علامہ اقبال کی طرف سے جماعت احمدیہ پر پیر پرستی کا جھوٹا اور مکروہ الزام
شیخ عبدالماجد، لاہور
سر اقبال نے پنڈت نہرو کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے اپنے مضمون جنوری ۱۹۳۶ء میں لکھا کہ ہندوستان کا شمال مغربی علاقہ غیر مہذب (More Primitive)اور پیرپرست (More Saint-Ridden)علاقہ ہے ۔ وہاں سرسیدکی تحریک کے ردّعمل کے طور پر احمدیہ تحریک شروع ہوئی۔ علامہ کا مقصود یہ تاثر دینا تھا کہ وہ لوگ جو احمدیت میں داخل ہوئے ہیں ان کاتعلق زیادہ تران علاقوں سے ہے جہاں جہالت ، پیرپرستی یا قبرپرستی نمایاں ہیں۔ روشن خیال معاشرہ کے مقابلہ میں انہیں کوئی اہمیت نہیں دی جا سکتی۔
علامہ اقبال کا یہ تاثرقبول کئے جانے کے لائق نہیں ہے ۔ اس ضمن میں غور طلب بات یہ ہے کہ سلسلہ احمدیہ کے بانی نے پیرپرستی کی تعلیم دی یا آپ اس رجحان سے سخت متنفر تھے ۔ دوسری دیکھنے والی بات یہ ہے کہ جن غیر از جماعت معززین کو قادیان جا کر وہاں کے ماحول کا آزادانہ جائزہ لینے کا موقعہ ملا ان کے تاثرات کیا تھے؟ یہ دونوں امور علامہ کے بیان کی تائید یا تردید کرنے کے لئے ٹھوس بنیاد فراہم کر سکتے ہیں۔
پیر پرستی اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ارشادات
حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’اسلام کامنشا یہ ہے کہ بہت سے ابراہیمؑ بنائے۔۔۔ میں تمہیں سچ سچ کہتاہوں کہ ولی پرست نہ بنو بلکہ ولی بنو اور پیر پرست نہ بنو بلکہ پیر بنو‘‘۔(روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۱۸۹)
کتنی نفرت پائی جاتی ہے دور حاضر کے پیروں کے چلن کے بارے میں جب آپ فرماتے ہیں:
’’آج کل کے پیر اکثر فاحشہ عورتوں کومرید بناتے ہیں‘‘۔(روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۳۲۳)
ذرا ملاحظہ ہو یہ عبارت۔ فرماتے ہیں:
’’عوام الناس میں جس قدر بدرسمیں پھیلی ہوئی ہیں جو مخلوق پرستی تک پہنچ گئی ہیں ان کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ بعض پیر پرستی میں اس قدر بڑھ گئے ہیں جو اپنے پیروں کو معبود قرار دے دیاہے۔ بعض قبروں کی نسبت اس قدرغلو رکھتے ہیں کہ قریب ہے کہ ان قبروں کو ہی اپنا خدا تصور کر لیں بلکہ کئی لوگ قبروں پر سجدے کرتے دیکھے گئے ہیں اوروہ لوگ جو پیر اور سجادہ نشین کہلاتے ہیں۔ اکثر لوگوں میں ان میں سے بدعملی حد سے بڑھ گئی ہے اور وہ لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں بلکہ اپنی طرف بلاتے ہیں‘‘۔(چشمہ معرفت صفحہ ۳۱۱ ۔مطبوعہ ۱۹۰۸ء)
بتائیے اس تبصرے کا ’’پیر پرستی‘‘ سے کوئی جوڑ ہے ؟
افسوس! سر اقبال معاملہ کا یہ پہلو بھی نظر اندا ز کر گئے کہ ان غیرمہذب اور پیرپرست علاقوں سے جو لوگ چھٹ کر بانی سلسلہ احمدیہ ؑ یاآپ کے خلفاء کے پرفیض پروں کے نیچے آ گئے وہ بصیرت سے معمور ہو گئے ۔ و ہ مختلف سوسائٹیوں میں راسخ شدہ پیر پرستی اور اوہام پرستی اور دیگر غیراسلامی رسومات کو پیچھے چھوڑتے ہوئے مہذب کہلانے والی سب جماعتوں کے لئے قابل تقلید بن گئے حتی کہ خوداقبال پکاراٹھے کہ جماعت احمدیہ ’’اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ ‘‘ہے۔ واضح رہے کہ اب تختہ زمین پر صرف یہی ایک جماعت ہے جو نظم جماعت کے اعتبار سے عمل کے سانچے میں ڈھل کر سارے کرہ عالم میں اسلامی سیرت کے لحاظ سے جگمگ جگمگ کر رہی ہے ۔
*۔۔۔ یہاں خلافت علی منہاج نبوت قائم ہے۔
*۔۔۔یہاں مجلس مشاورت کا نظام مضبوط بنیادوں پر قائم ہے۔
*۔۔۔یہاں قضا اور افتاء کے محکمے اپنے اپنے فرائض پوری تندہی سے سرانجام دے رہے ہیں۔
*۔۔۔یہاں ’’بیت المال‘‘ کا سلسلہ (بغیرسودکے) کامیابی سے چل رہا ہے۔
*۔۔۔ یہاں طریق کار متمدن، شائستہ اور روشن خیال جماعتوں کے طریق کار سے بہت بلند مقام رکھتاہے ۔
بتائیے! یہ اسلامی ڈھانچے اور کس جماعت کوحاصل ہیں؟۔
ایک احمدی کا فکر ، فکرجدید کاحامل ہے ۔ اس کادماغ نور مبین قرآنی تعلیم سے روشن ہے اور اس کا دل محبت الٰہی سے لبریز ہے ۔ وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھے ہوئے ہے اور دین کو ہی اپنا شعار بنائے ہوئے ہے۔ دین سے یہ الفت، یہ محبت اور یہ غیرت سرسید یاکسی اورکے مکتبہ ٔ فکر کو کہاں نصیب ہے ؟۔ احمدی علوم جدیدہ کا مخالف نہیں البتہ وہ علوم جدیدہ کو دین کا خادم سمجھتاہے۔ وہ دنیاکا سخت ترین معقولی شخص ہے۔ وہ کسی بات کو بلا دلیل ماننے کو تیار نہیں۔ وہ دلیل سے بات مانتااور دلیل سے بات منواتاہے۔
سر اقبال جسے پسماندگی اور جہالت کے زمرہ میں ڈال رہے ہیں وہ احمدی ،علم حاصل کرنے کے معاملے میں اپنے معاشرہ کے دوسرے انسانوں سے بہت آگے ہے ۔ اگر کسی وقت احمدی بچیوں اور عورتوں کی تعلیمی حالت کا سروے ہوا تو دنیا حیرت انگیز نتائج دیکھے گی انشاء اللہ۔ بہرحال سراقبال کے تجزیہ کا یہ حصہ بے بنیاد بلکہ بعض لحاظ سے طفلانہ کاوش کا درجہ رکھتاہے۔
برصغیر کے ایک معزز صحافی کی طرف سے قادیان کے ماحول کا جائزہ
حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی وفات پر پانچ سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ مارچ ۱۹۱۳ء میں ملک کے ممتاز صحافی میا ں محمد اسلم (امرتسر سے ) قادیان تشریف لائے ہیں۔انہوں نے جو نقشہ اس وقت کے قادیان کاکھینچا ہے اس میں پیر پرستی اور قبر پرستی کا ذکر بھی کیاگیاہے ۔راقم ، صحافی مذکور کے تاثرات قدرے تفصیل کے ساتھ درج کر رہا ہے کیونکہ یہ تاثرات، علامہ کی طرف سے پھیلائی گئی بعض دیگر غلط فہمیوں کے ازالہ میں بھی ممد ثابت ہونگے ۔ میاں محمد اسلم صاحب لکھتے ہیں:
’’عالم اسلام کی خطرناک تباہ انگیز مایوسیوں نے مجھے اس اصول پر قادیان جانے پر مجبور کیا کہ احمدی جماعت جوبہت عرصہ سے دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ دنیا کو تحریری و تقریری جنگ سے مغلوب کرکے حلقہ بگوش اسلام بنائے گی۔ آیا وہ ایسا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے ؟۔۔۔۔۔۔ اس تصور کی زبردست کشمکش نے آخر کار گزشتہ ہفتہ مجھے امرتسر سے کھینچ کر قادیان میں لے جا کر کھڑاکر دیا ۔
