حضرت عُقْبَہ بن عامِرؓ

خطبہ جمعہ 11؍ جنوری 2019ء

حضرت عُقْبَہ بن عامِر  کی والدہ کا نام فُکَیْہَہ بنت سکن تھااور والد عَامِر بن نَابِیِٔ تھے۔ ان کی والدہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت سے مشرف ہوئیں ۔ حضرت عُقْبَہ بن عامر ان چھ انصار میں سے تھے جو سب سے پہلے مکہ میں ایمان لائے اور بعد میں آپ بیعتِ عقبہ اولیٰ میں بھی شامل ہوئے۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 428 عُقْبَہ بن عامرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)(الطبقات الکبریٰ جلد 8 صفحہ 301 فکیھہ بنت السکنؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

اس کی کچھ تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرۃ خاتم النبیین میں لکھی ہے کہ کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوششوں سے مدینہ میں اسلام کا پیغام پہنچا تھا۔ فرماتے ہیں : اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حسب دستور مکہ میں اَشْہُر حُرُمْ کے اندر قبائل کا دورہ کر رہے تھے کہ آپ کو معلوم ہوا کہ یثرب کا ایک مشہور شخص سُوَیْد بن صامت مکہ میں آیا ہوا ہے۔ سُوَید مدینہ کا ایک مشہور شخص تھا اور اپنی بہادری اور نجابت اور دوسری خوبیوں کی وجہ سے ’کامل‘ کہلاتا تھا اور شاعر بھی تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کا پتہ لیتے ہوئے اس کے ڈیرے پر پہنچے اور اسے اسلام کی دعوت دی۔ اس نے کہا کہ میرے پاس بھی ایک خاص کلام ہے جس کا نام مَجَلَّہ لُقْمَان ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ جو کلام تمہارے پاس ہے مجھے بھی اس کا کوئی حصہ سناؤ۔ جس پر سُوَید نے اس صحیفہ کا ایک حصہ آپؐ کو سنایا۔ آپؐ نے اس کی تعریف فرمائی یعنی جو کچھ سنایا گیا تھا کہ اس میں اچھی باتیں ہیں ۔ مگر فرمایا کہ میرے پاس جو کلام ہے وہ بہت بالا اور ارفع ہے، بہت اونچے مقام کا ہے۔ چنانچہ پھر آپؐ نے اسے قرآن شریف کا ایک حصہ سنایا۔ جب آپؐ ختم کرچکے تو اس نے کہا ہاں واقعی یہ بہت اچھا کلام ہے۔ اور گو وہ مسلمان نہیں ہوا مگر اس نے فی الجملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی اور آپؐ کو جھٹلایا نہیں ۔ لیکن افسوس ہے کہ مدینہ میں واپس جاکر اسے زیادہ مہلت نہیں ملی اور وہ جلد ہی کسی ہنگامہ میں قتل ہو گیا۔ یہ جنگ بُعَاث سے پہلے کی بات ہے۔

اس کے بعد اسی زمانہ کے قریب یعنی جنگ بُعَاثْ سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر ایک دفعہ حج کے موقع پر قبائل کا دورہ کر رہے تھے کہ اچانک آپ کی نظر چند اجنبی آدمیوں پر پڑی۔ یہ قبیلہ اَوس کے تھے اور اپنے بت پرست رقیبوں یعنی خزرج کے خلاف قریش سے مدد طلب کرنے آئے تھے۔ یہ بھی جنگ بُعَاثْ سے پہلے کا واقعہ ہے۔ گویا یہ طلب مدد اسی جنگ کی تیاری کا ایک حصہ تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے اور اسلام کی دعوت دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر سن کر ایک نوجوان شخص جس کا نام اِیَاسْ تھا بے اختیار بول اٹھا کہ خدا کی قسم! جس طرف یہ شخص یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو بلاتا ہے وہ اس سے بہتر ہے جس کے لئے ہم یہاں آئے ہیں ۔ یعنی جنگ کے لئے مدد طلب کرنے کی بجائے بہتر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہمارا رجوع ہو۔ مگر اس گروہ کے سردار نے ایک کنکروں کی مٹھی اٹھا کر اس کے منہ پر ماری اور کہا چپ رہو۔ ہم اس کام کے لئے یہاں نہیں آئے اور اس طرح اس وقت یہ معاملہ یوں ہی دب کر رہ گیا۔ مگر لکھا ہے کہ ایاس جب وطن واپس گیا، جب فوت ہونے لگا تو اس کی زبان پر کلمہ توحید جاری تھا۔

