حضرت عُبادہ بن صَامِت
حضرت عُبادہ بن صَامِتؓ انصاری تھے۔ حضرت عُبادہؓ کے والد کا نام صَامِت بن قیس اور والدہ کا نام قرة العین بنت عُبادہ تھا۔ بیعتِ عَقَبَہ اولیٰ اور ثانیہ میں یہ شریک تھے۔ انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو عوف بن خزرج کے سردار تھے جو‘قَوَاقِلْ’کے نام سے مشہور تھے۔ قَوقَلْ نام کی جو وجہ ہے وہ یہ ہے کہ جب مدینے میں کسی سردار کے پاس کوئی شخص پناہ کا طلب گار ہوتا تو اس سے یہ کہا جاتا تھا کہ اس پہاڑ پر جیسے مرضی چڑھ۔ اب تُو امن میں ہے یعنی تجھے کوئی مشکل نہیں۔ جہاں جس طرح مرضی رہ یعنی تُو اس حالت میں لَوٹ جا کہ تُو فراخی محسوس کر اور اب کسی بھی چیز کا خوف نہ کھا۔ اور وہ لوگ جو پناہ دینے والے تھے وہ‘قَوَاقِلَہ’کے نام سے مشہور تھے۔ ابنِ ہشام کہتے ہیں کہ ایسے سردار جب کسی کو پناہ دیتے تو اسے ایک تِیر دے کر کہتے کہ اس تِیر کو لے کر اب جہاں مرضی جاؤ۔ حضرت نعمانؓ کے دادا ثَعْلَبہ بن دَعْدکو قَوقَل کہا جاتا تھا۔ اسی طرح خزرج کے سردار غَنْم بن عوف کو بھی قَوقَل کہا جاتا تھا۔ اسی طرح حضرت عُبادہ بن صَامِت بھی قوقَل کے لقب سے مشہور تھے۔ بنو سالِم، بنو غَنم اور بنو عوف بن خزرج کو بھی قَوَاقِلَہ کہا جاتا تھا۔ بنو عوف کے سردار حضرت عُبادہ بن صَامِتؓ تھے۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ لابن اثیر جلد3صفحہ158-159 عبادۃ بن الصَامِت، دارالکتب العلمیہ بیروت2008ء) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ414 النعمان بن مالک، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2012ء) (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ309، العقبة الاولٰی ومصعب بن عمیر۔ ۔ ۔ ۔ ، دارالکتب العلمیة 2001ء) (تاج العروس زیر مادہ‘‘ ققل ’’جلد 15 صفحہ 627 باب اللام مطبوعہ دار الفکر بیروت 1994ء)
حضرت عبادہؓ کے ایک بیٹے کا نام ولید تھا جس کی والدہ کا نام جمیلہ بنت ابو صَعْصَعْہ تھا۔ دوسرے بیٹے کا نام محمد تھا جس کی والدہ کا نام حضرت اُمِّ حَرَام بنت مِلْحَان تھا۔ حضرت اَوس بن صَامِتؓ حضرت عُبادہ کے بھائی تھے۔ حضرت اوسؓ بھی بدری صحابی تھے۔ (الطبقات الکبرٰی الجزء الثالث صفحہ280-281، عُبادہ بن صَامِت، دار احیاء التراث العربی بیروت1996ء)
جب حضرت ابومَرثَد غَنَوِیؓ ہجرت کر کے مدینہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عُبادہ کے ساتھ ان کی مؤاخات قائم فرمائی۔ حضرت عُبادہ غزوۂ بدر، احد، خندق اور تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک تھے۔ حضرت عبادہؓ 34؍ہجری میں رَمْلہ فلسطین میں فوت ہوئے۔ بعض کے مطابق بیت المقدس میں فوت ہوئے اور وہیں تدفین ہوئی اور ان کی قبر آج بھی معروف ہے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عبادہؓ کی وفات قُبرُس میں ہوئی جبکہ وہ حضرت عمرؓ کی طرف سے اس پر والی بنا کر بھیجے گئے تھے۔ وفات کے وقت ان کی عمر 72سال تھی۔ ان کا قد لمبا جسم فربہ اور بہت خوبصورت تھا۔ بعض کے مطابق ان کی وفات پینتالیس ہجری میں امیر معاویہ کے دور میں ہوئی مگر پہلا قول زیادہ صحیح ہے جس میں ان کی وفات جو ہے وہ 34؍ہجری میں فلسطین میں ہوئی نہ کہ 45ہجری۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد3صفحہ55-56، دارالفکر بیروت 2003ء) (الاستیعاب فی معرفة الاصحاب جلد2 صفحہ355، عُبادہ بن صَامِت، دارالکتب العلمیہ بیروت 2002ء) (شرح مسند الشافعی از عبد الکریم بن محمد قزوینی جزء2 صفحہ165مطبوعہ ادارۃ الشؤون الاسلامیہ قطر2007ء از مکتبہ الشاملہ)
حضرت عُبادہ بن صَامِتؓ کی روایات کی تعداد ایک سو اکاسی (181)تک پہنچتی ہے۔ احادیث کی مختلف روایات ان سے ہیں جس کے روایت کرنے والے اکابر صحابہ اور تابعین ہیں۔ چنانچہ صحابہ کرام میں سے حضرت انس بن مالکؓ، حضرت جابر بن عبداللہؓ، حضرت مِقْدَامْ بن مَعْدِی کَرِبْؓ وغیرہ ہیں۔ (سیر الصحابہ جلد 3صفحہ405، دارالاشاعت اردو کراچی2004ء)
راوی کہتے ہیں کہ حضرت عُبادہؓ جنگِ بدر میں شامل ہوئے تھے اور عَقَبَہ کی رات یہ بھی سرداروں میں سے ایک سردار تھے کہ حضرت عُبادہ بن صَامِتؓ نے بیان کیا ہے۔ یہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا ایک گروہ تھا فرمایا کہ مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ تم کسی چیز کو بھی اللہ کا شریک نہیں ٹھہراؤ گے۔ نہ ہی چوری کرو گے اور نہ ہی اولاد کو قتل کرو گے اور تم دیدہ و دانستہ بہتان نہیں باندھو گے اور نہ معروف بات میں تم نافرمانی کرو گے۔ پس جس نے بھی تم میں سے یہ عہد پورا کیا اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہو گا اور جس نے ان بدیوں میں سے کوئی بدی کی اور پھر دنیا میں اسے سزا مل گئی تو یہ سزا اس کے لیے کفارہ ہو گی اور جس نے ان بدیوں میں سے کوئی بدی کی اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی فرمائی تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ اللہ چاہے تو اس سے درگزر کرے اور چاہے تو اسے سزا دے۔ سو ہم نے ان باتوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الایمان باب علامۃ الایمان حب الانصار حدیث 18)
ہجرتِ مدینہ کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قبا میں نماز ِجمعہ ادا فرمائی تو نماز ِجمعہ پڑھنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف جانے کے لیے اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی لگام ڈھیلی چھوڑ دی اور اس کو کوئی حرکت نہ دی۔ اونٹنی دائیں اور بائیں اس طرح دیکھنے لگی کہ جیسے وہ چلنے کے لیے کسی سمت اور کسی رخ کا فیصلہ کر رہی ہے کہ مَیں کدھر جاؤں۔ یہ کھڑی تھی، دائیں بائیں دیکھ رہی تھی اور آگے نہیں چل رہی تھی۔ یہ دیکھ کر بنو سالم کے لوگوں نے یعنی جن کے محلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کی نماز پڑھی تھی انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔ ان میں عِتْبَان بن مالِک اور نَوفَل بن عبداللہ بن مالک اور عُبادہ بن صَامِت بھی تھے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسولَ اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم۔ ہمارے ہاں قیام فرمائیے۔ یہاں اس علاقے میں لوگوں کی تعداد بھی زیادہ ہے اور عزت و حفاظت بھی پوری ہو گی۔ ہم پوری طرح عزت بھی کریں گے، آپؐ کی حفاظت بھی کریں گے اور یہاں ہیں بھی ہم زیادہ مسلمان۔ ایک روایت میں یہ لفظ بھی ہے کہ یہاں دولت اور ثروت بھی ہے۔ ہمارے لوگ بڑے کشائش والے ہیں۔ پیسے ہمارے پاس ہیں۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ ہمارے قبیلے میں اتریے، ہم تعداد میں بھی زیادہ ہیں اور ہمارے پاس ہتھیار بھی ہیں۔ نیز ہمارے پاس باغات اور زندگی کی ضروریات بھی ہیں۔ یعنی کہ حفاظت بھی ہم کر سکتے ہیں۔ مالی لحاظ سے بھی ہم بہتر ہیں۔ پھر انہوں نے کہا کہ یا رسولَ اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) جب کوئی خوف اور دہشت کا مارا ہوا عرب اس علاقے میں آ جاتا ہے تو وہ ہمارے ہاں ہی آ کر پناہ ڈھونڈتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ساری باتیں سن لیں۔ ان کے لیے خیر کے کلمات عطا فرمائے اور فرمایا تمہاری باتیں، تمہاراسب کچھ ٹھیک ہے۔ اور فرمایا کہ اونٹنی کا راستہ چھوڑ دو کیونکہ آج یہ مامور ہے۔ اس نے جہاں بھی جانا ہے، رکنا ہے، بیٹھنا ہے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی جائے گی۔ ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اونٹنی مامور ہے اس لیے اس کا رستہ چھوڑ دو۔ آپ مسکراتے ہوئے یہ فرما رہے تھے کہ جو بھی تم نے پیشکش کی ہے اللہ تم پر اپنی برکت نازل فرمائے۔ پھر اونٹنی وہاں سے چل پڑی۔ (السیرة الحلبیۃ الجزء الثانی صفحہ 83، باب الہجرة الی المدینۃ، دارالکتب العلمیہ بیروت2002ء)
فتح ِمصر کے متعلق ’’سیر الصحابہ‘‘ کا مصنف جو ہے لکھتا ہے کہ خلافتِ فاروقی میں مصر کے فتح ہونے میں دیر ہوئی تو حضرت عَمرو بن عاصؓ نے حضرت عمرؓ کو مزید مدد کے لیے خط لکھا۔ حضرت عمرؓ نے چار ہزار فوج روانہ کی جس میں سے ایک ہزار فوج کے افسر حضرت عبادہؓ تھے اور جواب میں لکھا کہ ان افسروں میں سے ہر شخص ایک ہزار آدمیوں کے برابر ہے۔ یہ مدد مصر پہنچی تو حضرت عَمرو بن عاصؓ نے تمام فوج کو یکجا کر کے ایک پُراثر تقریر کی اور حضرت عُبادہؓ کو بلا کر کہا کہ اپنا نیزہ مجھ کو دیجیے اور خود انہوں نے، عَمرو بن عاصؓ نے، اپنے سر سے اپنا عمامہ اتارا اور نیزے پر لگا کر ان کے حوالے کیا کہ یہ سپہ سالار کا عَلَم ہے، سپہ سالار کا جھنڈا ہے اور آج آپ سپہ سالار ہیں۔ خدا کی شان کہ اس کے بعد پہلے ہی حملے میں شہر فتح ہو گیا۔ (بحوالہ سیر الصحابہ از سعید انصاری جلد3حصہ 2 صفحہ402، دار الاشاعت کراچی 2004ء)
حضرت ابو عُبَیْدَہ بن جَرَّاحؓ فتح دمشق کے بعد حِمْص آئے اور یہاں کے باشندوں نے ان سے صلح کر لی اس کے بعد انہوں نے حضرت عُبادہ بن صَامِت انصاریؓ کو حِمْص پر نگران مقرر کیا اور خود حُمَا ۃکی طرف بڑھے۔ حضرت عُبادہ بن صَامِتؓ نے بعد میں لَاذِقِیَّہ کی طرف کُوچ کیا جو ملکِ شام میں ساحلِ سمندر پر واقع ایک شہر ہے۔ اس کے باشندوں نے مسلمانوں سے جنگ کی۔ وہاں ایک بہت بڑا دروازہ تھا جو لوگوں کی ایک بڑی جماعت کے بغیر نہیں کھلتا تھا۔ حضرت عبادہؓ لشکر کو شہر سے دور لے گئے اور اسے ایسے گڑھے کھودنے کا حکم دیا جس میں ایک آدمی اور اس کا گھوڑا اچھی طرح چھپ جائیں۔ لمبی خندق کھودیں۔ مسلمانوں نے گڑھے کھودنے میں بڑی کوشش کی اور جب اس کام سے فارغ ہو چکے تو دن کی روشنی میں حِمْص کی جانب واپس جانا ظاہر کیا اور جب رات چھا گئی تو یہ لوگ اپنی چھاؤنی اور اپنی خندقوں کی طرف واپس آ گئے جو کھودی تھیں۔ اہلِ لَاذِقِیَّہ دھوکے میں یہ سمجھتے رہے کہ وہ ان کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ جب دن چڑھا تو انہوں نے اپنا دروازہ کھولا اور اپنے مویشی لے کر نکلے۔ مسلمان دفعةً نمودار ہوئے جنہیں دیکھ کر وہ لوگ دہل گئے۔ مسلمانوں نے ان پر چڑھائی کر دی اور دروازے سے شہر میں داخل ہو گئے اور اس کو فتح کر لیا۔ حضرت عُبادہؓ قلعے میں داخل ہوئے۔ اس کی دیوار پر چڑھے اور اسی پر سے تکبیر کہی۔ لَاذِقِیَّہ کے نصارٰی میں سے ایک قوم یَسِیْد کی طرف بھاگ گئی۔ پھر ان لوگوں نے اس پر امان چاہی کہ انہیں ان کی زمین کی طرف واپس آنے دیا جائے۔ پہلے تو ڈر کے چلے گئے لیکن پھر انہوں نے کہا کہ ہمیں امان دیں اور ہم واپس آنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ خراج کی ادائیگی پر زمین ان کے حوالے کر دی گئی کہ ایک حصہ آمد کا تم دو گے اور ان کو ان کی زمین واپس کر دی اور ان کی معبد گاہ ان کے لیے چھوڑ دی گئی۔ جہاں وہ عبادت کرتے تھے وہ بھی ان کو واپس کر دی گئی کہ ٹھیک ہے تم جس طرح چاہتے ہو اپنی عبادت کرو۔ مسلمانوں نے لَاذِقِیَّہ میں حضرت عُبادہؓ کے حکم سے ایک مسجد بنائی جو بعد میں وسیع کی گئی۔ حضرت عُبادہؓ اور مسلمان سمندر کے کنارے پہنچے اور بَلْدَة نام کا ایک شہر فتح کیا جو جَبَلَہ قلعہ سے دو فرسخ یعنی چھ میل کے فاصلے پر تھا۔
حضرت عُبادہؓ اور ان کے ساتھی مسلمانوں نے پھر کافی فتوحات کی ہیں۔ ان کے ذریعہ سےاَنطَرطُوس فتح ہوا جو ملکِ شام میں سمندر کے کنارے واقع ایک شہر ہے۔ اسی طرح پھر ملک شام کے علاقے لَاذِقِیَّہ، جَبَلَہ، بَلْدَۃ اَنْطَرطُوس حضرت عُبادہ بن صَامِتؓ کے ہاتھوں فتح ہوئے۔ (فتوح البلدان صفحہ83تا85 امر حمص دار الکتب العلمیۃ بیروت2000ء) (معجم البلدان جلد4 صفحہ169‘‘ اللاذقیہ ’’جلد اول صفحہ 320‘‘ انطرطوس ’’مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عُبادہؓ کو بعض صدقات کا عامل بنایا اور انہیں نصیحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن تم اونٹ کو اپنے اوپر لادے ہوئے ہو اور وہ بلبلاتا ہو یا گائے کو لادے ہوئے آؤ اور اس کی آواز نکل رہی ہو یا بکری کو لادے ہوئے آؤ اور وہ ممیاتی ہو یعنی کہیں خیانت نہ ہو جائے۔ ایسا نہ ہو کہ صدقات کی صحیح طرح حفاظت نہ کر سکو اور اس زمانے میں جو صدقات آتے تھے۔ زکوٰة میں یا صدقات میں اونٹ گائے بکریاں وغیرہ جو چیزیں آرہی ہیں یہ نہ ہو کہ ان کی تقسیم کا اور ان کی حفاظت کا تم صحیح طرح حق نہ ادا کر سکو اور پھر قیامت کے دن وہی چیزیں تمہارے پہ بوجھ بن جائیں گی۔ حضرت عُبادہ بن صَامِتؓ نے یہ سن کے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں تو دو آدمیوں پر بھی عامل نہ بنوں گا۔
