حضرت عبداللہ بن مَخْرَمہؓ
حضرت عبداللہ بن مَخْرَمہؓ کی کنیت ابومحمد تھی۔ ان کا تعلق قبیلہ بنو عامر بن لُؤیّ سے تھا۔ انہیں عبداللہ اکبر بھی کہا جاتا تھا۔ یہ ابتدائی اسلام لانے والے صحابہ میں سے تھے۔ ان کے والد کا نام مَخْرَمہ بن عبدالعُزّٰی اور والدہ کانام بَہْنانہ بنت صفوان تھا۔ حضرت عبداللہ بن مَخْرَمہؓ کی اولاد میں ایک بیٹے مساحق کا ذکر ملتا ہے جو ان کی بیوی زینب بنت سراقہ سے تھے۔
حضرت عبداللہ بن مَخْرَمہؓ اوائل میں اسلام لانے والوں میں شامل تھے۔ حضرت عبداللہ بن مَخْرَمہؓ کو دو ہجرتیں کرنے کی سعادت نصیب ہوئی، ایک حبشہ کی طرف اور دوسری مدینہ کی طرف۔ ابن اسحاق نے حضرت عبداللہ بن مَخْرَمہؓ کا ذکر ان صحابہ میں کیا ہے جنہوں نے حضرت جعفرؓ کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ یونس بن بُکَیر، سلمہ اور بُکائی نے ابن اسحاق کا یہ قول بیان کیا ہے جس میں انہوں نے حضرت عبداللہ بن مَخْرَمہؓ کی حبشہ کی طرف ہجرت کا ذکر کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مَخْرَمہؓ جب مدینہ ہجرت کر کے پہنچے تو انہوں نے حضرت کلثوم بن ہِدْمْؓ کے گھر قیام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مَخْرَمہؓ کی مؤاخات حضرت فروہ بن عَمْرو انصاریؓ سے کروائی۔ حضرت عبداللہ بن مَخْرَمہؓ غزوۂ بدر اور بعد کے باقی تمام غزوات میں شامل ہوئے۔
حضرت عبداللہ بن مَخْرَمہؓ جب جنگِ بدر میں شامل ہوئے تو اس وقت ان کی عمر تیس سال تھی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں جب یہ جنگِ یمامہ میں شہید ہوئے تو اس وقت ان کی عمر اکتالیس سال تھی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 308-309 ’’عَبْد اللہ بن مَخْرَمَہ‘‘ وَمِنْ بَنِي عَامِرِ بِنْ لُؤَيٍّ۔ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 1990ء)(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ المجلد الثالث صفحہ377- 378‘‘عبد اللہ بن مَخْرَمہ’’دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء)
حضرت عبداللہ بن مَخْرَمہؓ کا جذبہ شہادت انتہائی حد تک بڑھا ہوا تھا۔ چنانچہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرتے تھے کہ مجھے اس وقت تک وفات نہ دینا جب تک میں اپنے جسم کے ہر جوڑ پر خدا کی راہ میں لگا زخم نہ دیکھ لوں۔ چنانچہ جنگِ یمامہ کے روز ان کے جوڑوں پر زخم پہنچے جن کی وجہ سے یہ شہید ہو گئے۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر عسقلانى جلد4صفحہ193 عَبْد اللہ بن مَخْرَمہ، دارالفکر بیروت 2001ء)
حضرت عبداللہ بن مَخْرَمہؓ بہت زیادہ عبادت گزار تھے۔ جوانی میں بھی بڑی عبادت کیا کرتے تھے۔ حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ جنگِ یمامہ کے سال میں حضرت عبداللہ بن مَخْرَمہؓ اور حضرت ابوحذیفہؓ کے آزاد کردہ غلام حضرت سالمؓ ایک ساتھ تھے۔ ہم تینوں باری باری بکریاں چرا یا کرتے تھے۔ لشکر کے لیےکچھ مال بھی تھا، اس کی حفاظت کرنی ہوتی تھی۔ چنانچہ جس دن لڑائی شروع ہوئی وہ دن میرا بکریاں چرانے کا تھا۔ پس میں بکریاں چرا کر آیا تو میں نے حضرت عبداللہ بن مَخْرَمہؓ کو میدانِ جنگ میں زخمی حالت میں گرا ہوا پایا تو میں ان کے پاس ٹھہر گیا۔ انہوں نے کہا اے عبداللہ بن عمرؓ ! کیا روزہ دار نے افطاری کر لی ہے؟ شام کا وقت ہو گیا تھا، میں نے کہا ہاں۔ تو انہوں نے کہا کہ اس ڈھال میں کچھ پانی دے دو کہ میں اس سے افطار کر لوں۔ وہ جنگ میں بھی روزے کی حالت میں تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں پانی لینے چلا گیا مگر جب میں واپس آیا تو وہ وفات پا چکے تھے۔ (اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ المجلد الثالث صفحہ 377‘‘عبد اللہ بن مَخْرَمہ’’دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء) (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد دوم صفحہ 570 حضرت عبداللہ مَخْرَمہؓ مطبوعہ دار اشاعت کراچی)