حضرت عُتْبَہ بن غَزْوَانؓ
اگلے صحابی جن کا ذکر ہے ان کا نام ہےحضرت عُتْبَہ بن غَزْوَانؓ۔ ان کی کنیت ابو عبداللہ اور ابو غَزْوَان تھی۔ حضرت عُتْبَہؓ قبیلہ بَنُو نَوفَل بن عَبْدِ مَنَاف کے حلیف تھے۔ حضرت عُتْبَہؓ کے والد کا نام غَزْوَان بن جابر تھا۔ حضرت عُتْبَہؓ کی کنیت ابوعبداللہ کے علاوہ ابوغَزْوَان بھی بیان کی جاتی ہے جیسا کہ بیان ہوا۔ حضرت عُتْبَہؓ نے اَرْدَہ بنتِ حَارِث سے شادی کی تھی۔ حضرت عُتْبَہؓ خود بیان کرتے ہیں کہ میں ان افراد میں سے ساتواں تھا جو سب سے پہلے اسلام قبول کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوئے تھے۔ ابن اثیر کے مطابق حضرت عُتْبَہؓ نے جب حبشہ کی طرف ہجرت کی تو اس وقت ان کی عمر چالیس سال تھی جبکہ ابن سعد کے مطابق ہجرت مدینہ کے وقت وہ چالیس سال کے تھے۔ بہرحال وہ حبشہ سے مکہ واپس آئے جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مکے میں ہی مقیم تھے۔ حضرت عُتْبَہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقیم رہے یہاں تک کہ انہوں نے حضرت مِقْدَادؓ کے ہمراہ مدینہ کی طرف ہجرت کی اور یہ دونوں ابتدائی اسلام قبول کرنے والوں میں سے تھے۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 3 صفحہ 558-559دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 72 من حلفاء بنی نوفل بن عبد مناف دار الکتب العلمیۃ بیروت، 1990ء) (امتاع الاسماع جزء 6 صفحہ 331 فصل فی ذکر موالی رسول اللہﷺ بیروت 1999ء)
حضرت عُتْبَہ بن غَزْوَانؓ اور حضرت مِقْدَاد بن اَسْوَدؓ دونوں کی مدینہ کی طرف ہجرت کا واقعہ اس طرح ہے کہ مکے سے وہ دونوں مشرکین قریش کے لشکر کے ساتھ نکلے تا کہ مسلمانوں کے ساتھ شامل ہو سکیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عُبَیْدہ بن حارِثؓ کی قیادت میں مسلمانوں کا ایک لشکر ثَنِيَّةُ الْمَرَهْ، یہ رَابِغْشہر کے شمال مشرق میں تقریباً 55 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور مدینہ منورہ سے اس کا فاصلہ تقریباً دو سو کلو میٹر ہے۔ یہ اس کی طرف روانہ ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ لشکر روانہ فرمایا۔ قریش کے لشکر کی قیادت عکرمہ بن ابوجہل کر رہا تھا۔ ان دونوں گروہوں کے درمیان لڑائی نہ ہوئی سوائے ایک تیر کے جو حضرت سَعد بن ابی وَقَّاصؓ نے چلایا تھا اور وہ خدا کی راہ میں پہلا تیر تھا جو چلایا گیا۔ اس روز عُتْبَہ بِن غَزْوَانؓ اور حضرت مِقْدَادؓ بھاگ کر مسلمانوں کے ساتھ جا ملے۔ (اٹلس سیرتِ نبوی، سریہ عبیدہ بن حارث صفحہ196 مکتبہ دارالسلام) (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد4 صفحہ1480-1481 مِقْدَاد بن اسود دار الجیل بیروت) یہ اس قافلے میں آئے تو کافروں کے ساتھ تھے لیکن جیسا کہ پہلے حضرت مِقْدَادؓ کے بارے میں ذکر ہو چکا ہے یہ ادھر آ گئے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیین میں تاریخی کتب سے لے کے جہاد بالسیف کا آغاز اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدافعانہ کارروائیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ جہاد بالسیف کی اجازت میں پہلی قرآنی آیت بارہ صفر2ہجری کو نازل ہوئی۔ یعنی دفاعی جنگ کے اعلان کا جو خدائی اشارہ ہجرت میں کیا گیا تھا اس کا باضابطہ اعلان صفر 2ہجری کو کیاگیا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قیام مدینہ کی ابتدائی کارروائیوں سے فارغ ہوچکے تھے اور اس طرح جہاد کا آغاز ہوگیا۔ تاریخ سے پتا لگتا ہے کہ کفار کے شرسے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداءً چار تدابیراختیار کی تھیں جوآپؐ کی اعلیٰ سیاسی قابلیت اور جنگی دُوربینی کی ایک دلیل ہے، بڑی کھلی دلیل ہے اور وہ تدابیر یہ تھیں:
پہلی یہ کہ آپؐ نے خود سفر کرکے آس پاس کے قبائل کے ساتھ باہمی امن وامان کے معاہدے کرنے شروع کیے تاکہ مدینے کے اردگرد کاعلاقہ خطرےسے محفوظ ہوجائے۔ اس امر میں آپؐ نے خصوصیت کے ساتھ ان قبائل کومدنظر رکھا جو قریش کے شامی رستے کے قرب وجوار میں آباد تھے کیونکہ جیسا کہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے یہی وہ قبائل تھے جن سے قریشِ مکہ مسلمانوں کے خلاف زیادہ مدد لے سکتے تھے اور جن کی دشمنی مسلمانوں کے واسطے سخت خطرات پیدا کرسکتی تھی۔
