عیدالفطر ۔ تکبیر و تہلیل اور تشکر کا دن
نصیر احمد قمر
رمضان کا نہایت ہی مقدس مہینہ اپنے ساتھ مخصوص غیر معمولی رحمتوں اور برکتوں سے مومنین کو فیضیاب کرتے ہوئے ہم سے رخصت ہوا اور آج عید کا مبارک روز ہے۔ خدا کے وہ بندے جو پورا ایک ماہ اس کے حکم کے تابع، اس کی مرضی کے موافق ، ہر روز ایک معین وقت کے لئے کھانے پینے اور دیگر جائز اور حلال چیزوں کے استعمال سے رکتے رہے آج اُس عدّت کے پورا ہونے پر ، اُسی کے حکم سے رمضان کے روزے ختم کر کے عیدالفطر منا رہے ہیں۔ اور اس بات پر خوش ہیں کہ انہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر کرد ہ ایک فریضہ کی ادائیگی کی توفیق نصیب ہوئی۔ وہ پُرامید ہیں کہ مولا کریم اپنے بے پایاں فضل اور رحم کے ساتھ اُن کی اُن تمام مناجات کو شرف قبولیت بخشے گا جو مناجات انہیں رمضان کے خصوصی ایام میں اُس کے حضور پیش کرنے کی توفیق اور سعادت عطا ہوئی۔
عام طورپر لوگ خیال کرتے ہیں کہ مسلمان عیدالفطر کی خوشی اس لئے مناتے ہیں کہ رمضان کے روزوں کی بھوک ، پیاس اور دوسری خصوصی پابندیوں کی قید سے نجات ملی اور اب وہ آزاد ہیں کہ جو چاہیں کریں اور جس طرح چاہیں کھانے پینے اور دیگر امور میں تمام شرعی حدود و قیود کو پھلانگتے پھریں۔ یہ تصور جاہلانہ تصور ہے اور رمضان اور روزہ کی حقیقی غرض و غایت سے عدم واقفیت پر دلالت کرتا ہے۔ اس قسم کے تصور کے حامل مسلمان ہی ہیں جن کے روزے ان کی زندگیوں میں ذرہ بھر بھی پاک تبدیلی نہیں کرتے کیونکہ ان کا روزہ محض بھوکا اور پیاسا رہنے کی حد تک ہوتا ہے اور وہ ایک رسم کے طور پر اسے رکھتے ہیں۔ چنانچہ اگر آپ اپنے ماحول میں ایسے لوگوں کی زندگی پر، ان کی سوسائٹی پر ، ان کی معاشرتی زندگی پر نظر ڈال کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ عملاًوہ رمضان میں بھی ایسے بہت سے افعال قبیحہ کے مرتکب ہوتے رہے ہیں جن سے خدا تعالیٰ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ اور اُن افعال کے مرتکبین کے لئے خدا کے کلام میں سخت وعید یں آئی ہیں۔
جہاں تک جماعت احمدیہ مُسلمہ کا تعلق ہے تو ہماری عید کی خوشی اس وجہ سے ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے یہ توفیق بخشی کہ اُس کے حکم سے، اُس کی رضا کی خاطر روزے رکھیں۔ اس لئے آ ج ہمارا افطار کرنا بھی اُسی کے حکم کے تابع ہے۔ ہماری حقیقی خوشی خدا کے حکموں کی اطاعت و فرمانبرداری میں مضمر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عید کی خوشی میں ہم بعض دیگر مسلمانوں کی طرح فضول، لغو اور بیہودہ ناچ گانے کی مجالس یا پُرتعیش دعوتوں میں منہمک نہیں ہوتے بلکہ جیسا کہ خداتعالیٰ کا منشاء ہے ہماری توجہ خدا کی تکبیر و تحمید اور اس کے ذکر اور شکر کی طرف پہلے سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں مومنین سے ایسی ہی خوشی منانے کی توقع رکھی گئی ہے۔ چنانچہ جہاں رمضان کے روزوں کی فرضیت کا حکم دیا گیا اور روزے سے متعلق مختلف احکامات بیان فرمائے گئے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’وَلتُکْمِلُو ا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوااللّٰہَ عَلیٰ مَا ھَدَاکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْن‘‘۔ (البقرہ: ۱۸۶) یعنی اس حکم کی غرض یہ ہے کہ تم ایک مقررہ عِدّت کو پورا کرو اور اس بات پر اللہ کی بڑائی کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی ہے اور تا کہ تم شکر کرو۔
پس بہت ہی خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں اللہ کی منشاء کے مطابق، اُس کی رضا کی خاطر روزوں کی عدّت پورا کرنے کی توفیق عطا ہوئی اور اس سعادت کے ملنے پر وہی ہیں جوخوشی کے جذبات سے معمور اللہ کی تکبیر کر رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے انہیں ہدایت بخشی اور اپنی رضا کی راہیں ان کے لئے کھولیں اور ان پر چلنے کی ہمت اور طاقت بخشی۔ چنانچہ رمضان میں ملنے والی سعادتوں پر نظر کرتے ہوئے ان کے دل حمد اورشکر سے لبریز ہیں ۔ اور اَللّٰہُ اَکْبَر، اَللّٰہُ اَکْبَر ، لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ،وَاللّٰہُ اَکْبَر،اَللّٰہُ اَکْبَر وَلِلّٰہِ الْحَمْد کے پاکیزہ ورد سے مومنوں کی زبانیں تر ہیں۔ آئیے اس نہایت عظمت رکھنے والے خدا تعالیٰ کی کبریائی اور اس کی توحید اور اس کی حمد کے ذکر کو اس میں پنہاں معانی و مطالب میں ڈوبتے ہوئے دل کی گہرائیوں سے بلند کریں اور اس کی تکبیر کرتے ہوئے اور سجدات شکر بجا لاتے ہوئے عید کے ان ایام کوگزاریں کہ اُس کا وعدہ ہے کہ اگر تم شکر کروگے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا۔
ہماری حقیقی عید اور سچی خوشی اس بات میں ہے کہ ساری دنیا ہمارے ساتھ مل کر خدا تعالیٰ کی تکبیر اور تحمید کے گیت گائے۔ پس اے خدا تو ہمیں اپنی آنکھوں سے وہ دن دکھا کہ ساری دنیا تیری تکبیر اور توحید اورحمد کے ترانوں سے گونجنے لگے۔ ہمارے پیارے امام ایدہ اللہ کی زیر قیادت ہم سب کو اس عظیم الشان عالمی مہم کے سلسلہ میں اپنے فرائض کی بطریق احسن بجا آوری کی توفیق بخش۔ لوگوں کے دلوں پر خود الہام فرما کہ وہ سچائی کو دیکھیں اور اسے قبول کریں۔ لَاالٰہَ اِلاَّ اللّٰہ وَحْدَہُ لا شَرِیْکَ لَہُ ۔ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر۔
(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۳۰؍جنوری ۱۹۹۸ء تا۵؍فروری ۱۹۹۸ء)