علامہ اقبال کی علمی و سیاسی لغزشیں
شیخ عبدالماجد، لاہور
سراقبال ، مذہب اسلام میں الحاق و آمیزش کے بارے میں فرماتے ہیں:
۱۔۔۔ موبدانہ تخیل (قبل از اسلام زرتشتی ، یہودی، نصرانی اور صابی تخیل) مسلمانوں کی دینیات ، فلسفہ اور تصوف کے رگ و پے میں سرایت کئے ہوئے ہے ‘‘۔(اقبال کا مضمون ۔ قادیانی اور جمہور مسلمان۔ ۱۴؍مئی ۱۹۳۵ء)
۲۔۔۔ ’’اسلام، مذہبی اور ذہنی واردات کے حوالے سے نئی راہ پیدا کرناچاہتاتھا لیکن ہماری مغانہ وراثت نے اسلام کی زندگی کو کچل ڈالا اور اسلام کی روح و مقاصد کو ابھرنے کا کبھی موقع نہ دیا‘‘۔
۳۔۔۔اسلام کی ظاہری و باطنی تاریخ میں ایرانی عنصر کو بہت زیادہ دخل حاصل ہے‘‘۔(دین شا۔ پارسی کے جواب میں)
۴۔۔۔پھر فرماتے ہیں:
’’مذہب اسلام پر قرون اولیٰ سے ہی مجوسیت اور یہودیت غالب آ گئی۔ میری رائے ناقص میں اسلام آج تک بے نقاب نہیں ہوا‘‘۔(خط بنام راغب احسن’’جہان دیگر‘‘ صفحہ ۸۹۔ خط ۱۱؍دسمبر ۱۹۳۴ء)
راقم عرض کرتاہے کہ زمانے کی گمراہیوں ، مفاسد کے وسیع تر پھیلاؤ اورمذہب اسلام میں زبردست الحاق و آمیزش کے پیش نظر اقبال، اصلاح احوال کی طرف سے مایوس تھے۔ اس مایوسی کا انداز ہ ان کے درج ذیل تاثر سے بھی لگایا جا سکتاہے۔ لکھتے ہیں:
’’مجھے یقین ہے کہ اگرنبی کریم ؐ بھی دوبارہ زندہ ہوکراس ملک میں اسلام کی تعلیم دیں توغالباً اس ملک کے لوگ اپنی موجودہ کیفیت اوراثرات کے ہوتے ہوئے ’’حقائق اسلامیہ‘‘ نہ سمجھ سکیں‘‘۔(مکاتیب اقبال بنام خان نیازالدین صفحہ ۷۳۔ شائع کردہ اقبال اکادمی)
علامہ نے اپنے علی گڑھ لیکچر ’’ملت بیضا پر عمرانی نظر‘‘ میں ہندوستان میں اسلامی و قومی سیرت کی نشوونما کے مختلف اسلوب کی تاریخ بیان کی ہے ۔ اس ضمن میں آپ نے وسیع بنیادوں پرایسی ’’اسلامی جماعت‘‘ معرض وجود میں لانے کی تمنا ظاہر کی ہے جو ان تمام عناصر کی آمیزش سے اپنے وجود کوکمال احتیاط کے ساتھ پاک کردے جو اس کی روایات مسلمہ اور قوانین منضبطہ کے منافی ہوں۔
علامہ کی نظروں میں پنجاب میں ایک ایسی ’’اسلامی جماعت‘‘ موجود تھی جسے تقلید کیلئے مسلمانان ہند کے سامنے بطور نمونہ پیش کیا جا سکتاہے۔ یعنی جس نے کمال احتیاط کے ساتھ ہر نوع کی غیراسلامی روایات و عناصر سے اپنے وجود کو پاک کر رکھا تھا۔
علامہ سمجھتے تھے کہ ان کا علی گڑھ لیکچر تشنہ رہے گااگراس ’’اسلامی جماعت‘‘ کی نشاندہی نہ کردی جائے ۔ چنانچہ اگلی سطور میں علامہ اس کایوں اظہار کرتے ہیں:
’’پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ ا س جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں‘‘۔
( لیکچرملت بیضا پر عمرانی نظر ۔ ۱۹۱۰ء)
حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی وفات ۱۹۰۸ء میں ہوئی تھی۔ یہ لیکچر اس کے دو سال بعد کاہے۔
علامہ اقبال کی علمی لغزش
اگر علامہ کامطلب یہ ہے کہ لوگوں کو حقائق اسلامیہ سمجھانے اور اسلامی سیرت کے ٹھیٹھ نمونہ کی حامل جماعت پیدا کرنے کے لحاظ سے آنحضرت ﷺ، حضرت مرزا صاحب سے کسی طرح کم تر مرتبہ رکھتے ہیں تویہ علامہ کی ایک بڑی لغزش ہے اور اس معاملہ میں جماعت احمدیہ ان کی ہمنوائی نہیں کر سکتی۔
حضرت بانی سلسلہ احمدیہؑ کی نظرمیں آنحضرت ﷺ کا مقام و مرتبہ کیاہے ؟ آپ کی قوت قدسیہ کے طفیل اصلاح عالم کا جو عظیم الشان کام ہوا، وہ کس درجہ بلند ہے؟ مناسب ہوگا یہاں دو ایک حوالے آپ کے ارشادات میں سے درج کر دئے جائیں ۔
حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ اگر ا س جگہ یہ استفسار ہو کہ اگریہ درجہ اس عاجز اور مسیح کے لئے مسلم ہے تو پھر جناب سید ناو مولانا سیدالکل و افضل الرسل خاتم النبیین محمد مصطفی ﷺ کے لئے کون سادرجہ باقی ہے؟ سو واضح ہو کہ وہ ایک اعلیٰ مقام ا ور برتر مرتبہ ہے جو اسی ذات کامل الصفات پرختم ہو گیا ہے جس کی کیفیت کو پہنچنا بھی کسی دوسرے کاکا م نہیں چہ جائیکہ وہ کسی اورکو حاصل ہو سکے ۔۔۔‘‘۔ (توضیح مرام روحانی خزائن جلد نمبر۳ مطبوعہ لندن صفحہ۶۲)
پھر فرماتے ہیں:
’’ میرا مذہب یہ ہے کہ اگر رسول اللّٰہ ﷺ کو الگ کیا جاتا اور کل نبی جو اس وقت تک گزر چکے تھے سب کے سب اکٹھے ہو کر وہ کام اور وہ اصلاح کرنا چاہتے جو رسول اللہ ﷺ نے کی، ہرگز نہ کر سکتے ‘‘۔(ملفوظات جلد دوئم مطبوعہ لندن صفحہ ۱۷۴)
علامہ اقبال کی دوسری علمی لغزش
ہمیں حیرت ہے کہ چالیس سال تک احمدیوں سے رشتۂ موانست قائم رکھنے کے بعد جب عمر کے آخری تین سالوں میں علامہ اقبال نے اپنے تئیں تعصب کی قباؤں میں لپیٹ کر احمدیوں کے خلاف محاذآرائی شروع کی تو آپ پرایکا ایکی درج ذیل قسم کے انکشافات ہونے لگے۔
*۔۔۔آپ کو تحریک احمدیہ میں سامی اور آریائی تصوف کی عجیب و غریب آمیزش دکھائی دینے لگی۔
*۔۔۔آپ کو تحریک احمدیہ ، اسلام کے رخساروں پر زردی کی صورت میں نظرآنے لگی۔
*۔۔۔آپ نے انکشاف کیا کہ جو لوگ تحریک احمدیہ کا شکار ہوئے ہیں ان کی روحانیت فنا ہو چکی ہے ۔
*۔۔۔ آپ نے پنڈت نہرو کو یہ بھی لکھ دیا کہ تحریک احمدیہ کے ڈرامے میں حصہ لینے والے ایکٹر انحطاط کے ہاتھوں محض کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔
(پنڈت نہرو کے سوالات کے جواب میں ۔ مضمون جنوری ۱۹۳۶ء)
نیز پنڈت جی کو ایک علیحدہ خط کے ذریعہ لکھاکہ احمدی ، اسلام کے غدار(Traitors) ہیں۔
اس تعصب کو ذاتی و سیاسی وجوہ نے جنم دیا تھا ۔ تعصب ایک ایسی بلا ہے جو غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط کہنے پر اکساتی ہے۔ تحریک احمدیہ میں کیڑے نکالنے کے سلسلے میں اقبال کے ہاں یہی تصویر ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ دین کے معاملہ میں ہر ایک کو تعصب سے محفوظ رکھے ۔ سراقبال ہی کا کہناہے
لاکھ اقوام کو دنیا میں اجاڑا اس نے
یہ تعصب کو مگر گھر کا دیا کہتے ہیں
(علامہ اقبال کی طرف سے متعصب علماء کی دربار نبویؐ میں شکایت ۔ نظم ابرگوہر بار)
( بعض اخبارا ت، سراقبال کے احمدیوں کے ساتھ چالیس سالہ رشتہ ٔ موانست کا ذکر کئے بغیر صرف تین سال کی ’’مخالفت احمدیت‘‘ کو اچھال کر وطن عزیز میں اشتعال کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔مثلاً دیکھئے روزنامہ ’’لشکر‘‘ ۷؍جون ۱۹۹۸ء اور ’’اوصاف‘‘ راولپنڈی ۷؍جون ۱۹۹۸ء ۔ مگر وہ اس حقیقت کو پردہ ٔ اخفاء میں رکھتے ہیں کہ مخالفت کا یہ دور کب شروع ہوا۔ کتنے عرصہ تک جاری رہا۔ اس کی وجوہات کیا تھیں۔ اگلی سطور میں ہم مخالفت کی ایک وجہ کی نشاندہی کررہے ہیں)۔
سر اقبال کی سیاسی لغزش
۱۹۳۵ء میں احمدیت کے خلاف سر اقبال کے بیانات میں جو شدت اور تلخی در آئی اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ حکومت برطانیہ نے وائسرائے کونسل ہند کے ممبر سر فضل حسین کی میعاد رکنیت ختم ہونے پر ان کی جگہ سر اقبا ل کو متعین کرنے کی بجائے سر ظفراللہ خان کاتقرر کر دیا۔ یہ تقرر خالصتاً سر ظفراللہ خان کی محنت ، دیانت، خلوص ، حسن تدبر اور آپ کی سابقہ عمدہ کارکردگی کی وجہ سے ہوا تھا اس میں جماعت احمدیہ کا کوئی دخل نہیں تھا۔ یہ تقرر ’’زمیندار‘‘ ، کانگرس، احرار وغیرہ کے لئے سوہان روح بناہوا تھا ۔ کیونکہ چوہدری صاحب مسلم حقوق کے لئے شمشیر برہنہ تھے مگر افسوس یہ تقرر سر اقبال کی طرف سے احمدیوں کی مخالفت کا ایک اہم اور فوری سبب بن گیا جسے بیان کرنے میں بہت بخل سے کام لیا جاتاہے۔ چوہدری صاحب نے مئی ۱۹۳۵ء میں اپنے عہدے کا چارج لے لیا۔ ادھر مئی ۱۹۳۵ء میں ہی سراقبال کااحمدیوں کے خلاف پہلا مضمون شائع ہوا جس کے ضمیمہ میں عیسائی حکومت کو یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ استحکام اسلام کے لئے احمدیوں کو اقلیت قرار دے دے۔ اس مطالبہ کے بانی مبانی دراصل احرار تھے اور احرار کے متعلق فرزند اقبال جناب ڈاکٹر جسٹس (ر) جاوید اقبال کی تحقیق یہ ہے :
’’مجلس احرار خلافت کمیٹی کی کوکھ سے نکلی تھی اوریہ جماعت کانگرس کی ہمنوا تھی‘‘۔(زندہ رود صفحہ ۵۸۹)
فرزند اقبال نے احرار کے ساتھ سر اقبال کے رابطے پر بھی روشنی ڈالی ہے اور دبے الفاظ میں تسلیم کیاہے کہ علامہ کامیلان اور تعلق احرار ٹولے کی طرف ہو چکا تھا۔ فرماتے ہیں :
’’جب اقبال کشمیر کمیٹی میں احمدیوں سے مایوس ہوئے تو عین ممکن ہے احراریوں نے اقبال سے مفاہمت کرنے کی کوشش کی ہو‘‘۔(زندہ رود صفحہ ۵۸۹)
پھر لکھتے ہیں:
’’کشمیر کمیٹی کے دوران ممکن ہے اقبال نے احراری رہنماؤں سے مفاہمت کرنے کے بعد ان کی حوصلہ افزائی بھی کی ہو‘‘۔(ایضاً)
واضح رہے جب تک سراقبال نے احمدیوں کے ساتھ بھائی چارے اور مؤانست کارشتہ قائم رکھا ، آپ کی سیاست مسلم اتحاد و یگانگت کے جذبہ سے عبارت رہی ۔بدقسمتی سے جب یہ صورت برقرار نہ رہی تو سیاست اقبال کی یہ خوبی دھندلی نظر آنے لگی ۔چنانچہ سر فضل حسین ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’اقبال اور بعض دیگر مسلم لیڈر اپنے سیاسی اغراض کے حصول کی خاطر مسلمانوں میں مذہبی فرقہ پرستی کو ہوا دے رہے ہیں‘‘۔( سرفضل حسین کے انگریزی خطوط مرتبہ وحید احمد صفحہ ۶۹۵)
( نوٹ: سر فضل حسین اپنی مخلصانہ کاوشوں کے سبب مسلمانوں کے ’’اورنگ زیب‘‘ مشہور تھے۔)
ایک اور مکتوب میں سر فضل حسین انکشاف فرماتے ہیں:
’’اقبال مسلمانوں کے اتحاد اور یک جہتی کو اندر سے توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ ( سرفضل حسین کے انگریزی خطوط مرتبہ وحید احمد )
پنجاب کی ۱۷۵نشستوں میں سے مسلم نشستیں ۸۹ تھیں ۔اقلیتوں کے لئے خصوصی مراعات کے پیش نظر احمدیوں کو الگ اقلیت قرار دے دیا جاتا تو انہیں ایک نشست تو ملنی تھی۔ اگر صرف ایک کا اور اضافہ ہو جاتا تو مسلم نشستیں ۸۷ رہ جاتیں اور غیر مسلم سیٹیں ۸۸ ہو جاتیں۔ مسلم اکثریت ، اقلیت میں بدل جاتی ۔ یہی کانگریس اور احرار کی تمنا تھی ۔ سراقبال کی یہ بھی ایک بڑی لغزش تھی کہ انہوں نے اپنا وزن احرارکے پلڑے میں ڈال دیا۔ یہ تو اللہ تعالی ٰ کا فضل ہوا کہ علامہ کا مطالبہ تسلیم نہ کیا گیا اور اس وقت پنجاب کی مسلم سیاست تباہ ہونے سے بچ گئی۔
(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل۲۳؍اپریل۱۹۹۹ء تا۲۹؍اپریل ۱۹۹۹ء)