حضرت عِتْبَان بن مالِکؓ

خطبہ جمعہ 29؍ مارچ 2019ء

حضرت عِتْبَان بن مالِکؓ کا تعلق خزرج کی شاخ بنو سالِم بن عَوف سے تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کے اور حضرت عمرؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ آپؓ غزوۂ بدر، احد اور خندق میں شامل ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں آپؓ کی بینائی جاتی رہی تھی۔ آپؓ کی وفات حضرت معاویہؓ کے دورِ حکومت میں ہوئی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 415-416 عِتْبَان بن مالک مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں نزول فرمایا تو حضرت عِتْبَان بِن مالِکؓ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ آگے بڑھ کر آپؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ اُن کے یہاں قیام کریں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اونٹنی کو چھوڑ دو کہ یہ اس وقت مأمور ہے یعنی جہاں خدا کا منشا ہو گا وہاں یہ خود بیٹھ جائے گی۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ 228-229 اعتراض القبائل لہ تبغی نزولہ عندھا مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء) (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 267-268)

حضرت عمرؓ بیان فرماتے ہیں کہ مَیں اور انصار میں سے میرا ایک پڑوسی بنو اُمَیَّہ بن زَید، (بنو اُمَیَّہ بن زید بستی کا نام ہے) میں رہتے تھے اور یہ مدینہ کے ان گاؤں میں سے ہے جو آس پاس اونچی جگہ پر واقع تھے اور ہم باری باری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتے تھے۔ ایک دن وہ جاتا تھا اور ایک دن میں جاتا تھا اور جب میں جاتا تھا تو میں اس دن کی وحی وغیرہ کی خبریں اس کے پاس لاتا اور جب وہ جاتا تھا تو وہ ایسے ہی کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میرا انصاری ساتھی اپنی باری کے دن گیا اور آ کر میرے دروازے کو زور سے کھٹکھٹایا اور میرے بارے میں پوچھا کیا وہ یہیں ہیں؟ اس پر میں گھبرایا اور باہر نکلا تو اس نے کہا بہت ہی بڑا حادثہ ہوا ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا۔ یہ سن کر مَیں حفصہؓ کے پاس گیا تو دیکھتا ہوں کہ وہ رو رہی ہیں۔ میں نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں طلاق دے دی ہے؟ کہنے لگیں کہ مَیں نہیں جانتی۔ پھر مَیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور میں نے کھڑے کھڑے پوچھا کیا آپؐ نے بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ فرمایا نہیں۔ اس پر میں نے کہا اللہ اکبر۔ (صحیح بخاری کتاب العلم باب التناوب فی العلم حدیث 89)

روایات کے مطابق بعض جگہ تفصیل بھی ملتی ہے۔ لمبا واقعہ بیان ہوا ہے کہ ایک مہینے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو علیحدہ کر لیا تھا اور نہ صرف بیویوں سے بلکہ صحابہ سے بھی علیحدہ ہو گئے تھے۔ اس وجہ سے یہ تاثر پیدا ہو گیا کہ طلاق دے دی ہے۔ کسی وجہ سے ناراضگی ہے۔ بہرحال جو بھی وجوہات تھیں وہ اَور تھیں لیکن یہ وجہ نہیں تھی۔

حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ نے بخاری کی حدیث کی شرح میں اس بات سے کہ حضرت عمرؓ نے بیان فرمایا کہ ایک دن میں جاتا تھا اور ایک دن میرے دوسرے ساتھی جاتے تھے لکھا ہے کہ ’’اگر کسی کو علم سیکھنے کے لیے پوری فراغت نہ ملتی ہو تو وہ کسی کے ساتھ باری مقرر کر سکتا ہے جیسا کہ حضرت عمرؓ نے حضرت عِتْبَانؓ بن مالِک انصاری کے ساتھ باری مقرر کی تھی۔ صحابہؓ کے شوق کا اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ کام کاج چھوڑ کر تین چار میل سے آ کر سارا دن اسی کام میں صرف کر دیتے۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب العلم باب التناوب فی العلم حدیث 89۔ جلد 1 صفحہ 165 از نظارت اشاعت ربوہ)

لیکن علامہ عینی بخاری کی شرح عمدۃ القاری میں تحریر کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پڑوسی حضرت عِتْبَان بن مالکؓ تھے لیکن صحیح یہ ہے کہ حضرت عمر کے پڑوسی اَوْس بن خَوَلِی تھے۔ (ماخوذاز عمدۃ القاری جلد 20صفحہ256 کتاب النکاح باب موعظۃ الرجل ابنتہ بحال زوجھا۔ حدیث 5191۔ دار الکتب العلمیہ بیروت 2001ء)