دوم: دوسرا قدم آپؐ نے یہ اٹھایا کہ آپؐ نے چھوٹی چھوٹی خبر رساں پارٹیاں مدینے کے مختلف جہات میں روانہ کرنی شروع فرمائیں تا کہ آپؐ کوقریش اور ان کے حلیفوں کی حرکات وسکنات کاعلم ہوتا رہے اور قریش کو بھی یہ خیال رہے کہ مسلمان بے خبر نہیں ہیں اور اس طرح مدینہ اچانک حملوں کے خطرات سے محفوظ ہوجائے۔
مدینہ پہنچنے کے بعد تیسرا قدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت یہ اٹھایا کہ ان پارٹیوں کے بھجوانے میں آپؐ کی ایک مصلحت یہ بھی تھی کہ اس کے ذریعہ سے مکہ اور اس کے گردونواح کے کمزور اور غریب مسلمانوں کو مدینہ کے مسلمانوں میں آملنے کاموقع مل جائے کیونکہ ابھی تک مکے کے علاقے میں کئی لوگ ایسے موجود تھے جودل سے مسلمان تھے مگرقریش کے مظالم کی وجہ سے اپنے اسلام کابرملا اظہار نہیں کرسکتے تھے اور نہ اپنی غربت اور کمزوری کی وجہ سے ان میں ہجرت کی طاقت تھی کیونکہ قریش ایسے لوگوں کوہجرت سے جبراً روکتے تھے۔ چنانچہ قرآن شریف میں خداتعالی فرماتا ہے
وَ مَا لَکُمۡ لَا تُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ الۡمُسۡتَضۡعَفِیۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الۡوِلۡدَانِ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا مِنۡ ہٰذِہِ الۡقَرۡیَۃِ الظَّالِمِ اَہۡلُہَا ۚ وَ اجۡعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۚۙ وَّ اجۡعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ نَصِیۡرًا۔ (النساء: 76)
یعنی اے مومنو کوئی وجہ نہیں کہ تم لڑائی نہ کرو اللہ کے دین کی حفاظت کے لیے اور ان مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر جو کمزوری کی حالت میں پڑے ہیں اور دعائیں کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب! نکال ہم کو اس شہر سے جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہم ناتوانوں کے لیے اپنی طرف سے کوئی دوست اور مددگار عطا فرما۔
پس ان پارٹیوں کے بھجوانے میں ایک مصلحت یہ بھی تھی کہ تا ایسے لوگوں کو ظالم قوم سے چھٹکاراپانے کاموقع مل جاوے۔ یعنی ایسے لوگ قریش کے قافلوں کے ساتھ ملے ملائے مدینہ کے قریب پہنچ جائیں اور پھر مسلمانوں کے دستے کی طرف بھاگ کرمسلمانوں میں آ ملیں۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ پہلا دستہ ہی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عُبَیدہ بن الحارِث کی سرداری میں روانہ فرمایا تھا اور جس کا عکرمہ بن ابوجہل کے ایک گروہ سے سامنا ہوگیا تھا اس میں مکے کے دو کمزور مسلمان جوقریش کے ساتھ ملے ملائے آگئے تھے قریش کو چھوڑ کر مسلمانوں میں آملے۔ چنانچہ روایت آتی ہے کہ اس مہم میں جب مسلمانوں کی پارٹی لشکرِ قریش کے سامنے آئی تودو شخص مِقداد بن عمرو اور عُتبہ بن غَزْوَان جو بنوزُہرہ اور بنو نوفَل کے حلیف تھے مشرکین میں سے بھاگ کر مسلمانوں میں آملے اور یہ دونوں شخص مسلمان تھے اور صرف کفار کی آڑ لے کر مسلمانوں میں آملنے کے لیے نکلے تھے۔ پس ان پارٹیوں کے بھجوانے میں ایک غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بھی تھی کہ تاایسے لوگوں کو ظالم قریش سے چھٹکارا پانے اور مسلمانوں میں آملنے کا موقع ملتا رہے۔
چوتھی جو تدبیر تھی وہ آپؐ نے یہ اختیار فرمائی کہ آپ نے قریش کے ان تجارتی قافلوں کی روک تھام شروع فرما دی جو مکے سے شام کی طرف آتے جاتے ہوئے مدینے کے پاس سے گزرتے تھے۔ کیونکہ پہلی بات تو یہ کہ یہ قافلے جہاں جہاں سے گزرتے تھے مسلمانوں کے خلاف عداوت کی آگ لگاتے جاتے تھے اور ظاہر ہے کہ مدینے کے گردونواح میں اسلام کی عداوت کا تخم بویا جانا مسلمانوں کے لیے نہایت خطرناک تھا۔
دوسرے یہ کہ یہ قافلے ہمیشہ مسلّح ہوتے تھے اور ہرشخص سمجھ سکتا ہے کہ اس قسم کے قافلوں کا مدینے سے اس قدر قریب ہو کر گزرنا ہرگز خطرے سے خالی نہیں تھا۔ اور تیسری بات یہ کہ قریش کا گزارہ زیادہ تر تجارت پر تھا اور ان حالات میں قریش کو زیرکرنے اور ان کو ان کی ظالمانہ کارروائیوں سے روکنے اور صلح پرمجبور کرنے کا یہ سب سے زیادہ یقینی اور سریع الاثر ذریعہ تھا کہ ان کی تجارت کا راستہ بندکردیا جاوے۔ چنانچہ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جن باتوں نے بالآخر قریش کو صلح کی طرف مائل ہونے پر مجبور کیا ان میں ان کے تجارتی قافلوں کی روک تھام کابہت بڑا دخل تھا۔ پس یہ ایک نہایت دانشمندانہ تدبیر تھی جواپنے وقت پر کامیابی کا پھل لائی۔
