حضرت قَیْس بن السَّکَنْ اَنْصَارِیؓ
پھر ایک صحابی ہیں حضرت قَیْس بن السَّکَنْ اَنْصَارِی۔ ان کی کنیت ابوزید تھی۔ حضرت قَیْس کے والد کا نام سکن بن زَعُوْرَاء تھا۔ آپ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو عَدِی بن نجار سے تھا۔ حضرت قَیْس اپنی کنیت ابوزید سے زیادہ مشہور تھے۔ آپ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد اور غزوہ خندق اور باقی تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔ آپ کا شمار ان صحابہ میں ہوتا ہے جنہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قرآن مجید جمع کیا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 389 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)(اسد الغابہ جلد 4صفحہ 406 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)(اصابہ جلد صفحہ 5مطبوعہ 362دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
حضرت انس بن مالک کہتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں انصار میں سے چار اصحاب نے قرآن کریم جمع کیا اور وہ چار اصحاب زید بن ثابت، مُعَاذ بن جبل، اُبَی بن کَعْب اور ابو زَید تھے یعنی قَیْس بن سکن اور ابوزید کے متعلق حضرت انس کہتے ہیں کہ یہ میرے چچا تھے۔ (صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار باب مناقب زید بن ثابتؓ حدیث 3810)
8ہجری میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوزید اَنْصَارِی اور حضرت عَمْرو بن عاص السَّہْمِی کو جُلَنْدِی کے دو بیٹوں عُبَیْد اور جَیْفَرکے پاس ایک خط دے کر روانہ کیا جس میں ان کو اسلام کی دعوت دی تھی اور دونوں سے فرمایا کہ اگر وہ لوگ حق کی گواہی دیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں تو عَمْرو ان کے امیر ہوں گے اور اَبُوزَید اُن کے امام الصلوٰۃ ہوں گے۔ یعنی کہ ان کی دینی حالت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں زیادہ اچھی ہو گی یا قرآن کریم کا علم زیادہ تھا۔ فرمایا وہ امام الصلوٰۃ ہوں گے اور ان میں اسلام کی اشاعت کریں گے اور انہیں قرآن اور سنن کی تعلیم دیں گے۔ یہ دونوں عمان گئے اور عُبَیْد اور جَیْفَرسے سمندر کے کنارے صُحَارْمیں ملے۔ ان کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خط دیا انہوں نے اسلام قبول کیا، دونوں نے اسلام قبول کر لیا پھر انہوں نے وہاں کے عربوں کو اسلام کی دعوت دی وہ بھی اسلام لے آئے۔ اب یہ تبلیغ کے ذریعہ سے اسلام پھیل رہا ہے۔ وہاں کوئی جنگ، قتل و غارت اور تلوار تو نہیں گئی تھی اور بہرحال ان عربوں نے بھی اسلام کو قبول کیا۔ عَمْرو اور ابوزید عمان ہی میں رہے یہاں تک کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا۔ بعض کے نزدیک ابوزید اس سے پہلے مدینہ آ گئے تھے۔ (فتوح البلدان صفحہ 53 ’’عمان‘‘ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2000ء)حضرت قَیْس کی شہادت یوم جِسْرکے موقع پر ہوئی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 389 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں دریائے فرات پر جو پل تیار کیا گیا تھا اسی مناسبت سے اس معرکے کو یوم جِسْر کہا جاتا ہے۔ (معجم البلدان جلد 2 صفحہ 162-163 ’’جسر‘‘ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)