۔۔۔۔۔۔مولوی نورالدین صاحب نے جو بوجہ مرزا صاحب کے خلیفہ ہونے کے اس وقت احمدی جماعت کے مسلمہ پیشوا ہیں ۔ جہاں تک میں نے دو دن ان کی مجالس وعظ و درس قرآن شریف میں رہ کر ان کے کام کے متعلق غور کیا ، مجھے وہ نہایت پاکیزہ اورمحض خالصتاً للہ کے اصول پر نظر آیا۔ کیونکہ مولوی صاحب کا طرز عمل قطعاً ریا و منافقت سے پاک ہے ۔ اور ان کے آئینۂ دل میں صداقت اسلام کا ایک ایسا زبردست جوش ہے جو معرفت توحید کے شفاف چشمے کی وضع میں قرآن مجید کی آیتوں کی تفسیر کے ذریعے ہر وقت ان کے بے ریا سینے سے ابل ابل کر تشنگان معرفت توحید کوفیضیاب کررہاہے۔اگر حقیقی اسلام قرآن مجید ہے تو قرآن مجید کی صادقانہ محبت جیسی کہ مولوی صاحب موصوف میں میں نے دیکھی ہے اور کسی شخص میں نہیں دیکھی۔ یہ نہیں کہ وہ تقلیداً ایسا کرنے پر مجبور ہے، نہیں بلکہ وہ ایک زبردست فیلسوف انسان ہے۔ اورنہایت ہی زبردست فلسفیانہ تنقید کے ذریعہ قرآن مجید کی محبت میں گرفتار ہو گیاہے کیونکہ جس قسم کی زبردست فلسفیانہ تفسیر قرآن مجید کی میں نے ان کے درس قرآن مجید کے موقعہ پر سنی ہے غالباً دنیا میں چند آدمی ایسا کرنے کی اہلیت رکھتے ہونگے۔ مجھے زیادہ تر حیرت اس با ت کی ہوئی کہ ایک اَسّی (۸۰) سالہ بوڑھا آدمی صبح سویرے سے لے کر شام تک جس طرح لگاتار سارا دن کام کرتا رہتاہے وہ متحد طور پر آج کل کے تندرست ، قوی ہیکل دو تین نوجوانوں سے بھی ہونا مشکل ہے۔ میں کام کرنے کے متعلق مولوی صاحب کو غیر معمولی طاقت کا انسان تو نہیں سمجھتا لیکن اپنے فرض کی ادائیگی میں اسے خیر القرون کے قدسی صفت صحابہ کا پورا ہیرو کہنے میں اگر منافقت کروں تو یقیناًمیں صداقت کا خون کرنے والا ہو جاؤں۔ مولوی صاحب کی تمام حرکات و سکنات میں صحابہ علیہم السلام کی سادگی اور بے تکلفی کی شان پائی جاتی ہے ۔ اس نے نہ اپنے لئے کوئی تمیزی نشان مجلس قائم کر رکھاہے نہ کسی امیر و غریب کے لئے اور نہ تسلیم یا کورنش جیسی پیر پرستی کی لعنت کو وہاں جگہ دی گئی ہے۔
صاحبزادہ بشیر الدین محمود احمد صاحب سے بھی مل کر ہمیں از حد مسرت ہوئی ۔ صاحبزادہ صاحب نہایت ہی خلیق اور سادگی پسند ہیں۔ علاوہ خوش خلقی کے کہیں بڑی حد تک معاملہ فہم و مدبر بھی ہیں۔ علاوہ دیگر باتوں کے جو گفتگو صاحبزادہ صاحب موصوف کے اور میرے درمیان ہندوستان کے مستقبل پرہوئی اس کے متعلق صاحبزادہ صاحب نے جو رائے اقوام عالم کے زمانہ ماضی کے واقعات کی بناء پر ظاہر فرمائی وہ نہایت ہی زبردست مدبرانہ پہلو لئے ہوئے تھی۔ صاحبزادہ صاحب نے مجھ سے ازراہ نوازش بہت کچھ ہی مخلصانہ پیرائے میں یہ خواہش ظاہر فرمائی کہ میں کم از کم ایک ہفتہ قادیان میں رہوں۔ اگرچہ بوجوہ چند در چند میں ان کے ارشاد کی تعمیل سے قاصر رہا مگر صاحبزادہ صاحب کی اس بلند نظرانہ مہربانی و شفقت کا از حد مشکور ہوں۔ صاحبزادہ صاحب کے زہدو اتقاء اور ان کی وسعت خیالانہ سادگی مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔
علاوہ اس کے میں نے قادیان کی احمدی جماعت کی اس جدوجہد کو دو دن میں بکمال غور و خوض سے دیکھا۔ جو مدرسہ احمدیہ اور ہائی سکول کے قیام کے ذریعہ دنیا میں حقیقی اسلامی قوم پیدا کرنے کی مدعی بن کر ، کر رہی ہے ۔اپنے اس عملی پروگرام کو پورا کرنے کی مستعدی میں احمدی جماعت قابل مبارک بادی کے ہے ۔کیونکہ جہاں ہائی سکول میں مسلمان طالب علموں کو مروجہ دنیاوی علوم کی تعلیم دی جا رہی ہے وہاں نہایت ہی اعلیٰ پیمانے پر قرآن مجید کی مفسرانہ تعلیم کے ذریعے حقیقی فلسفہ اسلام سے ان کے دل و دماغ معمور کئے جا رہے ہیں۔ علاوہ اپنے لائق ماسٹروں اور ٹیوٹروں سے اسلامی تعلیم و تہذیب کے سیکھنے کے ہر ایک ہائی سکول کا طالب علم نماز عصرکے بعد نماز شام تک مولوی نورالدین صاحب کے آگے بڑی مسجد میں ان کے باقاعدہ درس قرآن شریف کے وقت زانوئے شاگردی تہ کرنے کو پابند کیا گیاہے اورہائی سکول قادیان کے طالب علم کو روزانہ ذہن نشین کرایا جاتاہے کہ جس اسلام کے ارکان مذہبی کی ادائیگی تم سے حکماً سکول میں کرائی جاتی ہے و ہ فطرتاً تم پر قوانین قدرت نے زندگی کے باقی لوازمات سے بڑ ھ کر بطور ایک زبردست و اہم فرض کے عائد کر دئے ہیں ۔ یہ نہیں کہ علی گڑھ کالج کے طلباء کی طرح ان سے نماز تو جبراً پڑھائی جائے اور نماز کے پڑھنے کی ضرورت و فلسفہ فطرت کی رو سے انہیں نہ سمجھائی جائے ۔ جس سے علی گڑھ کے طلباء کی طرح وہ نماز کو ایک زبردستی بیگار تصور کرتے ہوئے اسلام کے متعلق نفرت کا بیج دل میں بونے پر مجبور ہوں۔ کیونکہ ڈارون اور بیکن کے فلسفے کو پڑھنے والے طالب علموں سے ’’مان نہ مان‘‘ میں تیرا مہمان کے اصول پر انگریزی اسلامی سکولوں وکالجوں پر قادیان کے ہائی سکول کو اسلامی پہلو سے وہ برتری حاصل ہے کہ جس کی گرد کو باقی اسلامی ، انگریزی سکول و کالج نہیں پہنچ سکتے ۔
مدرسہ احمدیہ چونکہ خالص مذہبی تعلیم کا مدرسہ ہے اس لئے میں ہندوستان کی باقی درسگاہوں پراسے چنداں فوقیت نہیں دے سکتا مگر میرے خیال میں فلسفہ قرآن کے سمجھنے میں اس کے طالب علم باقی درسگاہوں سے بہت فائدہ میں ہیں ۔جبکہ انہیں خاص طورپر اس کے متعلق بہت سے عمدہ ذرائع حاصل ہیں جو ہندوستان کی دیگر مذہبی درسگاہوں کے طلباء کو حاصل نہ ہونگے ۔
عام طور پر قادیان کی احمدی جماعت کے افراد کو دیکھا گیا تو انفرادی طور پر ہر ایک کو توحید کے نشے میں سرشار پایا گیا اور قرآن مجید کے متعلق جس قدر صادقانہ محبت اس جماعت میں ، میں نے دیکھی ہے کہیں نہیں دیکھی۔ صبح کی نماز منہ اندھیرے چھوٹی مسجد میں پڑھنے کے بعد جو میں نے گشت کی تو تمام احمدیوں کو میں نے بلا تمیز بوڑھے و بچے اورنوجوانوں کے ، لیمپ کے آگے قرآن مجید پڑھتے دیکھا ۔ دونوں مسجدوں میں دو بڑے گروہوں اورسکولوں کے بورڈنگ میں سینکڑوں لڑکوں کی قرآن خوانی کا موثر نظارہ مجھے عمر بھر یاد رہے گا۔ حتی کہ احمدی تاجروں کا صبح سویرے اپنی اپنی دوکانوں اور احمدی مسافر مقیم ’’مسافرخانے‘‘ کی قرآن خوانی بھی ایک نہایت پاکیزہ سین پیش کر رہی تھی۔ گویا صبح کو مجھے یہ معلوم ہو رہا تھا کہ قدسیوں کے گروہ در گروہ آسمان سے اتر کر قرآن مجید کی تلاوت کر کے بنی نوع انسان پر قرآن مجید کی عظمت کا سکہ بٹھانے آئے ہیں۔ غرض احمدی قادیان میں مجھے قرآن ہی قرآن نظر آیا ۔
پیر پرستی کا نرالہ ڈھونگ جو ہندوستان میں مسلمانوں کی شامت اعمال سے ہندوستان کے بڑے بڑے اولیاء کے مزاروں کے ذریعے ان کے جانشینوں اورخلیفوں نے ڈال کر اپنے طرزعمل سے اسلامی توحید کی مٹی پلید کر رکھی ہے ۔ میں نے اپنے دودن کے قیام میں اس کاکوئی شائبہ عملی صورت میں نہیں دیکھا۔ مرزا صاحب کی قبرکو بھی جاکر دیکھا۔ جس پر کوئی عالی شان یا معمولی روضہ نہیں بنایا گیا ۔ اپنے گردو نواح کی قبروں سے اسے کسی قسم کی نمایاں خصوصیت نہیں تھی اور نہ کسی مجاور یا جاروب کش کووہاں پایا ۔
جو کچھ میں نے احمدی قادیان میں دیکھا وہ خالص اور بے ریا توحید پرستی تھی۔ اورجس طرف نظراٹھتی تھی قرآن ہی قرآن نظرآتا تھا ۔ غرض قادیان کی احمدی جماعت کو عملی صورت میں اپنے اس دعوے میں کہیں بڑی حد تک سچاہی سچا پایا کہ وہ دنیا میں اسلام کو پرامن صلح کے طریقوں سے تبلیغ واشاعت کے ذریعے ترقی دینے کے اہل ہیں۔ اور وہ ایسی جماعت ہے جو دنیا میں عملاً قرآن مجید کے خالصۃً للہ پیرو اوراسلام کی فدائی ہے۔ اور اگر تمام دنیا اور خصوصاً ہندوستان کے مسلمان ، یورپ میں اشاعت اسلام کے ان کے ارادوں کی عملاً مددکریں تو یقیناًیورپ آفتاب اسلام کی نورانی شعاعوں سے منورہو جائے گا۔(بدر۳؍مارچ ۱۹۱۳ء۔بحوالہ حیات نور تصنیف مولانا شیخ عبدالقادر صاحب مرحوم مربی سابق سوداگرمل)
(یہی وجہ تھی کہ اس دور میں علامہ اقبال نے اپنے لخت جگر ’’آفتا ب اقبال‘‘ کو سیالکوٹ کے سکول سے اٹھا کر قادیان کے سکول میں داخل کراد یا تھا)۔
مسلم عوام کے متعلق فرزند اقبال کی رائے
احمدیہ جماعت کی پیر پرستی و قبر پرستی سے نفر ت و بیزاری کے متعلق آپ نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی تعلیم اور ایک غیراز جماعت معزز صحافی کا بیان پڑھا۔اب ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ لوگ جو احمدیت سے وابستہ نہیں ہوئے ان کی اکثریت آج بھی ان امراض میں مبتلا ہے۔ان غریبوں کی قابل رحم حالت کانقشہ کھینچتے ہوئے فرزند اقبال جناب جسٹس (ریٹائرڈ) ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں:
’’برصغیر کے اکثرو بیشتر علماء کے نزدیک ۔۔۔ اقبال کا اصلاحی اندازِ فکر ، بدعت کے سوا اور کچھ نہیں۔ جہاں تک غریب مسلم عوام کا تعلق ہے ان کی بھاری اکثریت آج بھی ان پڑھ اور ضعیف الاعتقاد ہے ۔۔۔۔۔۔ جن کے اعتقاد کے مطابق دراصل زندہ یا مردہ پیران کی شفاعت کا باعث ہیں۔ لہذا ان کے ہاں پیری مریدی یا قبر پرستی مقبول ہے اور صوفیائے کرام یا پیروں فقیروں کے مزاروں پرچادریں چڑھانا یا خانقاہوں پرمنتیں مانگنا ان کا معمول ہے ۔(زندہ رود صفحہ ۶۵۴)
قارئین کرام ! یہ ہیں سر اقبال جو ان پیر پرست اور جاہل لوگوں کے نمائندہ اوررہبر بن کر جماعت احمدیہ پر پیر پرستی اورجہالت کا الزام لگارہے ہیں۔
حلقۂ اقبال کی خدمت میں ایک گزارش
آخر میں ہم حلقہ اقبال کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ اگروہ مسلم عوام کو ان بدعتوں سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو اس کی ایک ہی صورت ہے کہ انہیں’’احمدیت‘‘ کے حصار عافیت میں داخل ہونے کی راہ دکھا دی جائے ۔ حضر ت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے کیا خوب فرمایاہے۔
ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار
(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل ۲۸؍مئی۱۹۹۹ء تا۳؍جون ۱۹۹۹ء)