حضرت عُتْبَہ بن رَبِیعہؓ
حضرت عتبہؓ کا تعلق کس قبیلے سے تھا اس کے بارے میں مؤرخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ حضرت عُتْبَہ بن رَبِیعہؓ قبیلہ بنو لَوْذَانْ کے حلیف تھے اور ان کا تعلق قبیلہ بَہْرَاء سے تھا۔ بعض کے نزدیک آپؓ قبیلہ اَوس کے حلیف تھے۔ بہرحال آپؓ کو غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں شامل ہونے کی سعادت ملی۔ علامہ ابن حجر عسقلانی بیان کرتے ہیں کہ جنگِ یرموک میں شامل ہونے والے امراء میں سے ایک کا نام عتبہ بن ربیعہ ملتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے نزدیک یہی وہ صحابی ہیں۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 469 ’’الانصار ومن معھم/ من بنی لوذان وحلفائہم‘‘ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2001ء) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 284 عُتْبَةْ بِنْ رَبِيْعَةْ بِنْ خَالِدْ داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء) (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 4 صفحہ 360عُتْبَةْ بِنْ رَبِيْعَةْ بِنْ خَالِدْ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء)
جنگِ یرموک کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ 12؍ہجری میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حج کی ادائیگی سے واپس مدینہ تشریف لائے تو آپؓ نے 13؍ہجری کے آغاز میں مسلمانوں کی فوجوں کو ملکِ شام کی طرف روانہ کیا۔ چنانچہ حضرت عمرو بن عاصؓ کو فلسطین کی طرف، یزید بن ابوسفیان، حضرت اَبُوعُبَیْدَہ بن الجَرَّاحؓ اور حضرت شُرَحْبِیْل بن حَسَنَہؓ کو حکم دیا کہ شام کے بالائی علاقے بلقاءپر سے ہوتے ہوئے تبوکیہ چلے جائیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے پہلے خالد بن سعیدؓ کو امیر مقرر کیا تاہم بعد میں ان کی جگہ یزید بن سفیان کو امیر بنا لیا۔ یہ لوگ سات ہزار مجاہدین کے ہمراہ ملکِ شام کی طرف روانہ ہوئے۔ اسلامی لشکر کے امراء اپنی فوجوں کو لے کر شام پہنچے۔ ہرقل خود چل کر حِمص آیا اور رومیوں کا بہت بڑا لشکر تیار کیا۔ اس نے مسلمان امراء کے مقابلے کے لیے الگ الگ امیر مقرر کیے۔ دشمن کی تیاری دیکھ کر مسلمانوں پر اور بعض ان میں سے اتنے ایمان والے بھی نہیں تھے، ہیبت طاری ہو گئی کیونکہ مسلمانوں کی تعداد اس وقت ستائیس ہزار تھی۔ اس صورت حال میں حضرت عمرو بن عاصؓ نے ہدایت دی کہ تم سب ایک جگہ جمع ہو جاؤ کیونکہ جمع ہونے کی صورت میں قلّت تعداد کے باوجود تمہیں مغلوب کرنا آسان نہیں ہو گا۔ تھوڑے ہو اس لشکر کے مقابلے پر لیکن اگر اکٹھے ہو جاؤ گے تو آسانی سے تمہارے پر فتح نہیں پائی جائے گی۔ اگر علیحدہ علیحدہ رہے ہر لیڈر کے اندر تو یاد رکھو تم میں سے ایک بھی ایسا باقی نہیں رہے گا جو کسی آگے والے کے کام آ سکے کیونکہ ہم میں سے ہر ایک پر بڑی بڑی فوجیں مسلط کر دی گئی ہیں۔ چنانچہ طے یہ ہوا کہ یرموک کے مقام پر سب مسلمان فوجیں اکٹھی ہو جائیں۔ یہی مشورہ حضرت ابوبکرؓ نے بھی مسلمانوں کو بھجوایا اور فرمایا کہ جمع ہو کر ایک لشکر بن جاؤ اور اپنی فوجوں کو مشرکین کی فوجوں سے بھڑا دو۔ تم اللہ کے مددگار ہو۔ اللہ اس کا مددگار ہے جو اللہ کا مددگار ہے اور وہ اس کو رسوا کرنے والا ہے جس نے اس کا انکار کیا۔ تم جیسے لوگ قلّت تعداد کی وجہ سے کبھی مغلوب نہیں ہو سکتے۔ حضرت ابوبکرؓ نے پیغام بھجوایا کہ بیشک تم تھوڑے ہو لیکن اگر ایمان ہے اور اکٹھے ہو کر لڑو گے تو کبھی مغلوب نہیں ہو سکتے کیونکہ تم خدا تعالیٰ کی خاطر لڑ رہے ہو۔ فرمایا کہ دس ہزار بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ اگر گناہوں کے طرف دار بن کر اٹھیں گے تو وہ دس ہزار سے ضرور مغلوب ہو جائیں گے۔ تعداد کی فکر نہ کرو کیونکہ اگر تم دس ہزار ہو یا اس سے بھی زیادہ ہو لیکن اگر وہ گناہ کرنے والے ہیں اور غلط کام کرنے والے ہیں تو پھر ضرور مغلوب ہوں گے لہٰذا تم گناہوں سے بچو۔ اپنے آپ کو پاک بھی کرو اور ایک ہو جاؤ۔ اکائی پیدا کرو اور یرموک میں مل کر کام کرنے کے لیے جمع ہو جاؤ۔ تم میں سے ہر ایک امیر اپنی فوج کے ساتھ نماز ادا کرے۔ صفر 13؍ ہجری سے لے کر ربیع الثانی تک مسلمانوں نے رومی لشکر کا محاصرہ کیا تاہم مسلمانوں کو اس دوران کامیابی نہیں ملی۔ اس دوران حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالدبن ولیدؓ کو بطور کمک کے عراق سے یرموک پہنچنے کا حکم دیا۔ حضرت خالدبن ولیدؓ اس وقت عراق کے گورنر تھے۔ حضرت خالدؓ کے پہنچنے سے قبل تمام امراء الگ الگ اپنی فوج کو لے کر لڑ رہے تھے تاہم حضرت خالدؓ نے وہاں پہنچ کر تمام مسلمانوں کو ایک امیر مقرر کرنے کی نصیحت کی جس پر سب نے حضرت خالدبن ولیدؓ کو امیر مقرر کر لیا۔ رومیوں کے لشکر کی تعداد دو لاکھ یا دو لاکھ چالیس ہزار کے قریب بیان کی جاتی ہے اور اس کے مقابل پر مسلمانوں کے لشکر کی تعداد سینتیس ہزار سے لے کر چھیالیس ہزار تک بیان کی جاتی ہے، تقریباً پانچواں حصہ تھی۔ رومی لشکر کی طاقت کا یہ عالَم تھا کہ اسّی ہزار کے پاؤں میں بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں اور چالیس ہزار آدمی زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے تاکہ جان دینے کے سوا بھاگنے کا ان کو خیال بھی نہ آئے۔ ایک لاکھ بیس ہزار آدمی ایسا تھا جن کو اس لیے باندھا گیا تھا کہ صرف انہوں نے لڑنا ہے اور مرنا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں اور چالیس ہزار آدمیوں نے خود کو اپنی پگڑیوں کے ساتھ باندھا ہوا تھا اور اسی ہزار سوار اور اسّی ہزار پیدل تھے۔ بے شمار پادری لشکر کو جوش دلانے کے لیے رومی لشکر کے ساتھ تھے۔ اسی جنگ کے دوران حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمادی الاولیٰ میں بیمار ہوئے اور جمادی الاخریٰ میں وفات پائی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
حضرت خالدؓ نے اس جنگ میں مسلمانوں کے لشکر کو بہت سارے دستوں میں تقسیم کر دیا جن کی تقسیم چھتیس سے لے کر چالیس تک بیان کی جاتی ہے لیکن ایک ہی امیر کے تحت لڑ رہے تھے۔ ان دستوں میں سے ایک دستے کے نگران حضرت عتبہ بن ربیعہؓ تھے۔ حضرت خالدؓ نے کہا کہ دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن ہماری اس ترتیب کی وجہ سے مسلمانوں کا لشکر دشمن کو بظاہر زیادہ نظر آئے گا۔ اسلامی لشکر کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ تقریباً ایک ہزار ایسے بزرگ اس لشکر میں تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دیکھا ہوا تھا۔ سو ایسے صحابہؓ تھے جو غزوۂ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک ہو چکے تھے۔ فریقَین میں بڑی خونریز جنگ کا آغاز ہوا۔ اسی دوران مدینہ سے ایک قاصد خبر لے کر آیا کوئی خبر لے کر آیا۔ سواروں نے اسے روکا تو اس نے بتایا کہ سب خیریت ہے مگر اصل واقعہ یہ تھا کہ وہ حضرت ابوبکرؓ کی وفات کی خبر لایا تھا۔ لوگوں نے قاصد کو حضرت خالدؓ کے پاس پہنچایا اور اس نے چپکے سے حضرت ابوبکرؓ کی وفات کی خبر دی اور فوج کے لوگوں سے جو کچھ کہا وہ بھی بتا دیا کہ میں نے ان کو کچھ نہیں بتایا۔ حضرت خالدبن ولیدؓ نے اس سے خط لے کر اپنے ترکش میں تیر رکھنے کی جگہ میں ڈال لیا، کیونکہ انہیں اندیشہ تھا کہ اگر یہ خبر لشکر کو معلوم ہو گئی تو پھر ابتری پھیلنے کا خدشہ ہے۔ مسلمان شاید اس طرح نہ لڑیں۔ بہرحال مسلمان ثابت قدم رہے اور شام تک خوب لڑائی ہوئی تاہم رومی لشکر نے پھر بھاگنا شروع کر دیا۔ اس جنگ میں ایک لاکھ سے زائد رومی فوجی ہلاک ہوئے اور کل تین ہزار مسلمان اس جنگ میں شہید ہوئے۔ ان شہداء میں حضرت عکرمہ بن ابوجہلؓ بھی تھے۔ قیصر کو جب اس ہزیمت کی خبر ملی تو وہ اس وقت حمص میں مقیم تھا وہ فوراً وہاں سے نکل کے بھاگ گیا۔
فتح یرموک کے بعد اسلامی فوجیں پورے ملکِ شام میں پھیل گئیں اور قِنَّسْرِین، اَنْطَاکِیہ، جُوْمَہ، سَرْمِیْن، تِیْزِیْن، قُوْرُسْ، تَلِّ عَزَازْ، دُلُوک، رَعْبَانْ وغیرہ مقامات پر نہایت آسانی سے فتح حاصل کی۔ (ماخوذ ازتاریخ الطبری جلد 4 صفحہ53تا 63ثم دخلت سنۃ ثلاث عشرۃ…… دارالفکر بیروت 2002ء) (خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم، از شاہ معین الدین احمدندوی، صفحہ 126، مکتبہ رحمانیہ لاہور) (الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 326 سنۃ 15 مطبوعہ دار الکتاب العربی بیروت 2012ء)