حضرت عُتْبہ بن مسعودؓ
حضرت عُتْبہ بن مسعود ھُذَلِّیؓ کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔ آپؓ قبیلہ بنو ھُذیل سے تھے۔ (اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ المجلد الثالث صفحہ563 ’’عُتْبہ بن مسعود‘‘ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء)
حضرت عُتْبہ بن مسعودؓ قبیلہ بنو زُھْرَہ کے حلیف تھے۔ آپؓ کے والد کا نام مسعود بن غافل تھا اور آپؓ کی والدہ کا نام اُمِّ عَبْد بنت عَبدِ وُدّ تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ آپؓ کے حقیقی بھائی تھے۔ آپؓ مکے میں ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے تھے۔ حبشہ کی طرف دوسری مرتبہ ہجرت کرنے و الوں میں آپؓ شامل تھے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 4 صفحہ381‘‘ عُتْبہ بن مسعود ’’وَمِنْ حُلَفَاءِ بنی زھرة بن کلاب۔ داراحیا ء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)
حضرت عُتْبہ بن مسعودؓ اصحابِ صُفّہ میں سے تھے۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد 5 صفحہ 1615 کتاب الھجرة، حدیث نمبر4294مکتبہ نزار مصطفٰی الباز مکۃ مکرمۃ الریاض2000ء)
صفہ کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے مختلف تواریخ سے تفصیل لے کر لکھا ہے۔ لکھتے ہیں کہ مسجد کے ایک گوشے میں ایک چھت دارچبوترہ بنایاگیاتھاجسے صُفّہ کہتے تھے۔ یہ ان غریب مہاجرین کے لیے تھا جو بے گھر بار تھے۔ ان کا کوئی گھر نہیں تھا۔ یہ لوگ یہیں رہتے تھے اور‘اصحاب الصفہ’کہلاتے تھے۔ ان کا کام گویا دن رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہنا، عبادت کرنا اور قرآن شریف کی تلاوت کرنا تھا۔ ان لوگوں کا کوئی مستقل ذریعۂ معاش نہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کی خبرگیری فرماتے تھے اور جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی ھدیہ وغیرہ آتا تھا یا گھر میں کچھ ہوتا تھا توان کا حصہ ضرور نکالتے تھے۔ بلکہ بعض اوقات آپؐ خود فاقہ کرتے تھے اور جو کچھ گھر میں ہوتا تھاوہ اصحاب الصفہ کو بھجوادیتے تھے۔ انصار بھی ان کی مہمانی میں حتی المقدور مصروف رہتے تھے اور ان کے لیے کھجوروں کے خوشے لالا کر مسجد میں لٹکا دیا کرتے تھے لیکن اس کے باوجود ان کی حالت تنگ رہتی تھی اور بسا اوقات فاقے تک نوبت پہنچ جاتی تھی اور یہ حالت کئی سال تک جاری رہی حتٰی کہ کچھ تومدینے کی آبادی کی وسعت کے نتیجے میں ان لوگوں کے لیے کام نکل آیا اور کچھ نہ کچھ مزدوری مل جاتی تھی اور کچھ قومی بیت المال سے ان کی امداد کی صورت پیدا ہوگئی۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ270)
بہرحال ان لوگوں کے بارے میں دوسری جگہ مزید تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ یہ لوگ دن کو بارگاہِ نبوت میں حاضر رہتے اور حدیثیں سنتے۔ رات کو ایک چبوترے پر پڑے رہتے۔ عربی زبان میں چبوترے کو صُفہ کہتے ہیں اور اسی بنا پر ان بزرگوں کو اصحابِ صفہ کہا جاتا ہے۔ ان میں سے کسی کے پاس چادر اور تہ بند دونوں چیزیں کبھی ایک ساتھ جمع نہ ہو سکیں۔ چادر کو گلے سے اس طرح باندھ لیتے تھے کہ رانوں تک لٹک آتی تھی، کپڑے پورے نہیں ہوتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہی بزرگوں میں سے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے اہل ِصفہ میں سے ستر اشخاص کو دیکھا کہ ان کے کپڑے ان کی رانوں تک بھی نہیں پہنچتے تھے، جسم پہ کپڑا لپیٹتے تھے تو وہ گھٹنوں سے اوپر مشکل سے پہنچتا تھا۔ پھر کہتے ہیں کہ معاش کا طریقہ یہ تھا کہ ان میں ایک ٹولی دن کو جنگل سے لکڑیاں چن کر لاتی اور بیچ کر اپنے بھائیوں کے لیے کچھ کھانا مہیا کرتی۔ اکثر انصار کھجور کی شاخیں توڑ کر لاتے اور مسجد کی چھت میں لٹکا دیتے۔ باہر کے لوگ آتے اور ان کو دیکھتے تو سمجھتے کہ یہ دیوانے ہیں۔ بے وقوف لوگ ہیں۔ بلاوجہ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ یا یہ بھی سمجھتے ہوں گے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے دیوانے ہیں کہ آپؐ کا دَر چھوڑنا نہیں چاہتے۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہیں سے صدقہ آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس بھیج دیتے اور جب دعوت کا کھانا آتا تو ان کو بلا لیتے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ راتوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مہاجرین و انصار پر تقسیم کر دیتے یعنی اپنے مقدور کے موافق ہر شخص ایک ایک دو دو اپنے ساتھ لے جائے اور رات کو ان کو کھانا کھلائے۔ بعض دفعہ ایسے موقعے بھی ہوتے تھے کہ کسی کو بعض مہاجرین کے سپرد کر دیا۔ کسی کو انصار کے سپرد کر دیا کہ رات کا کھانا ان کو دینا ہے۔ حضرت سعد بن عبادہؓ ایک صحابی تھے جو نہایت فیاض اور دولت مند تھے وہ کبھی کبھی اسّی اسّی مہمانوں کو اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ اسّی مہمانوں تک ساتھ لے جاتے۔ رات کو ان کو کھانا کھلاتے تھے۔ ان کی کشائش تھی۔ مختلف روایتوں کے مطابق یا بعض روایتوں کے مطابق اہل صفہ کی تعداد مختلف وقتوں میں مختلف رہی تھی۔ کم سے کم بارہ افراد اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ یہاں تک کہ تین سو افراد ایک وقت مقام صفہ میں مقیم رہے تھے بلکہ ایک روایت میں ان کی کل تعداد چھ سو صحابہ کرام بتائی گئی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ساتھ نہایت اُنس تھا۔ ان کے ساتھ مسجد میں بیٹھتے۔ ان کے ساتھ کھانا کھاتے اور لوگوں کو ان کی تعظیم و تکریم پر آمادہ کرتے۔ یعنی یہ نہیں کہ یہ بیٹھے ہوئے ہیں، فارغ ہیں تو ان کی عزت نہ کی جائے، ان کا احترام نہ کیا جائے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ یہ لوگ ہیں جو میرے لیے، میری باتیں سننے کے لیے بیٹھتے ہیں اس لیے ہر ایک کو ان کی صحیح طرح تعظیم بھی کرنی چاہیے، عزت بھی کرنی چاہیے۔ ایک بار اہلِ صفہ کی ایک جماعت نے بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں شکایت کی کہ کھجوروں نے ہمارے پیٹ کو جلا دیا ہے۔ صرف کھجوریں ہی کھانے کو ملتی ہیں اَور تو کچھ ملتا نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شکایت سنی تو ان کی دل دہی کے لیے ایک تقریر کی جس میں فرمایا: یہ کیا ہے کہ تم لوگ کہتے ہو کہ ہمارے پیٹوں کو کھجوروں نے جلا دیا ہے۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ کھجور ہی اہلِ مدینہ کی غذا ہے لیکن لوگ اسی کے ذریعہ سے ہماری مدد بھی کرتے ہیں اور ہم بھی انہی کے ذریعہ سے تمہاری مدد کرتے ہیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ خدا کی قسم! ایک یا دو مہینے سے اللہ کے رسول کے گھر میں دھواں نہیں اٹھا۔ یعنی میں نے بھی اور میرے گھر والوں نے بھی صرف پانی اور کھجور پر بسراوقات کی ہے۔ بہرحال یہ اصحابِ صفہ عجیب فدائی لوگ تھے۔ کھجور کے کھانے کا ذکر تو کیا، شکوہ تو کیا کہ اس نے پیٹ کو جلا دیا ہے لیکن جگہ نہیں چھوڑی۔ وہ کامل وفا کے ساتھ وہیں بیٹھے رہتے تھے اور اسی چیز، فاقوں پر یا پھر کھجوروں پر یا جو بھی مل جاتا تھا اس پر گزارا کرتے تھے۔ پھر لکھا ہے کہ ان بزرگوں کا مشغلہ یہ تھا کہ راتوں کو عموماً عبادت کرتے تھے اور قرآن مجید پڑھتے رہتے۔ ان کے لیے ایک معلم مقرر تھا جس کے پاس رات کو جا کر یہ پڑھتے تھے۔ جن کو پڑھنا نہیں آتا تھا یا قرآنِ کریم صحیح طرح پڑھ نہیں سکتے تھے یا یاد کرنا چاہتے ہوں گے تو معلم ان کو رات کو پڑھاتا تھا۔ اس بنا پر ان میں سے اکثر قاری کہلاتے تھے اور اشاعتِ اسلام کے لیے کہیں بھیجنا ہوتا تو یہی لوگ بھیجے جاتے تھے۔ جب یہ پڑھ لکھ گئے تو پھر یہ قاری بھی کہلانے لگ گئے اور پھر دوسروں کو تعلیم دینے کے لیے بھی ان کو بھیجا جاتا تھا۔ بعد میں انہی اصحاب میں سے بہت سے بڑے بڑے عہدوں پر بھی فائز ہوئے یعنی اصحابِ صفہ جو تھے یہ نہیں کہ بعد میں وہیں بیٹھے رہے بلکہ عہدوں پر، بڑے بڑے عہدوں پر فائر ہوئے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ حضرت عمرؓ کے دور ِخلافت میں بحرین کے گورنر رہے تھے۔ پھر حضرت معاویہؓ کے دور میں مدینہ کے گورنر رہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بصرہ کے گورنر رہے اور کوفہ شہر کی بنیاد آپ نے ڈالی۔ حضرت سلمان فارسیؓ مدائن کے گورنر رہے۔ حضرت عمار بن یاسرؓ کوفہ کے گورنر رہے۔ یہ سب اصحاب صفہ میں شامل تھے۔ حضرت عُبادہ بن جراحؓ فلسطین کے گورنر رہے۔ حضرت انس بن مالکؓ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور میں مدینے کے گورنر رہے۔ انہی میں سے ایک سپہ سالار بھی تھے جنہوں نے فتوحاتِ اسلامیہ میں ایک نمایاں کردار ادا کیا۔ حضرت زید بن ثابتؓ نہ صرف سپہ سالار تھے بلکہ حضرت عمرؓ کے دور میں قاضی القضاة کے عہدے پر بھی متعین رہے۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد پنجم صفحہ 548تا 550داراالاشاعت کراچی2004ء) (ماخوز ازجستجوئے مدینہ از عبدالحمید قادری صفحہ 672، 681)
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ مَیں غریب مہاجرین کی جماعت میں جا بیٹھا یعنی انہی اصحابِ صفہ کی جماعت میں جو نیم برہنگی کے باعث ایک دوسرے سے ستر چھپا رہے تھے یا تقریباً آدھا جسم ان کا ننگا تھا اور اس حد تک تھا کہ مشکل سے اپنی ستر چھپا رہے تھے۔ پھر کہتے ہیں کہ ہم میں سے ایک قاری قرآن کی تلاوت کر رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے تو قاری خاموش ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور دریافت فرمایا کہ تم کیا کر رہے ہو؟ ہم نے عرض کیا کہ یہ قاری ہمیں تلاوت سنا رہا تھا اور ہم کتاب اللہ کو سن رہے تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے میری امت میں ایسے لوگ بھی شامل فرمائے جن کے ساتھ صبر کرنے کا حکم مجھے بھی دیا گیا ہے کہ جس طرح یہ صبر کر رہے ہیں تمہیں بھی صبر کا حکم ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات اقدس کو ہم میں شمار کرنے کے لیے ہمارے درمیان بیٹھ گئے۔ آپؐ نے دستِ مبارک سے حلقہ بنا کر اشارہ کیا یعنی میں بھی تم میں سے ہی ہوں۔ ایک دائرہ بنایا اور بیچ میں بیٹھ گئے، چنانچہ سب کا رخ آپؐ کی طرف ہو گیا۔ راوی کا بیان ہے کہ میرے خیال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں میرے سوا کسی کو نہیں پہچانا۔ بیان کرنے والے نے کہا کہ اتنے زیادہ لوگ تھے کہ میرے سوا کسی کو نہیں پہچانا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے تنگ دست مہاجرین کے گروہ تمہیں بشارت ہو۔ قیامت کے روز تم نورِ کامل کے ساتھ امیر لوگوں سے نصف دن پہلے جنت میں داخل ہو گے اور یہ نصف دن جو ہے وہ پانچ سو برس کا دن ہے۔ (سنن ابو داوٗد کتاب العلم باب فی القصص حدیث نمبر3666)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو بھی الہام ہوا تھا جس میں اصحابِ صفہ کا ذکر ہے۔ عربی الہام تھا کہ
’’اَصْحَابُ الصُّفَّۃِ وَمَا اَدْرَاکَ مَا اَصْحَابُ الصُّفَّۃِ تَرٰی اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ۔ یُصَلُّوْنَ عَلَیْکَ۔ رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ وَ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ وَسِرَاجًا مُنِیْرًا۔ صفہ کے رہنے والے اور تُو کیا جانتا ہے کہ کیا ہیں صفہ کے رہنے والے۔ تُو دیکھے گا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوں گے۔ وہ تیرے پر درود بھیجیں گے اور کہیں گے کہ اے ہمارے خدا ! ہم نے ایک منادی کرنے والے کی آواز سنی ہے جو ایمان کی طرف بلاتا ہے۔‘‘ (حقیقۃالوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 78)
یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے بعض ساتھیوں کے بارے میں ہوا تھا کہ مجھے بھی ایسے ہی ملیں گے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے کہ یہ جو اصحابِ صفہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو گزرے ہیں، بڑی شان والے لوگ تھے اور بڑے مضبوط ایمان والے لوگ تھے اور انہوں نے جو اخلاص و وفا کا نمونہ دکھایا ہے وہ ایک مثال ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی فرمایا ہے کہ تمہیں بھی مَیں بعض ایسے لوگ عطا کروں گا۔
صحیح بخاری میں حضرت عُتْبہ بن مسعودؓ کا ذکر ان صحابہ کرام کی فہرست میں کیا گیا ہے جو غزوۂ بدر میں شامل ہوئے تھے تاہم صحابہ کے حالات پر مشتمل جو بعض اَور کتب ہیں اُسُد الغابہ فی معرفة الصحابہ، الاصابہ فی تمییز الصحابہ اور الاستیعاب فی معرفة الاصحاب اور البقات الکبرٰی وغیرہ میں ان کے غزوۂ احد کے اور اس کے بعد والے غزوات میں شامل ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب تسمیة من سمّی من اھل بدر ……الخ) (اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ جلد 3 صفحہ563‘‘ عُتْبہ بن مسعود ’’دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء) (الاصابہ فی تمییز الصحابۃ جزء 4 صفحہ 366، عتبۃ بن مسعود الھذلی، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1995ء) (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 3 صفحہ 1030، عتبۃ بن مسعود الھذلی، دارالجیل بیروت) (الطبقات الکبرٰی جلد 4 صفحہ381 وَمِنْ حُلَفَاءِ بنی زھرة،‘‘ عُتْبہ بن مسعود ’’داراحیا ء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)
لیکن غزوۂ بدر میں نہیں۔ لیکن بخاری نے حضرت عُتْبہ بن مسعودؓ کا ذکر بدری صحابہ میں کیا ہے۔
حضرت عُتْبہ بن مسعودؓ کی حضرت عمر بن خطابؓ کے دورِ خلافت میں 23 ہجری میں مدینے میں وفات ہوئی اور حضرت عمرؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ قاسم بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے حضرت عُتْبہ بن مسعودؓ کی نماز جنازہ میں ان کی والدہ حضرت ام عبدؓ کا انتظار کیا کہ وہ بھی شامل ہو جائیں۔ (الطبقات الکبرٰی لابن سعد الجزء الرابع صفحہ238‘‘ عُتْبہ بن مسعود ’’وَمِنْ حُلَفَاءِ بنی زھرة۔ داراحیا ء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)(البدایةوالنہایةلابن کثیر جلد4جزء7صفحہ138، ثم دخلت سنۃ ثلاث وعشرين، دارالکتب العلمیہ2001ء)
امام زہری سے منقول ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ صحبت اور ہجرت کے لحاظ سے اپنے بھائی حضرت عُتْبہؓ سے زیادہ قدیم نہ تھے۔ یعنی حضرت عُتْبہ بن مسعودؓ زیادہ پرانے صحابی تھے۔ عبداللہ بن عُتْبہ سے روایت ہے کہ جب حضرت عُتْبہ بن مسعودؓ کا انتقال ہوا تو آپؓ کے بھائی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ بعض لوگوں نے آپؓ سے کہا کہ کیا آپؓ روتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ میرے بھائی تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں میرے ساتھی تھے اور حضرت عمر بن خطابؓ کے علاوہ سب لوگوں سے زیادہ مجھ کو محبوب تھے۔ (اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ المجلد الثالث صفحہ563‘‘ عُتْبہ بن مسعود ’’دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء)
ایک اور روایت میں ہے کہ جب حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس ان کے بھائی حضرت عُتْبہ بن مسعودؓ کی وفات کی خبر پہنچی تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہوں نے کہا کہ إِنَّ ہٰذِہِ رَحْمَۃٌ جَعَلَہَا اللّٰہُ لَا یَمْلِکُہَا ابْنُ اٰدَمَ۔ کہ یقیناً یہ رحمت ہے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اور ابنِ آدم اس کو قابو کرنے پر قادر نہیں۔ (الطبقات الکبریٰ جلد4صفحہ381-382‘‘ عُتْبہ بن مسعود ’’وَمِنْ حُلَفَاءِ بنی زھرة۔ داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)
یعنی یہ موت برحق ہے اور نیک لوگوں کے لیے تو پھر رحمت بن جاتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عمر بن خطابؓ حضرت عُتْبہ بن مسعودؓ کو امیرمقامی بھی بنایا کرتے تھے۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد4صفحہ366 ’’عُتْبہ بن مسعود الھذلی‘‘ دارالفکر بیروت 2001)