حضرت عثمان بن مظعونؓ
حضرت عثمان بن مظعونؓ کی کنیت ابوسائب تھی۔ حضرت عثمانؓ کی والدہ کا نام سُخَیْلَہ بنت عَنْبَسْ تھا۔ حضرت عثمانؓ اور آپؓ کے بھائی حضرت قُدَامَہؓ حلیےمیں باہم مشابہت رکھتے تھے۔ آپؓ کا تعلق قریش مکہ کے خاندان بَنُو جُمَحْ سے تھا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 305-306 ’’عثمان بن مظعون‘‘۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
حضرت عثمان بن مظعونؓ کے قبولِ اسلام کا واقعہ اس طرح ملتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں اپنے گھر کے صحن میں تشریف فرما تھے۔ وہاں سے عثمان بن مظعونؓ کا گزر ہوا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر مسکرائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کیا تم بیٹھو گے نہیں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ چنانچہ وہ آپؐ کے سامنے آ کے بیٹھ گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بات کر رہے تھے کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نگاہیں اوپر کو اٹھائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لمحے کے لیے آسمان کی طرف دیکھا۔ پھر آہستہ آہستہ اپنی نگاہیں نیچی کرنے لگے یہاں تک کہ آپؐ نے زمین پر اپنے دائیں طرف دیکھنا شروع کر دیا اور اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے عثمان سے منہ پھیر کر دوسری طرف متوجہ ہو گئے اور اپنا سر جھکا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دوران میں اپنے سر کو یوں ہلاتے رہے گویا کسی بات کو سمجھ رہے ہیں۔ عثمان بن مظعونؓ پاس بیٹھے ہوئے تھے، یہ سب دیکھ رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کام سے فارغ ہوئے یا جو بھی اس وقت صورت حال تھی اس سے فارغ ہوئے اور جو کچھ آپؐ سے کہا جا رہا تھا، جو بظاہر لگ رہا تھا کہ کچھ کہا جا رہا ہے، حضرت عثمانؓ کو تو نہیں پتا تھا لیکن بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جا رہا تھا وہ آپؐ نے سمجھ لیا تو پھر آپؐ کی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھیں جیسے پہلی مرتبہ ہوا تھا۔ آپؐ کی نگاہیں کسی چیز کا پیچھا کرتی رہیں یہاں تک کہ وہ چیز آسمان میں غائب ہو گئی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے کی طرح عثمان بن مظعونؓ کی طرف متوجہ ہوئے تو عثمانؓ کہنے لگے کہ میں کس مقصد کی خاطر آپؐ کے پاس آؤں اور بیٹھوں؟ حضرت عثمانؓ نے کہا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سو ال کیا کہ آج آپؐ نے جو کچھ کیا ہے اس سے پہلے میں نے آپؐ کو ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم نے مجھے کیا کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ عثمان بن مظعونؓ کہنے لگے کہ میں نے دیکھا کہ آپؐ کی نظریں آسمان کی طرف اٹھ گئیں۔ پھر آپؐ نے دائیں جانب اپنی نظریں جما دیں۔ آپؐ مجھے چھوڑ کر اس طرف متوجہ ہو گئے۔ آپؐ نے اپنا سر ہلانا شروع کر دیا گویا جو کچھ آپؐ سے کہا جا رہا ہے اسے آپؐ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا کیا واقعی تم نے ایسا محسوس کیا ہے؟ عثمان بن مظعونؓ کہنے لگے۔ جی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابھی ابھی میرے پاس اللہ کا قاصد آیا تھا، پیغام لے کے آیا تھا جب تم میرے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ عثمان بن مظعونؓ نے کہا کہ اللہ کا قاصد؟ سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ عثمانؓ نے پوچھا پھر اس نے کیا کہا؟ آپؐ نے فرمایا اس نے کہا یہ تھا کہ إِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰى وَیَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ ۚ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ۔ یعنی یقیناً اللہ عدل کا اور احسان کا اور اقربا پر کی جانے والی عطا کی طرح عطا کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں اور بغاوت سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تا کہ تم عبرت حاصل کرو۔ عثمان بن مظعونؓ کہتے ہیں کہ یہ وہ وقت تھا جب میرے دل میں ایمان نے اپنی جگہ پکّی کر لی اور مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہو گئی۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 1صفحہ 807مسند عبداللہ بن عباس حدیث نمبر2921عالم الکتب بیروت 1998ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوّت کے بعد ابتدائی دَور کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک قریب زمانہ میں یعنی اس زمانے کے ابتدا میں طلحہؓ اور زبیرؓ اور عمرؓ اور حمزہؓ اور عثمان بن مظعونؓ اس قسم کے ساتھی آپؐ کو مل گئے جن میں سے ہر شخص آپؐ کا فدائی تھا۔ ہر شخص آپؐ کے پسینے کی جگہ اپنا خون بہانے کے لیے تیار تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تیرہ سال تک مصائب بھی آئے، مشکلات بھی آئیں، تکالیف بھی آپؐ کو برداشت کرنی پڑیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطمینان تھا کہ ان مکہ والوں میں سے عقل والے، سمجھ والے، رتبے والے، تقویٰ والے، طہارت والے مجھے مان چکے ہیں اور اب مسلمان ایک طاقت سمجھے جاتے ہیں۔ جب کوئی شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہتا کہ نعوذ باللہ وہ پاگل ہیں تو اس کے دوسرے ساتھی ہی اسے کہتے کہ اگر وہ پاگل ہے تو فلاں شخص جو بڑا سمجھ دار اور عقل مند ہے اسے کیوں مانتا ہے۔ یہ ایک ایسا جواب تھا جس کے جواب میں کوئی شخص بولنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا۔
یورپین مصنف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے تمام زورِ بیان صرف کر دیتے ہیں، بہت خلاف بولتے ہیں اور بسا اوقات آپؐ پر گند اچھالنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اب بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ مگر جہاں ابوبکرؓ کا نام آتا ہے وہ کہتے ہیں کہ ابو بکرؓ بڑا بے نفس تھا۔ اس پر بعض دوسرے یورپین مصنف لکھتے ہیں کہ جس شخص کو ابوبکرؓ نے مان لیا وہ جھوٹا کس طرح ہو گیا؟ اگر تم ابوبکرؓ کی تعریف کر رہے ہو تو جس کو ابوبکرؓ نے مانا وہ بھی یقیناً قابل ِتعریف ہے۔ اگر وہ بے نفس تھا، ابوبکرؓ اگر بے نفس تھا تو اس نے ایسے لالچی کو کیوں مانا اور اگر وہ واقعی میں بے نفس تھا تو پھر تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کا آقاؐ بھی بے نفس تھا۔ یہ ایک بہت بڑی دلیل ہے جس کو ردّ کرنا آسان نہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں بھی پھر اس کو اس سے جوڑا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق بھی ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ آپؑ کو جاہل کہتے ہیں مگر خدا تعالیٰ نے اس اعتراض کو ردّ کرنے کے لیے ایسے سامان کر دیے کہ حضرت خلیفہ اولؓ شروع میں ہی آپؑ پر ایمان لے آئے۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی دعویٰ سے پہلے آپؑ کی تعریف کرنے والے تھے۔ پھر جب آپؑ نے دنیا میں اپنی ماموریت کا اعلان کیا تو اس کے بعد تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک جماعت اللہ تعالیٰ نے ایسی کھڑی کر دی جو فوراً آپ پر ایمان لے آئی۔ یہ تعلیم یافتہ لوگ علماء میں سے بھی تھے، امراء میں سے بھی تھے، انگریزی دان طبقے میں سے بھی تھے۔ تو آپؓ اس کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ رعب اور دبدبہ تین چیزوں سے ہی ہوتا ہے یا تو ایمان سے ہوتا ہے یا علم سے ہوتا ہے یا روپے سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تینوں چیزیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں بھی پیدا کر دیں۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 9 صفحہ 139-140)
اور آپؑ کو بھی ایسے ساتھی شروع میں مہیا کر دیے جن کی دوسری دنیا تعریف کرتی تھی بلکہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی حکمت کا لوہا آج تک مانا جاتا ہے۔ غیر احمدی حکماء بھی آپؓ کے نسخے استعمال کرتے ہیں اور اس بارے میں لکھتے ہیں تو بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والے ایسے لوگ اس وقت عطا ہوئے جو ہر طبقے کے لوگ تھے اور بڑے بڑے خاندانوں کے لوگ تھے۔
ایک اور جگہ کفار مکہ کی حسرتوں اور حسد کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے ایسے ایسے سامان پیدا کیے کہ کفار کے دل ہر وقت جل کر خاکستر ہوتے رہتے تھے اور انہیں کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ اس آگ کو بجھانے کا ہم کیا انتظام کریں۔ کوئی بڑا خاندان ایسا نہیں تھا جس کے افراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں نہ آ چکے ہوں۔ حضرت زبیرؓ ایک بڑے خاندان میں سے تھے۔ حضرت طلحہؓ ایک بڑے خاندان میں سے تھے۔ حضرت عمرؓ ایک بڑے خاندان میں سے تھے۔ حضرت عثمانؓ ایک بڑے خاندان میں سے تھے۔ حضرت عثمان بن مظعونؓ ایک بڑے خاندان میں سے تھے۔ اسی طرح حضرت عمروؓ بن العاص اور خالدؓ بن ولید‘‘ (جو بعد میں مسلمان ہوئے) ’’مکہ کے چوٹی کے خاندانوں میں سے تھے۔ عاص مخالف تھےمگر‘‘ (یعنی عمرو کے والد) ’’عمروؓ مسلمان ہو گئے۔ ولید مخالف تھے مگر خالدؓ مسلمان ہو گئے۔‘‘ آپؓ لکھتے ہیں کہ ’’غرض ہزاروں لوگ ایسے تھے جو اسلام کے شدید دشمن تھے مگر ان کی اولادوں نے اپنے آپ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دیا اور میدانِ جنگ میں اپنے باپوں اور رشتہ داروں کے خلاف تلواریں چلائیں۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 9 صفحہ 588)
حضرت عثمان بن مظعونؓ کی ہجرتِ حبشہ اور وہاں سے مکہ واپسی کا بھی ذکر آتا ہے جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ حضرت عثمان بن مظعونؓ ابتدائی اسلام قبول کرنے والوں میں شامل تھے۔ ابن اسحاق کے نزدیک آپؓ نے تیرہ آدمیوں کے بعد اسلام قبول کیا۔ آپؓ نے اور آپ کے بیٹے سائب نے مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ حبشہ کی طرف پہلی ہجرت بھی کی تھی۔ حبشہ قیام کے دوران ہی جب انہیں خبر ملی کہ قریش ایمان لے آئے ہیں۔ تب آپؓ واپس مکہ آ گئے تھے۔ ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ جب مہاجرینِ حبشہ کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اہل مکہ کے سجدہ کرنے کی خبر پہنچی تو یہ لوگ وہاں سے چل پڑے۔ اس کی تفصیل میں پہلے پچھلے خطبات میں بیان کر چکا ہوں اور ان کے ساتھ اور لوگ بھی تھے کہ سجدہ کی وجہ کیا ہوئی تھی؟ ان کا یہ خیال تھا کہ سب کفار نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر لی ہے۔ جب یہ مکہ کے قریب پہنچے اور اصل واقعے کا پتا لگا تو اس وقت انہیں واپس حبشہ جانا مشکل لگ رہا تھا۔ بعض دوسری روایات کے مطابق بعض لوگ وہیں سے واپس حبشہ چلے بھی گئے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اور جو مکے میں بھی بغیر کسی کی پناہ میں آنے کے داخل ہونے سے ڈر رہے تھے وہ چلے گئے تھے۔ بہرحال جو وہاں آ گئے تھے یہ کچھ دیر وہیں رکے رہے یہاں تک کہ ان میں سے ہر ایک اہلِ مکہ میں سے کسی نہ کسی کی امان میں داخل ہوا۔ انہوں نے کسی نہ کسی کی امان لے لی یا راستے میں کچھ دیر رکے رہے جب تک امان نہ مل گئی۔ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولید بن مغیرہ کی امان میں آئے۔ ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عثمانؓ نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحابؓ کو تکالیف پہنچ رہی ہیں، لوگ ان کو مار رہے ہیں، ان پر ظلم کر رہے ہیں اور وہ ولید بن مغیرہ کی امان میں رات دن سکون سے گزار رہے ہیں۔ ولید وہاں کفار ِمکہ کے رئیسوں کا ایک رئیس تھا جو غیر مسلم تھا اس کی امان میں آ گئے تھے۔ تو عثمانؓ کہنے لگے کہ خدا کی قسم! میری صبح شام ایک مشرک کی امان میں امن کے ساتھ گزر رہی ہے جبکہ میرے دوستوں اور گھر والوں کو اللہ کی راہ میں تکالیف اور اذیتیں پہنچ رہی ہیں۔ یقیناً مجھ میں کوئی خرابی ہے۔ انہوں نے اپنے آپ سے یہ کہا۔ پس آپؓ ولید بن مغیرہ کے پاس گئے اور کہا کہ اے ابو عبدشمس! (یہ ولید بن مغیرہ کا لقب تھا) تمہارا ذمہ پورا ہو گیا۔ میں تمہاری امان میں تھا۔ اب میں چاہتا ہوں اس امان سے نکل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں کیونکہ میرے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ میں اسوہ ہے۔ ولیدنے کہا کہ اے میرے بھتیجے! ولید ان کے والد کے بڑے قریبی دوست تھے۔ انہوں نے کہا اے میرے بھتیجے! شاید تمہیں میرے اس امان کی وجہ سے کوئی تکلیف پہنچی ہو یا بے عزتی ہوئی ہے؟ تو آپؓ کہنے لگے کہ نہیں لیکن میں اللہ کی امان سے راضی ہوں۔ تمہاری امان سے نکلتا ہوں اور اللہ کی امان پہ راضی ہوں اور میں اس کے علاوہ کسی اَور کی پناہ کا طلب گار نہیں ہوں۔ ولیدنے کہا کہ خانہ کعبہ کے پاس چلو اور وہیں میری امان علی الاعلان واپس کر دو جیسا کہ میں نے تمہیں علی الاعلان پناہ دی تھی۔ حضرت عثمانؓ نے کہا چلیں۔ پھر وہ دونوں خانہ کعبہ کے پاس گئے۔ ولیدنے کہا یہ عثمانؓ ہے جو مجھے میری امان واپس کرنے آیا ہے، لوگوں کے سامنے یہ اعلان کیا۔ عثمانؓ نے کہا یہ سچ کہہ رہا ہے۔ یقیناً میں نے اسے یعنی اس امان دینے والے ولید کو وعدے کا سچا اور امان کے لحاظ سے معزّز پایا ہے مگر اب میں اللہ کے سوا کسی اور کی امان میں نہیں رہنا چاہتا۔ اس لیے میں نے ولید کی امان کو اسے واپس کر دیا ہے۔ اس کے بعد حضرت عثمانؓ لوٹ گئے۔ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 589-590 ’’عثمان بن مظعون‘‘ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
اس ہجرتِ حبشہ کا ذکر پہلے بھی مختلف صحابہ کے ذکر میں ہوتا رہا ہے۔ مختصر بیان کر دیتا ہوں۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی اس کو تاریخ کے مختلف حوالوں سے لکھا ہے کہ جب مسلمانوں کی تکالیف انتہا کو پہنچ گئیں اور قریش اپنی ایذا رسانی میں ترقی کرتے گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا کہ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں اور فرمایا کہ حبشہ کا بادشاہ عادل اور انصاف پسند ہے۔ اس کی حکومت میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ حبشہ کا ملک جو ایتھوپیا یا ابی سینیا کہلاتا ہے برِّ اعظم افریقہ کے شمال مشرق میں واقع ہے اور جائے وقوع کے لحاظ سے جنوبی عرب کے بالکل بالمقابل ہے اور درمیان میں بحیرہ احمر کے سِوا کوئی اور ملک حائل نہیں۔ اس زمانہ میں حبشہ میں ایک مضبوط عیسائی حکومت قائم تھی اور وہاں کا بادشاہ نجاشی کہلاتا تھا بلکہ اب تک بھی وہاں کا حکمران اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔ (جب انہوں نے یہ لکھا تھا) حبشہ کے ساتھ عرب کے تجارتی تعلقات تھے۔ اس وقت کے نجاشی کا ذاتی نام اصحمہ تھاجو ایک عادل، بڑا انصاف کرنے والا، بیدار مغز اور مضبوط بادشاہ تھا۔ بہرحال جب مسلمانوں کی تکالیف انتہا کو پہنچ گئیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا کہ جن جن سے ممکن ہو حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے پر ماہ رجب پانچ نبوی میں نبوت کے دعوے کے پانچ سال کے بعد گیارہ مرد اور چار عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ ان میں سے زیادہ معروف کے نام یہ ہیں۔ حضرت عثمان بن عفّانؓ اور ان کی زوجہ رقیہؓ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، عبدالرحمٰن بن عوفؓ، زبیر ابن العوامؓ، ابو حذیفہؓ بن عتبہ، عثمان بن مظعونؓ، مصعب بن عمیرؓ اور ابو سَلَمہؓ بن عبدالاسد اور ان کی زوجہ امِ سلمہؓ۔ اب یہ لکھتے ہیں کہ یہ ایک عجیب بات ہے کہ ان ابتدائی مہاجرین میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جو قریش کے طاقت ور قبائل سے تعلق رکھتے تھے اور کمزور لوگ کم نظر آتے ہیں جن سے دو باتوں کا پتا چلتا ہے کہ اوّل یہ کہ طاقتور قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی قریش کے مظالم سے محفوظ نہیں تھے۔ دوسرے یہ کہ کمزور لوگ مثلاً غلام وغیرہ اس وقت ایسی کمزوری اور بے بسی کی حالت میں تھے کہ ہجرت کی بھی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ مصنفہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحبؓ ایم۔ اےصفحہ146، 147)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے انداز میں اس واقعہ کو اس طرح بیان فرمایا ہے۔ آپؓ حضرت عثمان بن مظعونؓ کی مکہ میں پناہ اور پھر لبید بن ربیعہ والے واقعے کا ذکر کرتے ہوئےلکھتے ہیں۔ یہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ آپ نے ولید کی امان واپس کردی تھی۔ اب لکھتے ہیں کہ جب مکہ والوں کا ظلم انتہا کو پہنچ گیا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے ساتھیوں کو بلوایا اور فرمایا۔ مغرب کی طرف سمندر پار ایک زمین ہے جہاں خدا کی عبادت کی وجہ سے ظلم نہیں کیا جاتا۔ مذہب کی تبدیلی کی وجہ سے لوگوں کو قتل نہیں کیا جاتا۔ وہاں ایک منصف بادشاہ ہے۔ تم لوگ ہجرت کر کے وہاں چلے جاؤ شاید تمہارے لیے آسانی کی راہ پیدا ہو جائے۔ کچھ مسلمان مرد اور عورتیں اور بچے آپؐ کے اس ارشاد پر ایبےسینیا کی طرف چلے گئے۔ ان لوگوں کا مکے سے نکلنا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ یہاں یہ بڑا جذباتی پہلو ہے کہ اپنے ملک کو چھوڑنا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ مکے کے لوگ اپنے آپ کو خانہ کعبہ کا متولّی سمجھتے تھے اور مکہ سے باہر چلے جانا ان کے لیے ایک ناقابلِ برداشت صدمہ تھا۔ وہی شخص یہ بات کہہ سکتا تھا جس کے لیے دنیا میں کوئی اور ٹھکانہ باقی نہ رہے کہ مکہ سے نکل جاؤں۔ پس ان لوگوں کا نکلنا ایک نہایت ہی دردناک واقعہ تھا اور پھر نکلنا بھی ان لوگوں کو چوری چوری پڑا۔ چھپ کے نکلنا پڑا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر مکہ والوں کو معلوم ہو گیا تو وہ ہمیں نکلنے نہیں دیں گے اور اس وجہ سے وہ اپنے عزیزوں اور پیاروں کی آخری ملاقات سے بھی محروم جا رہے تھے۔ ان کو یہ بھی موقع نہیں ملا کہ وہ عزیزوں اور پیاروں سے ملاقات کر کے جائیں، چھپ کے نکلے تھے۔ ان کے دلوں کی جو حالت تھی سو تھی۔ ان کے دیکھنے والے بھی ان کی تکلیف سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ وہ غیر جن کو پتا لگا کہ اس طرح ہجرت کر رہے ہیں وہ بھی ان کی اس حالت سے متاثر ہو رہے تھے۔ چنانچہ جس وقت یہ قافلہ نکل رہا تھا حضرت عمرؓ جو اس وقت تک کافر اور اسلام کے شدید دشمن تھے اور مسلمانوں کو تکلیف دینے والوں میں سے چوٹی کے آدمی تھے اتفاقاً اس قافلے کے بعض افراد کو مل گئے۔ ان میں ایک صحابیہ ام عبداللہؓ نامی بھی تھیں۔ بندھے ہوئے سامان اور تیار سواریوں کو جب آپؓ نے، حضرت عمرؓ نے دیکھا تو آپؓ سمجھ گئے کہ یہ لوگ مکہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ آپؓ نے کہا ام عبداللہؓ ! یہ تو ہجرت کے سامان نظر آ رہے ہیں۔ ام عبداللہؓ کہتی ہیں میں نے جواب میں کہا ہاں خدا کی قسم! ہم کسی اور ملک میں چلے جائیں گے کیونکہ تم نے ہم کو بہت دکھ دیے ہیں اور ہم پر بہت ظلم کیے ہیں۔ ہم اس وقت تک اپنے ملک میں نہیں لوٹیں گے جب تک خدا تعالیٰ ہمارے لیے کوئی آسانی اور آرام کی صورت نہ پیدا کر دے۔ ام عبداللہؓ بیان کرتی ہیں کہ عمرؓ نے جواب میں کہا کہ اچھا۔ خدا تمہارے ساتھ ہو۔ اور کہتی ہیں کہ میں نے ان کی آواز میں رِقّت محسوس کی حالانکہ اس وقت مسلمانوں کے مخالف تھے لیکن یہ ہجرت دیکھ کر بڑے جذباتی ہو گئے۔ خدا تمہارے ساتھ ہو کہا تو اس آواز میں ایک رِقّت تھی جو اس سے پہلے میں نے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ پھر وہ یعنی حضرت عمرؓ جلدی سے منہ پھیر کے وہاں سے چلے گئے اور میں نے محسوس کیا کہ اس واقعہ سے ان کی طبیعت نہایت ہی غمگین ہو گئی ہے۔
بہرحال جب ان لوگوں کے ہجرت کرنے کی مکہ والوں کو خبر ہوئی تو انہوں نے ان کا تعاقب کیا اور سمندرتک ان کے پیچھے گئے مگر یہ قافلہ ان لوگوں کے سمندر تک پہنچنے سے پہلے ہی حبشہ کی طرف روانہ ہو چکا تھا۔ مکہ والوں کو یہ معلوم ہوا تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک وفد بادشاہ حبشہ کے پاس بھیجا جائے جو اسے مسلمانوں کے خلاف بھڑکائے اور اسے تحریک کرے کہ وہ مسلمانوں کو مکہ والوں کے سپرد کر دے۔ بہرحال یہ وفد حبشہ گیا اور بادشاہ سے ملا۔ امرائے دربار کو بھی ان لوگوں نے خوب اکسایا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے بادشاہ حبش کے دل کو مضبوط کر دیا تھا اور اس نے باوجود ان لوگوں کے اصرار کے اور باوجود درباریوں کے اصرار کے، درباری جو تھے وہ مکہ والوں کی باتوں میں آ گئے تھے انہوں نے بھی بادشاہ کو بڑا کہا کہ ان کو مکہ والوں کے، کافروں کے سپرد کر دو۔ اس نے مسلمانوں کو کفار کے سپرد کرنے سے انکار کر دیا۔ جب یہ وفدناکام واپس آیا تب مکہ والوں نے ان مسلمانوں کو بلانے کے لیے ایک اور تدبیر سوچی اور وہ یہ کہ حبشہ جانے والے بعض قافلوں میں یہ خبر مشہور کر دی کہ مکہ کے سب لوگ مسلمان ہو گئے ہیں۔ جب یہ خبر حبشہ پہنچی تو اکثر مسلمان خوشی سے مکہ کی طرف واپس لوٹے مگر مکہ پہنچ کر ان کو معلوم ہوا کہ یہ خبر محض شرارتاً مشہور کی گئی ہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس پر کچھ لوگ تو واپس حبشہ چلے گئے جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے اور کچھ مکہ میں ٹھہر گئے۔ ان ٹھہرنے والوں میں سے حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ عثمان بن مظعونؓ بھی تھے جو مکہ کے ایک بہت بڑے رئیس کے بیٹے تھے۔ اس دفعہ ان کے باپ کے ایک دوست ولید بن مغیرہ نے ان کو پناہ دی اور وہ امن سے مکہ میں رہنے لگے مگر اس عرصے میں انہوں نے دیکھا کہ بعض دوسرے مسلمانوں کو دکھ دیے جاتے ہیں اور انہیں سخت سے سخت تکلیفیں پہنچائی جاتی ہیں۔ چونکہ وہ غیرت مندنوجوان تھے۔ ولید کے پاس گئے اور اسے کہہ دیا کہ میں آپ کی پناہ کو واپس کرتا ہوں کیونکہ مجھ سے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ دوسرے مسلمان دکھ اٹھائیں اور میں آرام سے رہوں۔ چنانچہ ولیدنے اعلان کر دیا کہ عثمانؓ اب میری پناہ میں نہیں۔ اس کے بعد ایک دن لبید، عرب کا ایک مشہور شاعر تھا مکہ کے رؤساء میں بیٹھا اپنے شعر سنا رہا تھا کہ اس نے ایک مصرع پڑھا؎
وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَا مَحَالَۃَ زَائِلٌ
جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر نعمت آخر مٹ جانے والی ہے۔ عثمان بن مظعونؓ نے کہا کہ یہ غلط ہے جنت کی نعمتیں ہمیشہ قائم رہیں گی۔ لبید ایک بہت بڑا آدمی تھا۔ یہ جواب سن کر جوش میں آ گیا اور اس نے کہا کہ اے قریش کے لوگو! تمہارے مہمان کو تو پہلے اس طرح ذلیل نہیں کیا جاتا تھا اب یہ نیا رواج کب سے شروع ہوا ہے؟ اس پر ایک شخص نے کہا یہ ایک بیوقوف آدمی ہے اس کی بات کی پروا نہیں کریں۔ حضرت عثمانؓ نے اپنی بات پر اصرار کیا اور کہا کہ بیوقوفی کی کیا بات ہے جو بات میں نے کہی ہے وہ سچ ہے۔ اس پر ایک شخص نے اٹھ کر زور سے آپ کے منہ پر گھونسا مارا، مکا مارا جس سے آپؓ کی ایک آنکھ نکل گئی یا سوج گئی۔ ولید اس وقت اس مجلس میں بیٹھا ہوا تھا جس نے آپؓ کو پناہ دی تھی۔ ان کے والد کا دوست، عثمانؓ کے باپ کے ساتھ اس کی بڑی گہری دوستی تھی۔ عثمانؓ کے والد فوت ہو گئے تھے تو اپنے مردہ دوست کے بیٹے کی یہ حالت اس سے دیکھی نہ گئی مگر مکہ کے رواج کے مطابق جب عثمانؓ اس کی پناہ میں نہیں تھے تو وہ ان کی حمایت بھی نہیں کر سکتا تھا اس لیے اَور تو کچھ نہ کر سکا نہایت ہی دکھ کے ساتھ عثمانؓ ہی کو مخاطب کر کے بولا کہ اے میرے بھائی کے بیٹے! خدا کی قسم تیری یہ آنکھ اس صدمہ سے بچ سکتی تھی جبکہ تو ایک زبردست حفاظت میں تھا (یعنی میری پناہ ولید کی پناہ میں تھا) لیکن تو نے خود ہی اپنی پناہ کو چھوڑ دیا اور یہ دن دیکھا۔ عثمانؓ نے جواب دیا کہ جو کچھ میرے ساتھ ہوا ہے میں خود اس کا خواہش مند تھا۔ تم میری پھوٹی ہوئی آنکھ پر ماتم کر رہے ہو حالانکہ میری تندرست آنکھ اس بات کے لیے تڑپ رہی ہے کہ جو میری بہن کے ساتھ ہوا ہے وہی میرے ساتھ کیوں نہیں ہوتا۔ لکھتے ہیں کہ انہوں نے کہا، عثمانؓ نے ولید کو یہ جواب دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ میرے لیے بس ہے۔ بہت کافی ہے۔ اگر وہ تکلیفیں اٹھا رہے ہیں تو میں کیوں نہ اٹھاؤں۔ میرے لیے خدا کی حمایت کافی ہے۔ (ماخوذ از دیباچہ تفسیر القرآن، انوارالعلوم جلد 20 صفحہ 202 تا 205)
عثمان بن مظعونؓ اور لبید بن ربیعہ کایہ جو واقعہ ہے جو عرب کا مشہور شاعر تھا اس کا اس طرح بھی تاریخوں میں ذکر ملتا ہے وہ بھی بتا دیتا ہوں۔ یہ عرب کا مشہور شاعر تھا۔ قریش کی مجلس میں بیٹھا تھا جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے۔ حضرت عثمانؓ بھی اس کے پاس بیٹھ گئے۔ لبیدنے پہلے اس کا یہ ایک مصرع پڑھا کہ
اَلَا کُلُّ شَیْءٍ مَّا خَلَا اللّٰہَ بَاطِلٌ
خبر دار! اللہ کے سوا سب کچھ باطل ہے۔ اس پر حضرت عثمانؓ کہنے لگے کہ تُو نے سچ کہا ہے۔ پھر لبیدنے کہا
وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَا مَحَالَۃَ زَائِلٌ
کہ بیشک ہر نعمت زوال پذیر ہے۔ حضرت عثمانؓ نے کہا تو نے جھوٹ کہا۔ لوگوں نے آپ کی طرف دیکھا اور لبید سے کہا کہ دوبارہ پڑھو جس پر لبیدنے دوبارہ پڑھا۔ حضرت عثمانؓ نے اسی طرح ایک دفعہ تصدیق اور ایک دفعہ جھٹلا دیا کہ جنت کی نعمتوں کو زوال نہیں ہے۔ لبید یہ جو شاعر تھے کہنے لگے کہ اے گروہ قریش! تمہاری محفلیں ایسی تو نہ تھیں۔ ان میں سے ایک احمق کھڑا ہوا اور اس نے حضرت عثمانؓ کی آنکھ پر تھپڑ مار دیا یا مکا مار دیا جس سے آپ کی آنکھ نیلی ہو گئی یا سوج گئی۔ آپؓ کے گرد موجود لوگوں نے کہا عثمانؓ ! خدا کی قَسم! تم ایک مضبوط پناہ میں تھے اور تمہاری آنکھ اس طرح کی تکلیف سے محفوظ تھی جو تمہیں ابھی پہنچی ہے۔ اس پر عثمانؓ نے کہا کہ اللہ کی امان زیادہ محفوظ ہے اور زیادہ معزز ہے اور میری دوسری آنکھ بھی اسی طرح کی مصیبت کی آرزومند ہے جو اس آنکھ کو پہنچی ہے۔ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھ ایمان لانے والوں کی پیروی لازم ہے۔ ولیدنے کہا کہ میری امان میں تمہیں کیا نقصان تھا؟ اس پر حضرت عثمانؓ نے کہا کہ مجھے اللہ کی امان کے سوا کسی امان کی حاجت نہیں۔ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 590 عثمان بن مظعون مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
یہ تھی ان لوگوں کے ایمان کی کیفیت اور یہ تھا ایک درد اپنے ساتھیوں کے لیے بھی کہ اگر وہ تکلیف میں ہیں تو ہم کیوں (بچے) رہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو تعلق تھا وہ تو تھا ہی محبت کا کہ وہ تکلیف میں ہیں تو مَیں کیوں بچوں۔ صحابہؓ کے نمونے دیکھ کے بھی ان کو بڑی تکلیف پہنچتی تھی۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ عثمان بن مظعونؓ کا اس طرح جواب دینا اس لیے تھا کہ انہوں نے قرآن کریم سنا ہوا تھا، اسلامی تعلیم سنی ہوئی تھی، قرآن کریم پڑھا ہوا تھا اور اب ان کے نزدیک شعروں کی کچھ حقیقت ہی نہیں تھی بلکہ خود بعد میں لبید بھی مسلمان ہو گیا تو آپؓ لکھتے ہیں کہ خود لبیدنے مسلمان ہونے پر یہی طریق اختیار کیا تھا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ اپنے ایک گورنر کو کہلا بھیجا کہ مجھے بعض مشہور شعراء کا تازہ کلام بھیجو۔ جب لبید جو اس وقت مسلمان ہو گئے تھے ان سے خواہش کا اظہار کیا گیا تو انہوں نے قرآن کریم کی چند آیات لکھ کر بھیج دیں۔ حضرت عثمانؓ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اور آپ کا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق اور پیار تھا اس کا اظہار اس ایک واقعہ سے ہوتا ہے۔ روایت میں آتا ہے کہ ان کے فوت ہونے پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بوسہ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے اس وقت آنسو جاری تھے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صاحبزادہ ابراہیم فوت ہوا تو آپؐ نے اس وقت بھی اس کی نعش پر فرمایا۔ اَلْحِقْ بِسَلَفِنَا الصَّالِح عُثْمَانَ ابْنَ مَظْعُونَ ؓ یعنی ہمارے صالح عزیز عثمان بن مظعونؓ کی صحبت میں جا۔ (ماخوذ از فضائل القرآن نمبر 4، انوارالعلوم جلد 12 صفحہ 456)
حضرت عثمان بن مظعونؓ کی مدینہ ہجرت کا واقعہ اس طرح ملتا ہے کہ حضرت عثمان بن مظعونؓ اور حضرت قُدَامَہ بن مظعونؓ اور حضرت عبداللہ بن مظعونؓ اور حضرت سائب بن عثمانؓ نے ہجرتِ مدینہ کے وقت حضرت عبداللہ بن سَلَمہ عجلانیؓ کے گھر قیام کیا تھا۔ ایک دوسرے قول کے مطابق یہ سب لوگ حضرت حِزَام بن وَدِیْعَہؓ کے ہاں قیام پذیر تھے۔ محمد بن عمر واقدی بیان کرتے ہیں کہ آل ِمظعون ان لوگوں میں سے تھے جن کے مرد اور عورتیں سب کے سب جمع ہو کر ہجرت کے لیے روانہ ہوئے تھے اور ان میں سے کوئی مکّہ میں باقی نہیں رہا۔ حضرت اُمِّ عَلَاء بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجرین مدینہ میں آئے تو انصار کی خواہش تھی کہ ان کے گھروں میں رکیں۔ اس پر ان کے لیے قرعہ ڈالا گیا تو حضرت عثمان بن مظعونؓ ہمارے حصے میں آئے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن مظعونؓ اور حضرت ابوہیثم بن تیّھانکے درمیان مؤاخات کا رشتہ قائم فرمایا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 302-303 ’’عثمان بن مظعون‘‘ ومن بنی جمح بن عمرو۔ دارالکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت عثمانؓ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور غزوۂ بدر میں بھی شامل ہوئے۔ آپؓ تمام لوگوں سے زیادہ جوش کے ساتھ عبادات بجا لاتے تھے۔ دن کو روزہ رکھتے تھے اور رات کو عبادت کیا کرتے تھے۔ خواہشات سے بچ کر رہتے تھے اور عورتوں سے دور رہنے کی کوشش کرتے۔ آپؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دنیا ترک کرنے اور خود کو خصّی کر دینے کی اجازت مانگی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا۔ یہ تاریخ کی کتاب اُسد الغابہ میں لکھا ہے۔ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ590 ’’عثمان بن مظعون‘‘ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
پھر یہ روایت ہے کہ ایک دن حضرت عثمان بن مظعونؓ کی اہلیہ ازواجِ مطہرات کے پاس آئیں۔ ازواجِ مطہرات نے انہیں پراگندہ حالت میں، میلے کپڑے، بال بکھرے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ تم نے ایسی حالت کیوں بنا رکھی ہے؟ اپنے آپ کو سنوار کر رکھا کرو۔ تمہارے شوہر سے زیادہ دولت مند تو قریش میں کوئی نہیں ہے۔ یہ نہیں ہے کہ تم afford نہیں کر سکتی۔ تمہارا شوہر بڑا امیر آدمی ہے۔ اپنی حالت تو ٹھیک رکھو۔ تو آپؓ کی، حضرت عثمانؓ کی بیوی ازواجِ مطہرات کو کہنے لگیں جو ساری اکٹھی بیٹھی ہوئی تھیں کہ ہمارے لیے ان میں سے کچھ نہیں ہے یعنی جو کچھ آپ کہتی ہیں نہ عثمان کے پاس دولت یا وہ کچھ نہیں۔ کیوں؟ کیونکہ وہ اس کے جذبات ہمارے لیے کچھ نہیں ہیں۔ وہ رات کو بھی عبادت کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگے رہتے ہیں۔ ہماری طرف توجہ نہیں دیتے۔ دن کو روزے رکھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو ازواج نے آپؐ کو بتایا۔ عثمانؓ کی بیوی کی یہ بات سن کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمانؓ سے ملے اور فرمایا کیا تمہارے لیے میری ذات میں اسوہ نہیں ہے؟ وہ عرض کرنے لگے کہ میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں۔ کیا بات ہو گئی؟حضرت عثمانؓ نے کہا کہ میں تو کوشش کرتا ہوں کہ بالکل آپؐ کے مطابق چلوں۔ تواس پر آپؐ نے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم دن بھر روزے رکھتے ہو اور رات بھر عبادت کرتے ہو۔ انہوں نے عرض کی جی ہاں میں ایسا ہی کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا مت کرو۔ تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے۔ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے اہل کا بھی تم پر حق ہے۔ تمہارے بیوی بچوں کا تم پر حق ہے۔ پس نماز پڑھو اور سو بھی۔ سونا بھی ضروری ہے۔ نفل پڑھو، راتوں کو جاگو لیکن سونا بھی ضروری ہے۔ روزہ رکھو اور چھوڑو بھی۔ اگر نفلی روزے رکھنے ہیں تو بیشک رکھو لیکن کچھ دن ناغے بھی ہونے چاہئیں۔ یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ سے فرمائی تو کچھ عرصہ کے بعد ان کی بیوی ازواجِ مطہرات کے پاس دوبارہ آئیں تو انہوں نے خوشبو لگائی ہوئی تھی گویا کہ وہ دلہن ہوں۔ انہوں نے کہا کیا بات ہے آج بڑی سجی بنی ہو۔ اس پر وہ کہنے لگیں کہ ہمیں بھی وہ چیز حاصل ہو گئی ہے جو لوگوں کو میسر ہے یعنی کہ اب خاوند توجہ دیتا ہے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 302 ’’عثمان بن مظعون‘‘ دارالکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت عائشہؓ سے اس بارے میں روایت ہے۔ آپؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعونؓ کو بلایا اور فرمایا کیا تُو میرے طریقے کو ناپسندکرتا ہے؟ وہ بولے یا رسول اللہ!نہیں میں آپؐ ہی کے طریقے کو تلاش کرتا ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں سوتا بھی ہوں اور نماز بھی پڑھتا ہوں۔ روزہ بھی رکھتا ہوں اور کبھی نہیں بھی رکھتا۔ اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ اے عثمان! تو اللہ سے ڈر تجھ پر تیری بیوی کا حق ہے۔ تیرے مہمان کا حق ہے اور خود تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے۔ پس کبھی کبھی روزہ بھی رکھو اور کبھی نہ رکھو۔ نماز بھی پڑھو اور سویا بھی کرو۔ (سنن ابی داؤد كِتَابُ التَّطَوُّع بَاب: مَا يُؤْمَرُ بِهِ مِنَ القَصْدِ فِي الصَّلَاةِحدیث 1369)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بخاری کے حوالے سے بیان فرمایا ہے کہ ’’سعد بن ابی وقاصؓ روایت کرتے ہیں کہ عثمان بن مظعونؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عورتوں سے بالکل ہی علیحدہ ہو جانے کی اجازت چاہی مگر آپؐ نے اس کی اجازت نہیں دی اور اگر آپؐ اجازت دے دیتے تو ہم لوگ تیار تھے کہ اپنے آپ کو گویا بالکل خصّی ہی کر لیتے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ418) ان جذبات کو بالکل ختم کرنے کے لیے اپنی پوری کوشش کرتے۔
بخاری کی جو حدیث ہے اس کا ترجمہ بتا دیتا ہوں۔ وہ اس طرح ہے حضرت سعد بن اَبی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن مظعونؓ نے تَبتّل کی اجازت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے طلب کی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے انکار کر دیا تھا۔ اور صحیح بخاری کی کتاب النکاح کی یہ حدیث ہے اور پھر یہاں یہ بھی اسی طرح لکھا ہے، جو بیان ہو چکا ہے کہ اگر آپؐ اس کی اجازت دے دیتے تو ہم سب شاید تارک الدنیا ہو جاتے۔ (صحیح البخاری کتاب النکاح باب ما یکرہ من التبتل والخصاء حدیث 5073)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ پھر مزید لکھتے ہیں کہ ’’عثمان بن مظعونؓ تھے جو بنو جُمَحْ میں سے تھے۔ نہایت صوفی مزاج آدمی تھے۔ انہوں نے زمانہ جاہلیت میں ہی شراب ترک کر رکھی تھی۔‘‘ اسلام لانے سے پہلے بھی کبھی شراب نہیں پیتے تھے، ’’اور اسلام میں بھی تارک دنیا ہونا چاہتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرماتے ہوئے کہ اسلام میں رہبانیت جائز نہیں ہے۔ اس کی اجازت نہیں دی۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ124)
اسلام کہتا ہے کہ اس دنیا میں رہو۔ اس دنیا کی جو نعمتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں پیدا کی ہیں ان سے فائدہ اٹھاؤلیکن اللہ تعالیٰ کو نہ بھولو۔ وہ ہمیشہ تمہارے سامنے رہنا چاہیے۔
حضرت قُدَامَہ بن مظعونؓ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطّابؓ نے حضرت عثمان بن مظعونؓ کو پایا۔ وہ اپنی سواری کے اوپر تھے اور حضرت عثمانؓ اپنی سواری کے اوپر تھے۔ اَثَایَہ نامی گھاٹی پر ان دونوں کی ملاقات ہوئی۔ اَثَایَہْ، ذُوْالْحُلَیْفَہ کے بعد جُحْفَہْ کے راستے میں مدینہ سے ستتر (77)میل کے فاصلے پر ہے۔ یہ اس کی لوکیشن (Location) بتائی گئی ہے بہرحال حضرت عمرؓ کی اونٹنی نے حضرت عثمانؓ کی اونٹنی کو بھینچ دیا، ذرا دبایا۔ زیادہ قریب ہو گئے تو اونٹنی نے دبا دیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری قافلے کے کافی آگے تھی۔ حضرت عثمان بن مظعونؓ نے کہا یا غَلْقَ الْفِتْنَۃِ!آپ نے مجھے تکلیف دی ہے۔ جب سواریاں رکیں تو حضرت عمر بن خطابؓ قریب آئے اور کہا اے ابوسائب! یعنی عثمان بن مظعونؓ کو کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت کرے وہ کون سا نام تھا جس کے ساتھ تم نے مجھے پکارا تھا۔ یہ کہہ کر پکارا تھا‘غَلْقَ الْفِتْنَۃِ’تو انہوں نے کہا نہیں اللہ کی قسم! آپؓ کا وہ نام میں نے نہیں رکھا۔ جس نام سے میں نے پکارا تھا وہ میں نے نہیں کہا تھا۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کا وہ نام رکھا تھا۔ پھر کہنے لگے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم قافلے کے آگے ہیں اور اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم آگے چل رہے تھے۔ اس کے بعد حضرت عثمان بن مظعونؓ نے انہیں بتایا کہ آگے ہیں آپؓ پوچھ بھی سکتے ہیں۔ پھر بیان کی تفصیل یہ ہے کہ ایک مرتبہ آپؓ ہمارے پاس سے گزرے یعنی حضرت عمرؓ ہمارے پاس سے گزرے جبکہ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ شخص غَلْقُ الْفِتْنَۃِہے یعنی فتنے کی راہ میں روک ہے۔ یہ کہتے ہوئے آپؐ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ تمہارے اور فتنے کے درمیان ایک دروازہ ہو گا جو بہت زیادہ سختی سے بند رہے گا جب تک یہ شخص تمہارے درمیان زندہ رہے گا۔ (المعجم الکبیر للطبرانی جلد 9 صفحہ38-39 باب ما اسند عثمان بن مظعون حدیث 8321، دار احیاء التراث العربی بیروت 2002ء) (فرہنگِ سیرت از سیدفضل الرحمٰن صفحہ 29 زوار اکیڈیمی پبلیکیشنز کراچی 2003ء) یعنی جب تک حضرت عمرؓ کی زندگی ہے کوئی فتنہ اسلام میں نہیں آئے گا اور تاریخ بھی یہی بتاتی ہے۔ اس کے بعد ہی زیادہ فتنے شروع ہوئے۔
اس جگہ جو حضرت عثمان بن مظعونؓ نے حضرت عمر بن خطّابؓ کے متعلق غَلْقُ الْفِتْنَۃِکے یہ الفاظ بیان کیے ہیں اس کی تفصیل بیان کرتا ہوں۔ حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو انہوں نے کہا کہ تم میں سے کون فتنے سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات یاد رکھتا ہے تو میں نے کہا کہ مَیں۔ ویسے ہی جیسے کہ آپؐ نے فرمایا تھا۔ اسی طرح یاد رکھتا ہوں جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یا کہا روایت کرنے پر بہت ہی دلیر ہو۔ یعنی بڑا یقین ہے تمہیں اور تم یہ بڑی جرأت سے کام لے رہے ہو۔ میں نے کہا کہ آدمی کو ابتلا اس کی بیوی اور اس کے مال اور اس کی اولاد اور اس کے پڑوسی کی وجہ سے آتاہے۔ یہ بھی فتنے ہیں۔ نماز، روزہ، صدقہ اور نیکیوں کا حکم اور بدیوں سے روکنا اس ابتلا کو دور کر دیتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا میری مراد اس سے نہیں ہے۔ یہ اولاد کی، دولت کی ساری چیزیں ہیں، فتنے ہیں جن کو تم نمازیں پڑھ کے، روزہ رکھ کے، صدقہ دے کر اور کئی نیکیاں کر کے دور کر سکتے ہو۔ حضرت عمرؓ نے کہامیری مراد یہ نہیں ہے بلکہ اس فتنے سے ہے جو اس طرح موجیں لے گا جس طرح سمندر۔ بہت شدید قسم کا فتنہ ہے جو امت میں آئے گا۔ حضرت حذیفہؓ نے کہا کہ امیر المؤمنین! آپؓ کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ وہ جو فتنہ پیدا ہونا ہے اس سے آپؓ کو کوئی خطرہ نہیں۔ آپؓ کی زندگی تک کو ئی نہیں ہے کیونکہ آپؓ کے اور اس کے درمیان ایک بند کیا ہوا دروازہ ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ کیا وہ توڑا جائے گا یا کھولا جائے گا؟ انہوں نے وہی بیان کیا، عرض کیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ان کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ تو حضرت عمرؓ نے اس پر ان سے پوچھا کیا وہ دروازہ توڑا جائے گا یا کھولا جائے گا۔ تو انہوں نے کہا کہ توڑا جائے گا۔ ایسا دروازہ ہے جو توڑا جائے گا۔ تو حضرت عمرؓ نے کہا تب تو کبھی بھی بندنہیں ہو گا۔ اگر دروازہ کھولا جائے تو بند کرنے کے امکان ہوتے ہیں لیکن اگر توڑا جائے تو پھر اس کو بند کرنا بہت مشکل کام ہے۔ حضرت عمرؓ نے اس بات پہ کہا پھر تو یہ کبھی بندنہیں ہو گا۔ یعنی جو فتنے ہیں وہ چلتے چلے جائیں گے اگر ایک دفعہ شروع ہوئے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ فتنے مسلمان امت میں بڑھتے چلے گئے۔ ایک کے بعد دوسرا فتنہ پیدا ہوتا چلا گیا۔ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں، حضرت علیؓ کے زمانے میں، پھر بعد کے زمانوں میں اور اب تک یہی فتنے ہیں جو مسلمانوں میں جاری ہیں۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں اور اس دیوار کے پیچھے یہ آنا نہیں چاہتے جو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں اس دروازے کو بند کرنے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے قائم فرمائی ہے۔ اس لیے یہ فتنے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی محفوظ رکھے کہ ہم احمدی اس ڈھال کے پیچھے رہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہمیں مہیا فرمائی ہے اور اس دیوار کے پیچھے رہیں۔ توبہرحال یہ باتیں ہو رہی تھیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا یہ فتنہ تو پھر کبھی بندنہیں ہو گا۔ تو ہم نے ان سے کہا، ان لوگوں نے جو ساتھ بیٹھے ہوئے تھے روایت کرنے والے سے، حضرت حذیفہؓ سے پوچھا۔ کیا حضرت عمرؓ اس دروازے کو جانتے تھے؟ حضرت حذیفہؓ نے کہا ہاں۔ وہ اسے ایسے ہی جانتے تھے جیسے یہ کہ کل سے پہلے رات ہے یعنی بالکل یقینی بات تھی۔ حضرت عمرؓ کو پتا تھا کہ میرے بعد پھر فتنے پیدا ہو جائیں گے۔ (صحیح البخاری کتاب مواقیت الصلوٰۃ باب الصلوٰۃ کفارۃ حدیث 525)
حضرت عثمان بن مظعونؓ پہلے مہاجر تھے جنہوں نے مدینے میں وفات پائی۔ آپؓ دو ہجری میں فوت ہوئے۔ بعض کے نزدیک آپؓ کی وفات غزوۂ بدر کے بائیس ماہ کے بعد ہوئی اور آپؓ جنت البقیع میں دفن ہونے والے پہلے شخص تھے۔ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 591 عثمان بن مظعون مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
آپؓ جنت البقیع میں مدفون ہونے والے پہلے شخص تھے۔ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 591 عثمان بن مظعون مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
جنت البقیع کی بنیاد اور ابتدا کے بارے میں جو تفصیل ملی ہے وہ اس طرح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ میں وُرود کے بعد وہاں بہت سے قبرستان تھے۔ یہودیوں کے اپنے قبرستان ہوا کرتے تھے جبکہ عربوں کے مختلف قبائل کے اپنے اپنے قبرستان تھے۔ مدینہ طیبہ چونکہ اس وقت مختلف علاقوں میں بٹا ہوا تھا۔ اس لیے ہر قبیلہ اپنے ہی علاقے میں کھلی جگہ پر اپنی میتوں کو دفنا دیتا تھا۔ قبا کا الگ قبرستان تھا جو زیادہ مشہور تھا گو کہ وہاں چھوٹے چھوٹے کئی اَور قبرستان بھی تھے۔ قبیلہ بنو ظفر کا اپنا قبرستان تھا اور بنو سلمہ کا اپنا الگ قبرستان تھا۔ دیگر قبرستانوں میں بنو ساعِدہ کا قبرستان تھا جس کی جگہ بعد میں سوق النبیؐ قائم ہوا۔ جس جگہ پر مسجدنبویؐ تعمیر ہوئی وہاں بھی کھجوروں کے جھنڈ میں چند مشرکین کی قبریں تھیں۔ ان تمام قبرستانوں میں بَقِیْعُ الْغَرْقَد سب سے پرانا اور مشہور قبرستان تھا۔ اور پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسلمانوں کے قبرستان کے لیے منتخب کر لیا تو اس کے بعد سے آج تک اسے ایک منفرد اور ممتاز حیثیت حاصل رہی ہے جو ہمیشہ رہے گی۔
حضرت عبیداللہ بن ابی رافعؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسی جگہ کی تلاش میں تھے جہاں صرف مسلمانوں کی قبریں ہوں اور اس غرض سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف جگہوں کو ملاحظہ بھی فرمایا۔ جا کےدیکھا۔ یہ فخر بَقِیْعُ الْغَرْقَد کے حصے میں لکھا تھا۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ میں اس جگہ کو یعنی بقیع الغرقد کو منتخب کر لوں۔ اسے اس دَور میں بَقِیْعُ الْخَبْخَبَہ کہا جاتا تھا۔ اس میں بے شمار غرقد کے درخت اور خود رَو جھاڑیاں ہوا کرتی تھیں۔ مچھروں اور دیگر حشرات الارض کی اس جگہ پہ بھرمار تھی اور مچھر جب اس جگہ گند کی وجہ سے یا جنگل کی وجہ سے اڑتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ دھوئیں کے بادل چھا گئے ہوں۔ وہاں سب سے پہلے جن کو دفن کیا گیا اور جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے وہ حضرت عثمانؓ بن مظعون تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قبر کے سرھانے ایک پتھر نشانی کے طور پر رکھ دیا اور فرمایا یہ ہمارے پیش رَو ہیں۔ ان کے بعد جب بھی کسی کی فوتیدگی ہوتی تو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے کہ انہیں کہاں دفن کیا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ ہمارے پیش رَو عثمانؓ بن مظعون کے قریب۔ بقیع عربی میں ایسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں درختوں کی بہتات ہوں، بہت زیادہ درخت ہوں۔ مدینہ طیبہ میں اس مقام کو بقیع الغرقد کے نام سے جانا جانے لگا کیونکہ وہاں غرقد کے درختوں کی بہتات تھی۔ اس کے علاوہ وہاں دیگر خود رَو صحرائی جھاڑیاں بھی بہت زیادہ تعداد میں تھیں۔ اسے جنت البقیع بھی کہا جاتا ہے۔ جنت کے لفظ کا عربی میں ایک مطلب ہے باغ یا فردَوس۔ اس لیے یہ جگہ زیادہ تر عجمی زائرین میں جنت البقیع کے نام سے جانی جاتی ہے۔ عبد الحمید قادری صاحب ہیں انہوں نے یہ تفصیل لکھی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عرب عموماً اپنے مقابر اور قبرستانوں کو جنت ہی کہہ کر پکارتے ہیں۔ اس کا ایک نام مَقَابِرُ البَقِیْع بھی ہے جو اعرابیوں میں زیادہ مشہور ہے۔ (ماخوذ از جستجوئے مدینہ از عبد الحمید قادری صاحب صفحہ 598 مطبوعہ اور ینٹل پبلی کیشنز لاہور پاکستان2007ء)
جو صحراکے رہنے والے تھے، گاؤں کے رہنے والے تھے ان میں یہ زیادہ مشہور ہے۔ حضرت سالم بن عبداللہؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب کوئی فوت ہو جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے اس کو آگے ہمارے گئے ہوئے بندوں کے پاس بھیج دو۔ عثمانؓ بن مظعون میری امت کا کیا ہی اچھا پیش رَو تھا۔ (المعجم الکبیر للطبرانی جلد 12صفحہ228 حدیث نمبر 13160 دار احیاء التراث العربی بیروت 2002ء)
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت عثمانؓ کی وفات ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی نعش کے پاس آئے۔ آپؐ ان پر تین بار جھکے اور سر اٹھایا اور بلند آواز سے فرمایا اے ابو سائب! اللہ تم سے درگذر کرے۔ تم دنیا سے اس حال میں گئے کہ دنیا کی کسی چیز سے آلودہ نہیں ہوئے۔
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ بن مظعون کی نعش کو بوسہ دیا جبکہ آپؐ رو رہے تھے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رو رہے تھے اور آپؐ کی دونوں آنکھیں اشک بار تھیں۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آنحضورؐ نے حضرت عثمانؓ کی وفات کے بعد آپؐ کو بوسہ دیا۔ کہتی ہیں کہ مَیں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو حضرت عثمانؓ کے رخسار پر بہ رہے تھے، اتنے زیادہ تھے کہ پھر وہ آنسو بہ کر حضرت عثمانؓ کے رخساروں پر بھی گرنے لگے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم نے وفات پائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اَلْحِقْ بِالسَّلَفِ الصَّالِحِ عُثْمَانَ ابْنَ مَظْعُوْن یعنی سلف صالح عثمانؓ بن مظعون سے جا کر مل جاؤ۔ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 591 عثمان بن مظعون مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء) (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 303 ’’عثمان بن مظعون‘‘ دارالکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت عثمان بن عفانؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ بن مظعون کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس پر چار تکبیرات کہیں۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ما جاء فی التکبیرعلی الجنازۃ اربعاً حدیث نمبر1502)
بعض لوگ بعض دفعہ کہتے ہیں کہ تین سے زیادہ نہیں ہو سکتیں۔ چار تکبیرات بھی ہو سکتی ہیں۔ مُطَّلِبْ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عثمانؓ بن مظعون کی وفات ہوئی۔ ان کا جنازہ نکالا گیا پھر ان کو دفن کیا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ وہ ایک پتھر لائے۔ وہ پتھر نہ اٹھا سکا، بڑا بھاری پتھر تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف کھڑے ہوئے، ادھر گئے۔ آپؐ نے اپنے دونوں ہاتھ، دونوں بازوؤں سے کپڑااوپر کیا، اپنے بازو کی آستینیں چڑھائیں، قمیض کی آستینیں چڑھائیں۔ مُطَّلِبْ نے کہا، جس نے یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے اس نے کہا کہ گویا مَیں اب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں بازوؤں کی سفیدی دیکھ رہا ہوں۔ ابھی بھی مجھے وہ واقعہ بڑی اچھی طرح یاد ہے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بازو خوبصورت تھے۔ اُن کی سفیدی مجھے نظر آ رہی ہے جب آپؐ نے ان سے کپڑا ہٹایا تھا، آستینیں چڑھائی تھیں۔ پھر آپؐ نے وہ پتھر اٹھایا اور اسے حضرت عثمانؓ بن مظعون کے سرھانے رکھ دیا اور فرمایا مَیں اس نشانی کے ذریعے اپنے بھائی کی قبر پہچان لوں گا اور میرے اہل میں سے جو وفات پائے گا اسے میں اس کے پاس دفن کروں گا۔ سنن ابی داؤد کا یہ حوالہ ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الجنائزبَاب فی جمع الموتی فی قبر والقبر یعلم حدیث 3206)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے حضرت عثمانؓ بن مظعون کی وفات سے متعلق جو تفصیل بیان کی ہے اس میں سے چند باتیں پیش کرتا ہوں۔ آپؓ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ 2ہجری کے واقعات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’اسی سال کے آخر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے لیے مدینے میں ایک مقبرہ تجویز فرما یاجسے جنت البقیع کہتے تھے۔ اس کے بعد صحابہ عموماً اس مقبرے میں دفن ہوتے تھے۔ سب سے پہلے صحابی جو اس مقبرے میں دفن ہوئے وہ عثمانؓ بن مظعون تھے۔ عثمان بہت ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے اور نہایت نیک اور عابد اور صوفی منش آدمی تھے۔ مسلمان ہونے کے بعد ایک دفعہ انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضور مجھے اجازت مرحمت فرمائیں تومیں چاہتا ہوں کہ بالکل تارک الدنیا ہوکر اور بیوی بچوں سے علیحدگی اختیار کرکے اپنی زندگی خالصتًا عبادت الٰہی کے لیے وقف کردوں مگرآپؐ نے اس کی اجازت نہیں دی۔‘‘ اس کی تفصیل بھی میں گذشتہ خطبے میں بیان کر چکا ہوں۔ بہرحال پھر یہ مرزا بشیر احمد صاحب ہی آگے لکھتے ہیں کہ ’’……عثمانؓ بن مظعون کی وفات کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت صدمہ ہوا اور روایت آتی ہے کہ وفات کے بعد آپؐ نے ان کی پیشانی پر بوسہ دیا اور اس وقت آپؐ کی آنکھیں پُرنم تھیں۔ ان کے دفنائے جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قبر کے سرھانے ایک پتھر بطورعلامت کے نصب کروا دیا اور پھرآپؐ کبھی کبھی جنت البقیع میں جاکر ان کے لیے دعافرمایا کرتے تھے۔ عثمانؓ پہلے مہاجر تھے جومدینہ میں فوت ہوئے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ462-463)
حضرت عثمانؓ بن مظعون کی وفات پر آپؓ کی بیوی نے مرثیہ میں لکھا اور وہ یہ تھا کہ
یَا عَیْنُ جُوْدِیْ بِدَمْعٍ غَیْرِ مَمْنُوْنِ
عَلٰی رَزِیَّۃِ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُوْنِ
عَلَی امْرِیءٍ بَاتَ فِیْ رِضْوَانِ خَالِقِہٖ
طُوْبٰی لَہُ مِنْ فَقِیْدِ الشَّخْصِ مَدْفُوْنِ
طَابَ الْبَقِیْعُ لَہٗ سُکْنٰی وَ غَرْقَدُہٗ
وَأَشْرَقَتْ اَرْضُہٗ مِنْ بَعْدِ نَعْیَیْنِ
وَأَوْرَثَ الْقَلْبَ حُزْنًا لَا انْقِطَاعَ لَہٗ
حَتَّی الْمَمَات فَمَا تَرْقٰی لَہٗ شُوْنِیْ
(اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 591 عثمان بن مظعون مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
ترجمہ اس کا یہ ہے کہ اے آنکھ! عثمان کے سانحے پر تُو نہ رکنے والے آنسو بہا۔ اس شخص کے سانحے پر جو اپنے خالق کی رضا مندی میں شب بسر کرتا تھا۔ اس کے لیے خوشخبری ہو کہ ایک فقید المثال شخص مدفون ہو چکا ہے۔ بقیع اور غرقد اپنے اس مکین سے پاکیزہ ہو گیا اور اس کی زمین آپؓ کی تدفین کے بعد روشن ہو گئی۔ آپؓ کی وفات سے دل کو ایسا صدمہ پہنچا ہے جو موت تک کبھی ختم نہ ہونے والا ہے اور میری یہ حالت نہ بدلنے والی ہے۔ (اسد الغابہ۔ جلد 3 صفحہ495۔ دار الفکر بیروت) یہ ان کی اہلیہ نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔
حضرت اُمِّ عَلَاء جوانصاری عورتوں میں سے ایک خاتون تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر چکی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب انصار نے مہاجرین کے رہنے کے لیے قرعے ڈالے تو حضرت عثمانؓ بن مظعون کا قرعہ ٔسکونت یعنی ٹھہرنے کی جگہ ہمارے نام نکلا کہ ہم اپنے گھر ٹھہرائیں۔ حضرت اُمِّ عَلَاء کہتی تھیں کہ حضرت عثمانؓ بن مظعون ہمارے پاس رہے۔ وہ بیمار ہوئے تو ہم نے ان کی خدمت کی اور جب وہ فوت ہو گئے اور ہم نے انہیں ان کے کپڑوں میں ہی کفنایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے۔ میں نے کہا یعنی حضرت ام علاء کہتی ہیں کہ مَیں نے کہا کہ اللہ کی رحمت ہو تم پر ابو سائب! یہ ان کی، حضرت عثمانؓ بن مظعون کی کنیت تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے انہوں نے، حضرت ام عَلَاء نے یہ الفاظ دہرائے کہ اللہ کی رحمت ہو تم پر ابو سائب! میری شہادت تو تمہارے متعلق یہی ہے کہ اللہ نے تجھے ضرور عزت بخشی ہے۔ یہ الفاظ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دہرائے کہ میں شہادت دیتی ہوں کہ اللہ نے تمہیں ضرور عزت بخشی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ بات سنی تو اُن سے پوچھا، کہتی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ضرور عزت بخشی ہے۔ تو کہتی ہیں میں نے کہا کہ یا رسولؐ اللہ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان۔ مَیں نہیں جانتی، مجھے یہ تو نہیں پتا لیکن بہرحال میرے جذبات تھے میں نے اظہار کر دیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جہاں تک عثمانؓ کا تعلق ہے تو وہ اب فوت ہو گئے اور مَیں ان کے لیے بہتری کی ہی امید رکھتا ہوں۔ یہی امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ضرور ان کو عزت بخشے گا لیکن اللہ کی قسم! آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں بھی نہیں جانتا کہ عثمانؓ کے ساتھ کیا ہو گا۔ دعا تو ضرور ہے لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ انہیں ضرور عزت بخشی ہے حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ یہ سن کر حضرت ام عَلَاء نے کہا بخدا اس کے بعد میں کسی کو بھی یوں پاک نہیں ٹھہراؤں گی۔ اس طرح کے الفاظ نہیں دہراؤں گی کہ ضرور بخشا گیا اور مجھے اس بات نے غمگین کر دیا۔ کہتی تھیں کہ میں سو گئی۔ اسی غم میں مَیں سو گئی، ایک خاص تعلق تھا۔ جذبات بھی تھے۔ تو بہرحال کہتی ہیں جب میں رات کو سوئی تو مجھے خواب میں حضرت عثمانؓ کا ایک چشمہ دکھایا گیا جو بہ رہا تھا۔ پانی کا ایک چشمہ تھا وہ بہ رہا تھا اور یہ دکھایا گیا کہ یہ حضرت عثمانؓ کا چشمہ ہے۔ اس خواب کے دیکھنے کے بعد کہتی ہیں مَیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور میں نے آپؐ کو یہ بتایا کہ میں نے اس طرح خواب دیکھی ہے تو آپؐ نے فرمایا یہ اس کے عمل ہیں۔ (صحیح البخاری کتاب الشھادات باب القرعة فی المشکلات حدیث 2687)
یہ چشمہ جو بہ رہا تھا تو اب اللہ تعالیٰ نے تمہیں دکھا دیا کہ وہ جنت میں ہے اور یہ اس کے عمل ہیں جس کے چشمے اب وہاں بہ رہے ہیں۔ پس یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا ایک طریق تھا کہ یوں ہی اتنے وثوق سے اللہ تعالیٰ کی بخشش کے بارے میں شہادت نہ دے دیا کرو۔ ہاں جب خواب میں حضرت عثمانؓ بن مظعون کے اعلیٰ اعمال ایک چشمے کی صورت میں حضرت ام عَلَاء کو دکھائے گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق فرمائی۔ ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو جانتے تھے کہ ان بدری صحابہ سے خدا تعالیٰ راضی ہوا ہے اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں اور آپؓ کے متعلق جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جذبات کا اظہار فرمایا وہ واضح کرتا ہے کہ آپؐ کو ان کے بارے میں یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ وہ دعائیں سنے گا اور وہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں گے لیکن پھر بھی آپؐ نے کہا تم کسی کے بارے میں شہادت نہیں دے سکتے۔
مسند احمد بن حنبل میں یہ مضمون کچھ اس طرح بیان ہے کہ خَارِجَہ بن زَید اپنی والد ہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ حضرت عثمانؓ بن مظعون کی جب وفات ہوئی تو خارجہ بن زید کی والدہ نے کہا ابوسائب! تم پاک ہو۔ تمہارے اچھے دن بہت اچھے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سن لیا اور فرمایا یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا میں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیا چیز بتاتی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!عثمانؓ بن مظعون یعنی ان کے عمل اور ان کی عبادتیں ایسی تھیں۔ یہی چیزیں مجھے ظاہر کرتی ہیں کہ ضرور اللہ تعالیٰ نے ان سے مغفرت کا سلوک کر دیا، بخش دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم نے عثمانؓ بن مظعون میں بھلائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔ یقیناً عثمانؓ بن مظعون ایسا شخص تھا کہ بھلائی کے سوا میں نے اس میں کچھ نہیں دیکھا لیکن ساتھ ہی آپؐ نے فرمایا کہ اور یہ بھی یاد رکھو کہ مَیں اللہ کا رسول ہوں لیکن بخدا میں بھی نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جائےگا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ872 حدیث ام العلاء الانصاریہ، حدیث نمبر 28006عالم الکتب بیروت 1998ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر تو خدا تعالیٰ کا کوئی محبوب نہیں۔ آپؐ حبیبِ خدا ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی بے نیازی اور اس کے خوف اور خشیت کا یہ عالم ہے کہ اپنے بارے میں بھی فرماتے ہیں کہ مجھے نہیں پتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا۔ پس ہمارے لیے کس قدر خوف کا مقام ہے اور کس قدر ہمیں فکر ہونی چاہیے کہ نیک اعمال کریں۔ خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ کریں اور اس کے باوجود اس بات پر فخر نہیں بلکہ عاجزی میں بڑھتے چلے جائیں اور اس سے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا رحم اور اس کے فضل کی بھیک مانگتے رہیں کہ وہ اپنے رحم اور فضل سے ہمیں بخش دے۔
مسند احمد بن حنبل کی ایک اَور روایت میں درج ہے کہ حضرت ام علاء کہتی ہیں کہ ہمارے ہاں عثمانؓ بن مظعون بیمار ہو گئے۔ ہم نے ان کی تیمار داری کی یہاں تک کہ جب فوت ہو گئے تو ہم نے ان کو ان کے کپڑوں میں لپیٹ دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے۔ میں نے کہا اے ابو سائب! اللہ کی رحمت آپ پر ہو۔ یہ میری آپؓ پر گواہی ہے کہ اللہ نے آپؓ کا اکرام کیا ہے، بہت عزت احترام کیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیاپتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا اکرام کیا ہے؟ کہتی ہیں مجھے نہیں پتا میرے ماں باپ آپؐ پر قربان۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جہاں تک اس کا تعلق ہے اس کو وہ یقینی بلاوا یعنی موت اس کے رب کی طرف سے آ گیا ہے اور مَیں اس کے لیے خیر کی امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ خیر کا معاملہ کرے گا لیکن اللہ کی قسم!مَیں بھی نہیں جانتا، مَیں اللہ کا رسول ہوں کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے کہا میں اس کے بعد کسی کو پاک نہیں قرار دوں گی لیکن اس کے بعد اس بات نے مجھے غمگین کیا پھر اسی خواب کا ذکر کیا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب سنائی۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 871-872 حدیث ام العلاء الانصاریہ، حدیث نمبر 28004عالم الکتب بیروت 1998ء)
تو پہلی دو مختلف کتابوں میں، حدیثوں میں اس واقعے کو لکھا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے درجات تو بلند کیے ہی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں بھی تھیں اور ہمیشہ بلند فرماتا چلا جائے اور وہ نیک نمونے ہم لوگ بھی اپنے اندر قائم کرنیوالے ہوں۔