عیسائی چرچوں کو درپیش مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ اس کے عقائد میں معقولیت کی تلاش ہے
چوہدری خالد سیف اللہ خان
ایک حالیہ سروے کے مطابق اگرچہ آسٹریلیا کے ۷۴ فیصد لوگ خدا کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں مگر صرف ۴۲ فیصد یسوع مسیح کی الوہیت اور مُردوں میں سے دوبارہ جی اٹھنے کے قائل ہیں۔ جنت کے وجود کو صرف ۵۳فیصد مانتے ہیں اور جہنم کو ۳۲ فیصد۔ شیطان کے خارجی وجود کو صرف ۳۳ فیصد تسلیم کرتے ہیں ۔ اس خبر پر سڈنی مارننگ ہیرلڈ نے اپنے اداریہ میں یوں تبصرہ کیا ہے :
’’اس ہفتہ کے آغاز میں ہیرلڈ نے ایک حالیہ سروے کے جو نتائج شائع کئے تھے ان سے معلوم ہوتاہے کہ اگرچہ آسٹریلیا کے شہریوں کا تین چوتھائی حصہ خدا کے وجود پر ایمان رکھتاہے لیکن نصف سے بھی کم ایسے ہیں جو عیسائیت کے مرکزی عقائد پر ایمان رکھتے ہیں ۔ چنانچہ نیشنل چرچ لائف سروے(NCLS)نے ایڈتھ کوون یونیورسٹی پرتھ کے ساتھ مل کر جو سروے کیا ہے اسکے مطابق صرف ۴۳فیصد یہ مانتے ہیں کہ یسوع مُردوں میں سے جی اٹھا تھا اوراس سے بھی کچھ کم (۴۲) فیصد یسوع کی خدائی پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ تو معلوم شدہ بات ہے کہ گزشتہ مردم شماری میں ۷۰فیصد شہریوں نے اپنا مذہب عیسائیت لکھوایا تھا تو پھر یہ اعدادو شمار کیا ظاہر کرتے ہیں؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ عیسائی چرچوں کو ایک گھمبیر چیلنج کا سامنا ہے ۔ عیسائیت کا اصل مسئلہ اس کے عقائد میں معقولیت کی تلاش ہے (Christianity has a Plausibility Problem)۔یہ ابھی تک کائنات کے اس تصور سے چمٹی ہوئی ہے جو جدید سائنس کی نسبت زمانہ وسطی کے توہمات کے زیادہ قریب ہے ۔ چرچ سکھاتاتویہ ہے کہ سب کو اپنے دائرہ کے اندر لانا چاہئے لیکن خود اس کا اپنا عمل لوگوں کو اپنے دائرہ سے باہر نکالنے کا ہے۔(سب سے نمایاں مثال عورتوں کی مذہبی رسومات اور اس کے تنظیمی ڈھانچہ میں بھرپور شمولیت کی ہے )۔ پھر عیسائیت بظاہر جماعت کی وحدت کی اہمیت کو برقرار رکھنے کا دعویٰ کرتی ہے مگر باوجودیکہ اس پرتیسرا ہزار سال شروع ہونے والاہے یہ کئی گروہوں میں منقسم ہے اور باوجود ایک مشترکہ مقصد کے ادّعا کے انہوں نے اپنے اختلافات حل کرنے کی کوئی راہ اب تک نہیں نکالی۔
دوسری بات جو سروے سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ چرچوں کو درپیش چیلنج صرف انہی تک محدود نہیں بلکہ یہ سبھی مروّجہ مذاہب کا مسئلہ ہے ۔ ان سب کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے ۔ مذکورہ بالا ادارہ کے مطابق ۱۶فیصدسے بھی کم آسٹریلین ایسے ہیں جو مہینہ میں ایک بار بھی چرچ جانے کی تکلیف گوارا کرتے ہیں اور اگرلوگ چرچ نہیں جاتے تو یہ خیال کرنا درست ہوگا کہ وہ چرچ کے قائدین کی باتوں کو بھی کم ہی درخود اعتنا جانتے ہیں۔ نیز و ہ اس اخلاقی تعلیم پر معترض ہیں جن کوقبول کرنا وہ دوبھر سمجھتے ہیں۔
بایں ہمہ یہ احساس بھی شدید ہے کہ انسان کوزندگی گزارنے کے لئے مذہب کی بھی ضرورت ہے۔(There is a religious dimension to life)۔اس سے ظاہرہوتاہے کہ لوگوں کی اکثریت خدا کی موجودگی پر یقین رکھتی ہے ۔چنانچہ ایسٹر اور کرسمس پر چرچوں میں حاضری بڑھ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ماوراء طبعی امور میں لوگوں کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ جس کو اس بات میں شک ہو وہ اس بات پر غور کریں کہ آج کل کتنے رنگ برنگ کے ’’مذاہب‘‘وجود میں آ رہے ہیں اور Spiritualityکے موضوع پر مارکیٹ میں کتابوں کی کتنی بھرمارہے ۔
(سڈنی مارننگ ہیرلڈ ۹۹۔۴۔۲)
(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل۲۸؍مئی۱۹۹۹ء تا۳؍جون ۱۹۹۹ء)