پھر یہ بھی کہ قریش کے ان قافلوں کا نفع بسااوقات اسلام کو مٹانے کی کوشش میں صرف ہوتا تھا بلکہ بعض قافلے توخصوصیت کے ساتھ اسی غرض سے بھیجے جاتے تھے کہ ان کا سارا نفع مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ اس صورت میں ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان قافلوں کی روک تھام خود اپنی ذات میں بھی ایک بالکل جائز مقصود تھی۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 323-324)
سَرِیَّہ عُبَیدَہ بِنْ حَارِثؓ جس میں حضرت عُتبہ قریش کے لشکر سے نکل کر مسلمان سے جا ملے تھے اس کا مزید ذکر اس طرح ہے۔ کچھ حصہ تو مَیں گذشتہ کسی خطبے میں بیان کر چکا ہوں۔ بہرحال مختصر یہاں بیان کر دیتا ہوں کہ ماہ ربیع الاول دو ہجری کے شروع میں آپﷺ نے اپنے ایک قریبی رشتہ دار عبیدہ بن الحارث مُطَّلَبِیِ کی امارت میں ساٹھ شترسوار مہاجرین کاایک دستہ روانہ فرمایا۔ اس مہم کی غرض بھی قریش مکہ کے حملوں کی پیش بندی تھی۔ مَیں سیرت خاتم النبیینؓ کا ہی یہ حوالہ دے رہا ہوں۔ چنانچہ جب عُبیدہ بن الحارثؓ اور ان کے ساتھی کچھ مسافت طے کرکے ثَنِیَّةُ الْمَرَہ کے پاس پہنچے تو اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ قریش کے دوسو مسلح نوجوان عکرمہ بن ابوجہل کی کمان میں ڈیرہ ڈالے پڑے ہیں۔ فریقین ایک دوسرے کے سامنے ہوئے اور ایک دوسرے کے مقابلہ میں کچھ تیراندازی بھی ہوئی لیکن پھر مشرکین کاگروہ یہ خوف کھا کر کہ مسلمانوں کے پیچھے کچھ کمک مخفی ہو گی ان کے مقابلے سے پیچھے ہٹ گیا اور مسلمانوں نے ان کا پیچھا نہیں کیا۔ البتہ مشرکین کے لشکر میں سے دو شخص مِقْدَاد بن عمرو اور عُتْبَہ بن غَزْوَان، عکرمہ بن ابوجہل کی کمان سے خود بخود بھاگ کر مسلمانوں کے ساتھ آملے اور لکھا ہے کہ وہ اسی غرض سے قریش کے ساتھ نکلے تھے کہ موقع پاکر مسلمانوں میں آملیں کیونکہ وہ دل سے مسلمان تھے مگر بوجہ اپنی کمزوری کے قریش سے ڈرتے ہوئے ہجرت نہیں کرسکتے تھے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے تجزیہ کیا ہے کہ اور ممکن ہے کہ اسی واقعہ نے قریش کوبددل کردیا ہو اور انہوں نے اسے بدفال سمجھ کر پیچھے ہٹ جانے کا فیصلہ کر لیا ہو۔ تاریخ میں یہ مذکور نہیں ہے کہ قریش کایہ لشکر جویقیناً کوئی تجارتی قافلہ نہیں تھااورجس کے متعلق ابن اسحاق نے جمع عظیم یعنی ایک بہت بڑا لشکر کے الفاظ استعمال کیے ہیں، کسی خاص ارادے سے اس طرف آیا تھا لیکن یہ یقینی ہے کہ ان کی نیت بخیر نہیں تھی اور یہ خدا کا فضل تھا کہ مسلمانوں کو چوکس پا کر اور اپنے آدمیوں میں سے بعض کو مسلمانوں کی طرف جاتا دیکھ کر ان کو ہمت نہیں ہوئی اور وہ واپس لوٹ گئے اور صحابہ کواس مہم کایہ عملی فائدہ ہوگیاکہ دو مسلمان روحیں قریش کے ظلم سے نجات پا گئیں۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 328-329)
حضرت عُتْبَہ بن غَزْوَانؓ اور ان کے آزاد کردہ غلام خَبَّابْ نے جب مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو قُبَا (یہ بھی ایک روایت آتی ہے طبقات الکبریٰ میں) کے مقام پر انہوں نے حضرت عبداللہ بن سَلَمہ عَجْلَانِی کے ہاں قیام کیا اور جب حضرت عُتْبَہؓ مدینہ پہنچے تو انہوں نے حضرت عَبَّاد بن بِشرؓ کے ہاں قیام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عُتْبَہ بن غَزْوَانؓ اور حضرت اَبودُجَانہؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 73 من حلفاء بنی نوفل بن عبد مناف دار الکتب العلمیۃ بیروت، 1990ء) (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 220 منازل المھاجرین بالمدینۃ مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)