میری تو یہ حالت ہے کہ میں تو کسی کا کوئی بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ اس لیے مجھے تو نہ ہی بنائیں تو ٹھیک ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں انصار میں سے پانچ آدمیوں نے قرآن کو جمع کیا تھا جن کے نام یہ ہیں۔ حضرت مُعاذ بن جبؓ ل، حضرت عُبادہ بن صَامِتؓ، حضرت اُبیَّ بن کعبؓ، حضرت ابوایوب انصاریؓ اور حضرت ابو دَرْدَاءؓ۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد3صفحہ55، دارالفکر بیروت 2003ء)
حضرت یزید بن سفیانؓ نے فتح شام کے بعد حضرت عمرؓ کو لکھا کہ اہل شام کو ایسے معلم کی ضرورت ہے جو انہیں قرآن سکھائے اور دین کی سمجھ بوجھ دے تو حضرت عمرؓ نے حضرت مُعاذؓ، حضرت عُبادہؓ اور حضرت ابودَرداءؓ کو بھیجا۔ حضرت عُبادہؓ نے جا کر فلسطین میں قیام کیا۔ جُنَادَہ سے مروی ہے کہ میں جب حضرت عُبادہؓ کے پاس حاضر ہوا تو میں نے انہیں اس حالت میں پایا کہ انہیں اللہ کے دین کی خوب سمجھ تھی۔ یعنی بڑے صاحب ِعلم تھے۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد3 صفحہ 507، عبادةبن صَامِت، دارالکتب العلمیہ بیروت، 2005ء)
جب مسلمانوں نے ملکِ شام کو فتح کیا تو حضرت عمرؓ نے حضرت عُبادہؓ اور ان کے ساتھ حضرت مُعاذ بن جبلؓ اور حضرت ابودرداءؓ کو شام بھجوایا تا کہ وہاں لوگوں کو قرآن کریم کی تعلیم دیں اور ان کو دین سکھائیں۔ حضرت عُبادہؓ نے حِمْص میں قیام کیا اور حضرت ابودَرداءؓ نے دمشق میں قیام کیا اور حضرت مُعاذؓ فلسطین کی طرف چلے گئے پھر کچھ دیر بعد حضرت عُبادہؓ بھی فلسطین چلے گئے۔ وہاں امیر معاویہ نے ایک معاملہ میں یعنی دین کے معاملے میں مخالفت کی جس کو حضرت عبادہؓ ناپسند کرتے تھے۔ کسی دینی مسئلے میں اختلاف تھا۔ امیر معاویہ نے ان سے اس پر سخت کلامی کی تو حضرت عبادہؓ نے کہا کہ میں ہرگز آپ کے ساتھ ایک سرزمین میں نہ رہوں گا۔ پھر وہ مدینے چلے گئے تو حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ تمہیں کیا چیز ادھر لے آئی ہے۔ حضرت عبادہؓ نے حضرت عمرؓ کو ساری بات بتائی کہ اس طرح اختلاف ہوا تھا اور پھر انہوں نے میرے ساتھ بڑی سخت کلامی کی ہے۔ بہرحال اختلاف کی وجہ سے وہ واپس آ گئے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تم اپنی جگہ واپس چلے جاؤ اور اللہ ایسی زمین کو خراب کر دے گا جس میں تم یا تمہارے جیسا کوئی اَور نہ ہوا۔ یعنی صاحب ِعلم لوگ، دین کا علم رکھنے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پرانے صحابہ میں سے لوگ ضرور ہونے چاہییں۔ نہیں تو یہ اس زمین کی بدقسمتی ہے۔ اس لیے تمہارا واپس جانا ضروری ہے اور امیر معاویہ کو بھی یہ فرمان لکھ کر بھیجا کہ تمہیں ان یعنی حضرت عبادہؓ پر کوئی اختیار نہیں ہے۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد3صفحہ55، عبادۃ بن الصَامِت، دارالفکر بیروت 2003ء) بعض مسائل ہیں اگر یہ بیان کرتے ہیں یا بعض باتیں کہتے ہیں تو ان کے لیے سنا کرو اور یہ جو کہتے ہیں وہ ٹھیک کہتے ہیں۔ بہرحال حضرت عبادہؓ کی کافی اَور مزید باتیں بھی ہیں۔ ان کے حوالے سے ان کی اَور روایتیں ہیں جو ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ خطبے میں بیان ہوں گی کیونکہ وہ زیادہ لمبی تفصیلیں ہیں۔ اس پہ وقت سے زائد لگے گا۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ جب عبداللہ بن أبی کے کہنے پر اس کے حلیف قبیلہ بنو قَیْنُقَاع نے مسلمانوں سے جنگ کی تو حضرت عُبادہؓ بھی عبداللہ بن أبی کی طرح ان کے حلیف تھے لیکن اس جنگ کی حالت کی وجہ سے یہ اس قبیلے سے الگ ہو گئے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ان کے حلیف ہونے سے بَری ہو گئے۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَہُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِیَآءَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ (المائدہ: 52)
کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ پکڑو۔ وہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو ان سے دوستی کرے گا وہ انہی کا ہو رہے گا۔ یقیناً اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر عسقلانی جلد3 صفحہ 506، عُبادہبن صامت، دارالکتب العلمیہ بیروت، 2005ء)
یہاں یہ واضح کر دوں کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کبھی بھی کسی عیسائی یا یہودی کو فائدہ پہنچانے والی بات نہیں کرنی۔ اُن سے تعلقات نہیں رکھنے بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ یہودی یا عیسائی جو تمہارے ساتھ جنگ کی حالت میں ہیں ان سے دوستیاں نہ کرو ورنہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اُن سے نیکی اور عدل سے نہیں روکتا جو تم سے جنگ نہیں کرتے یا جنہوں نے تمہیں گھروں سے نہیں نکالا چاہے وہ کافر ہیں یا یہود و نصاریٰ میں سے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
لَا یَنْہٰىکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ (الممتحنہ: 9)
اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں قتال نہیں کیا اور نہ تمہیں بے وطن کیا کہ تم ان سے نیکی کرو اور ان سے انصاف کے ساتھ پیش آؤ۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
پس یہاں جو واضح کیا گیا ہے، پہلی آیت میں یہ بتایا گیا ہےکہ کمزوری اور خوف اور بزدلی کی وجہ سے غیر مسلموں سے تعلقات نہیں رکھنے۔ مقصد یہ ہے کہ تمہارا اللہ تعالیٰ پر توکّل ہونا چاہیے اور اپنی ایمانی حالت کو بہتر کرو گے تو خدا تعالیٰ بھی تمہارے ساتھ ہو گا لیکن ہم آج کل دیکھتے ہیں کہ بدقسمتی سے مسلمان حکومتیں مدد کے لیے انھی غیر لوگوں کی گودوں میں گر رہی ہیں اور ان سے خوف زدہ بھی ہیں اور غیروں سے مدد لینے کی وجہ سے پھر نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہر ایک مسلمان ملک دوسرے مسلمان کے خلاف ہے۔ یہی لوگ پھر اسلام کی جڑیں کاٹنے والے بھی ہیں۔ بہرحال ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان مسلمان حکومتوں کو بھی عقل دے۔ بہرحال اس واقعہ کا ذکر ہو رہا ہے کہ بنو قینقاع نے جب جنگ کی تو اس کے بعد ان کا گھیراؤ کیا گیا۔ جنگ ہوئی اور انہوں نے شکست کھائی۔ سیرت خاتم النبیینؐ میں اس واقعہ کا مختلف تاریخوں سے لے کر جو ذکر کیا گیا ہے وہ اس طرح ہے کہ اس جنگ کے بعد جب بنو قینقاع کی شکست ہوئی تو ان کو جلاوطنی کا حکم دیا گیا۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ
جب جنگ بدر ہو چکی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مسلمانوں کو باوجود ان کی قلت اور بے سروسامانی کے قریش کے ایک بڑے جرّارلشکر پرنمایاں فتح دی اور مکے کے بڑے بڑے عمائد خاک میں مل گئے تومدینے کے یہودیوں کی مخفی آتش حسد جو تھی وہ بھڑک اٹھی۔ انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کھلم کھلا نوک جھونک شروع کردی۔ مجلسوں میں برملا طورپریہ کہنا شروع کر دیا کہ قریش کے لشکر کوشکست دینا کون سی بڑی بات تھی۔ ہمارے ساتھ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کامقابلہ ہو تو ہم بتادیں کس طرح لڑا کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ ایک مجلس میں انہوں نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر اسی قسم کے الفاظ کہے۔ چنانچہ روایت آتی ہے کہ جنگ بدر کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے ایک دن یہودیوں کوجمع کرکے ان کو نصیحت فرمائی اور اپنا دعویٰ پیش کرکے اسلام کی طرف دعوت دی۔ آپ کی اس پُرامن اور ہمدردانہ تقریر کا رؤسائے یہودنے ان الفاظ میں جواب دیا کہ اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تم شاید چند قریش کوقتل کرکے مغرور ہوگئے ہو اور وہ لوگ لڑائی کے فن سے ناواقف تھے۔ اگر ہمارے ساتھ تمہارا مقابلہ ہو تو تمہیں پتا لگ جائے گا کہ لڑنے والے ایسے ہوتے ہیں۔ اور یہودنے صرف اس عام دھمکی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ لکھا ہے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے بھی منصوبے شروع کر دیے تھے۔ کیونکہ روایت آتی ہے کہ جب ان دنوں میں طلحہ بن بَرَاء جوایک مخلص صحابی تھے فوت ہونے لگے توانہوں نے وصیت کی کہ اگر میں رات کو مروں تونماز جنازہ کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواطلاع نہ دی جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ میری وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہود کی طرف سے کوئی حادثہ گزر جائے۔ یعنی آپؐ رات کے وقت جنازے کے لیے تشریف لائیں اور یہود کو آپؐ پر حملہ کرنے کا موقع ملے۔ بہرحال جنگِ بدر کے بعد یہودنے کھلم کھلا شرارت شروع کردی اور چونکہ مدینے کے یہود میں بنوقینقاع سب سے زیادہ طاقتور اور بہادر تھے اس لیے سب سے پہلے ان ہی کی طرف سے عہد شکنی ہوئی۔ چنانچہ مؤرخین لکھتے ہیں کہ مدینے کے یہودیوں میں سب سے پہلے بنو قینقاع نے اس معاہدے کو توڑا جوان کے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ہوا تھا اور بدر کے بعد انہوں نے بہت سرکشی شروع کر دی اور برملا طور پر بغض اور حسد کااظہار کیا اور عہدوپیمان کوتوڑ دیا۔
مگرباوجود اس قسم کی باتوں کے مسلمانوں نے اپنے آقا آنحضرتﷺ کی ہدایت کے ماتحت ہرطرح سے صبر سے کام لیا اور اپنی طرف سے کوئی پیش دستی نہیں ہونے دی بلکہ حدیث میں آتا ہے کہ اس معاہدے کے بعد جویہود کے ساتھ ہوا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاص طورپر یہود کی دل داری کاخیال رکھتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک مسلمان اور ایک یہودی میں کچھ اختلاف ہو گیا۔ یہودی نے حضرت موسیٰ کی تمام انبیاء پر فضیلت بیان کی۔ صحابی کواس پر غصہ آیااور اس نے یہودی کے ساتھ کچھ سختی کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو افضل الرسل بیان کیا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے کی اطلاع ہوئی تو آپؐ ناراض ہوئے اور اس صحابی کو ملامت فرمائی، تنبیہ کی کہ تمہارا کیا کام ہے کہ تم خدا کے رسولوں کی ایک دوسرے پر فضیلت بیان کرتے پھرو اور پھر آپ نے موسیٰ کی ایک جزوی فضیلت بیان کر کے یہودی کی دل داری فرمائی۔ مگرباوجود اس دل دارانہ سلوک کے، نرمی کے سلوک کے، شفقت کے سلوک کے یہودی اپنی شرارت پر ترقی کرتے گئے اور بالآخر یہود کی طرف سے ہی جنگ کاباعث پیدا ہوا اور ان کی جو قلبی، دلی عداوت تھی ان کے سینوں میں سما نہ سکی۔ وہیں نہ رہ سکی بلکہ باہر نکل آئی اور یہ اس طرح پرہوا کہ ایک مسلمان خاتون بازار میں ایک یہودی کی دکان پرکچھ سوداخریدنے کے لیے گئی۔ بعض شریریہودیوں نے جو اس وقت اس دکان پر بیٹھے ہوئے تھے اسے نہایت اوباشانہ طریقے پر چھیڑا اور خود دکان دار نے یہ شرارت کی کہ عورت کے تہ بندکے کونے کو اس کی بے خبری میں کسی کانٹے وغیرہ سے اس کی پیٹھ کے کپڑے سے ٹانک دیا۔ کوئی چیز، کوئی hook لگا ہوا ہوگا یا کانٹا ہو گا۔ کوئی چیز پڑی ہو گی اس سے اس کے کپڑے کو وہاں ٹانک دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ عورت ان کے اوباشانہ طریق کو دیکھ کر وہاں سے اٹھ کر لوٹنے لگی تو وہ ننگی ہوگئی، کپڑا اتر گیا۔ اس پر اس یہودی دکاندار اور اس کے ساتھیوں نے زور سے ایک قہقہہ لگایا اور ہنسنے لگ گئے۔ مسلمان خاتون نے شرم کے مارے ایک چیخ ماری اور مدد چاہی۔ اتفاق سے ایک مسلمان اس وقت قریب موجود تھا۔ وہ لپک کر موقعے پر پہنچا اور پھر وہاں آپس میں لڑائی شروع ہو گئی۔ یہودی دکاندار مارا گیا۔ جس پر چاروں طرف سے اس مسلمان پر تلواریں برس پڑیں۔ انہوں نے حملہ کر دیا اور وہ غیّور مسلمان وہیں ڈھیر ہو گیا۔ وہیں قتل ہو گیا، شہید ہو گیا۔ مسلمانوں کو اس واقعے کا علم ہوا تو پھر ان کی بھی غیرتِ قومی بھڑکی۔ ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور دوسری طرف یہودی جو اس واقعہ کو لڑائی کا بہانہ بنانا چاہتے تھے ہجوم کرکے اکٹھے ہوگئے اور ایک بلوے کی صورت پیدا ہوگئی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواطلاع ہوئی تو آپؐ نے رؤسائے بنوقینقاع کوجمع کر کے کہا کہ یہ طریق اچھا نہیں۔ تم ان شرارتوں سے باز آ جاؤ اور خدا سے ڈرو۔ انہوں نے بجائے اس کے کہ اظہارِ افسوس کرتے، ندامت کرتے، شرمندگی کا احساس کرتے اور معافی طلب کرتے، مانگنے والے بنتے انہوں نے سامنے سے نہایت ہی تکبر سے متمردانہ جواب دیے اور پھر وہی دھمکی دہرائی کہ بدر کی فتح پرغرور نہ کرو۔ جب ہم سے مقابلہ ہوگا تو پتا لگ جائے گا کہ لڑنے والے ایسے ہوتے ہیں۔ بہرحال ناچار آپؐ صحابہ کی ایک جمعیت کو ساتھ لے کر بنو قینقاع کے قلعوں کی طرف روانہ ہو گئے۔ اب یہ آخری موقع تھا کہ وہ اپنے افعال پرپریشان ہوتے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو لے کر گئے تو یہودیوں کو چاہیے تھا کہ جو کچھ انہوں نے زیادتی کی تھی، اس پر پریشان ہوتے اور صلح کی طرف قدم بڑھاتے مگر وہ سامنے سے جنگ پر آمادہ ہو گئے۔ بہرحال جنگ کا اعلان ہوگیا اور اسلام اور یہودیت کی طاقتیں ایک دوسرے کے مقابل پرنکل آئیں۔ اس زمانہ کے دستور کے مطابق جنگ کا ایک طریق یہ بھی ہوتا تھا کہ اپنے قلعوں میں محفوظ ہوکر بیٹھ جاتے تھے اور فریق مخالف قلعوں کامحاصرہ کرلیتا تھا۔ جو حملہ آور ہوتا تھا قلعے کا محاصرہ کر لیتا تھا۔ اُسےگھیر لیتا تھا۔ موقعے موقعے پر گاہے گاہے ایک دوسرے کے خلاف حملے ہوتے رہتے تھے۔ حتٰی کہ یاتو محاصرہ کرنے والی فوج قلعے پر قبضہ کرنے سے مایوس ہو کر محاصرہ اٹھا لیتی تھی، جو گھیراؤ کیا ہوتا تھا وہ ختم کر دیتی تھی اور چلی جاتی تھی اور یہ پھر قلعے کے اندر کے جو لوگ ہوتے تھے، محصورین جو تھے ان کی فتح سمجھی جاتی تھی کہ ان کو فتح ہو گئی اور یا پھر یہ ہوتا تھا کہ محصورین، جو قلعے کے اندر تھے، جو محصور ہوئے ہوئے تھے وہ مقابلے کی تاب نہ لا کر قلعے کادروازہ کھول کر اپنے آپ کو فاتحین کے سپرد کردیتے تھے۔ اس موقعے پر بھی بنوقینقاع نے یہی طریق اختیار کیا اور اپنے قلعوں میں بند ہو کر بیٹھ گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کیا، قلعے کو ارد گرد سے گھیر لیا اور پندرہ دن تک برابر محاصرہ جاری رہا۔ آخر جب بنوقینقاع کاسارا زور اور غرور ٹوٹ گیا توانہوں نے اس شرط پر اپنے قلعوں کے دروازے کھول دیے کہ ان کے اموال مسلمانوں کے ہوجائیں گے مگر ان کی جانوں اور ان کے اہل وعیال پرمسلمانوں کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شرط کو منظور فرما لیا کیونکہ گو موسوی شریعت کی رو سے یہ سب لوگ واجب القتل تھے۔ ایسی صورت میں تو تورات جو موسوی شریعت ہے یہی کہتی ہے کہ یہ لوگ قتل کر دیے جائیں اور معاہدے کی رو سے ان لوگوں پر موسوی شریعت کا فیصلہ ہی جاری ہونا چاہیے تھا مگر اس قوم کایہ پہلا جرم تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحیم وکریم طبیعت انتہائی سزا کی طرف جو ایک آخری علاج ہوتا ہے ابتدائی قدم پر مائل نہیں ہوسکتی تھی۔ ابتدا تھی لیکن دوسری طرف ایسے بدعہد اور معاند قبیلہ کامدینہ میں رہنا بھی ایک مارِ آستین کے پالنے سے کم نہیں تھایعنی بغل میں سانپ پالا ہوا ہے۔ آستین میں سانپ پالنے کے برابر تھا خصوصاً جب اوس اور خزرج کا ایک منافق گروہ پہلے سے مدینہ میں موجود تھا اور بیرونی جانب سے بھی تمام عرب کی مخالفت نے مسلمانوں کے ناک میں دم کررکھا تھا۔ ایسے حالات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی فیصلہ ہو سکتا تھاکہ بنو قینقاع مدینے سے چلے جائیں۔ یہ سزاان کے جرم کے مقابلے میں اور اس کے علاوہ اس زمانہ کے حالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک بہت نرم سزا تھی اور دراصل اس میں صرف خود حفاظتی کاپہلو مدّنظر تھا۔ مقصدیہ تھا کہ مدینے کے لوگوں کی، مدینے کے مسلمانوں کی حفاظت ہو جائے ورنہ عرب کی خانہ بدوش اقوام کے نزدیک، حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ یہ لکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک تو نقل مکانی کوئی بڑی بات نہیں تھی، پھرتے رہتے تھے، ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرتے رہتے تھے۔ خصوصاً جب کسی قبیلہ کی جائیدادیں زمینوں اور باغات کی صورت میں نہ ہوں جیسا کہ بنو قینقاع کی نہیں تھیں، ان کی جائیدادیں تو نہیں تھیں اور پھر سارے کے سارے قبیلے کو بڑے امن وامان کے ساتھ ایک جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ جاکر آباد ہونے کا موقع مل جائے۔ چنانچہ بنو قینقاع بڑے اطمینان کے ساتھ مدینہ چھوڑ کرشام کی طرف چلے گئے۔ ان کی روانگی کے متعلق ضروری اہتمام اور نگرانی وغیرہ کاکام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابی عُبادہ بن صامتؓ کے سپرد فرمایا، جوان کے حلیفوں میں سے تھے جن کا ابھی ذکر ہو رہا ہے۔ چنانچہ عُبادہ بن صامتؓ چند منزل تک بنوقینقاع کے ساتھ گئے اور پھر انہیں حفاظت کے ساتھ آگے روانہ کرکے واپس لوٹ آئے۔ مالِ غنیمت جومسلمانوں کے ہاتھ آیا وہ صرف جنگی آلات تھے یا جوان کا پیشہ تھا اس پہ مشتمل آلات تھے اور اس کے علاوہ کوئی ایسی چیزنہیں تھی جو مسلمانوں نے غنیمت میں لی ہو۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینﷺ صفحہ 458تا460)
اس کے بارے میں سیرت الحلبیہ میں بھی کچھ تفصیل ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ان یہود کو مدینے سے ہمیشہ کے لیے نکال کر جلا وطن کر دیا جائے۔ ان کو جلا وطن کرنے کی ذمہ داری آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عُبادہ بن صامتؓ کے سپرد فرمائی اور یہودیوں کو مدینے سے نکل جانے کے لیے تین دن کی مہلت دی۔ چنانچہ یہودی تین دن بعد مدینے کو خیر باد کہہ کر چلے گئے۔ اس سے پہلے یہودیوں نے حضرت عُبادہ بن صامتؓ سے درخواست کی تھی کہ ان کو تین دن کی جو مہلت دی گئی ہے اس میں کچھ اضافہ کر دیا جائے مگر حضرت عُبادہؓ نے کہا کہ نہیں۔ ایک منٹ بھی تمہیں مہلت نہیں دی جا سکتی، بڑھائی نہیں جا سکتی۔ پھر حضرت عُبادہؓ نے اپنی نگرانی میں ان کو جلا وطن کیا اور یہ لوگ ملک شام کی ایک بستی کے میدانوں میں جا بسے۔ (السیرة الحلبیۃ الجزء الثانی باب ذكر مغازيہ صلى الله عليہ وسلم، غزوۃ بنی قینقاع، صفحہ 287، دارالکتب العلمیہ بیروت2002ء)
حضرت عُبادہ بن صامتؓ سے حدیثوں کی بہت ساری دوسری روایات بھی مروی ہیں۔ ایک روایت ان سے یہ ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مصروفیات بہت زیادہ تھیں اس لیے مہاجرین میں سے کوئی آدمی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قرآن سکھانے کے لیے ہم میں سے کسی کے حوالے کر دیتے تھے کہ ان کو لے جاؤ اور قرآن سکھاؤ۔ دینی تعلیم بھی سکھاؤ۔ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو میرے سپرد کیا۔ وہ میرے ساتھ گھر میں رہتا تھا اور میں اسے اپنے گھر والوں کے کھانے میں شریک کرتا تھا، اسے قرآن پڑھاتا تھا۔ جب وہ اپنے گھر والوں کے پاس واپس جانے لگا تو اس نے خیال کیا کہ اس پر میرا حق بنتا ہے یعنی اس کےرہنے کی وجہ سے اور اتنی خدمت کی وجہ سے اور قرآن سکھانے کی وجہ سےاس کے اوپر میرا کچھ حق بن جاتا ہے۔ چنانچہ اس وجہ سے اس نے مجھے ایک کمان ہدیةً پیش کی۔ تیر کمان کی کمان تحفةً پیش کی اور کہتے ہیں کہ وہ ایسی اعلیٰ قسم کی کمان تھی کہ اس سے عمدہ لکڑی اور نرمی میں اس سے بہترین کمان میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ کہتے ہیں کہ مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کے متعلق پوچھا کہ یا رسول اللہ! اس کے بارے میں آپؐ کی کیا رائے ہے؟ اس طرح وہ مجھے کمان تحفہ دے کر گیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ یہ تمہارے کندھوں کے درمیان ایک انگارہ ہے جو تم نے لٹکایا ہے۔ یعنی یہ تحفہ جو تم لے رہے ہو وہ یہ اس لیے دے کے گیا ہے کہ تم نے اسے قرآن پڑھایا ہے اور اس طرح یہ تم نے آگ لی ہے جو اپنے کندھوں میں لٹکا رہے ہو۔ (مسند احمد بن حنبل جلد7 صفحہ 563، مسند عُبادہ بن صامت حدیث 23146، عالم الکتب بیروت1998ء)