بہرحال حضرت عمرؓ نے تو اس کی روایت میں جو بیان فرمایا وہی بیان ہوتا ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ حضرت عِتْبَان بن مالِکؓ نے جب ان کی بینائی چلی گئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز باجماعت سے تَخَلُّف کی اجازت چاہی کہ آ نہیں سکتا، مسجد میں نہیں آ سکتا مجھے اجازت دی جائے۔ آپؐ نے فرمایا کیا تم اذان کی آوازسنتے ہو؟ حضرت عِتْبَانؓ نے کہا جی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اس کی اجازت نہیں دی۔ یہ مشہور حدیث ہے۔ اکثر پیش کی جاتی ہے۔ لیکن اس کی کچھ تفصیل بھی ہے۔ صحیح بخاری کی روایت سے پتا چلتا ہے کہ بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عِتْبَانؓ کو گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت مرحمت فرمائی تھی۔ شروع میں منع کیا پھر اجازت دے دی۔ چنانچہ بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عِتْبَان بن مَالِکؓ اپنی قوم کی امامت کیا کرتے تھے اور وہ نابینا تھے اور یہ کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسولؐ اللہ! اندھیرا اور سیلاب ہوتا ہے۔ بارش زیادہ ہو جاتی ہے۔ اندھیرا ہوتا ہے۔ نیچے وادی میں پانی بہہ رہا ہوتا ہے۔ میں نابینا ہوں۔ اس لیے یا رسولؐ اللہ! میرے گھر میں نماز پڑھیٔے جسے میں نمازگاہ بناؤں۔ ایک دن حاضر ہوئے اور یہ کہا میرا یہاں آنا مشکل ہو جاتا ہے آپؐ میرے گھر آئیں اور میرے گھر میں مَیں نے ایک جگہ بنائی ہے وہاں نماز پڑھ لیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور پوچھا تم کہاں پسند کرتے ہو کہ مَیں نماز پڑھوں؟ انہوں نے گھر میں ایک طرف اشارہ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ نماز پڑھی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد3 صفحہ 415 عِتْبَان بن مالک، دارالکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (صحیح بخاری کتاب الاذان باب الرخصۃ فی المطر و العلۃ ان یصلی فی رحلہ حدیث 667)

پس اگر خاص حالات میں گھر میں نماز کی اجازت دی تو وہاں بھی باقی روایتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ آپؓ لوگوں کو جگہ جمع کر کے وہاں نماز پڑھایا کرتے تھے کیونکہ موسم کی سختی کی وجہ سے، راستے کی روک کی وجہ سے لوگ مسجد میں جا نہیں سکتے تھے۔ تو عذر کوئی نہیں۔ اگر بعد میں اجازت دی بھی تھی تو اس لیے کہ وہاں ان کے گھر کے ایک حصہ میں باجماعت نماز ہو۔ چنانچہ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب صحیح بخاری کی کتاب الاذان کے بَابٌ الرُّخْصَۃُ فِیْ الْمَطَرِ وَالْعِلَّۃِ اَنْ یُّصَلِّیَ فِی رَحْلِہٖ یعنی بارش یا کسی اور سبب سے اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھنے کی اجازت کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں کہ امام موصوف (یعنی امام بخاری) معذوری کے وہ حالات پیش کر رہے ہیں جن میں باجماعت نماز پڑھنے سے مستثنیٰ کیا جانا چاہیے تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی گھر میں تنہا پڑھنے کی اجازت نہیں دی، (یہ اِذن نہیں دیا کہ گھر میں اکیلے پڑھ لیا کرو) حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ حتی الامکان احکام کے نفاذ میں سہولت مدّنظر رکھتے تھے۔ یہی ہوتا تھا کہ دین کے معاملے میں جہاں آسانی پیدا ہو سکتی تھی وہاں آسانی پیدا کی جائے لیکن آپؐ نے ان کو علیحدہ پڑھنے کی اجازت نہیں دی۔ اجازت دی بھی تو اس صورت میں کہ باجماعت پڑھنی ہے۔

پھر لکھتے ہیں کہ حضرت عِتْبَانؓ نابینا تھے۔ راستے میں نالہ بہتا تھا اور بعض روایتوں میں آتا ہے کہ انہوں نے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت مانگی تو آپؐ نے انہیں اجازت دی مگر باجماعت نماز پڑھنے کی صورت میں۔ یہ فرمایا کہ باجماعت نماز پڑھو گے تو اجازت ہے۔ پھر آپؓ لکھتے ہیں کہ اگر نماز فریضہ تنہا پڑھی جا سکتی تھی تو آپؐ حضرت عِتْبَانؓ کو معذور سمجھ کر گھر میں تنہا نماز پڑھنے کی ضرور اجازت دیتے۔ (ماخوذ از صحیح بخاری جلد2 صفحہ 66 کتاب الاذان باب الرخصۃ فی المطر و العلۃ ان یصلی فی رحلہ حدیث 667۔ از نظارت اشاعت ربوہ)