قدرت ثانیہ کے دور خامس کا مبارک آغاز
تقدیر ربانی کے چمکتے ہوئے نشانوں کا غیر معمولی اجتماع
مولانا دوست محمد شاہد، مؤرخ احمدیت
سنو اب وقت توحید اتم ہے
ستم اب مائل ملک عدم ہے
خدا نے روک ظلمت کی اٹھا دی
فسبحان الذی اخزی الاعادی
عصرحاضر کے امام موعود سیدنا مسیح موعود نے ’’الوصیت‘‘ صفحہ 7-6میں قدرت ثانیہ کی نسبت یہ مہتم بالشان بشارت دی کہ :۔
’’تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔‘‘
حضرت مصلح موعود نے8ستمبر1950ء کو وکٹوریہ روڈ میگزین لین کراچی میں نئی تعمیر شدہ بیت میں پہلا خطبہ جمعہ دیتے ہوئے نہایت پرشوکت انداز میں اس بشارت پر روشنی ڈالی چنانچہ فرمایا:۔
’’ حضرت مسیح موعود … نے فرمایا کہ میں تو جاتا ہوں ۔ لیکن خدا تمہارے لئے قدرت ثانیہ بھیج دے گا۔ مگر ہمارے خدا کے پاس قدرت ثانیہ ہی نہیں۔ اس کے پاس قدرت ثالثہ بھی ہے اور اس کے پاس قدرت ثالثہ ہی نہیں ۔ اس کے پاس قدرت رابعہ بھی ہے۔ قدرت اولیٰ کے بعد قدرت ثانیہ ظاہر ہوئی۔ اور جب تک خدا اس سلسلہ کو ساری دنیا میں نہیں پھیلا دیتا۔ اس وقت تک قدرت ثانیہ کے بعد قدرت ثالثہ آئے گی۔ اور قدرت ثالثہ کے بعد قدرت رابعہ آئے گی۔ اور قدرت رابعہ کے بعد قدرت خامسہ آئے گی۔ اور قدرت خامسہ کے بعد قدرت سادسہ آئے گی۔ اور خدا تعالیٰ کا ہاتھ لوگوں کو معجزہ دکھاتا چلا جائے گا۔ اور دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت اور زبردست سے زبردست بادشاہ بھی اس سکیم اور مقصد کے راستہ میں کھڑا نہیں ہو سکتا۔ جس مقصد کے پورا کرنے کیلئے اس نے حضرت مسیح موعود … کو پہلی اینٹ بنایا اور مجھے اس نے دوسری اینٹ بنایا۔ رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا۔ کہ دین جب خطرہ میں ہوگا۔ تو اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کیلئے اہل فارس میں سے کچھ افراد کھڑا کرے گا ۔ حضرت مسیح موعود ان میں سے ایک فرد تھے۔ اور ایک فرد میں ہوں۔ لیکن رجالُ ٗ کے ماتحت ممکن ہے کہ اہل فارس میں سے کچھ اور لوگ بھی ایسے ہوں۔ جو دین کی عظمت قائم رکھنے اور اس کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کیلئے کھڑے ہوں۔ ‘‘(الفضل 8ستمبر1950ء صفحہ 6کالم 4)
اس روح پرور خطاب کے صرف چند روز بعد ہمارے امام عالی مقام سیدنا حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس کی 15ستمبر 1950ء کو ولادت ہوئی (قلمی نوٹ بک مرتبہ مولانا عبدالرحمن صاحب انور سابق پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفۃ المسیح صفحہ 9غیر مطبوعہ) اور چونکہ آپ کا مبارک و مقدس وجود رجالُ ٗ من فارس کا درخشندہ ثبوت و برھان بننے والا تھا اس لئے آپ کا اسم گرامی مسرور احمد رکھا گیا جو حضرت مسیح موعود کا الہامی نام ہے چنانچہ دسمبر 1907ء کو الہام ہوا۔
’’ میں تیرے ساتھ اور تیرے تمام پیاروں کے ساتھ ہوں۔ انی معک یا مسرور(یعنی اے مسرور میں تیرے ساتھ ہوں) آگے جو عربی کی الہامی عبارتیں ہیں اس میں یہ وعدہ بھی جناب الٰہی نے دیا کہ عنقریب ان کو آفاق میں بھی نشانات دکھلائیں گے۔‘‘ (بدر 19دسمبر1907ء صفحہ 5-4و الحکم 24دسمبر1907ء صفحہ 4تذکرہ طبع چہارم صفحہ 744)
اس ضمن میں اللہ جلشانہ کی زبردست تقدیر جس رنگ میں کار فرما ہونی مقدر تھی اس کا ذکر بھی 1903ء کے الہامات میں 21۔اپریل کے الہام میں ملتا ہے (یادرہے 21اپریل 2003ء ہی کو مولانا عطاء المجیب راشد صاحب سیکرٹری مجلس انتخاب خلافت لندن کی طرف سے 22اپریل کو اس کے انعقاد کا اعلان نہ صرف ایم ٹی اے پر بار بار نشر ہوا بلکہ الفضل ربوہ میں بھی شامل اشاعت ہوا)بہر کیف 21اپریل 1903ء کا الہام حضرت مسیح موعود کے قلم مبارک سے الحکم 24اپریل 1903ء صفحہ 12پر ایک صدی قبل شائع شدہ ہے کہ
’’یہ بات آسمان پر قرار پا چکی ہے تبدیل ہونے والی نہیں ‘‘