ایک اَور روایت بھی ہے کہ حضرت عُبادہ بن صامتؓ نے بیان کیا کہ میں نے اہلِ صفہ میں سے کچھ لوگوں کو قرآن پڑھایا اور لکھنا سکھایا تو ان میں سے ایک شخص نے میرے پاس ہدیہ میں کمان بھیجی۔ میں نے دل میں خیال کیا کہ یہ کوئی مال تو ہے نہیں، کوئی ایسی نقد چیز تو ہے نہیں، سونا چاندی تو ہے نہیں، نہ کوئی کرنسی ہے اور میں اس سے اللہ کی راہ میں تیر اندازی کروں گا۔ ایک کمان ہی ہے ناں، میرے کام آئے گی۔ اگر کبھی جہاد کا موقع ملا تو تیر اندازی کے کام آئے گی۔ اللہ کے رستے میں استعمال ہونی ہے۔ بہرحال کہتے ہیں مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں د ریافت کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ اگر تم آگ کا طوق پہننا پسند کرتے ہو تو اسے قبول کر لو۔ (سنن ابن ماجہ کتاب التجارات باب الاجر علی تعلیم القرآن حدیث 2157)
یعنی اگر تم چاہتے ہو کہ آگ کا ایک طوق تمہارے گلے میں پہنایا جائے تو ٹھیک ہے لے لو۔ یہ دونوں روایتیں جو ہیں ایک ہی طرح کی ہیں، مختلف جگہوں سے آئی ہوئی ہیں۔ شارحین نے اس روایت سے یہ استدلال کیا ہے کہ گویا کمان قرآن پڑھانے کی اجرت کے طور پر تھی جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا۔ پس وہ لوگ جو انفرادی طور پر قرآن کریم پڑھانے کو ذریعہ آمد بنا لیتے ہیں ان کے لیے بھی اس میں رَہ نمائی ہے۔
حضرت راشد بن حُبَیْش سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عُبادہ بن صامتؓ کی عیادت کے لیے ان کے ہاں تشریف لائے جب کہ وہ بیمار تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم لوگ جانتے ہو کہ میری امت کے شہید کون لوگ ہیں؟ تو لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عُبادہ بن صامتؓ کی عیادت کے لیے تشریف لائے تھے وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ جانتے ہو کہ میری امت کے شہید کون لوگ ہیں؟ لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ حضرت عُبادہؓ نے ان سے کہا کہ مجھے سہارا دے کر بٹھا دو۔ چنانچہ لوگوں نے آپؓ کو بٹھایا تو حضرت عُبادہؓ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپؐ نے سوال کیا ہے کہ شہید کون لوگ ہیں؟ تو جو بہادری اور ثابت قدمی سے مقابلہ کرنے والا اور ثواب کی نیت رکھنے والا ہو وہ شہید ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر صرف اتنا ہی ہے تو اس طرح تو پھر میری امت کے شہداء بہت تھوڑے رہ جائیں گے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ اللہ عزّ و جلّ کے راستے میں قتل ہو جانا شہادت ہے۔ طاعون کی وجہ سے مر جانا بھی شہادت ہے۔ ایک وبا جو پھیلی ہے اس میں اگر مومن بھی کسی وجہ سے لپیٹ میں آ جاتے ہیں اور وہ اچھے مومن ہیں تو وہ ایسی صورت میں شہادت ہے۔ پھر پانی میں غرق ہو جانا بھی شہادت ہے اور پیٹ کی بیماری کی وجہ سے مرنا بھی شہادت ہے اور آپؐ نےفرمایا کہ نفاس کی حالت میں مرنے والی عورت کو اس کا بچہ اپنے ہاتھ سے کھینچ کر جنت میں لے جائے گا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد5 صفحہ 492، مسند راشد بن حبیش، عالم الکتب بیروت1998ء)
یعنی ایسی عورت جو بچے کی پیدائش کے وقت خون بہنے کی وجہ سے مر جاتی ہے یا نفاس کی حالت میں جو چالیس دن تک رہتی ہے اس عرصے میں بھی بچے کی پیدائش کی وجہ سے اور اسی حالت میں کمزوری کی وجہ سےفوت ہو جاتی ہےتو فرمایا کہ اسے بھی اس کا بچہ کھینچ کر جنت میں لے جائے گا۔ یعنی بچہ اس کو جنت میں لے جانے کا باعث بن جائے گا۔
جو روایت میں نے بیان کی ہے۔ اس سے ملتی جلتی صحیح بخاری میں درج ایک روایت ملتی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شہید پانچ ہیں: طاعون سے مرنے والا، پیٹ کی بیماری سے مرنے والا، ڈوب کر مرنے والا، دب کر مرنے والا اور اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا۔ (صحیح البخاری کتاب الجہاد والسیر باب الشہادۃ سبع سوی القتل حدیث 2829)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو طاعون ایک نشان کی صورت میں بتایا گیا تھا۔ اس کے لیے اب یہ نشانی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو ماننے والے لوگ ہیں، صحیح ایمان لانے والے ہیں ان کے اوپر اس کا حملہ نہیں ہو گا۔ اس لیے یہاں ایک بالکل اور صورت بن جاتی ہے لیکن عمومی طور پر اگر وبا پھیلی ہوئی ہے اور ایک مومن ہے اور کامل مومن ہے وہ اگر اس وجہ سے مرتا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شہید ہے۔
اسماعیل بن عُبید انصاری بیان کرتے ہیں کہ حضرت عُبادہؓ نے حضرت ابوہریرہؓ سے فرمایا کہ اے ابوہریرہ! آپ اس وقت ہمارے ساتھ نہ تھے جب ہم لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی۔ ہم نے آپؐ سے چستی اور سستی ہر حال میں بات سننے اور ماننے اور خوش حالی اور تنگی میں خرچ کرنے پر، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر پر، اللہ تبارک و تعالیٰ کے متعلق صحیح بات کہنے اور اس معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرنے پر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ تشریف آوری پر ان کی مدد کرنے اور اپنی جانوں اور اپنے بیوی بچوں کی طرح آپؐ کی حفاظت کرنے کی شرط پر بیعت کی تھی۔ یہ تمام، ساری باتیں ایسی تھیں جن پر ہم نے بیعت کی تھی جس کے عوض ہمارے لیے جنت کا وعدہ ہے۔
پس یہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت جس پر ہم نے بیعت کی۔ جو اسے توڑتا ہے وہ اپنا نقصان کرتا ہے۔ جو ان شرائط کو جس پر ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی پورا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس بیعت کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے کیا ہوا وعدہ پورا کرے گا۔
حضرت معاویہؓ نے ایک دفعہ حضرت عثمان غنیؓ کو خط لکھا کہ حضرت عُبادہ بن صامتؓ کی وجہ سے شام اور اہلِ شام میرے خلاف شورش برپا کر رہے ہیں۔ اب یا تو آپ عُبادہؓ کو پاس بلا لیں یا پھر ان کے اور شام کے درمیان سے میں ہٹ جاتا ہوں یعنی میں یہاں سے چلا جاتا ہوں۔ حضرت عثمانؓ نے لکھا کہ آپ حضرت عُبادہؓ کو سوار کروا کے مدینہ منورہ میں ان کے گھر کی طرف روانہ کر دیں۔ چنانچہ حضرت معاویہؓ نے انہیں روانہ کر دیا اور وہ مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ حضرت عُبادہؓ حضرت عثمانؓ کے پاس ان کے گھر چلے گئے جہاں سوائے ایک آدمی کے اگلے پچھلوں میں سے کوئی نہ تھا یعنی کہ جس نے صحابہ کو پایا تھا۔ انہوں نے حضرت عثمانؓ کو مکان کے کونے میں بیٹھے ہوئے پایا۔ پھر آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ اے عُبادہ بن صامتؓ ! آپ کا اور ہمارا کیا معاملہ ہے۔ تو حضرت عُبادہؓ لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر کہنے لگے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے بعد ایسے لوگ تمہارے حکمران ہوں گے جو تمہیں ایسے کاموں کی پہچان کرائیں گے جنہیں تم ناپسند کرتے ہو گے اور ایسے کاموں کو ناپسند کروائیں گے جنہیں تم اچھا سمجھتے ہو گے۔ سو جو شخص اللہ کی نافرمانی کرے اس کی اطاعت نہیں۔ پس تم اپنے رب کی حدود سے تجاوز نہ کرنا۔ (مسنداحمد بن حنبل جلد7 صفحہ 564-565، مسند عُبادہ بن صامت حدیث 23149-23150، عالم الکتب بیروت1998ء)
بعض مسائل ہیں جن میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ حضرت امیر معاویہؓ اور عُبادہ بن صامتؓ میں بھی اس طرح کے بعض ایسے مسائل پہ اختلاف رہتا تھا۔ گذشتہ خطبے میں بھی یہ ذکر ہوا تھا کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں بھی ایک دفعہ یہ واقعہ ہوا اور کیونکہ حضرت عُبادہ بن صامتؓ اولین صحابہ میں سے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست انہوں نے یہ مسائل سنے ہوئے تھے اس لیے بڑے تحدی سے یہ ان کے اوپر عمل کرنے اور کروانے والے ہوتے تھے اور یہی کہا کرتے تھے کہ یہی صحیح ہیں۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب امیر معاویہ سے یہ اختلاف ہوا تو حضرت عمرؓ نے امیر معاویہ کو کہہ دیا کہ ان سے تم نے کوئی پوچھ گچھ نہیں کرنی۔ جو مسائل یہ بیان کرتے ہیں ان کو کرنے دیا کرو اور جب یہ مدینہ آئے تھےتو ان کو واپس بھیج دیا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب السنۃ باب تعظیم حدیث رسول اللہؐ …… الخ حدیث 18)
لیکن حضرت عثمانؓ کے زمانے میں دوبارہ یہ بات ہوئی تو حضرت عثمانؓ نے ان کوان حالات کی وجہ سے واپس بلا لیا۔ بہرحال حضرت عُبادہؓ کا ایک مقام تھا۔ وہ بعض باتوں کی تشریح کر سکتے تھے۔ انہوں نے سمجھی ہوئی تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست سنی تھیں اور اس وجہ سے وہ اختلاف کرتے تھے اور بعض معاملات میں بتا بھی دیا کرتے تھے۔ مثلاً لین دین کا معاملہ ہے، بارٹر (barter) کا معاملہ ہے، تجارت کا معاملہ ہے۔ یہ وسیع مضمون ہے یہاں اس وقت بیان نہیں ہو سکتا، اس میں بھی ان کا اختلاف امیر معاویہؓ سے ہوا تھا۔ تو بہرحال ان کے پاس دلائل تھے اور انہوں نے اس کے مطابق اپنی تشریح کی۔ امیر معاویہؓ نے اپنی تشریح کی لیکن ہر ایک کا یہ کام نہیں ہے کہ اس طرح اختلاف کرتا پھرے جب تک قرآن اور حدیث کی واضح نص موجودنہ ہو۔ اور اس زمانے میں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے جو بیان کیا ہے۔ اس میں بنیادی چیز جو ضروری ہے، یاد رکھنے والی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حدود جو ہیں ان سے تجاوز نہیں کرنا، ان کے اندر رہنا ہے۔ بس یہی ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور پھر اطاعت کے دائرے کے اندر رہنا چاہیے۔
عطاء بیان کرتے ہیں کہ میں ولید سے ملا جو حضرت عُبادہ بن صامتؓ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے والد یعنی حضرت عُبادہؓ کی موت کے وقت وصیت کیا تھی تو انہوں نے بیان کیا کہ انہوں نے یعنی حضرت عُبادہؓ نے مجھے بلایا اور کہا کہ اے میرے بیٹے! اللہ تعالیٰ سے ڈر اور جان لے کہ تُو ہرگز اللہ کا تقویٰ اختیار نہیں کر سکتا جب تک کہ تُو اللہ پر ایمان نہ لائے۔ ایمان کامل ہونا چاہیے۔ اور ہر قسم کے خیر و شر کی تقدیر پر بھی ایمان نہ لائے۔ پس اگر تُو اس کے علاوہ کسی اعتقاد پر مرا تو تُو آگ میں داخل ہو گا۔ (سنن الترمذی ابواب القدر باب اعظام امر الایمان بالقدر حدیث 2155)
حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام حَرَام بنتِ مِلْحَانؓ کے گھر تشریف لایا کرتے تھے جو حضرت عُبادہ بن صامتؓ کی بیوی تھیں۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلاتیں۔ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام حرامؓ کے گھر تشریف لائے تو انہوں نے آپؐ کو کھانا کھلایا اور آپؐ کا سر دیکھنے لگیں، جھسنے لگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے۔ اس کے بعد اسی حالت میں کہ سوئے ہوئے تھے آپؐ مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے۔ حضرت ام حرامؓ کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپؐ کس بات پر مسکرا رہے ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ میری امّت میں سے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کیے گئے جو اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے نکلے ہوئے ہیں۔ وہ اس سمندر میں سوار ہیں گویا تختوں پر بیٹھے ہوئے بادشاہ ہیں یا فرمایا کہ ان بادشاہوں کی طرح ہیں جو تختوں پر بیٹھے ہوئے ہوں۔ بیان کرنے والے نے شک کیا کہ کون سا لفظ فرمایا تھا۔ بہرحال کہتی ہیں کہ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپؐ اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے بھی ان میں سے کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام حرامؓ کے لیے دعا کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر رکھا اور سو گئے۔ پھر اس کے بعد آپؐ مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے۔ کہتی ہیں میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپؐ کس بات پر مسکرا رہے ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا میری امت میں سے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کیے گئے جو اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے نکلے ہوئے تھے۔ پھر آپؐ نے پہلی دفعہ والی جو بات تھی، جو پہلے بیان ہو چکی ہے وہ دہرائی۔ کہتی تھیں میں نے کہا یا رسول اللہ! آپؐ اللہ سے دعا کریں کہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ آپؐ نے فرمایا کہ تُو تو پہلے ہی ان لوگوں میں شریک ہو چکی ہے۔ چنانچہ حضرت ام حرامؓ معاویہ بن ابو سفیان کے زمانے میں سمندری سفر میں شامل ہوئیں اور جب سمندر سے باہر آئیں تو اپنی سواری سے گر کر فوت ہوگئیں۔ (صحیح البخاری کتاب الجھاد والسیر باب الدعاء بالجھاد الشھادة للرجال والنساء حدیث 2788-2789)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ام حرامؓ کے گھر اس لیے جاتے تھے کہ آپؐ کا ایک محرم رشتہ تھا۔ یہ نہیں کہ ان کی بیوی تھیں ان کے گھر چلے گئے۔ اس بارے میں لکھا ہے کہ ام حرامؓ ملحان ابن خالد کی بیٹی ہیں۔ قبیلہ بنی نجار سے تعلق رکھتی تھیں۔ انسؓ کی خالہ تھیں اور ان کی والدہ ام سُلَیم کی بہن ہیں یہ دونوں یعنی ام حرام اور ام سلیم دودھ کے رشتے سے یا کسی نسبتی قرابت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ تھیں۔ (الاستیعاب جلد 4 صفحہ 1931 مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)
امام نووی نے لکھا ہے کہ تمام علماء کا اتفاق ہے کہ ام حرامؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محرم تھیں۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے تکلفی کے ساتھ دوپہر کو بعض دفعہ ان کے ہاں جا کر آرام فرمایا کرتے تھے۔ لیکن کیفیت محرمیت جو ہے اس میں اختلاف ہے، محرم تو تھیں یہ تو سب مانتے ہیں لیکن کس قسم، کس رشتے داری کی وجہ سے محرم تھیں اس میں بعض نے اختلاف کیا ہے۔ (المنھاج بشرح صحیح مسلم از امام نووی کتاب الامارۃ باب فضل الغزو فی البحر حدیث 1912 مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2002ء)
بہرحال کسی نے کسی تعلق سے محرم کہا ہے اور کسی نے کسی تعلق سے۔ حضرت ام حرامؓ جب اسلام لائیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک پر بیعت کی اور حضرت عثمانؓ ذوالنورین کے زمانے میں انہوں نے اپنے خاوند عُبادہ بن صامتؓ کے ساتھ جو انصار میں سے تھے اور بڑے جلیل القدر صحابی تھے جن کا ذکر ہو رہا ہے ان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلیں اور سر زمین روم میں پہنچ کر مرتبہ شہادت سے سرفراز ہوئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ایک خواب رؤیا دیکھی تھی اس کے مطابق پھر ان کی شہادت بھی ہوئی۔
بخاری کی شرح عمدة القاری اور بخاری کی ایک اور شرح ارشاد الساری میں لکھا ہے کہ حضرت ام حرامؓ کی وفات 27تا 28ہجری میں ہوئی۔ بعض کے نزدیک ان کی وفات امیر معاویہؓ کے دورِ حکومت میں ہوئی تھی۔ پہلا قول زیادہ مشہور ہے اور سیرت نگاروں نے اسی کو بیان کیا ہے کہ حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں یہ بحری جنگ ہوئی تھی جس میں حضرت ام حرامؓ کی وفات ہوئی تھی۔ معاویہؓ کے زمانے سے مراد حضرت معاویہؓ کا زمانہ حکومت نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ وقت ہے جب حضرت معاویہؓ نے روم کے خلاف ایک بحری جنگ لڑی تھی اور اس جنگ میں حضرت ام حرامؓ بھی اپنے شوہر حضرت عُبادہ بن صامتؓ کے ساتھ شریک ہوئی تھیں اور اسی بحری جنگ سے واپسی پر حضرت ام حرامؓ کی وفات ہوئی تھی اور یہ واقعہ حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت کا ہے۔ (عمدة القاری شرح صحیح البخاری جلد14صفحہ128، دار احیاء التراث العربی2003ء)(ارشاد الساری شرح صحیح البخاری لشہاب الدین القسطلانی جلد5صفحہ230، دارالفکر بیروت2010ء)
جُنَادہ بن ابو امیہ سے مروی ہے کہ جب ہم حضرت عُبادہؓ کے پاس گئے تو وہ بیمار تھے۔ ہم لوگوں نے کہا کہ اللہ آپ کو صحت دے۔ آپ کوئی حدیث بیان کریں جو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو تا کہ اللہ آپ کو نفع پہنچائے۔ آپؐ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بلایا اور ہم نے آپؐ کی بیعت کی۔ آپؐ نے جن باتوں کی بیعت ہم سے لی وہ باتیں یہ تھیں کہ ہم بیعت کرتے ہیں اس بات پر کہ ہم اپنی خوشی اور اپنے غم اور اپنی تنگ دستی اور خوش حالی اور اپنے اوپر ترجیح دیے جانے کی صورت میں سنیں گے اور اطاعت کریں گے اور حکومت کے لیے حاکموں سے جھگڑا نہیں کریں گے۔ حکومت کے لیے حاکموں سے جھگڑا نہیں کریں گے لیکن اعلانیہ کفر پر جس پر اللہ کی طرف سے دلیل ہو۔ (صحیح البخاری کتاب الفتن باب قول النبیﷺ سَتَرَوْنَ بَعْدِی اُمُوْرًا تُنْکِرُوْنَھَا حدیث 7055-7056)
سوائے اس کے کہ اعلانیہ کفر پر مجبور کیا جائے۔ واضح باتیں ہوں تو وہاں اَور بات ہے۔ اور وہ بھی اگر اختیارات ملتے ہیں تب۔ صُنَابِحِیّروایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عُبادہ بن صامتؓ کے پاس گیا جبکہ وہ موت کے قریب تھے۔ میں رو پڑا تو انہوں نے کہا ٹھہرو کیوں رو رہے ہو؟ خدا کی قسم! اگر مجھ سے گواہی طلب کی جائے تو میں تمہارے حق میں گواہی دوں گا اور اگر مجھے شفاعت کا حق دیا گیا تو میں تمہاری شفاعت کروں گا اور اگر مجھے طاقت ہوئی تو میں تجھے فائدہ پہنچاؤں گا۔ پھر انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! ہر حدیث جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی جس میں تمہارے لیے بھلائی تھی وہ مَیں نے تمہارے سامنے بیان کر دی ہے سوائے ایک حدیث کے جو میں آج تمہیں بتاؤں گا جبکہ میں موت کی گرفت میں ہوں۔ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپؐ فرماتے تھے کہ جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اللہ تعالیٰ نے اس پر آگ حرام کر دی یعنی وہ مسلمان ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب من لقی اللہ بالایمان وھو غیر شاک فیہ ……… حدیث 29)