفر نہیں سمجھتے، ماں باپ کے گھر جاتے ہیں تو اسے سفر نہیں سمجھتے پس یہ مسئلہ ٹھیک تھا۔ اور پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ احتیاط کہ باہر کے لوگوں کو دھوکہ نہ لگے اور اسلام میں کوئی رخنہ نہ پڑ جائے ان کے اعلیٰ درجہ کے تقویٰ کا ثبوت تھا۔ حضرت عثمانؓ کا بھی یہ بڑا اعلیٰ درجہ کا تقویٰ تھا، نیت تھی کہ ٹھوکر نہ لگے مگر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو اس وقت تک اس حکمت کا علم نہیں تھا کہ کیا وجہ تھی حضرت عثمانؓ کی چار رکعتیں پڑھنے کی لیکن انہوں نے یہ نہیں کیا کہ نماز چھوڑ دی ہو۔ بلکہ انہوں نے نماز بھی پڑھ لی اور خلافت کی اطاعت بھی کر لی اور بعد میں خدا تعالیٰ کے حضور عرض کر دیا کہ یا اللہ! میری دو رکعتیں ہی قبول ہوں چار نہ ہوں ۔ یہ کیسی فرمانبرداری اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم بہ قدم چلنے کی روح تھی جو ان میں پائی جاتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ باوجود اس بات کے کہ صحابہ بالکل اَن پڑھ تھے، سارے مکہ میں کہا جاتا ہے کل سات آدمی پڑھے لکھے تھے لیکن ساری دنیا پہ یہ لوگ چھا گئے۔(ماخوذ از خطبات محمود جلد22 صفحہ106تا 109) پس یہ اطاعت تھی جس سے وہ مقام ان کو حاصل ہوا اور فتحیاب ہوئے۔ پس یہ خاص نکتہ بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کے اس عمل سے خلیفہ وقت کی اطاعت کا بھی اظہار ہو گیا اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ مقام کا بھی اظہار ہو گیا۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر حضرت عبداللہ بن مسعود کے طریق کی ہمیشہ تعریف فرمائی اور یہی حقیقی طریقہ ہے فتنوں سے بچنے کا۔ پس یہ وہ اسوہ ہے جو ہر احمدی کے لئے مشعل راہ ہے۔
ایک دفعہ حضرت عمرؓ رات کے وقت ایک قافلہ سے ملے۔ اندھیرے کی وجہ سے اہل قافلہ کو دیکھنا ممکن نہ تھا۔ اس قافلہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود بھی موجود تھے۔ حضرت عمرؓ نے ایک آدمی کو قافلہ والوں سے پوچھنے کے لئے بھیجا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں ؟ اس آدمی کے استفسار پر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے جواب دیا۔ فَجُّ الْعَمِیْق۔ یعنی دور کے راستے سے۔ پھر پوچھا کہاں جا رہے ہو تو جواب انہوں نے دنیا کہ بَیْت الْعَتِیْق۔ یعنی خانہ کعبہ جا رہے ہیں ۔ حضرت عمر نے پوچھا کہ ان لوگوں میں کوئی عالم ہے؟ پھر ایک آدمی کو حکم دیا کہ ان کو آواز دیکر پوچھو کہ قرآن کریم کی سب سے عظیم آیت کون سی ہے۔ اس قافلے میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ تھے انہوں نے ہی اس شخص کو جواب دیا، حضرت عمرؓ کے پوچھوانے پر کہ کونسی آیت عظیم آیت ہے کہ اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ۔لَا تَأْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ(البقرۃ:256)۔ (آیت الکرسی)۔پھر پوچھا کہ قرآن کریم کی محکم ترین آیت کون سی ہے۔ تو یہ روایت میں آتا ہے کہ عبداللہ بن مسعودؓ نے جواب دیا اِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبیٰ(النحل:91) حضرت عمرؓ نے اس آدمی سے یہ پوچھنے کا کہا کہ قرآن کی جامع ترین آیت کون سی ہے؟ اس پر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے یہ جواب دیا۔ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ۔ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ۔(الزلزال:9-8) پھر پوچھو کہ قرآن کریم کی خوفناک ترین آیت کون سی ہے ۔ اس پر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے یہ آیت بتائی کہ لَیْسَ بِاَمَانِیِّکُمْ وَ لَآ اَمَانِیِّ اَہْلِ الْکِتٰبِ۔ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا یُّجْزَ بِہٖ۔ وَ لَا یَجِدْ لَہٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا(النساء:124) حضرت عمرؓ فاروق نے کہا کہ ان سے پوچھو کہ قرآن کریم کی سب سے امید افزا آیت کون سی ہے؟ جس پر عبداللہ بن مسعودؓ نے جواب دیا کہ قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ۔ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا۔ اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۔ (الزّمر:54)یہ ساری باتیں سننے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ان سے پوچھو کہ کیا تمہارے درمیان عبداللہ بن مسعودؓ ہیں ؟ قافلہ کے لوگوں نے کہا کیوں نہیں ! اللہ کی قسم ہمارے درمیان موجود ہیں ۔ حضرت عمرؓ کو اس بات کا علم تھا کہ آپ علم فقہ سے لبریز ہیں (ماخوذ از نقوش صحابہ از خالد محمد خالد ترجمہ وتہذیب ارشاد الرحمن صفحہ68-69 مطبع عرفان افضل پریس بند روڈ لاہور)اور یہ سارے جواب سن کے حضرت عمرؓ کو یقینا ًپتہ لگ گیا ہو گاکہ عبداللہ بن مسعودؓ ہی ایسے عالمانہ جواب دے سکتے ہیں ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ بدر کے دن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا کہ تم ان قیدیوں کے بارے میں کیاکہتے ہو؟ حضرت ابوبکر نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ لوگ آپ کی قوم اور آپ کے خاندان سے ہیں ۔ ان کو معاف فرما کر نرمی کا معاملہ فرمائیں شاید اللہ تعالیٰ ان کو توبہ کی توفیق عطا فرمائے۔ پھر حضرت عمرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں نے آپ کو جھٹلایا اور تنگ کیا ہے آپ ان کی گردنیں اڑا دیں ۔ پھر حضرت عبداللہ بن رواحہ نے رائے پیش کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ گھنے درختوں والا جنگل تلاش کریں اور ان کو اس میں داخل کر کے آگ لگا دیں ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کی رائے سنی مگر کوئی فیصلہ نہ فرمایا اور اپنے خیمے میں تشریف لے گئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ لوگ آپس میں باتیں کرنے لگ گئے کہ اب دیکھیں کس کی رائے پر عمل ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم خیمہ سے باہر تشریف لائے اور فرمانے لگے اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کے دلوں کو اتنا نرم فرما دیتا ہے کہ وہ دودھ سے بھی زیادہ نرم ہو جاتے ہیں اور بعض لوگوں کے دلوں کو اتنا سخت کر دیتا ہے کہ وہ پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو جاتے ہیں اور اے ابوبکر! تمہاری مثال حضرت ابراہیم جیسی ہے انہوں نے فرمایا تھا کہ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (ابراھیم:37) کہ پس جس نے میری پیروی کی تو وہ یقیناً مجھ سے ہے اور جس نے میری نافرمانی کی تو یقیناً تُو بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ پھر یہ بھی فرمایا کہ ابوبکر تمہاری مثال حضرت عیسیٰؓ جیسی ہے انہوں نے فرمایا تھا کہ اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ ۔ وَ اِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ(المائدۃ:119)کہ اگر تو انہیں عذاب دے تو آخر یہ تیرے بندے ہیں ، اگر تُو انہیں معاف کر دے تو یقیناً تُو کامل غلبہ والا اور حکمت والا ہے۔ اور حضرت عمرؓ کو کہا کہ تمہاری مثال حضرت نوح علیہ السلام جیسی ہے جیسے انہوں نے فرمایا تھا رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا۔(نوح:27)کہ اے میرے رب! کافروں میں سے کسی کو زمین میں بستا ہوا نہ رکھ اور پھر حضرت عمرؓ کو یہ بھی فرمایا کہ تمہاری حضرت موسیٰ ؑجیسی مثال ہے جنہوں نے فرمایا تھا کہ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰٓی اَمْوَالِہِمْ وَ اشْدُدْ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْا حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ(یونس:89) کہ اے ہمارے رب ان کے اموال برباد کر دے اور ان کے دلوں پر سختی کر پس وہ ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھ لیں ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چونکہ تم ضرورت مند ہو اس وجہ سے قیدیوں میں سے ہر قیدی یا تو فدیہ دے گا یا پھر اس کی گردن اڑا دی جائے گی۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم کی تعمیل سے سہل بن بیضاء کو مستثنیٰ قرار دیا جائے کیونکہ میں نے ان کو اسلام کا بھلائی کے ساتھ تذکرۃ کرتے ہوئے سنا ہے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ اس دن جتنا مجھے اپنے اوپر آسمان سے پتھروں کے برسنے کا ڈر لگا اتنا مجھے کبھی نہیں لگا۔ آخر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما ہی دیا کہ اس کو مستثنیٰ کیا جاتا ہے۔(ماخوذ از چار عبد اللہؓ از علامہ مفتی محمد فیاض چشتی صفحہ34-36 شاکر پبلیکیشنز اردو بازار لاہور2017ء)آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خاموش رہنا انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی پر محمول کیا اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کے خوف سے اور اللہ تعالیٰ کی سزا کے ڈر سے ان کی حالت غیر ہو گئی۔ عجیب مقام تھا ان کا خشیت اللہ کا۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق حضرت ابن مسعود صرف جمعرات کے روز وعظ فرمایا کرتے تھے جو بہت ہی مختصر اور جامع ہوتا تھا اور ان کا بیان ایسا دلچسپ اور شیریں ہوتا تھا کہ حضرت عبداللہ بن مِرداس بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ جب تقریر ختم کرتے تھے تو ہماری خواہش ہوتی تھی کہ کاش ابھی وہ کچھ اور بیان کرتے۔ شام کے وقت اس وعظ میں بالعموم آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں سے صرف ایک حدیث سنایا کرتے تھے اور حدیث بیان کرتے وقت آپ کے جذب و شوق اور عشق رسولؓ کا منظر دیدنی ہوتا تھا۔ آپ کے شاگرد مسروق کہتے ہیں کہ ایک روز آپ نے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سنائی اور جب ان الفاظ پر پہنچے کہ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ… کہ میں نے خدا کے رسول سے سنا تو مارے خوف اور خشیت سے آپ کے بدن پر ایک لرزہ طاری ہو گیا۔ یہانتک کہ آپ کے لباس سے بھی جنبش محسوس ہونے لگی۔ اس کے بعد احتیاط کی خاطر یہ بھی فرمایا کہ شاید حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاط فرمائے تھے یا اس سے ملتے جلتے الفاظ۔ حدیث بیان کرتے وقت آپ کمال درجہ احتیاط برتتے تھے۔ یہ اس وعید اور گرفت کی وجہ سے معلوم ہوتی ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ غلط احادیث بیان کرنے والوں کی پکڑ ہو گی۔
ایک اور روایت سے بھی اس احتیاط کا اندازہ ہوتا ہے۔ عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں کہ میں ایک سال تک حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس آتا جاتا رہا۔ وہ حدیث بیان کرنے میں بہت احتیاط سے کام لیتے۔ ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی اللہ کے رسول نے فرمایا کے الفاظ کہہ کر آپ پر ایک عجیب کرب کی کیفیت طاری ہو گئی اور پیشانی سے پسینہ گرنے لگا پھر فرمانے لگے کہ اسی قسم کے الفاظ اور اس سے ملتے جلتے الفاظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے تھے۔(سیرت صحابہ رسول ﷺاز حافظ مظفر احمد صفحہ283-284 نظارت اشاعت ربوہ 2009ء) آپ کی خدا خوفی کا یہ عالم تھا کہ فرمایا کرتے تھے کہ میں چاہتا ہوں کہ مرنے کے بعد اٹھایا نہ جاؤں اور حساب کتاب سے بچ جاؤں ۔
حضرت عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن مسعود بیمار ہوئے تو سخت خوفزدہ ہو گئے۔ ہم نے پوچھا کہ آپ کو کبھی کسی بیماری میں اتنا پریشان نہیں دیکھا جتنا اس میں ہیں ۔ فرمانے لگے یہ بیماری مجھے اچانک آ لگی ہے۔ مَیں ابھی خود کو آخرت کے سفر کے لئے تیار نہیں پاتا اس لئے پریشان ہوں ۔ آپ نے اپنی موت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ دن میرے لئے آسان نہیں ہو گا۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو اٹھایا نہ جاؤں ۔ ابن مسعود سے مروی ہے کہ آپ نے یہ وصیت کی اور اس وصیت میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3صفحہ117 ومن حلفاء بنی زھرہ بن کلاب… ’’عبد اللہ بن مسعود‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت1990ء) اب بسم اللہ الرحمن الرحیم آجکل ہر ایک لکھتا ہے تو یہ خاص طور پر جو اس کا یہاں ذکر ہوا اس لئے کہ ان کوحقیقی ادراک تھا ، اللہ تعالیٰ کے رحمٰن اور رحیم ہونے کا ادراک تھا اس لئے اللہ تعالیٰ کی صفات کا واسطہ دے کر یہ بات شروع کی ، اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کی تا کہ اس وصیت میں کوئی بھی ایسی بات ہو جو اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آ سکتی ہو تو رحمان اور رحیم خدا اس سے بچائے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود کے مالی حالات خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنے اچھے ہو گئے تھے کہ آخری عمر میں آپ نے اپنا وظیفہ لینا چھوڑ دیا تھا۔(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد3صفحہ387 دار الکتب العلمیۃ بیروت) اس فارغ البالی کی حالت میں جبکہ نوّے ہزار درہم آپ کا ترکہ تھا(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3صفحہ119 ومن حلفاء بنی زھرہ بن کلاب… ’’عبد اللہ بن مسعود‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت1990ء) اپنے کفن کے بارے میں یہی وصیت کی کہ وہ سادہ چادروں کا ہو اور دو سو درہم کا ہو اور وفات کے بعد حضرت عثمان بن مظعون کی قبر کے ساتھ دفن کیا جائے۔ جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے حضرت عثمانؓ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی۔آپ کو رات کو دفن کیا گیا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کی تدفین کے بعد صبح ان کی قبر پر سے ایک راوی گزرے تو دیکھا کہ اس پر پانی چھڑکا ہوا تھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3صفحہ118 ومن حلفاء بنی زھرہ بن کلاب… ’’عبد اللہ بن مسعود‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت1990ء) عقیدت کا یہ حال تھا کہ لوگوں نے رات کو ہی اس قبر کی مضبوطی کے لئے پانی چھڑکا ہو گا۔
ابوالأحوَص بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی وفات کے بعد مَیں حضرت ابو موسیٰ اور حضرت ابو مسعود کے پاس حاضر ہوا۔ ان دونوں میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کہ کیا ابن مسعود نے اپنے بعد کوئی مثل چھوڑا ہے، ان جیسا ہے کوئی اور؟ تو انہوں نے کہا کہ ایسا ہمارے جانے کے بعد تو شاید ممکن ہو، اس وقت ہمیں ایسا کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ ابھی ہمارے درمیان اس وقت کوئی نہیں ، شاید بعد میں کوئی پیدا ہو جائے۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3صفحہ119 ومن حلفاء بنی زھرہ بن کلاب… ’’عبد اللہ بن مسعود‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت1990ء) حضرت تمیم بن حرام بیان کرتے ہیں کہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی صحابہ کی مجالس میں بیٹھا ہوں مگر حضرت عبداللہ بن مسعود سے زیادہ دنیا سے بے رغبت اور آخرت سے رغبت رکھنے والا کسی اور کو نہیں پایا۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد4صفحہ201 ’’عبد اللہ بن مسعود‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت1995ء)