حضرت عَبْدُاللّٰہ بِن حُمَیّر اَلْاَشْجَعِیؓ
حضرت عَبْدُاللّٰہ بِن حُمَیِّر اَلْاَشْجَعِی کا تعلق بنو دُھْمَان سے ہے جو کہ انصار کے حلیف تھے آپ نے غزوۂ بدر میں اپنے بھائی حضرت خَارِجَہ کے ہمراہ شرکت کی اور آپ غزوۂ احد میں بھی شامل ہوئے۔(اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 218-219 عبد اللہ بن حمیر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)ان کی زوجہ کا نام حضرت ام ثابت بنت حارِثَہ ہے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں ۔ (الاصابہ جلد 8 صفحہ 366 ام ثابت بنت حارثہؓ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
حضرت عبداللہ بن حُمَیِّر ان چند اصحاب میں سے تھے جو غزوہ احد میں حضرت عبداللہ بن جُبَیر کے ساتھ درّے پر ڈٹے رہے۔ جب باقی صحابہ فتح کا نظارہ دیکھنے کے بعد مسلمانوں کی باقی جماعت سے ملنے کے لئے نیچے جانے لگے تو حضرت عبداللہ بن حُمَیِّر انہیں نصیحت کرنے کے لئے کھڑے ہوئے۔ آپؓ نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی اور پھر اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے کی نصیحت کی لیکن انہوں نے آپ کی بات نہ مانی اور چلے گئے یہاں تک کہ حضرت عبداللہ بن جُبَیر کے ساتھ درے پر دس سے زیادہ صحابہ نہ بچے۔ اتنے میں خالد بن ولید اور عکرمہ بن ابو جہل نے درّہ خالی دیکھ کر جو اصحاب وہاں باقی رہ گئے تھے ان پر حملہ کر دیا۔ اس قلیل جماعت نے ان پر تیر برسائے یہاں تک کہ وہ ان تک پہنچ گئے اور آن کی آن میں ان سب کو شہید کردیا۔ (امتاع الاسماع جلد 9 صفحہ 229 فصل فی ذکر من استعلہ رسول اللہؐ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1999ء)
احد کےاس واقعہ کی مزید تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیین میں لکھی ہے کہ
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے آگے بڑھے اور احد کے دامن میں ڈیرہ ڈال دیا۔ ایسے طریق پر کہ احد کی پہاڑی مسلمانوں کے پیچھے کی طرف آ گئی اور مدینہ گویا سامنے رہا اور اس طرح آپؐ نے لشکر کا عقب محفوظ کر لیا۔ عقب کی پہاڑی میں ایک درّہ تھا جہاں سے حملہ ہو سکتا تھا۔ اُس کی حفاظت کا آپؐ نے یہ انتظام فرمایا کہ عبداللہ بن جُبَیر کی سرداری میں پچاس تیر انداز صحابی وہاں متعین فرما دئیے اور ان کو تاکید فرمائی کہ خواہ کچھ ہو جاوے وہ اس جگہ کو نہ چھوڑیں اور دشمن پر تیر برساتے جائیں ۔ آپؐ کو اس درّہ کی حفاظت کا اس قدر خیال تھا کہ آپؐ نے عبداللہ بن جُبَیر سے بہ تکرار فرمایا‘‘ یعنی بار بار فرمایا ’’کہ دیکھو یہ درہ کسی صورت میں خالی نہ رہے۔ حتٰی کہ اگر تم دیکھو کہ ہمیں فتح ہو گئی ہے اور دشمن پسپا ہو کر بھاگ نکلا ہے، تو پھر بھی تم اس جگہ کو نہ چھوڑنا اور اگر تم دیکھو کہ مسلمانوں کو شکست ہو گئی ہے اور دشمن ہم پر غالب آ گیا ہے تو پھر بھی تم اس جگہ سے نہ ہٹنا حتٰی کہ ایک روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ ’’اگر تم دیکھو کہ پرندے ہمارا گوشت نوچ رہے ہیں تو پھر بھی تم یہاں سے نہ ہٹنا حتی کہ تمہیں یہاں سے ہٹ آنے کا حکم جاوے۔‘‘ یعنی آپ کی طرف سے حکم جائے۔ ’’اس طرح اپنے عقب کو پوری طرح مضبوط کر کے آپؐ نے لشکر اسلامی کی صف بندی کی اور مختلف دستوں کے جدا جدا امیر مقرر فرمائے …
جب عبداللہ بن جُبَیر کے ساتھیوں نے دیکھا کہ اب تو فتح ہو چکی ہے تو انہوں نے اپنے امیر عبداللہ سے کہا کہ اب تو فتح ہو چکی ہے اور مسلمان غنیمت کا مال جمع کر رہے ہیں آپ ہم کو اجازت دیں کہ ہم بھی لشکر کے ساتھ جا کر شامل ہو جائیں ۔ عبداللہ نے انہیں روکا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاکیدی ہدایت یاد دلائی مگر وہ فتح کی خوشی میں غافل ہو رہے تھے، اس لئے وہ باز نہ آئے۔ اور یہ کہتے ہوئے نیچے اتر گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صرف یہ مطلب تھا کہ جب تک پورا اطمینان نہ ہو لے درّہ خالی نہ چھوڑا جاوے اور اب چونکہ فتح ہو چکی ہے اس لئے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور سوائے عبداللہ بن جُبَیر اور ان کے پانچ سات ساتھیوں کے درّہ کی حفاظت کے لئے کوئی نہ رہا۔ خالد بن ولید کی تیز آنکھ نے دور سے درّہ کی طرف دیکھا تو میدان صاف پایا جس پر اس نے اپنے سواروں کو جلدی جلدی جمع کر کے فوراً درّہ کا رخ کیا اور اس کے پیچھے پیچھے عکرمہ بن ابوجہل بھی رہے سہے دستہ کو ساتھ لے کر تیزی کے ساتھ وہاں پہنچا اور یہ دونوں دستے عبداللہ بن جُبَیر اور ان کے چند ساتھیوں کو ایک آن کی آن میں شہید کر کے اسلامی لشکر کے عقب میں اچانک حملہ آور ہو گئے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 491, 487-488)