ازاں بعد اپریل 1903ء کے تیسرے عشرہ میں متعدد الہامات ہوئے جن میں مستقبل کے جلالی اور جمالی تغیرات کی طرف اشارہ کرنے کے بعد 30۔اپریل کو یہ عالمگیر اور پرمسرت خبر دی گئی کہ
’’اس میں تمام دنیا کی بھلائی ہے‘‘
(البدر8مئی 1903ء صفحہ 122تذکرہ صفحہ 471)
اس نئے انقلاب آفریں اور تاریخ ساز دور کی عالمگیر عظمت کا پہلا نمونہ حضور کی عالمی سطح پر بیعت اور عالمی سطح پر ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیا بھر میں اس کی منادی کی صورت میں جناب الٰہی کی طرف سے دکھلایا جا رہا ہے جس کی کوئی نظیر قبل ازیں قدرت ثانیہ کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ ؎
صاف دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں
اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوف کردگار
آخر میں مجھے یہ بتلانا لازم ہے کہ رسالہ ’’الوصیت‘‘ قدرت ثانیہ کے نظام آسمانی کے دائمی چارٹر کی حیثیت رکھتا ہے جسے ہمیں ہمیشہ زیر مطالعہ رکھنا از بس ضروری ہے۔ اس تاریخی رسالہ کے دو روح پرور اور ولولہ انگیز اقتباسات درج ذیل ہیں پہلے اقتباس میں قدرت ثانیہ کے آفاقی نظام کی غرض وغایت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور دوسرے میں عالمگیر جماعت احمدیہ کو نہ صرف ان کی بنیادی ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی گئی ہے بلکہ ان کیلئے عالمگیر غلبہ کی عدیم المثال پیشگوئی فرمائی گئی ہے ۔ سیدنا حضرت مسیح موعود نے تحریر فرمایا:۔
’’ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا۔ ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کیلئے میں دنیا میں بھیجا گیا ۔ سو تم اس مقصد کی پیروی کرو۔ مگر نرمی اور اخلاق اور دعائوں پر زور دینے سے ۔‘‘ (صفحہ 6:)
نیز فرمایا:۔
’’دیکھو میں خدا کی منشاء کے موافق تمہیں کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک قوم برگزیدہ ہو جاؤ گے۔ خدا کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ۔ اور اس کی توحید کا اقرار نہ صرف زبان سے بلکہ عملی طور پر کرو تاخدا بھی عملی طور پر اپنا لطف و احسان تم پر ظاہر کرے۔ کینہ وری سے پرہیز کرو۔ اور بنی نوع سے سچی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ۔ ہر ایک راہ نیکی کی اختیار کرو۔ نہ معلوم کس راہ سے تم قبول کئے جاؤ۔
تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے ۔ ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے۔ اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اس کی طرف دنیا کو توجہ نہیں۔ وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہوناچاہتے ہیں ان کیلئے موقعہ ہے کہ اپنے جوہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پاویں۔
یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دیگا۔ تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی۔اور ایک بڑادرخت ہو جائے گا ۔ پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعویٰ بیعت میں صادق اور کون کاذب ہے ۔ وہ جو کسی ابتلاء سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بدبختی اس کو جہنم تک پہنچائے گی۔ اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اس کے لئے اچھا تھا۔ مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کرینگے اور ان پر مصائب کے زلزلے آئیں گے۔ اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا ان سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی۔ وہ آخر فتحیاب ہونگے اور برکتوں کے دروازے ان پر کھولے جائیں گے۔‘‘ (الوصیت صفحہ9-8)
قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت
اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے
جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے