حضرت عُوَیم بن سَاعِدہؓ
حضرت عُوَیم بن ساعِدہؓ کا تعلق قبیلہ اَوس کی شاخ بنو عمرو بن عوف سے تھا۔ حضرت عویمؓ بیعت عَقَبہ اولیٰ اور ثانیہ دونوں میں شریک ہوئے۔ سیرت خاتم النبیینؐ میں جو حوالہ ہے اس کے مطابق بیعت عقبہ اولیٰ سے قبل مدینہ کے انصار کا ایک گروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا تھا جن کی تعداد چھ تھی اور بعض روایات میں آٹھ افراد کا بھی ذکر ملتا ہے۔ ان میں حضرت عُوَیم بن ساعدِہؓ بھی شامل تھے۔ طبقات الکبریٰ کے مطابق ہجرت مدینہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عُوَیم بن ساعِدہؓ سے حضرت عمرؓ کی اور ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت حاطِب بن ابی بَلْتَعَہ کی مؤاخات قائم فرمائی تھی۔
حضرت عبداللہ بن زبیرؓ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ عُوَیم بن ساعِدہؓ اللہ کے بندوں میں سے کیا ہی اچھا بندہ ہے اور وہ اہلِ جنت میں سے ہے۔
ایک روایت کے مطابق جب یہ آیت نازل ہوئی کہ فِیۡہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوۡنَ اَنۡ یَّتَطَہَّرُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُطَّہِّرِیۡنَ (التوبۃ: 108) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عُوَیم بن ساعِدہؓ کیا ہی اچھا بندہ ہے۔ وہ بھی ان لوگوں میں سے ہے۔ (الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 349 تا 351، عویم بن ساعِدہ، دارالکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 222)
اس آیت فِیۡہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوۡنَ اَنۡ یَّتَطَہَّرُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُطَّہِّرِیۡنَ۔ کا ترجمہ یہ ہے کہ اس میں آنے والے ایسے لوگ بھی ہیں جو خواہش رکھتے ہیں کہ بالکل پاک ہو جائیں اور اللہ کامل پاکیزگی اختیار کرنے و الوں کو پسند کرتا ہے۔
حضرت عُوَیم بن ساعِدہؓ غزوۂ بدر، احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ عَاصِم بن سُوَیدؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عُوَیم بن ساعِدہؓ کی بیٹی عُبیدہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضرت عمر بن خطابؓ جب حضرت عُوَیم بن ساعِدہؓ کی قبر پر کھڑے تھے تو انہوں نے فرمایا دنیا میں کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اس صاحبِ قبر سے بہتر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جو بھی جھنڈا گاڑا گیا عُوَیم اس کے سائے تلے ہوتے تھے۔ (اسد الغابۃ في معرفۃ الصحابۃ جلد4 صفحہ 304، عویم بن ساعِدہ، دارالکتب العلمیہ بیروت 1994ء)
ایک روایت میں آتا ہے کہ جاہلیت کے زمانے میں حارِث کے باپ سُوَیدنے حضرت مُجَذَّر کے باپ زِیَاد کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد ایک دن مقتول کے بیٹے حضرت مُجَذَّرنے سُوَید پر قابو پا لیا اور انہوں نے اپنے باپ کے قاتل کو مار ڈالا۔ یہ دونوں واقعات اسلام سے پہلے کے ہیں اور یہی واقعہ جنگ بُعَاث جو اَوس اور خزرج کے درمیان جنگ تھی اس کا سبب بنا تھا۔ اس کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے آئے تو دونوں مقتولوں کے بیٹوں نے، یعنی حارِث بن سُوَید اور حضرت مُجَذَّربن زِیَادؓ، اسلام قبول کر لیا، مسلمان ہو گئے، اور دونوں ہی غزوۂ بدر میں بھی شریک ہوئے تھے۔ اس روایت کی تصدیق کہاں تک ہے؟ بہرحال یہ روایت ہے کہ اسلام لانے کے بعد بھی حارِث بن سُوَید موقع کی تلاش میں رہا کرتے تھے کہ اپنے والد کے بدلے میں حضرت مُجَذَّرؓ کو قتل کریں لیکن اسے ایسا موقع نہ میسر آسکا۔ غزوۂ احد میں جب قریش نے مڑ کر مسلمانوں پر حملہ کیا تو حارِث بن سُوَیدنے پیچھے سے حضرت مُجَذَّر کی گردن پر وار کر کے انہیں شہید کر دیا اور ایک قول کے مطابق یہ بھی ہے کہ حارِث بن سُوَیدنے حضرت قَیْس بن زیدؓ کو بھی شہید کیا تھا۔ غزوۂ حمراء الاسد سے واپسی پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ کو بتایا کہ حارِث بن سُوَید اس وقت قبا میں موجود ہے۔ حارِث بن سُوَیدنے حضرت مُجَذَّر بن زیاؓ د کو دھوکے سے قتل کر دیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ آپؐ حارِث بن سُوَید کو حضرت مُجَذَّر بن زِیَادؓ کے بدلے میں قتل کریں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات سن کے فوراً قبا تشریف لے گئے اور عام طور پر اس وقت آپؐ تشریف نہیں لے جاتے تھے۔ اس وقت قبا میں سخت گرمی تھی۔ آپؐ وہاں پہنچے تو قبا میں مقیم انصاری مسلمان آپ کے پاس آ کر جمع ہو گئے جن میں حارِث بن سُوَید بھی تھا جو ایک یا دو زرد رنگ کی چادریں لپیٹے ہوئے تھا۔ حضرت عُوَیْمَر بن ساعِدہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر مسجد قبا کے دروازے پر حارِث بن سُوَید کو قتل کیا۔ سیرة الحلبیہ میں ان صحابی کا نام جن کا ذکر ہو رہا ہے عُوَیم کے بجائے عُوَیْمَر بھی لکھا ہوا ہے جبکہ طبقات ابن سعد اور باقی جگہوں میں آپؓ کا نام عُوَیم بن ساعدة ہی ہے۔ بہرحال ایک اَور روایت یہ بھی ہے کہ آنحضرتﷺ نے عُوَیم بن سُوَید کو قتل کرنے کا، مارنے کا نہیں فرمایا تھا جس نے مسلمان کو دھوکے سے شہید کیا تھا۔ دونوں ہی مسلمان تھے۔ قتل کا بدلہ قتل لیا گیا۔ دوسری روایت میں یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ کو حکم دیا تھا۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حارِث نے کہا کہ خدا کی قسم میں نے مُجَذَّر کو قتل کیا ہے مگر اس وجہ سے نہیں کہ مَیں اسلام سے پھر گیا ہوں، نہ اس لیے کہ مجھے اسلام کی سچائی میں کوئی شبہ ہے بلکہ اس لیے کہ شیطان نے مجھے غیرت اور عار دلائی تھی اور اب میں اپنے اس فعل سے خدا اور اس کے رسولؐ کے سامنے توبہ کرتا ہوں اور مقتول کا خون بہا دینے کے لیے تیار ہوں اور مسلسل دو مہینے روزے رکھوں گا اور ایک غلام کو آزاد کروں گا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حارِث کی اس معافی کو قبول نہیں کیا اور اسے قتل کی سزا دی گئی۔ (السیرة الحلبیہ الجزء الثانی صفحہ353-354 باب ذکر مغازیہﷺ، غزوہ حمراء الاسد، دارالکتب العلمیہ بیروت2002ء) (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 349 عویم بن ساعِدہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
یہ روایت سیرة الحلبیة کی ہے۔ ابوعمر کہتے ہیں کہ حضرت عویمؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے تھے۔ یہ روایت ابوعمر کی ہے لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپؓ کی وفات حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں 65 یا 66 سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ (اسد الغابة فی معرفة الصحابة جلد4 صفحہ 304، عویم بن ساعِدہ، دارالکتب العلمیہ بیروت 1994ء)