حضرت عکاشہؓ بن مِحصن
حضرت عکاشہؓ بن محصن کا شمار کبار صحابہ میں ہوتا ہے۔ آپ بدر کے موقع پر گھوڑے پر سوار ہو کر شامل ہوئے۔ اس دن آپ کی تلوار ٹوٹ گئی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ایک لکڑی دی تو وہ آپ کے ہاتھ میں گویا نہایت تیز اور صاف لوہے کی تلوار بن گئی اور آپ اسی سے لڑے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی۔ پھر اسی تلوار کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تمام غزوات میں شامل ہوئے اور یہ لکڑی کی تلوار وفات تک آپ کے پاس ہی تھی۔ اس تلوار کا نام عون تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بشارت دی تھی کہ تم جنت میں بغیر حساب کے داخل ہو گے۔ (اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 64-65عکاشہ بن محصن مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء) غزوہ بدر کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ عرب کا بہترین شہسوار ہمارے ساتھ شامل ہے۔ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ وہ کون شخص ہے؟ فرمایا عکاشہ بن محصن۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ 435 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2001ء)
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا کہ میری امّت سے ایک گروہ جنت میں داخل ہو گا۔ وہ ستّر ہزار ہوں گے اور ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے۔ حضرت ابوہریرۃؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عکاشہ بن محصن اپنی چادر اٹھاتے ہوئے کھڑے ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ سے دعا کریں کہ مجھے بھی ان میں سے بنا دے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! اسے بھی ان میں شامل کر دے۔ پھر انصار میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعا کریں کہ مجھے بھی ان میں سے بنا دے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سَبَقَکَ بِھَا عُکَاشَہ۔ کہ عکاشہ اس بارے میں تجھ پر سبقت لے گیا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب الدلیل علیٰ دخول طوائف من المسلمین الجنۃ بغیر حساب ولا عذاب حدیث 369)
اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے اپنی سیرت کی کتاب میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ذکر ہواکہ میری اُمّت میں سے ستّر ہزار لوگ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ یعنی وہ ایسے روحانی مرتبہ پر فائز ہوں گے کہ ان کے لئے خدائی فضل و کرم اس قدر جوش میں ہو گا کہ ان کے حساب کتاب کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ان لوگوں کے چہرے قیامت کے دن اس طرح چمکتے ہوں گے جس طرح چودہویں رات کا چاند آسمان پر چمکتا ہے۔ اس پر حضرت عکاشہؓ نے عرض کیا کہ میرے لئے بھی دعا کریں اور آپ نے دعا کی کہ ان کو بھی ان میں شامل کر دے۔ اس پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بڑے خوبصورت رنگ میں اس کی تفسیربیان کی ہے اور تجزیہ کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کا یہ ایک بظاہر چھوٹا سا واقعہ اپنے اندر بہت سے معارف کا خزانہ رکھتا ہے۔ کیونکہ اوّل تو اس سے یہ علم حاصل ہوتا ہے کہ اُمّت محمدیہ پر اللہ تعالیٰ کا اس درجہ فضل و کرم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی فیض اس کمال کو پہنچا ہوا ہے کہ آپ کی اُمّت میں سے ستّر ہزار آدمی ایسا ہو گا جو اپنے نمایاں روحانی مقام اور خدا کے خاص فضل و کرم کی وجہ سے گویا قیامت کے دن حساب و کتاب کی پریشانی سے بالا سمجھا جائے گا۔ (ستّر ہزار سے یہ بھی مراد لی جاتی ہے کہ ایک بڑی تعداد ہو گی۔) دوسرے اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کے دربار میں ایسا قرب حاصل ہے کہ آپ کی روحانی توجہ پر خدا تعالیٰ نے فوراً بذریعہ کشف یا القاء آپ کو یہ علم دے دیا کہ عُکاشہ بھی اس ستّر ہزار کے گروہ میں شامل ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ عُکاشہ پہلے اس گروہ میں شامل نہ ہو مگر آپ کی دعا کے نتیجہ میں خدا نے اسے یہ شرف عطا کر دیا ہو۔ تیسرے اس واقعہ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا اس درجہ ادب ملحوظ تھا اور آپ اپنی اُمّت میں جدوجہد کے عمل کو اس درجہ ترقی دینا چاہتے تھے کہ جب عُکاشہ کے بعد ایک دوسرے شخص نے آپ سے اسی قسم کی دعا کی درخواست کی تو آپ نے اس اَخَص روحانی مقام کے پیش نظر جو اس پاک گروہ کو حاصل ہے مزید انفرادی دعا سے انکار کر دیااور مسلمانوں کو تقویٰ اور ایمان اور عمل صالح میں ترقی کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ اور یہ بتایا کہ اگر اس طرف توجہ رہے گی تو تمہیں مقام مل سکتا ہے۔ چوتھے اس سے آپ کے اعلیٰ اخلاق پر (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق پر) بھی غیر معمولی روشنی پڑتی ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار ایسے رنگ میں نہیں کیا جس سے سوال کرنے والے انصاری کی دل شکنی ہو بلکہ ایک نہایت لطیف رنگ میں اس بات کو ٹال دیا۔‘‘ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ 667 تا 668)
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عُکاشہ کو مختلف سرایا میں، جنگوں میں جو فوجیں بھیجی جاتی تھیں ان میں امیر بنا کر بھیجا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ربیع الاول چھ ہجری میں حضرت عُکاشہ کو چالیس مسلمانوں کا افسر بنا کر قبیلہ بنی اسد کے مقابلے پر روانہ فرمایا۔ یہ قبیلہ ایک چشمہ کے قریب ڈیرہ ڈالے پڑا تھا جس کا نام غمر تھا جو مدینہ سے مکہ کی سمت میں چند دن کے فاصلے پر تھا۔ عُکاشہ کی پارٹی جلدی جلدی سفر کر کے قریب پہنچی تا کہ انہیں شرارت سے روکا جائے تو معلوم ہوا کہ قبیلے کے لوگ مسلمانوں کی خبر پا کر اِدھر اُدھر منتشر ہو گئے تھے۔ اس پر عُکاشہ اور ان کے ساتھی مدینہ کی طرف واپس لوٹ آئے اور کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔‘‘ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ 666) یعنی جو الزام لگایا جاتا ہے کہان لوگوں کو یا مسلمانوں کو جنگوں کا خاص شوق تھا۔ لیکن ان لوگوں نے ان سے بلا وجہ کی جنگ ہونے کی بھی کوشش نہیں کی۔
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ النصر نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کو اذان دینے کا حکم دیا۔ نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا جسے سن کر لوگ بہت روئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اے لوگو میں کیسا نبی ہوں؟ اس پر ان لوگوں نے کہا اللہ آپ کو جزا دے۔ آپ سب سے بہترین نبی ہیں۔ آپ ہمارے لئے رحیم باپ کی طرح اور شفیق اور نصیحت کرنے والے بھائی کی طرح ہیں۔ آپ نے ہم تک اللہ کے پیغام پہنچائے اور اس کی وحی پہنچائی اور حکمت اور اچھی نصیحت سے ہمیں اپنے رب کے راستے کی طرف بلایا۔ پس اللہ آپ کو بہترین جزا دے جو وہ اپنے انبیاء کو دیتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے مسلمانوں کے گروہ! مَیں تمہیں اللہ کی اور تم پر اپنے حق کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ اگر کسی پر میری طرف سے کوئی ظلم یا زیادتی ہوئی ہو تو وہ کھڑا ہو اور میرے سے بدلہ لے۔ مگر کوئی کھڑا نہ ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری بار قسم دے کر کہا مگر کوئی کھڑا نہ ہوا۔ آپ نے تیسری بار پھر فرمایا کہ اے مسلمانوں کے گروہ! مَیں تمہیں اللہ اور تم پر اپنے حق کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ اگر کسی پر میری طرف سے کوئی ظلم یا زیادتی ہوئی ہو تو وہ اٹھے اور قیامت کے دن کے بدلہ سے پہلے میرے سے بدلہ لے۔ اس پر لوگوں میں سے ایک بوڑھے شخص کھڑے ہوئے جن کا نام عُکاشہ تھا۔ آپ مسلمانوں میں سے ہوتے ہوئے آگے آئے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رُوبرو کھڑے ہو گئے اور عرض کی۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ اگر آپ نے بار بار قسم نہ دی ہوتی تو میں ہرگز کھڑا نہ ہوتا۔ حضرت عکاشہ کہنے لگے۔ میں آپ کے ساتھ ایک غزوہ میں تھا جس سے واپسی پر میری اونٹنی آپ کی اونٹنی کے قریب آ گئی تو میں اپنی سواری سے اتر کر آپ کے قریب آیا تا کہ آپ کے پاؤں کو بوسہ دوں۔ مگر آپ نے اپنی چھڑی ماری جو میرے پہلو میں لگی۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ چھڑی آپ نے اونٹنی کو ماری تھی یا مجھے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے جلال کی قسم کہ خدا کا رسول جان بوجھ کر تجھے نہیں مار سکتا۔ پھر آپ نے حضرت بلالؓ کو مخاطب کر کے فرمایا اے بلال! فاطمہؓ کی طرف جاؤ۔ (حضرت فاطمہؓ کے گھر میں) اور اس سے وہ چھڑی لے آؤ۔ حضرت بلالؓ گئے اور حضرت فاطمہؓ سے عرض کی کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی! مجھے چھڑی دے دیں۔ اس پر حضرت فاطمہؓ نے کہا اے بلال! میرے والد اس چھڑی کے ساتھ کیا کریں گے؟ کیا یہ جنگ کے دن کی بجائے حج کا دن نہیں۔ اس پر حضرت بلالؓ نے کہا کہ اے فاطمہ آپ اپنے باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنی بے خبر ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو الوداع کہہ رہے ہیں اور دنیا چھوڑ کر جا رہے ہیں اور اپنا بدلہ دے رہے ہیں۔ اس پر حضرت فاطمہ نے حیرانگی سے پوچھا اے بلال! کس کا دل کرے گا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بدلہ لے۔ پھر حضرت فاطمہ نے کہا کہ اے بلال !حسن اور حسین سے کہو کہ وہ اس شخص کے سامنے کھڑے ہو جائیں کہ وہ ان دونوں سے بدلہ لے لے اور وہ اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بدلہ نہ لینے دیں۔ پس حضرت بلال مسجد آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھڑی پکڑا دی اور آپ نے وہ چھڑی عُکاشہ کو پکڑائی۔ جب حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نے یہ منظر دیکھا تو وہ دونوں کھڑے ہو گئے اور کہا اے عکاشہ !ہم تمہارے سامنے کھڑے ہیں۔ ہم سے بدلہ لے لو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ نہ کہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے فرمایا: اے ابوبکر اور عمر رک جاؤ۔ اللہ تم دونوں کے مقام کو جانتا ہے۔ اس کے بعد حضرت علیؓ کھڑے ہوئے اور کہا اے عکاشہ! میں نے اپنی ساری زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گزاری ہے اور میرا دل گوارا نہیں کرتا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مارو۔ پس یہ میرا جسم ہے میرے سے بدلہ لے لو اور بیشک مجھے سو بار مارو مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بدلہ نہ لو۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے علی بیٹھ جاؤ۔ اللہ تمہاری نیت اور مقام کو جانتا ہے۔ اس کے بعد حضرت حسن اور حسین کھڑے ہوئے اور کہا اے عکاشہ! ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے ہیں اور ہم سے بدلہ لینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بدلہ لینے کے جیسا ہی ہے۔ آپ نے ان دونوں سے فرمایا۔ اے میرے پیارو! بیٹھ جاؤ۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا اے عکاشہ مارو۔ حضرت عکاشہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آپ نے مجھے مارا تھا تو اس وقت میرے پیٹ پر کپڑا نہیں تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیٹ پر سے کپڑا اٹھایا۔ اس پر مسلمان دیوانہ وار رونے لگ گئے اور کہنے لگے کیا عکاشہ واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مارے گا؟ مگر جب حضرت عُکاشہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن کی سفیدی دیکھی تو دیوانہ وار لپک کر آگے بڑھے اور آپ کے بدن کو چُومنے لگے اور عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کس کا دل گوارا کر سکتا ہے کہ وہ آپ سے بدلہ لے۔ اس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا بدلہ لینا ہے یا معاف کرنا ہے۔ اس پر حضرت عُکاشہ نے عرض کی یا رسول اللہ! میں نے معاف کیا اس امید پر کہ اللہ قیامت کے دن مجھے معاف فرما دے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ جو جنت میں میرا ساتھی دیکھنا چاہتا ہے وہ اس بوڑھے شخص کو دیکھ لے۔ پس مسلمان اٹھے اور حضرت عُکاشہ کا ماتھا چومنے لگے اور ان کو مبارکباد دینے لگے کہ تو نے بہت بلند مقام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کو پا لیا۔‘‘ (مجمع الزوائد جلد 8 صفحہ 429 تا 431 کتاب علامات النبوۃ حدیث 14253 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2001ء)
یہ تھے حضرت عکاشہ کہ انہوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنی واپسی کی خبریں سنا رہے ہیں اور اب پتہ نہیں کبھی موقع ملتا ہے کہ نہیں ملتا۔ انہوں نے کہا کہ زندگی میں یہ موقع ہے کہ آپ کے جسم کو نہ صرف چوموں بلکہ بوسہ دوں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ کی خلافت میں حضرت خالد بن ولید کے ساتھ حضرت عُکاشہ مرتدّین کی سرکوبی کے لئے روانہ ہوئے۔ عیسیٰ بن عُمَیْلہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید لوگوں کے مقابلے پر روانہ ہوتے وقت اگر اذان سنتے تو حملہ نہ کرتے اور اگر اذان نہ سنتے تو حملہ کر دیتے۔ جب آپ رضی اللہ عنہ اس قوم کی طرف پہنچے جو بُزَ اخَہ مقام پر تھی تو آپ نے حضرت عُکاشہ بن محصن اور حضرت ثابت بن اَقْرَم کو مخبر بنا کر بھیجا کہ دشمن کی خبرلائیں۔ وہ دونوں گھوڑوں پر سوار تھے۔ حضرت عکاشہ کے گھوڑے کا نام الرَّزَام تھا اور حضرت ثابت کے گھوڑے کا نام اَلْمُحَبَّر۔ ان دونوں کا سامنا طُلیحہ اور اس کے بھائی سلمہ سے ہوا جو مسلمانوں کی مخبری کرنے کے لئے لشکر سے آگے آئے ہوئے تھے۔ طُلیحہ کا سامنا حضرت عکاشہ سے ہوا اور سلمہ کا سامنا حضرت ثابت سے ہوا اور ان دونوں بھائیوں نے ان دونوں اصحاب کو شہید کر دیا۔ ابو واقداللَّیثی بیان کرتے ہیں کہ ہم دو سو سوار لشکر کے آگے آگے چلنے والے تھے ہم ان مقتولوں، حضرت ثابت اور حضرت عکاشہ کے پاس کھڑے رہے یہانتک کہ حضرت خالد آئے اور ان کے حکم سے ہم نے حضرت ثابت اور حضرت عکاشہ کو ان کے خون آلودکپڑوں میں ہی دفن کر دیا۔ یہ واقعہ 12ہجری کا ہے۔‘‘ اس طرح ان کی شہادت ہوئی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 245 ثابت بن اقرم مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)