گذشتہ خطبہ میں صحابہؓ کے ذکر میں حضرت عُتْبہ بن غزوان کا ذکر چل رہا تھا اور وہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ اس ضمن میں کچھ اَور باتیں بھی ہیں جو اَب بیان کروں گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سن 2 ہجری میں اپنے پھوپھی زاد بھائی حضرت عبداللہ بن جحش کی قیادت میں ایک سریہ نخلہ کی طرف بھیجا۔ حضرت عُتْبہ بھی اس سریہ میں شامل تھے۔ اس سریہ کا ذکر پہلے بھی کچھ حد تک ایک صحابی کے ذکر میں بیان ہو چکا ہے۔ بہرحال اب کچھ مختصر بھی بیان کر دیتا ہوں۔ سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یہ لکھا ہے کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ فرمایا کہ قریش کی حرکات وسکنات کا زیادہ قریب سے ہو کر علم حاصل کیا جاوے تاکہ اس کے متعلق ہرقسم کی ضروری اطلاع بروقت میسر ہوجائے اور مدینہ ہرقسم کے اچانک حملوں سے محفوظ رہے۔ چنانچہ اس غرض سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ مہاجرین کی ایک پارٹی تیار کی اور مصلحتاً اس پارٹی میں ایسے آدمیوں کو رکھا جوقریش کے مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے تاکہ قریش کے مخفی ارادوں کے متعلق خبر حاصل کرنے میں آسانی ہو اور اس پارٹی پرآپؐ نے اپنے پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن جحش کو امیر مقرر فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سریہ کو روانہ کرتے ہوئے اس سریہ کے امیر کو یہ نہیں بتایا کہ تمہیں کہاں اور کس غرض سے بھیجا جارہا ہے۔ چلتے ہوئے ان کے ہاتھ میں ایک بند، سربمہر خط دے دیا اور فرمایا کہ اس خط میں تمہارے لیے ہدایات درج ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مدینہ سے دو دن کا سفر طے کرلو توپھراس خط کوکھول کر اس کی ہدایات کے مطابق عمل درآمد کرنا۔
جب دودن کا سفرطے کرچکے تو عبداللہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو کھول کر دیکھا تو اس میں یہ الفاظ درج تھے کہ تم مکہ اور طائف کے درمیان وادیٔ نخلہ میں جاؤ اور وہاں جاکر قریش کے حالات کاعلم لو اور پھر ہمیں اطلاع لا کر دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خط کے نیچے یہ ہدایت بھی لکھی تھی کہ اس مشن کے معلوم ہونے کے بعد اگرتمہارا کوئی ساتھی اس پارٹی میں شامل رہنے سے متامل ہو اور واپس چلے آنا چاہے یعنی جب یہ خط دیکھ لو اور پڑھ لو اور اس گروہ کا یا یہ سریہ جو بھیجا گیا ہے اس کا کیا مقصد ہے تو ان میں جو شامل افراد ہیں اگر ان میں سے کسی کو کچھ تأمل ہو، اعتراض ہو، متامل ہوں اور اگر واپس آنا چاہے تو واپس آ سکتے ہیں کوئی پابندی نہیں ہے۔ بہرحال آپؐ نے فرمایا اسے واپس آنے کی اجازت دے دینا۔ عبداللہ نے آپؐ کی یہ ہدایت اپنے ساتھیوں کوسنا دی اور سب نے یک زبان ہوکر کہا کہ ہم بخوشی اس خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ اس کے بعد یہ جماعت نخلہ کی طرف روانہ ہوئی۔ راستہ میں سعد بن ابی وقاصؓ اور عُتْبہ بن غزوانؓ کا اونٹ کھو گیا اور وہ اس کی تلاش کرتے کرتے اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گئے اور باوجود بہت تلاش کے انہیں نہ مل سکے یعنی اپنے ساتھیوں کو نہ مل سکے اور اب یہ پارٹی جو گئی تھی یہ صرف چھ کس کی رہ گئی۔ اس میں صرف چھ افراد رہ گئے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ایک مستشرق ہے مارگولیس اس کے متعلق لکھا ہے کہ اس نے اس موقع پر یہ لکھا کہ سعد بن ابی وقاصؓ اور عُتْبہؓ نے جان بوجھ کراپنا اونٹ چھوڑدیا تھا اور اس بہانہ سے پیچھے رہ گئے تھے۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ ان جاں نثارانِ اسلام پر جن کی زندگی کاایک ایک واقعہ ان کی شجاعت اور فدائیت پر شاہد ہے اور جن میں سے ایک غزوہ بئرِ معونہ میں کفار کے ہاتھوں شہید بھی ہوا اور دوسرا کئی خطرناک معرکوں میں نمایاں حصہ لے کر بالآخر عراق کافاتح بنا، ان کے بارے میں اس قسم کا شبہ محض اپنے من گھڑت خیالات کی بنا پر کرنا مسٹر مارگولیس ہی کا حصہ ہے اور پھرلطف یہ ہے کہ مارگولیس اپنی کتاب میں یہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ میں نے یہ کتاب ہر قسم کے تعصّب سے پاک ہوکر لکھی ہے۔
