حضرت عُمارہ بن حَزْمؓ
حضرت عُمارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُن ستر صحابہ میں شامل ہیں جو بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئے تھے۔ ان کے بھائی حضرت عَمْرو بن حَزْم اور حضرت مُعمْر بن حَزْم بھی صحابی تھے۔ غزوۂ بدر، غزوۂ احد سمیت دیگر تمام غزوات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔ فتح مکہ کے دن بنو مالک بن نجار کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمارہ کی مؤاخات حضرت محرز بن نضلہ سے کروائی، ہجرت کے بعد ان کا بھائی بنایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو مرتدین کا فتنہ اٹھا اور انہوں نے جنگ شروع کی مسلمانوں کے ساتھ ان کے خلاف لڑائی میں بھی حضرت خالدؓ بن ولید کے ساتھ یہ شامل ہوئے اور جنگِ یمامہ میں ان کی شہادت ہوئی۔(اصحاب بدر از قاضی محمد سلیمان صفحہ 182مکتبہ اسلامیہ لاہور 2015ء) ان کی والدہ کا نام خالدہ بنت انس تھا۔(سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 455مطبوعہ دار الاشاعت کراچی) ابوبکر بن محمد بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن سَہْل کو سانپ نے کاٹ لیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں حضرت عمارہ بن حزم کے پاس لے جاؤ تا کہ وہ دم کریں ۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ تو مرنے کے قریب ہیں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم عمارہ کے پاس لے جاؤ وہ دم کر دیں گے تو اللہ تعالیٰ شفا دے گا۔(سبل الہدیٰ والرشاد جلد 10 صفحہ 771 باب الرابع فیما علمہﷺ لاصحابہ من لدغۃ العقرب مطبوعہ 1995ء قاہرہ) یقیناً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی آپ کو یہ دم سکھایا تھا اور دعا سکھائی ہو گی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ حضرت عمارہ کے دَم کے محتاج تھے یا آپ نہیں کر سکتے تھے۔ لوگوں کو خاص طور پر بعض کاموں کے لئے مقرر کیا ہوا تھا اور اس کے پیچھے بہرحال قوت قدسی اور برکات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی تھیں ۔ سیرت ابن ہشام میں لکھا ہے کہ مسجد نبوی میں منافقین آیا کرتے تھے اور مسلمانوں کی باتیں سن کر بعد میں ان کا تمسخر اڑاتے تھے، ان کے دین کا استہزاء کیا کرتے تھے۔ بعض دفعہ سامنے بھی ایسی باتیں کر لیا کرتے تھے۔ ایک دن منافقین میں سے کچھ لوگ مسجد نبوی میں جمع ہوئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آپس میں سرگوشیاں کرتے دیکھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق حکم دیا کہ ان کو مسجد سے نکال دو۔ پس وہ مسجد سے نکال دئیے گئے۔ حضرت ابو ایوب، عمر بن قیس کی طرف گئے جو بنو غنم بن مالک بن نجار میں سے تھا اور وہ جاہلیت کے زمانے میں ان کے بتوں کا نگران بھی تھا۔ انہوں نے اسے ٹانگ سے پکڑا اور گھسیٹتے ہوئے مسجد سے باہر نکال دیا۔ وہ کہتا جا رہا تھا کہ اے ابو ایوب! کیا تو مجھے بنو ثعلبہ کی مجلس سے نکالے گا؟ پھر آپ رافع بن ودیعہ کی طرف گئے اور وہ بھی بنو نجار میں سے تھا۔ اسے بھی اپنی چادر میں لپیٹا اور زور سے کھینچا اور ایک تھپڑ مار کے اس کو مسجد سے باہر نکال دیا۔ ابوایوب کہہ رہے تھے کہ اے خبیث منافق تجھ پر لعنت ہو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد سے دور چلا جا۔ حضرت عمارہ بن حزم، زید بن عمرو کی طرف گئے اور اس کی داڑھی سےاسے پکڑا اورگھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے اور مسجد سے باہر نکال دیا۔ پھر حضرت عمارہ نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے سینے پر اتنے زور سے مارے کہ وہ گر گیا۔ اس نے کہا اے عمارہ! تو نے مجھے زخمی کر دیا ہے۔ اس پر حضرت عمارہ نے کہا کہ اے منافق! اللہ تجھے ہلاک کرے۔ جو عذاب اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے تیار کیا ہے وہ اس سے زیادہ شدید ہے۔ پس آئندہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے قریب نہ آنا۔(سیرت ابن ہشام صفحہ 246 باب من اسلم من احبار یہود نفاقا مطبوعہ دار ابن حزم 2009ء)
غزوۂ تبوک کے موقع پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کی طرف تشریف لے جا رہے تھے راستے میں ایک جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی قصویٰ گم ہو گئی۔ صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسے ڈھونڈھنے کے لئے نکلے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت عمارہ بن حزم بھی تھے جو کہ بیعت عقبہ میں شامل ہوئے تھے اور بدری صحابی تھے جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے، اور حضرت عمرو بن حزم کے بھائی تھے۔ بیان کرنے والے پھر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمارہ کے ہودج میں زید بن صلت تھا، یعنی وہ ان لوگوں میں شامل تھا جو ان کی سواریوں وغیرہ پہ مقرر تھا، جو اونٹ کی سواری تھی اس پہ ہودج رکھنے والا تھا۔ وہ قبیلہ بنو قینقاع سے تعلق رکھتا تھا اور یہودی تھا۔ اونٹ کی سواری کے لئے بیٹھنے کی جو سیٹ ہوتی ہےاس کو رکھنے والے بعض لوگ مقرر تھے ۔ یہودی تھا پھر مسلمان ہوا اور اس نے نفاق ظاہر کیا۔ زید جو مسلمان ہوا تھا لیکن دل میں منافقت تھی بڑا معصوم بن کے پوچھنے لگا کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ و سلم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ وہ نبی ہیں اور وہ تمہیں آسمان کی خبروں سے آگاہ کرتے ہیں جبکہ وہ خود نہیں جانتے کہ ان کی اونٹنی کہاں گئی ہے۔اس وقت حضرت عمارہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے۔ یہ بات آپ تک بھی کسی طرح پہنچی یا اللہ تعالیٰ نے خبر دے دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یقیناً ایک شخص نے کہا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں کو تو بتاتا ہے کہ وہ نبی ہے اور گمان کرتا ہے کہ وہ تم لوگوں کو آسمان کی خبروں سے آگاہ کرتا ہے جبکہ وہ خود نہیں جانتا کہ اس کی اونٹنی کہاں ہے۔ اس پہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں نہیں جانتا ماسوائے اس کے جس کا اللہ تعالیٰ نے مجھے علم دیا ہے۔ غیب کا علم تو میں نہیں جانتا، ہاں اللہ تعالیٰ بتاتا ہے تو میں بتاتا ہوں ۔ اور پھر آپ نے اس منافق کا منہ بند کرنے کے لئے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے خبر بھی دے دی پھر کہ یقیناً اللہ تعالیٰ نے مجھے اونٹنی کے متعلق بتایا ہے کہ وہ فلاں فلاں گھاٹی میں ہے اور ایک گھاٹی کی طرف اشارہ کیا۔ اس کی مہار ایک درخت سے اٹک گئی ہے پس جاؤ اور اسے میرے پاس لے آؤ۔ پس صحابہ گئے اور اسے لے آئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس منافق کا منہ بند کر نے کے لئے یہ بھی آپ کو نظارہ دکھا دیا کہ اونٹنی کہاں ہے اور کس جگہ کھڑی ہے۔
بیہقی اور ابونُعیم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمارہ اپنے ہودج کی طرف گئے اور کہا اللہ کی قسم آج ایک عجیب بات ہوئی ہے۔ ابھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک شخص کی بات کے متعلق بتایا جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ فرمایا تھا۔ یہ واضح ہو گیا کہ جو منافق کی بات تھی اس کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہی آپ کو آگاہ فرمایا تھا اور وہ زید بن صلت کی بات تھی۔ حضرت عمارہ کے ہودج میں سے ایک شخص نے بتایا کہ اللہ کی قسم زید نے آپ کے آنے سے پہلے وہ بات کی ہے جو آپ نے ابھی بتائی ہےکہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا۔ تو زید نے آپ کے آنے سے پہلے بالکل یہی بات تھی۔ اس پر حضرت عمارہ نے زید کو گردن سے دبوچ لیا اور اپنے ساتھیوں کو کہنے لگے کہ اے اللہ کے بندو! میرے ہودج میں ایک سانپ تھا اور میں اس کو اپنے ہودج سے باہر نکالنے سے بے خبر تھا اور زید کو مخاطب کر کے کہا کہ آئندہ میرا تم سے کوئی تعلق نہیں ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ زید نے بعد میں توبہ کر لی اور بعض کا خیال ہے کہ اسی طرح شرارتوں میں ملوث رہا حتٰی کہ مر گیا۔ (تاریخ الخمیس جلد 3 صفحہ 18 غزوہ تبوک مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2009ء)
حضرت زیاد بن نُعیم حضرت عمارہ بن حزم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چار باتیں ایسی ہیں کہ جس نے ان پر عمل کیا وہ مسلمانوں میں سے ہو گیا اور جس نے ان میں سے ایک بھی چھوڑی تو باقی تین اسے کچھ فائدہ نہیں دیں گی۔ حضرت زیاد بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمارہ سے پوچھا کہ وہ چار باتیں کون سی ہیں تو انہوں نے بتایا کہ وہ نماز ہے، زکوٰۃ ہے، روزہ ہے اور حج ہے۔(اسد الغابہ جلد 4صفحہ 129مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) ان چاروں باتوں پہ ایمان لانا اور عمل کرنا ضروری ہے۔ نماز بھی فرض ہے۔ زکوٰۃ بھی جن پر فرض ہے ان پر ضروری ہے۔ روزہ بھی صحت کی حالت میں رکھنا ضروری ہے۔ اورحج بھی جن پر فرض ہے ضروری ہے،جو ادا کر سکتے ہیں یہ فریضہ ان کو ادا کرنا ضروری ہے۔ بہرحال ان چاروں باتوں پر ایمان لانا بھی ضروری ہے اور ان پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ اب یہ باتیں اسد الغابہ میں لکھی ہوئی ہیں ۔ یہی کتابیں ہیں ، مسلمان خود ہی اپنے مسلمان ہونے کی تعریف بیان کرتے ہیں اور خود ہی ایسے بھی علماء پیدا ہو گئے ہیں جو کفر کے فتوے لگاتے ہیں اور انہوں نے مسلمان ہونے کی اپنی اپنی تعریف بنائی ہوئی ہے۔