اس کے کچھ عرصہ بعد جب جنگِ بُعَاث ہوچکی تو 11 نبوی کے ماہ رجب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ میں یثرب والوں سے پھر ملاقات ہوئی۔ یہ نبوت کے گیارھویں سال کی بات ہے۔ آپؐ نے حسب ونسب پوچھا تو معلوم ہوا کہ قبیلہ خزرج کے لوگ ہیں اور یثرب سے آئے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت محبت کے لہجہ میں کہا ’’کیا آپ لوگ میری کچھ باتیں سن سکتے ہیں ؟‘‘ انہوں نے کہا ’’ہاں ! آپ کیا کہتے ہیں ؟‘‘ آپؐ بیٹھ گئے اور ان کو اسلام کی دعوت دی اور قرآن شریف کی چند آیات سنا کر اپنے مشن سے آگاہ کیا۔ ان لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا یہ موقع ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یہود ہم سے سبقت لے جائیں ۔یہ کہہ کر سب مسلمان ہوگئے۔ یہ چھ اشخاص تھے جن کے نام یہ ہیں :

1۔ابو اُمَامَہ اسعد بن زُرَارَہ جو بنو نجار سے تھے اور تصدیق کرنے میں سب سے اول تھے۔ 2۔عوف بن حارث یہ بھی بنو نجار سے تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کے ننھیال کے قبیلہ سے تھے۔ 3۔رَافِع بن مالِک جو بنو زُرَیْق سے تھے۔ اب تک جو قرآن شریف نازل ہو چکا تھا وہ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو عطا فرمایا۔ 4۔قُطْبَہ بِن عَامِر جو بنی سلمہ سے تھے۔ 5۔عُقْبَہ بن عامِر جو بنی حرام سے تھے، (یہ انہیں کا ذکر ہو رہا ہے۔ اس سارے واقعہ میں )، یہ عُقْبَہ بن عامر بدری صحابی تھے۔اور6۔جابر بن عبداللہ بن رِئَاب جو بنی عُبَید سے تھے۔

اس کے بعد یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت ہوئے اور جاتے ہوئے عرض کیا کہ ہمیں خانہ جنگیوں نے بہت کمزور کر رکھا ہے۔ ہم میں آپس میں بہت نااتفاقیاں ہیں ۔ ہم یثرب میں جا کر اپنے بھائیوں میں اسلام کی تبلیغ کریں گے۔ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعے ہم کو پھر جمع کردے۔ پھر ہم ہر طرح آپؐ کی مدد کے لئے تیار ہوں گے۔ چنانچہ یہ لوگ گئے اور ان کی وجہ سے یثرب میں اسلام کا چرچا ہونے لگا۔

یہ سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں یثرب والوں کی طرف سے ظاہری اسباب کے لحاظ سے ایک بیم و رَجَا کی حالت میں گزارا۔ آپؐ اکثر یہ خیال کیا کرتے تھے کہ دیکھیں ان کا کیا انجام ہوتا ہے اور آیا یثرب میں کامیابی کی کوئی امید بندھتی ہے یا نہیں ۔ مسلمانوں کے لئے بھی یہ زمانہ ظاہری حالات کے لحاظ سے ایک بیم و رجا کا زمانہ تھا۔ کبھی امید کی کرن ہوتی تھی۔ کبھی مایوسی ہوتی تھی۔ وہ دیکھتے تھے کہ سرداران مکہ اور رؤسائے طائف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو سختی کے ساتھ ردّکر چکے ہیں ۔ دیگر قبائل بھی ایک ایک کرکے اپنے انکار پر مہر لگا چکے تھے۔ مدینہ میں امید کی ایک کرن پیدا ہوئی تھی مگر کون کہہ سکتا تھا کہ یہ کرن مصائب و آلام کے طوفان اور شدائد کی آندھیوں میں قائم رہ سکے گی۔

دوسری طرف مکہ والوں کے مظالم دن بدن زیادہ ہو رہے تھے اور انہوں نے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ اسلام کو مٹانے کا بس یہی وقت ہے مگر اس نازک وقت میں بھی جس سے زیادہ نازک وقت اسلام پر کبھی نہیں آیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مخلص صحابی ایک مضبوط چٹان کی طرح اپنی جگہ پر قائم تھے اور آپؐ کا یہ عزم و استقلال بعض اوقات آپؐ کے مخالفین کو بھی حیرت میں ڈال دیتا تھا کہ یہ شخص کس قلبی طاقت کا مالک ہے کہ کوئی چیز اسے اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتی۔ بلکہ اس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں خاص طور پر ایک رعب اور جلال کی کیفیت پائی جاتی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی بات کرتے تھے تو آپؐ کی باتوں میں بڑا رعب اور جلال ہوتا تھا اور مصائب کے ان تند طوفانوں میں آپؐ کا سر اور بھی بلند ہوتا جاتا تھا۔ یہ نظارہ اگر ایک طرف قریش مکہ کو حیران کرتا تھا تو دوسری طرف ان کے دلوں پر کبھی کبھی لرزہ بھی ڈال دیتا تھا۔ ان ایام کے متعلق سر ولیم میور نے بھی لکھا ہے کہ

ان ایام میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے سامنے اس طرح سینہ سپر تھا کہ انہیں بعض اوقات حرکت کی تاب نہیں ہوتی تھی۔ اپنی بالآخر فتح کے یقین سے معمور مگر بظاہر بے بس اور بے یارومددگار وہ اور اس کا چھوٹا سا گروہ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کا چھوٹا سا گروہ چند مسلمان اس زمانہ میں گویا ایک شیر کے منہ میں تھے۔ مگر اس خدا کی نصرت کے وعدوں پر کامل اعتماد رکھتے ہوئے جس نے اسے رسول بنا کر بھیجا تھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے عزم کے ساتھ اپنی جگہ پر کھڑا تھا، ولیم میور لکھتا ہے، کہ جسے کوئی چیز اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتی تھی۔ یہ نظارہ ایک ایسا شاندار منظر پیش کرتا ہے جس کی مثال سوائے اسرائیل کی اس حالت کے اور کہیں نظر نہیں آتی کہ جب اس نے مصائب و آلام میں گھِر کر خدا کے سامنے یہ الفاظ کہے تھے کہ اے میرے آقا! اب تو مَیں ہاں صرف مَیں ہی اکیلا رہ گیا ہوں ۔ پھر لکھتا ہے کہ نہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ نظارہ اسرائیلی نبیوں سے بھی ایک رنگ میں بڑھ کر تھا۔… محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ اسی موقعہ پر کہے گئے تھے کہ اے میری قوم کے صنادید! تم نے جو کچھ کرنا ہے کر لو۔ میں بھی کسی امید پر کھڑا ہوں ۔

بہرحال اسلام کے لئے یہ ایک بہت نازک موقع تھا۔ مکہ والوں کی طرف سے تو مکمل طور پر ایک ناامیدی ہوچکی تھی مگر مدینہ میں یہ جو بیعت کر کے گئے تھے ان کی وجہ سے بھی امید کی کرن پیدا ہو رہی تھی۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بڑی توجہ کے ساتھ اس طرف نظر ،نگاہ لگائے ہوئے تھے کہ آیا مدینہ بھی مکہ اور طائف کی طرح آپ کو ردّ کرتا ہے یا اس کی قسمت دوسرے رنگ میں لکھی ہے۔ چنانچہ جب حج کا موقع آیا تو آپؐ بڑے شوق کے ساتھ اپنے گھر سے نکلے اور منٰی کی جانب عقبہ کے پاس پہنچ کر ادھر ادھر نظر دوڑائی تو آپؐ کی نظر اچانک اہلِ یثرب کی ایک چھوٹی سی جماعت پر پڑی جنہوں نے آپ کو دیکھ کر فورًا پہچان لیا اور نہایت محبت اور اخلاص سے آگے بڑھ کر آپؐ کو ملے۔ اس دفعہ یہ بارہ اشخاص تھے جن میں سے پانچ تو وہی گزشتہ سال کے مصدّقین تھے اور سات نئے تھے اور اَوس اور خزرج دونوں قبیلوں میں سے تھے۔ ان کے نام یہ ہیں ۔

1۔ اَبو اُمَامہ اسعد بن زُرَارہ۔ 2۔ عوف بن حارث۔ 3۔ رَافِع بن مالک ۔4۔ قُطْبہ بن عامر ۔ 5۔ عُقْبَہ بن عامر۔ عُقْبَہ بن عامر جن کی سیرت بیان ہو رہی ہے یہ اس دفعہ بھی دوبارہ حج کے لئے آئے۔ 6۔مُعاذ بن حارِث۔ یہ قبیلہ بنی نجار سے تھے اور 7۔ ذَکْوَان بن عَبدِقَیْس قبیلہ بنو زُرَیق سے تھے۔ 8۔ابوعبدالرحمٰن یَزِید بِن ثَعْلَبَہ از بَنِی بَلِی اور 9۔ عُبَادَہ بن صَامِت از بَنیِ عَوف ۔ وہ خزرج قبیلہ کے بَنِی بَلِی سے تھے اور یہ بَنیِ عَوف سے تھے۔ 10۔عباس بن عُبَادَہ بِن نَضْلَہ۔ یہ بنی سالم میں سے تھے۔ 11۔ اَبُو الْہَیْثَم بن تَیْہَان یہ بَنِی عبدِالْاَشْھَلْ کے تھے اور 12۔ عُوَیْم بن سَاعِدَہ یہ اوس قبیلے کے بَنِی عَمْرِو بن عَوف سے تھے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے الگ ہو کر ایک گھاٹی میں ان بارہ افراد سے ملے تھے۔ انہوں نے یثرب کے حالات سے اطلاع دی اور اب کی دفعہ سب نے باقاعدہ آپؐ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ یہ بیعت مدینہ میں اسلام کے قیام کی بنیاد، قیام کا بنیادی پتھر ہے۔ اس سے بنیاد پڑی۔ چونکہ اب تک جہاد بالسیف فرض نہیں ہوا تھا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے صرف ان الفاظ میں بیعت لی تھی جن میں آپؐ جہاد فرض ہونے کے بعد عورتوں سے بیعت لیا کرتے تھے یعنی یہ کہ ہم خدا کو ایک جانیں گے۔ شرک نہیں کریں گے۔ چوری نہیں کریں گے۔ زنا کے مرتکب نہیں ہو ں گے۔ قتل سے باز رہیں گے۔ کسی پر بہتان نہیں باندھیں گے اور ہر نیک کام میں آپؐ کی اطاعت کریں گے۔ بیعت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم صدق و ثبات کے ساتھ اس عہد پر قائم رہے تو تمہیں جنت نصیب ہو گی اور اگر کمزوری دکھائی تو پھر تمہارا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے وہ جس طرح چاہے گا کرے گا۔ یہ بیعت تاریخ میں بیعت عقبہ اولیٰ کے نام سے مشہور ہے کیونکہ وہ جگہ جہاں بیعت لی گئی تھی عَقبہ کہلاتی ہے جو مکہ اور منیٰ کے درمیان واقع ہے۔ عقبہ کے لفظی معنی بلند پہاڑی رستے کے ہیں ۔

مکہ سے رخصت ہوتے ہوئے ان بارہ نَو مسلمین نے درخواست کی کہ کوئی اسلامی معلم ہمارے ساتھ بھیجا جائے جو ہمیں اسلام کی تعلیم دے اور ہمارے مشرک بھائیوں کو اسلام کی تبلیغ کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مُصْعَبْ بن عُمَیر کو جو قبیلہ عبدالدَّار کے ایک نہایت مخلص نوجوان تھے ان کے ساتھ روانہ کر دیا۔ اسلامی مبلغ ان دنوں میں قاری یا مُقْرِی کہلاتے تھے کیونکہ ان کا کام زیادہ تر قرآن شریف سنانا تھا کیونکہ یہی تبلیغ کا ایک بہترین ذریعہ تھا۔ چنانچہ مصعب بھی یثرب گئے تو یثرب میں مُقْرِی کے نام سے مشہور ہو گئے۔ بیعت عَقبہ ثانیہ جو تھی یہ 13نبوی میں ہوئی تھی اور اس میں ستر انصار نے بیعت کی تھی۔(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 221 تا225، 227)

حضرت عُقْبَہ بن عامر نے غزوہ بدر، اُحُد اور خندق سمیت تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شرکت کی۔ آپ غزوۂ اُحُد کے دن خَودمیں سبز رنگ کے کپڑے کی وجہ سے پہچانے جا رہے تھے۔ آپ حضرت ابوبکر کے دور خلافت میں بارہ ہجری میں جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 428 عُقْبَہ بن عامرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)

حضرت عُقْبَہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے بیٹے کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ ابھی وہ نَوعمر لڑکا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں ، میرے بیٹے کو دعائیں سکھائیں جن کے ذریعہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرے اور اس پر شفقت فرمائیں ۔ آپؐ نے فرمایا اے لڑکے! کہو کہ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ صِحَّۃً فِی اِیْمَانٍ وَ اِیْمَانًا فِیْ حُسْنِ خُلُقٍ وَ صَلَاحًا یَتْبَعُہٗ نَجَاحٌ۔(اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 52 عُقْبَہ بن عامرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)

کہ اے اللہ! میں تجھ سے حالت ایمان میں صحت طلب کرتا ہوں اور ایمان کے ساتھ حسن خلق کی دعا کرتا ہوں اور صلاح کے بعد کامیابی چاہتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ ان صحابہ کے درجات بلند فرماتا چلا جائے ۔