حضرت قدامہ بن مظعونؓ
حضرت قدامہ بن مظعون حضرت عثمان بن مظعون کے بھائی ہیں اور حضرت عمرؓ کی بہن حضرت صفیہ آپ کے عقد میں تھیں ۔(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 5 صفحہ 322- 323 قدامہ بن مظعون دار الکتب العلمیۃ بیروت1995ء) حضرت قدامہ بن مظعون کی ایک سے زائد شادیاں تھیں ۔ ایک اہلیہ ہند بنت ولید تھیں جن سے عمر اور فاطمہ پیدا ہوئے۔ ایک بیوی فاطمہ بنت ابو سفیان تھیں جن سے آپ کی بیٹی عائشہ پیدا ہوئیں ۔ اسی طرح ام ولد کے بطن سے حفصہ اور حضرت صفیہ بن خطاب کے بطن سے حضرت رملہ پیدا ہوئیں ۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3صفحہ306 ومن بنی جمح بن عمرو… ’’قدامۃ بن مظعون‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت1990ء)قبول اسلام کے وقت ان کی عمر انیس برس کی تھی، گویا عین جوانی میں ہی انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور ہجرت مدینہ کے وقت آپ کا سارا خاندان مکّہ میں اپنے مکانوں کو بالکل خالی چھوڑ کر مدینہ چلا گیا۔ مدینہ میں حضرت عبداللہ بن سلمہ عجلانی نے اس خاندان کو اپنا مہمان بنایا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو آپ نے حضرت قدامہ اور ان کے بھائیوں کو مستقل رہائش کے لئے قطعات زمین مرحمت فرمائے۔(ستر ستارے از طالب الہاشمی صفحہ66-67 البدر پبلی کیشنز لاہور) حضرت قدامہؓ ابتدائی ایمان لانے والوں میں سے تھے۔ دونوں ہجرتوں یعنی ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ میں شامل ہوئے۔ ان کو غزوہ بدر اور احد سمیت تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شامل ہونے کی توفیق ملی۔(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد5صفحہ322 قدامہ بن مظعون دار الکتب العلمیۃ بیروت1995ء)،(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3صفحہ306 ومن بنی جمح بن عمرو… ’’قدامۃ بن مظعون‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت1990ء)
جب حضرت عثمان بن مظعون کی وفات ہوئی تو آپ نے اپنے پیچھے ایک بیٹی چھوڑی جس کے متعلق آپ نے اپنے بھائی حضرت قدامہ کو تاکیدی نصیحت فرمائی۔ اس کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن مظعون اور حضرت قدامہ دونوں میرے ماموں تھے۔ پس میں حضرت قدامہ کے پاس گیا اور ان سے درخواست کی کہ حضرت عثمان بن مظعون کی بیٹی کا نکاح مجھ سے کر دیں تو آپ نے مجھ سے بات پکی کر دی، رشتہ ہو گیا۔ مغیرہ بن شعبہ اس لڑکی کی والدہ کے پاس گئے اور انہیں مالی لحاظ سے رغبت دلائی اور لڑکی کی رائے بھی اپنی والدہ کے حق میں تھی، ایک اور رشتہ آیا اور لڑکی کی والدہ اور لڑکی کی رغبت یا رشتہ کرنے کارجحان دوسری طرف تھا۔ یہ معاملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت قدامہ کو بلا بھیجا اور اس رشتہ کے بارے میں ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ میرے بھائی کی بیٹی ہے۔ مَیں اس کے لئے رشتہ چننے میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گا۔ میرے بھائی کی بیٹی ہے اوروہ فوت ہو گیاہے ،مَیں اس کے رشتے کے لئے جو بہترین ہو گا وہی کروں گا چنانچہ میں نے جو پہلے ہاں کر دی ہے اس کو بہتر سمجھ کے کی ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ یتیم بچی ہے اس کی شادی اس کی مرضی سے ہو گی۔ اس کا باپ نہیں ہے، ٹھیک ہے تم نے بہترین کیا ہو گا لیکن اس بچی کی مرضی بھی پوچھو۔ دونوں رشتوں میں سےجہاں بچی کہے گی وہاں شادی ہو گی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد یہ فیصلہ کیا۔ یہ راوی جنہوں نے پہلے خود پیغام بھیجا تھا، رشتہ دار تھے، بھانجے تھے بیان کرتے ہیں کہ میرے بجائے اس کا نکاح مغیرۃ سے کر دیا،(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد5صفحہ323 قدامہ بن مظعون دار الکتب العلمیۃ بیروت1995ء) دوسرا رشتہ جو پسند تھا اس کی ماں کو اورلڑکی کو اس سے رشتہ ہو گیا۔ تو یہ عورت کی آزادی رائے تھی جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا اور جو یتیم ہے اس کا خاص طور پر خیال رکھنے کو کہا کہ باپ کا سایہ اس پر نہیں ہے تو زیادتی نہ ہو جائے اس لئے لڑکی مرضی بہرحال دیکھی جانی چاہئے۔
حضرت قدامہ نے 36 ہجری میں 68 سال کی عمر میں وفات پائی۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد4 صفحہ376قدامۃ بن مظعون، دار الکتب العلمیۃ بیروت)