بہرحال یہ تو ان لوگوں کا طریق ہے جہاں بھی اسلام اور مسلمانوں پر اعتراض کا موقع ملے یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اب اصل واقعہ جو سریہ کا تھا اس کی طرف آتا ہوں۔ یہ مسلمانوں کی چھوٹی سی جماعت تھی، جب نخلہ پہنچی اور اپنے کام یعنی انفارمیشن لینے، اطلاعات لینے میں مصروف ہوگئی کہ کفار مکہ کی موومنٹس (movements) کیا ہیں۔ ان کے ارادے کیا ہیں۔ مسلمانوں کے بارے میں کوئی حملے کا منصوبہ تو نہیں؟ تو یہ معلومات لینے میں، اپنے کام میں وہ مصروف ہو گئی اور ان میں سے بعض نے اخفائے راز کے خیال سے اپنے سر کے بال بھی منڈوا دیے تا کہ راہ گیر وغیرہ ان کو عمرے کے خیال سے آئے ہوئے لوگ سمجھ کر کسی قسم کا شبہ نہ کریں لیکن ایک دن اچانک وہاں قریش کاایک چھوٹا سا قافلہ بھی آ پہنچا جو طائف سے مکہ کی طرف جارہا تھا اور ہر دو جماعتیں ایک دوسرے کے سامنے ہو گئیں۔ مسلمانوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خفیہ خفیہ خبر رسانی کے لیے بھیجا تھا، کوئی باقاعدہ حملے کے لیے نہیں بھیجا تھا لیکن دوسری طرف قریش سے جنگ شروع ہوچکی تھی یعنی آمنے سامنے ہو گئےتھے اور دونوں حریف ایک دوسرے کے سامنے تھے اور پھرطبعاً یہ بھی اندیشہ تھا کہ اب جو قریش کے ان قافلہ والوں نے مسلمانوں کو دیکھ لیا ہے تو اس خبر رسانی جس کے لیے بھیجے گئے تھے اس کاراز مخفی نہیں رہ سکتا۔ ایک دقت یہ بھی تھی کہ بعض مسلمانوں کو خیال تھاکہ شاید یہ دن رجب یعنی شَھرِ حرام کا آخری ہے جس میں عرب کے قدیم دستور کے مطابق لڑائی نہیں ہونی چاہیے اور بعض سمجھتے تھے کہ رجب گزر چکا ہے اور شعبان شروع ہے اور بعض روایات میں ہے کہ یہ سریہ جمادی الآخر میں بھیجا گیا تھا اور شک یہ تھا کہ یہ دن جمادی کا دن ہے یارجب کا لیکن دوسری طرف نخلہ کی وادی عین حرم کے علاقہ کی حد پر واقع تھی اور یہ ظاہر تھا کہ اگر آج ہی کوئی فیصلہ نہ ہوا تو کل کویہ قافلہ حرم کے علاقہ میں داخل ہو جائے گا جس کی حرمت یقینی ہو گی۔ غرض ان سب باتوں کو سوچ کر مسلمانوں نے آخر یہی فیصلہ کیا کہ قافلہ پرحملہ کرکے یاتو قافلہ والوں کو قید کر لیا جائے اور یا مار دیا جائے۔ بہرحال انہوں نے حملہ کردیا جس کے نتیجہ میں کفار کا ایک آدمی مارا گیا اور دو آدمی قید ہوگئے۔ چوتھاآدمی بھاگ کرنکل گیا اور مسلمان اسے پکڑ نہ سکے اور اس طرح ان کی تجویز کامیاب ہوتے ہوتے رہ گئی۔ اس کے بعد مسلمانوں نے قافلہ کے سامان پر قبضہ کر لیا اور چونکہ قریش کاایک آدمی بچ کر نکل گیا تھا اور یقین تھا کہ اس لڑائی کی خبر جلدی مکہ پہنچ جائے گی تو عبداللہ بن جحش اور ان کے ساتھی سامانِ غنیمت لے کر جلد جلد مدینہ کی طرف واپس لوٹ آئے۔
اس موقع پر مارگولیس صاحب لکھتے ہیں کہ دراصل محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ دستہ دیدہ دانستہ اس نیت سے شَہر حرام میں بھیجاتھا کہ چونکہ اس مہینہ میں قریش طبعاً غافل ہوں گے، مسلمانوں کوان کے قافلہ کے لوٹنے کا آسان اور یقینی موقع مل جائے گا لیکن ہرعقل مند انسان سمجھ سکتا ہے کہ ایسی مختصر پارٹی کو اتنے دور دراز علاقہ میں کسی قافلہ کی غارت گری کے لیے نہیں بھیجا جا سکتا خصوصاً جبکہ دشمن کا ہیڈ کوارٹر اتنا قریب ہو اور پھر یہ بات تاریخ سے قطعی طورپر ثابت ہے کہ یہ پارٹی محض خبر رسانی کی غرض سے بھیجی گئی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ علم ہوا کہ صحابہؓ نے قافلہ پر حملہ کیا توآپؐ سخت ناراض ہوئے اور جب یہ جماعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپؐ کو سارے حالات سنائے اور ماجرے کی اطلاع دی تو آپؐ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ میں نے تمہیں شَہر حرام میں لڑنے کی اجازت نہیں دی ہوئی اور آپؐ نے مالِ غنیمت بھی لینے سے انکار کردیا۔ اس پر عبداللہ اور ان کے ساتھی سخت نادم اور پشیمان ہوئے۔ اور انہوں نے خیال کیا کہ بس اب ہم خدا اور اس کے رسولؐ کی ناراضگی کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ صحابہؓ نے بھی ان کو سخت ملامت کی کہ تم نے کیا کیا۔
دوسری طرف قریش نے بھی شور مچایا کہ مسلمانوں نے شَہرِ حرام کی حرمت کو توڑ دیا ہے اور چونکہ جو شخص ماراگیا تھا یعنی عمرو بن اَلْحَضْرَمِی وہ ایک رئیس آدمی تھا اور پھر وہ عُتْبَہ بن رَبِیعہ رئیس مکہ کاحلیف بھی تھا اس لیے بھی اس واقعہ نے قریش کی آتش غضب کوبہت بھڑکا دیا اور انہوں نے آگے سے بھی زیادہ جوش وخروش کے ساتھ مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاریاں شروع کردیں۔ الغرض اس واقعہ پر مسلمانوں اور کفارہردو میں بہت چہ میگوئیاں ہوئیں اور بالآخر قرآن کریم کی یہ آیت وحی ہوئی، نازل ہوئی۔ اور اس کی وجہ سے پھر مسلمانوں کی تسلی اور تشفی بھی ہوئی کہ
یَسْأَلُوْنَکَ عَنِ الشَّہْرِالْحَرَام قِتَالٍ فِیْہِ قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ وَّصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَکُفْرٌ بِہٖ وَالْمَسْجِدِالْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَہْلِہٖ مِنْہُ أَ کْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِ وَالْفِتْنَۃُ أَ کْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ حَتّٰى یَرُدُّوْکُمْ عَنْ دِیْنِکُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوْا (البقرة: 218)
یعنی لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ شہرِحرام میں لڑنا کیسا ہے؟ تُو ان کو جواب دے کہ بے شک شَہرِ حرام میں لڑنا بہت بری بات ہے لیکن شَہرِحرام میں خدا کے دین سے لوگوں کو جبراً روکنا بلکہ شَہرِحرام اور مسجدِحرام دونوں کا کفر کرنا یعنی ان کی حرمت کو توڑنا اور پھرحرم کے علاقہ سے اس کے رہنے والوں کو بزور نکالنا جیسا کہ اے مشرکو ! تم لوگ کر رہے ہو یہ سب باتیں خدا کے نزدیک شَہرِحرام میں لڑنے کی نسبت بھی زیادہ بری ہیں اور یقیناً شَہرِحرام میں ملک کے اندر فتنہ پیدا کرنا اس قتل سے بدتر ہے جو فتنہ کوروکنے کے لیے کیا جاوے اور اے مسلمانو! کفار کا تو یہ حال ہے کہ وہ تمہاری عداوت میں اتنے اندھے ہورہے ہیں کہ کسی وقت اور کسی جگہ بھی وہ تمہارے ساتھ لڑنے سے باز نہیں آئیں گے اور وہ اپنی یہ لڑائی جاری رکھیں گے حتی ٰکہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں بشرطیکہ وہ اس کی طاقت پائیں۔ چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ اسلام کے خلاف رؤسائے قریش اپنے خونی پراپیگنڈے کو اَشْہُرِحُرُم میں بھی برابر جاری رکھتے تھے بلکہ اَشْہُرِحُرُم کے اجتماعوں اور سفروں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ ان مہینوں میں اپنی مفسدانہ کارروائیوں میں اَوربھی زیادہ تیز ہوجاتے تھے اور پھر کمال بے حیائی سے اپنے دل کو جھوٹی تسلی دینے کے لیے وہ عزت کے مہینوں کواپنی جگہ سے اِدھر اُدھر منتقل بھی کر دیا کرتے تھے جسے وہ نَسِیْء کے نام سے پکارتے تھے اور پھر آگے چل کر تو انہوں نے غضب ہی کر دیا کہ صلح حدیبیہ کے زمانہ میں باوجود پختہ عہدوپیمان کے کفار ِمکہ اور ان کے ساتھیوں نے حرم کے علاقہ میں مسلمانوں کے ایک حلیف قبیلہ کے خلاف تلوار چلائی اور پھر جب مسلمان اس قبیلہ کی حمایت میں نکلے تو ان کے خلاف بھی عین حرم میں تلوار استعمال کی۔ پس اللہ تعالیٰ کے اس جواب سے یعنی جو قرآن کریم کی آیت ہے اس سے مسلمانوں کی تو تسلی ہونی ہی تھی قریش بھی کچھ ٹھنڈے پڑ گئے اور اس دوران میں ان کے آدمی بھی اپنے دو قیدیوں کوچھڑانے کے لیے مدینہ پہنچ گئے لیکن چونکہ ابھی تک سعد بن ابی وقاصؓ اور عُتْبہ بن غزوانؓ واپس نہیں آئے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے متعلق خدشہ تھا کہ اگروہ قریش کے ہاتھ پڑ گئے تو قریش انہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی واپسی تک قیدیوں کو چھوڑنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ میرے آدمی بخیریت مدینہ پہنچ جائیں گے تو پھر میں تمہارے آدمیوں کو چھوڑ دوں گا۔ چنانچہ جب وہ دونوں واپس پہنچ گئے تو آپؐ نے فدیہ لے کر دونوں قیدیوں کو چھوڑ دیا لیکن ان قیدیوں میں سے ایک شخص پر مدینہ کے قیام کے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ فاضلہ اور اسلامی تعلیم کی صداقت کااس قدر گہرا اثر ہوچکا تھا کہ اس نے آزاد ہوکر بھی واپس جانے سے انکار کر دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر مسلمان ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہوگیا۔ اسلام لے آیا اور بالآخر بئر معونہ میں شہید ہوا۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 330تا334)
پس مارگولیس جو معترض ہے اس کے اعتراض کا جواب دینے کے لیے ان کا اسلام لانا اور پھر اسلام کی خاطر قربانی دینا یہی کافی ہے لیکن بہرحال ان چیزوں کو یہ لوگ نظر انداز کر جاتے ہیں۔ حضرت عُتْبہ بن غزوانؓ کو غزوۂ بدر اور بعد کے تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 3 صفحہ 559عُتْبہ بن غزوان، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
حضرت عُتْبہ بن غزوانؓ کے دو آزاد کردہ غلاموں خَبَّابْ اور سعد کو بھی ان کے ساتھ جنگِ بدر میں شریک ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد2صفحہ439 خباب مولی عُتْبہ بن غزوان دار الجیل بیروت1992ء) (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد2صفحہ612 سعدمولی عُتْبہ بن غزوان دار الجیل بیروت1992ء)
حضرت عُتْبہ بن غزوانؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماہر تیر اندازوں میں سے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 72 من حلفاء بنی نوفل بن عبد مناف دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
حضرت عمرؓ نے حضرت عُتْبہؓ کو ارضِ بصرہ کی سرزمین کی طرف روانہ فرمایا تاکہ وہ اُبُلَّہْ مقام کے لوگوں سے لڑیں جو فارس سے ہیں۔ روانہ کرتے ہوئے حضرت عمرؓ نے انہیں فرمایا کہ تم اور تمہارے ساتھی چلتے جاؤ یہاں تک کہ سلطنتِ عرب کی انتہا اور مملکتِ عجم کی ابتدا تک پہنچ جاؤ۔ پس تم اللہ کی برکت اور بھلائی کے ساتھ چلو۔ جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہنا اور جان لو کہ تم سخت دشمنوں کے پاس جا رہے ہو۔ پھر آپؓ نے فرمایا کہ مَیں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا اور میں نے حضرت علَاَ ءبن حَضْرَمِی کو لکھ دیا ہے کہ عَرْفَجَهْ بِنْ هَرْثَمَهْ کے ذریعہ تمہاری مدد کرے کیونکہ وہ دشمن سے لڑنے میں بڑا تجربہ کار اور فنِ حرب سے خوب واقف ہے۔ پھر حضرت عمرؓ نے فرمایا پس تم اس سے مشورہ لینا اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا۔ جو شخص تمہاری بات مان لے اس کا اسلام قبول کرنا اور جو شخص نہ مانے اس پر جزیہ مقرر کرنا جس کو وہ خود اپنے ہاتھ سے عاجزی کے ساتھ ادا کرے اور جو اس کو بھی نہ مانے تو تلوار سے کام لینا یعنی اپنے مذہب میں رہ کر وہاں رہنا۔ چاہے پھر وہ جزیہ دینے کو بھی نہ تیار ہو، مسلمان بھی نہ ہو اور لڑائی پر بھی آمادہ ہو، تو پھر آپؓ نے فرمایا کہ پھر تلوار سے کام لینا۔ پھر تمہارا بھی کام ہے کہ تلوار سے کام لو۔ عربوں میں سے جن کے پاس سے گزرو انہیں جہاد کی ترغیب دینا اور دشمن کے ساتھ ہوشیاری سے برتاؤ کرنا اور اللہ سے ڈرتے رہنا جو تمہارا ربّ ہے۔
حضرت عمرؓ نے حضرت عُتْبہؓ کو بصرہ کی طرف آٹھ سو آدمیوں کے ساتھ روانہ فرمایا تھا۔ بعد میں مزید مدد بھی پہنچائی۔ حضرت عُتْبہؓ نے اُبُلَّہْ مقام کو فتح کیا اور اس جگہ بصرہ شہر کی حد بندی کی۔ آپؓ پہلے شخص ہیں جنہوں نے بصرہ کو شہر بنایا اور اسے آباد کیا۔ حضرت عمر بن خطابؓ نے جب حضرت عُتْبہ بن غزوانؓ کو بصرہ پر والی مقرر فرمایا تو خَرِیْبَہ مقام پر وہ ٹھہرے تھے۔ خَرِیْبَہ فارس کا ایک پرانا شہر تھا جسے فارسی میں وَھْشَتَابَاذْ اُرْدْشِیْرکہتے تھے۔ عربوں نے اسے خَرِیْبَہ کا نام دیا۔ اس کے پاس جنگِ جمل بھی ہوئی تھی۔ حضرت عُتْبہؓ نے حضرت عمرؓ کے نام خط میں لکھا کہ مسلمانوں کے لیے ایک ایسی جگہ ناگزیر ہے جہاں وہ سردیوں کا موسم گزار سکیں اور جنگوں سے واپسی پر ٹھہر سکیں۔ حضرت عمرؓ نے انہیں لکھا کہ انہیں ایک ایسی جگہ جمع کرو جہاں پانی اور چراگاہ قریب ہو۔ اگر یہ منصوبہ ہے تو جگہ ایسی ہونی چاہیے جہاں پانی بھی موجود ہو اور جانوروں کے لیے چراگاہ بھی ہو۔ اس پر حضرت عُتْبہ نے انہیں بصرہ میں جا ٹھہرایا۔ مسلمانوں نے وہاں بانس سے مکان تعمیر کیے۔ حضرت عُتْبہؓ نے بانس سے مسجد تعمیر کروائی۔ یہ 14ہجری کا واقعہ ہے۔ حضرت عُتْبہ نے مسجد کے قریب ہی کھلی جگہ پر امیر کا گھر بنوایا۔ لوگ جب جنگ کے لیے نکلتے تو ان بانس سے بنے گھروں کو اکھاڑتے اور باندھ کر رکھ جاتے اور جب واپس آتے تواسی طرح دوبارہ گھر بناتے۔ بعد میں لوگوں نے وہاں پکے مکان بنانے شروع کیے۔ حضرت عُتْبہؓ نے مِحْجَنْ بِنْ اَدْرَعْ کو حکم دیا جس نے بصرہ کی جامع مسجد کی بنیاد ڈالی اور اسے بانسوں سے تیار کیا۔ اس کے بعد حضرت عُتْبہؓ حج کرنے کے لیے نکلے اور مُجَاشِع بن مسعود کو جانشین بنایا، اپنا قائم مقام بنایا اور اسے فرات کی طرف کوچ کا حکم دیا اور حضرت مُغیرة بن شُعبہؓ کو حکم دیا کہ وہ نماز کی امامت کیا کریں۔ جب حضرت عُتْبہؓ حضرت عمرؓ کے پاس پہنچے تو انہوں نے بصرہ کی ولایت سے استعفیٰ دینا چاہا۔ کہہ دیا کہ اب میرے لیے بڑا مشکل ہے کسی اَور کو وہاں کا امیر مقرر کر دیں۔ تاہم حضرت عمرؓ نے ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا۔ روایت میں آتا ہے کہ اس پر انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ! مجھے اب اس شہر کی طرف دوبارہ نہ لوٹانا۔ چنانچہ وہ اپنی سواری سے گر پڑے اور 17؍ ہجری میں ان کا انتقال ہو گیا۔ یہ اُس وقت ہوا جبکہ حضرت عُتْبہؓ مکہ سے بصرہ کی طرف جا رہے تھے اور اس مقام پر پہنچ گئے تھے جس کو لوگ مَعْدِن بَنِی سُلیم کہتے ہیں۔ ایک دوسرے قول کے مطابق 17ہجری میں رَبَذَہ مقام پر ان کا انتقال ہوا تھا اور ایک تیسرا قول بھی ہے۔ ان کی وفات کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں کہ 17؍ ہجری میں ستاون سال کی عمر پا کر بصرہ میں حضرت عُتْبہؓ نے وفات پائی تھی۔ انہیں پیٹ کی بیماری تھی اور بعض نے ان کی وفات کا سال 15ہجری بھی بیان کیا ہے۔ حضرت عُتْبہؓ کی وفات کے بعد ان کا غلام سُوَید حضرت عُتْبہؓ کا سامان اور ترکہ حضرت عمرؓ کے پاس لایا۔ حضرت عُتْبہؓ نے ستاون برس کی عمر پائی۔ وہ دراز قد اور خوب صورت تھے۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 3 صفحہ 559-560عُتْبہ بن غزوان، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء) (کتاب جمل من انساب الاشراف جزء13نسب بنی مازن بن منصور صفحہ 298 وحاشیہ، دار الفکر بیروت1996ء) (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 73 عُتْبہ بن غزوان دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
خالد بن عُمیر عَدَوِی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عُتْبہ بن غَزوانؓ نے ہمیں خطاب کیا۔ انہوں نے اللہ کی حمد و ثنا کی۔ پھر کہا اَمَّا بَعْدُ دنیا نے اپنے ختم ہونے کا اعلان کر دیا ہے اور اس نے تیزی سے پیٹھ پھیر لی ہے یعنی دنیا اب قیامت کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس میں کچھ بھی باقی نہ رہا سوائے اس کے کہ جتنا برتن میں کچھ مشروب بچ رہتا ہے جسے اس کا پینے والا چھوڑ دیتا ہے۔ تم یہاں سے ایک لازوال گھر کی طرف منتقل ہونے والے ہو یعنی یہ زندگی عارضی ہے۔ پس جو تمہارے پاس ہے اس سے بہتر میں منتقل ہو جاؤ کیونکہ ہمارے پاس ذکر کیا گیا ہے کہ ایک پتھر جہنم کے کنارے سے پھینکا جائے گا پھر وہ ستر برس تک اس میں گرتا جائے گا اور اس کی تہ تک نہ پہنچ پائے گا اور اللہ کی قَسم! اس دوزخ کو ضرور بھرا جائے گا۔ یعنی کہ گناہ گاروں کو ایسی جہنم میں پھینکا جائے گا۔ اس لیے موقع ہے اس زندگی سے فائدہ اٹھاؤ اور نیکیوں کی طرف توجہ دو۔ یہ مقصد تھا آپؓ کا۔ پھر فرمایا کیا تم تعجب کرتے ہو؟ اور تمہیں بتایا گیا کہ جنت کے دو کواڑوں میں سے ایک کواڑ سے دوسرے کواڑ تک چالیس برس کا فاصلہ ہے اور ضرور اس پر ایک ایسا دن آئے گا کہ وہ لوگوں کی کثرت سے بھر جائے گی۔ میں نے اپنے تئیں دیکھا ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات میں سے ایک تھا اور کبھی درختوں کے پتوں کے سوا ہمارا کوئی کھانا نہیں تھا یعنی وہ زمانہ ہم پر آیا تھا کہ جب ہماری بہت بری حالت تھی۔ درختوں کے پتے ہم کھایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ہماری باچھیں زخمی ہو گئیں۔ پھر آپؓ کہتے ہیں اپنا واقعہ سنا رہے ہیں کہ مجھے ایک چادر ملی اور اسے پھاڑ کر اپنے اور سعد بن مالک کے لیے دو ٹکڑے کر لیے۔ یہ حالت تھی ہماری کہ پوری طرح ڈھانکنے کے لیے چادر بھی نہیں تھی۔ آدھے کا میں نے اپنے جسم کو لپیٹنے کے لیےازار بنا لیا اور آدھے کا سعدنے۔ آپؓ نے فرمایا لیکن آج ہم میں سے کوئی صبح کرتا ہے تو کسی شہر کا امیر ہوتا ہے اور میں اس بات سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اپنے نفس میں بڑا سمجھوں اور اللہ کے نزدیک بہت چھوٹا ہوں۔ اس لیے آپؓ نے فرمایا کہ میری تو عاجزی کی یہ حالت ہے کہ میں اپنے آپ کو بہت چھوٹا سمجھتا ہوں۔ حالات اب تبدیل ہوگئے ہیں۔ کشائش پیدا ہو گئی ہے اور اب تم لوگوں کو بہت زیادہ فکر کرنی چاہیے۔
پھر فرمایا کوئی نبوت ماضی میں ایسی نہیں ہوئی جس کا اثر زائل نہ ہوا ہو حتیٰ کہ اس کا انجام بادشاہت نہ ہو اور تم حقیقتِ حال جان لو گے اور حکام کا تمہیں ہمارے بعد تجربہ ہو جائے گا۔ (صحیح مسلم کتاب الزھد و الرقائق باب الدنیا سجن للمؤمن وجنۃ للکافر (2967))
آپؓ نے فرمایا کہ مسلمانوں میں بھی ایسے حالات آ جائیں گے کہ دنیاداری پیدا ہوجائے گی۔ اس وقت تم دیکھ لینا کہ جو مَیں کہہ رہا ہوں وہ صحیح ہے لیکن تم لوگ ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ رکھنا، دین کی طرف توجہ رکھنا، روحانیت کی طرف توجہ رکھنا اور اسی سے جنت میں جانے کے سامان پیدا ہو سکتے ہیں۔