حضرت عبیدہ بن حارث ؓ

خطبہ جمعہ 30؍ نومبر 2018ء

 حضرت عبیدہ بن حارث ایک صحابی تھے۔ حضرت عبیدہ بن الحارث جو بنو مطلب میں سے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ دار تھے (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 123-124)۔ ان کا تعلق قبیلہ بنو مطلب سے تھا۔ ان کی کنیت ابوحارث جبکہ بعض کے نزدیک ابومعاویہ تھی۔ والدہ کا نام سُخَیلہ بنت خُزاعی تھا۔ حضرت عبیدہؓ عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دس سال بڑے تھے۔ یہ ابتدائی ایمان لانے والوں میں شامل تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دارِارقم میں داخل ہونے سے پہلے آپؓ ایمان لے آئے تھے۔ حضرت ابوعبیدہ، حضرت ابو سلمہ بن عبداللہ اسدی، حضرت عبداللہ بن ارقم مخزومی اور حضرت عثمان بن مظعون ایک ہی وقت میں ایمان لائے تھے۔ حضرت عبیدہؓ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک خاص قدرو منزلت رکھتے تھے۔ حضرت عبیدۃ بن حارث نے ابتدا میں اسلام قبول کیا اور آپ بنوعبدمناف کے سرداروں میں سے تھے۔(اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 547 عبیدہ بن الحارثؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)،(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 4 صفحہ 353 عبیدہ بن الحارثؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)

حضرت عبیدہ بن حارث نے اپنے دو بھائیوں حضرت طفیل بن حارث اور حضرت حُصَین بن حارث کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کی اور ان کے ساتھ حضرت مِسطح بن اُثاثہ بھی تھے۔ سفر سے پہلے طَے پایا کہ یہ لوگ وادیٔ ناجح میں اکٹھے ہوں گے لیکن حضرت مِسطح بن اُثاثہ پیچھے رہ گئے کیونکہ ان کو سانپ نے ڈس لیا تھا۔ اگلے دن ان کو حضرت مسطح کے ڈسے جانے کی اطلاع ملی لہٰذا یہ لوگ واپس گئے اور انہیں ساتھ لے کر مدینہ آگئے۔ مدینہ میں یہ لوگ حضرت عبدالرحمٰن بن سلمہ کے ہاں ٹھہرے۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 37 عبیدہ بن الحارثؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبیدہ بن حارث اور حضرت عمیر بن الحُمام کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ حضرت عبیدہ بن الحارث اور حضرت عمیر بن الحُمام دونوں غزوۂ بدر میں شہید ہوئے۔(استیعاب جلد 3 صفحہ 1214 عمیر بن الحمامؓ مطبوعہ دار الجیل 1992ء)

ان کے دو بھائی حضرت طفیل بن حارث اور حضرت حُصَین بن حارث بھی غزوۂ بدر میں آپؓ کے ساتھ شریک تھے۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 38-39 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ آ کر کفار کے شر سے بچنے کے لئے اور مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لئے کچھ تدابیر اختیار فرمائیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ سیاسی قابلیت اور جنگی دوربینی کی ایک بین دلیل ہے۔ اسی کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس طرح تحریر کیا ہے کہ:

’’تاریخ سے ثابت ہے کہ پہلا دستہ ہی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبیدہ بن الحارث کی سرداری میں روانہ فرمایا تھا اور جس کا عکرمہ بن ابوجہل کے ایک گروہ سے سامنا ہو گیا تھا اس میں مکہ کے دو کمزور مسلمان جو قریش کے ساتھ ملے ملائے آ گئے تھے، قریش کو چھوڑ کر مسلمانوں میں آ ملے تھے چنانچہ روایت آتی ہے کہ… ’’اس مہم میں جب مسلمانوں کی پارٹی لشکر قریش کے سامنے آئی تو دو شخص مقداد بن عمرو اور عتبہ بن غزوان جو بنو زہرہ اور بنو نوفل کے حلیف تھے مشرکین میں سے بھاگ کر مسلمانوں میں آ ملے اور یہ دونوں شخص مسلمان تھے اور صرف کفار کی آڑ لے کر مسلمانوں میں آ ملنے کے لئے نکلے تھے۔‘‘ پس ان پارٹیوں کے بھجوانے میں ایک غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بھی تھی کہ تا ایسے لوگوں کو ظالم قریش سے چھٹکارا پانے اور مسلمانوں میں آ ملنے کا موقعہ ملتا رہے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 324)

ہجرت کے آٹھ مہینے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبیدہ بن حارث کو ساٹھ یا اسی سواروں کے ساتھ روانہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبیدہ بن حارث کے لئے ایک سفید رنگ کا پرچم باندھا جسے حضرت مسطح بن اثاثہ نے اٹھایا۔ اس سریہ کا مقصد یہ تھا یعنی کہ جو بھیجا گیا تھا لشکر یا سواروں کا ایک گروپ، کہ قریش کے ایک تجارتی قافلے کو راہ میں روک لیا جائے۔ قریش کے قافلے کا امیر ابوسفیان تھا۔ بعض کے مطابق عکرمہ بن ابو جہل اور بعض کے مطابق مِکْرَز بن حَفْص تھا۔ اس قافلے میں دو سو آدمی تھے یعنی کافروں کے قافلے میں جو تجارتی مال لے کر جا رہے تھے۔ صحابہؓ کی اس جماعت نے رابغ وادی پر اس قافلے کو جا لیا۔ اس مقام کو وَدَّان بھی کہا جاتا ہے۔ دونوں فریقوں کے درمیان تیر اندازی کے علاوہ کوئی مقابلہ نہ ہوا اور لڑائی کے لئے باقاعدہ صف بندی نہ ہوئی۔ وہ صحابی جنہوں نے مسلمانوں کی طرف سے پہلا تیر چلایا وہ حضرت سعد بن ابی وقاص تھے اور یہ وہ پہلا تیر تھا جو اسلام کی طرف سے چلایا گیا۔ اس موقع پر حضرت مقداد بن اسود اور حضرت عیینہ بن غزوان( ابن ھشام اور تاریخ طبری میں عُتبہ بن غزوان بھی ہے) لکھا ہے مشرکوں کی جماعت سے نکل کر مسلمانوں سے آ ملے کیونکہ ان دونوں نے اسلام قبول کیا ہوا تھا اور وہ مسلمانوں کی طرف جانا چاہتے تھے۔ حضرت عبیدہ بن حارث کی سرکردگی میں یہ اسلام کا دوسرا سریہ تھا۔ تیر اندازی کے بعد دونوں فریق پیچھے ہٹ گئے کیونکہ مشرکین پر مسلمانوں کا اس قدر رعب پڑا کہ انہوں نے سمجھا کہ مسلمانوں کا بہت بڑا لشکر ہے اور ان کو مدد پہنچ رہی ہے لہٰذا وہ لوگ خوفزدہ ہو کر پسپا ہو گئے اور مسلمانوں نے بھی ان کا پیچھا نہیں کیا۔(السیرۃ الحلبیۃ جلد 3 صفحہ 215-216 سریہ عبیدۃ بن الحارثؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)،(سیرت ابن ہشام جلد اول صفحہ 592 سریۃ عبیدۃ بن الحارثؓ مطبوعہ مصطفی البابی مصر 1955ء)،(تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 12 سنۃ 1ھ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1987ء)

گئے تو تھے لیکن یہ نہیں کہ کوئی پیچھے گئے ہوں اور باقاعدہ جنگ کی ہو۔ دونوں طرف سے حملہ ہوا۔ اُنہوں نے بھی حملہ کیا اِنہوں نے بھی تیر چلائے اُنہوں نے بھی تیر چلائے اور آخر جب وہ کفار پیچھے ہٹ گئے تو مسلمان واپس آ گئے۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت کی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ:

’’غزوۂ ودان سے واپس آنے پر ماہ ربیع الاول کے شروع میں آپؐ نے اپنے ایک قریبی رشتہ دار عبیدہ بن حارث مطلبی کی امارت میں ساٹھ شتر سوار مہاجرین کا ایک دستہ روانہ فرمایا۔ اس مہم کی غرض بھی قریش مکہ کے حملوں کی پیش بندی تھی۔‘‘ غرض بیان کر دی ہے کہ قریش مکہ کے حملوں کی پیش بندی تھی۔ ’’چنانچہ جب عبیدہ بن الحارث اور ان کے ساتھی کچھ مسافت طے کر کے ثنیۃ المرّہ کے پاس پہنچے تو ناگاہ کیا دیکھتے ہیں کہ قریش کے دو سو مسلح نوجوان عکرمہ بن ابوجہل کی کمان میں ڈیرہ ڈالے پڑے ہیں۔ فریقین ایک دوسرے کے سامنے ہوئے اور ایک دوسرے کے مقابلہ میں کچھ تیر اندازی بھی ہوئی لیکن پھر مشرکین کا گروہ یہ خوف کھا کر کہ مسلمانوں کے پیچھے کچھ کمک مخفی ہو گی۔‘‘ کچھ اَور ہو سکتا ہے، لوگ آ رہے ہوں، کوئی لشکر ہو۔ ’’ان کے مقابلہ سے پیچھے ہٹ گیا اور مسلمانوں نے ان کا پیچھا نہیں کیا۔ البتہ مشرکین کے لشکر میں سے دو شخص مقداد بن عمرو اور عتبہ بن غزوان عکرمہ بن ابوجہل کی کمان سے خود بخود بھاگ کر مسلمانوں کے ساتھ آ ملے اور لکھا ہے کہ وہ اسی غرض سے قریش کے ساتھ نکلے تھے کہ موقعہ پا کر مسلمانوں میں آ ملیں کیونکہ وہ دل سے مسلمان تھے مگر بوجہ اپنی کمزوری کے قریش سے ڈرتے ہوئے ہجرت نہیں کر سکتے تھے اور ممکن ہے کہ اسی واقعہ نے قریش کو بددل کر دیا ہو اور انہوں نے اسے بدفال سمجھ کر پیچھے ہٹ جانے کا فیصلہ کر لیا ہو۔ تاریخ میں یہ مذکور نہیں ہے کہ قریش کا یہ لشکر جو یقیناً کوئی تجارتی قافلہ نہیں تھا۔‘‘ تجارت کی آڑ میں یہ لوگ باقاعدہ لشکر بنا کر نکلے تھے، مسلح تھے۔ ’’اور جس کے متعلق ابن اسحاق نے جمع عظیم (یعنی ایک بڑا لشکر) کے الفاظ استعمال کئے ہیں کسی خاص ارادہ سے اس طرف آیا تھا، لیکن یہ یقینی ہے کہ ان کی نیت بخیر نہیں تھی۔‘‘ نیک نیت سے بہرحال وہ نہیں آئے تھے، حملہ کرنے آئے تھے اور اس لئے مسلمانوں نے بھی تیر اندازی کی۔ اور یقیناً اس سے یہ لگتا ہے کہ پہلی تیراندازی بھی کافروں کی طرف سے ہوئی تھی۔ ’’اور یہ خدا کا فضل تھا کہ مسلمانوں کو چوکس پا کر اور اپنے آدمیوں میں سے بعض کو مسلمانوں کی طرف جاتا دیکھ کر ان کو ہمت نہیں ہوئی اور وہ واپس لوٹ گئے اور صحابہ کو اس مہم کا یہ عملی فائدہ ہو گیا کہ دو مسلمان روحیں قریش کے ظلم سے نجات پا گئیں۔ ‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 328-329)

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غزوۂ بدر کے موقع پر مسلمانوں کی طرف سے ولید بن عتبہ سے مبارزت کی۔ احادیث میں آتا ہے کہ قرآن کریم کی ایک آیت بھی اس واقعہ کے متعلق اتری ہے۔ چنانچہ حضرت علی سے روایت ہے کہ آیت ھٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّھِمْ۔(الحج20:) ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی تھی جنہوں نے بدر والے دن مبارزت کی یعنی حضرت حمزہ بن عبدالمطلب، حضرت علی بن طالب اور حضرت عبیدہ بن حارث اور عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ۔(المستدرک علی الصحیحین جلد 2صفحہ 419کتاب التفسیر تفسیر سورۃ الحج حدیث 3456 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)

آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ دو جھگڑالو ہیں جنہوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا۔ پوری آیت اس طرح پہ ہے کہ

ہٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّہِمْ۔ فَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَہُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍ۔ یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِہِمُ الْحَمِیْمُ (الحج:20)

یہ دو جھگڑالو ہیں جنہوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا۔ پس وہ لوگ جنہوں نے انکار کیا ان کے لئے آگ کے کپڑے کاٹے جائیں گے۔ ان کے سروں کے اوپر سے سخت گرم پانی انڈیلا جائے گا۔

بہرحال اس مبارزت کی مزید تفصیل سنن ابو داؤد میں اس طرح بیان ہوئی ہے کہ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ عتبہ بن ربیعہ اور اس کے پیچھے اس کا بیٹا اور بھائی بھی نکلے اور پکار کر کہا کہ کون ہمارے مقابلے کے لئے آتا ہے؟ تو انصار کے کئی نوجوانوں نے اس کا جواب دیا۔ عتبہ نے پوچھا تم کون ہو؟ انہوں نے بتا دیا کہ ہم انصار ہیں۔ عتبہ نے کہا کہ ہمیں تم سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ہم تو صرف اپنے چچا کے بیٹوں سے جنگ کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے حمزہؓ!اٹھو۔ اے علی! کھڑے ہو۔ اے عبیدہ بن حارث! آگے بڑھو۔ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنتے ہی حضرت حمزہؓ عتبہ کی طرف بڑھے اور میں شیبہ کی طرف بڑھا اور عبیدہ ؓبن حارث اور ولید کے درمیان جھڑپ ہوئی اور دونوں نے ایک دوسرے کو سخت زخمی کیا۔ پھر ہم ولید کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کو مار ڈالا اور عبیدہ کو ہم میدان جنگ سے اٹھا کے لے آئے۔(سنن ابو داؤد کتاب الجہاد باب فی المبارزۃ حدیث 2665)

مبارزت کے دوران عتبہ نے حضرت عبیدہؓ بن حارث کی پنڈلی پر کاری ضرب لگائی تھی جس سے ان کی پنڈلی کٹ گئی تھی۔ پھر آپؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھوایا اور جنگ بدر ختم ہونے کے بعد مقام صفرا، جو بدر کے نزدیک ایک مقام ہے وہاں آپ کا انتقال ہو گیا اور وہیں ان کو دفن کر دیا گیا ۔ (المستدرک علی الصحیحین جلد 3صفحہ 207-208کتاب معرفۃ الصحابہ من مناقب عبیدہ بن الحارث ؓ حدیث 4862مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)(لغات الحدیث کتاب ’’ص‘‘ صفحہ 67 مطبوعہ میر محمد کتب خانہ آرام باغ کراچی)

ایک روایت کے مطابق جب عبیدہؓ کی پنڈلی کٹ چکی تھی اور اس سے گودا بہہ رہا تھا۔ تب صحابہ حضرت عبیدہؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا میں شہید نہیں ہوں؟ جنگ میں زخمی ہوئے تھے۔ اُس وقت فوری طور پر شہید نہیں ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں نہیں، تم شہید ہو۔ ایک روایت کے مطابق جب حضرت عبیدہؓ بن حارث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زانوں پر ان کا سر رکھا پھر حضرت عبیدہؓ نے کہا کاش کہ ابو طالب آج زندہ ہوتے تو جان لیتے کہ جو وہ اکثر کہا کرتے تھے اس کا ان سے زیادہ مَیں حق دار ہوں۔ اور وہ یہ کہا کرتے تھے کہ

وَ نُسْلِمُہُ حَتّٰی نُصْرَعَ حَوْلَہُ
وَ نَذْھَلَ عَنْ اَبْنَائِ نَا وَالْحَلَائِلٖ

کہ یہ جھوٹ ہے کہ ہم محمدؐ کو تمہارے سپرد کر دیں گے۔ ایسا تبھی ممکن ہے کہ جبکہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد سے پچھاڑ دئیے جائیں اور ہم اپنے بیوی بچوں سے بھی غافل ہو جائیں۔ یہ جذبات تھے ان لوگوں کے۔ شہادت کے وقت حضرت عبیدہ بن حارث کی عمر 63 سال تھی۔(المستدرک علی الصحیحین جلد 3صفحہ 208کتاب معرفۃ الصحابہ من مناقب عبیدہ بن الحارث ؓ حدیث 4863مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)(اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 547 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)