حضرت عمیرؓ بن ابی وقاص
ایک بدری صحابی تھے جن کی ولدیت ابو وقاص مالک بن اُھَیب تھی۔ ان کی شہادت غزوہ بدر 2 ہجری میں ہوئی۔ حضرت عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت سعد بن ابی وقاص کے چھوٹے بھائی تھے اور ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے۔ آپ کی والدہ کا نام حمنہ بنت سفیان تھا۔ آپ کا تعلق قریش کے قبیلہ بنوزھرہ سے تھا اور جیسا کہ ذکر ہوا بدر کی جنگ میں انہوں نے شرکت کی اور وہیں ان کی شہادت ہوئی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمیر اور عمرو بن معاذ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ (الاستیعاب جلد 3صفحہ 294 عمیر بن ابی وقاصؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)، (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 79 عمیر بن ابی وقاص مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) بعض کا خیال ہے کہ حضرت عمیر بن ابی وقاص اور حضرت خبیب بن عدی کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ (عیون الاثر جلد اوّل صفحہ 232 باب ذکر المؤاخات مطبوعہ دار القلم بیروت 1993ء)
ان کی شہادت کے واقعہ کا اور جنگ بدر میں شامل ہونے کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس طرح لکھا ہے کہ مدینہ سے تھوڑی دور نکل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈیرہ ڈالنے کا حکم دیا اور فوج کا جائزہ لیا۔ کم عمر بچے جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمرکابی کے شوق میں ساتھ چلے آئے تھے ان کو واپس بھیجا گیا۔ سعد بن ابی وقاص کے چھوٹے بھائی عمیر بھی چھوٹی عمر کے تھے۔ کمسن تھے۔ انہوں نے جب بچوں کی واپسی کا حکم سنا تو لشکر میں اِدھر اُدھر چھپ گئے لیکن آخر ان کی باری آئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی واپسی کا حکم دیا۔ یہ حکم سن کر عمیر رونے لگ گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ان کے غیر معمولی شوق کو دیکھ کر انہیں بدر میں شامل ہونے کی اجازت دی۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 353)
تاریخ کی ایک اور کتاب میں ان کا ذکر اس طرح ملتا ہے کہ عمرو بن سعد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ قبل اس کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی جانب روانہ ہونے کے لئے ہمارا معائنہ فرماتے میں نے اپنے بھائی عمیر بن ابی وقاص کو دیکھا کہ وہ چھپتے پھر رہے تھے۔ اس پر میں نے ان سے پوچھا اے بھائی تمہیں کیا ہوا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں ڈرتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھ لیں گے تو بچہ سمجھ کر واپس بھیج دیں گے۔ میں جنگ کے لئے جانا چاہتا ہوں کہ شاید اللہ تعالیٰ مجھے شہادت عطا فرما دے۔ پس جب یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چھوٹا سمجھ کر واپس جانے کا ارشاد فرمایا تو عمیر رونے لگ گئے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں شامل ہونے کی اجازت دے دی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 79 عمیر بن ابی وقاصؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) ان کی تلوار بڑی تھی۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے ان کی تلوار کی نیام باندھی۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد4 صفحہ 603مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء) حضرت عمیر بن ابی وقاص غزوہ بدر میں جب شہید ہوئے اس وقت آپ سولہ سال کے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 79 عمیر بن ابی وقاصؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) سولہ سال کی عمر بھی ایسی تھی جس میں قد کاٹھ بیشک چھوٹا ہو گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عموماً بچوں کو جنگ کی اجازت نہیں دی۔