حضرت قطبہ بن عامرؓ
یہ انصاری تھے۔ عامر بن حدیدۃ کے بیٹے تھے۔ ان کی وفات حضرت عثمان کے دور خلافت میں ہوئی۔ ان کی والدہ کا نام زینب بنت عمرو ہے۔ آپ کی اہلیہ کا نام حضرت اُمّ ِعمرو ہے جن سے ایک بیٹی حضرت اُمِّ جمیل ہیں۔ بیعت عقبہ اولیٰ اور ثانیہ دونوں میں ہی شامل ہوئے اور آپ اُن چھ انصار صحابہ میں سے ہیں جو مکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے۔ ان سے قبل انصار میں سے کوئی مسلمان نہ ہوا تھا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 294 قطبہ بن عامرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
ان کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ ’سیرت خاتم النبیینؐ‘ میں اس طرح لکھا ہے کہ گیارہ نبوی کے ماہ رجب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ میں یثرب والوں سے یعنی مدینہ والوں سے پھر ملاقات ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب و نسب پوچھا تو معلوم ہوا کہ قبیلہ خزرج کے لوگ ہیں اور یثرب سے آئے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت محبت کے لہجے میں کہا کیا آپ لوگ میری کچھ باتیں سن سکتےہیں۔ انہوں نے کہا ہاں۔ آپ کیا کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور ان کو اسلام کی دعوت دی اور قرآن شریف کی چند آیات سنا کر اپنے مشن سے آگاہ کیا۔ ان لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ موقع ہے ایسا نہ ہو کہ یہود ہم سے سبقت لے جائیں اور یہ کہہ کر سب مسلمان ہو گئے۔ یہ چھ اشخاص تھے جن کے نام یہ ہیں۔ ابواُمامہ اسعد بن زُرارہ جو بنو نجار سے تھے اور تصدیق کرنے میں سب سے اول تھے۔ عوف بن حارث یہ بھی بنونجار سے تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کے ننھیال کا قبیلہ تھا۔ رافع بن مالک جو بنوزریق سے تھے۔ جو قرآن شریف نازل ہو چکا تھا وہ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو عطا فرمایا۔ قطبہ بن عامر جو بنی سلمہ سے تھے اور عقبہ بن عامر جو بنی حرام سے تھے اور جابر بن عبداللہ بن رئاب جو بنی عبید سے تھے۔ اس کے بعد یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت ہوئے اور جاتے ہوئے عرض کیا کہ ہمیں خانہ جنگیوں نے بہت کمزور کر رکھا ہے اور ہم میں آپس میں بہت نا اتفاقیاں ہیں۔ ہم یثرب میں جاکر اپنے بھائیوں میں اسلام کی تبلیغ کریں گے۔ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہم کو پھر جمع کردے۔ پھر ہم ہر طرح آپ کی مدد کے لئے تیار ہوں گے۔ چنانچہ یہ لوگ گئے اور ان کی وجہ سے یثرب میں اسلام کا چرچا ہونے لگا۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 221-222) کہتے ہیں جی اسلام نے آکر پھوٹ ڈال دی!؟ اسلام کی وجہ سے آپس کی پھوٹ اور فساد جو تھے اس کے ختم ہونے کا اظہار ان لوگوں نے کیا اور پھر یہ ہو بھی گیا اور وہی لوگ جو آپس کے دشمن تھے بھائی بھائی بن گئے۔ گزشتہ خطبہ میں بھی ایک مَیں نے ذکر کیا تھا کہ ان لوگوں کا آپس میں بھائی بھائی ہونا دشمن کی آنکھوں میں بڑا کھٹکتا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی لیکن پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سمجھانے سے اور آپ کی قوت قدسی سے ایک بھائی چارے کی فضا دوبارہ پیدا ہوئی۔
اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حضرت قطبہ کا شمار ماہر تیر اندازوں میں ہوتا ہے۔ آپ غزوہ بدر، اُحد، خندق اور دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔ غزوہ اُحد میں آپ جوانمردی سے لڑے۔ اس روز آپ کو نو (9) زخم آئے۔ فتح مکہ کے موقع پر بنو سلمہ کا جھنڈا آپ ہی کے ہاتھ میں تھا۔ غزوہ بدر میں حضرت قطبہ کی ثابت قدمی کا یہ عالم تھا کہ آپ نے دو صفوں کے درمیان ایک پتھر رکھا اور کہا کہ میں اس وقت تک نہیں بھاگوں گا جب تک یہ پتھر نہ بھاگے یعنی شرط لگا دی کہ میری جان جائے تو جائے میدان چھوڑ کر میں نے نہیں بھاگنا۔
ان کے بھائی یزید بن عامر تھے جو ستّر انصار کے ساتھ عقبہ میں شامل ہوئے تھے۔ حضرت یزید بدر اور اُحد میں بھی شریک ہوئے اور ان کی اولاد مدینہ اور بغداد میں بھی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 294 قطبہ بن عامرؓ و اخوہ یزید بن عامرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) ابو حاتم سے مروی ہے کہ حضرت قطبہ بن عامر نے حضرت عمر کے دور خلافت میں وفات پائی۔ جبکہ ابن حبّان کے نزدیک انہوں نے حضرت عثمان کے دور خلافت میں وفات پائی۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 5صفحہ 338مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء)