حضرت قیس بن ابی صعصعہؓ
حضرت قیس بن ابی صعصعہ انصاری تھے۔ آپؓ کے والد کا نام عمرو بن زید تھا لیکن وہ اپنی کنیت ابو صعصعہ سے مشہور تھے۔ حضرت قیسؓ کی والدہ کا نام شَیبہ بنت عاصم تھا اور حضرت قیس سترانصار کے ساتھ بیعت عقبہ میں شامل ہوئے تھے اور غزوۂ بدر اور احد میں شامل ہونے کا بھی ان کو شرف حاصل ہوا۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 392 قیس بن ابی صعصعۃؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
غزوۂ بدر کے لئے روانہ ہوتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لشکر کے ساتھ مدینہ سے باہر بیوت السُّقیا کے پاس قیام کیا اور کم عمر بچے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمرکابی کے شوق میں ساتھ چلے آئے تھے وہاں سے واپس کئے گئے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو ارشاد فرمایا کہ چاہ سُقیا سے پانی لائیں۔ آپؐ نے اس کا پانی پیا پھر آپؐ نے سُقیا کے گھروں کے پاس نماز ادا کی۔ سُقیا سے روانگی کے وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت قیس بن ابی صعصعہ کو مسلمانوں کی گنتی کرنے کا حکم دیا۔ اس موقع پر ان کو پانی پر نگران بھی مقرر کیا گیا تھا۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بئر ابی عِنَبَہ جو مسجد نبوی سے تقریباً ڈھائی کلو میٹر کے فاصلے پر تھی اس کے پاس قیام کیا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گنتی کرو کتنے ہیں تو حضرت قیسؓ نے گنتی کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ان کی تعداد 313 ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر خوش ہوئے اور فرمایا کہ طالوت کے ساتھیوں کی بھی اتنی ہی تعداد تھی۔ سُقیا کے متعلق یہ نوٹ لکھا ہے کہ مسجد نبوی سے اس کا فاصلہ دو کلو میٹر کے قریب تھا اور اس کا پرانا نام حُسَیکہ تھا۔ حضرت خلادؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حُسَیکہ کا نام بدل کر سُقیا رکھ دیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں سُقیا کو خرید لوں لیکن مجھ سے پہلے ہی حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے اسے دو اونٹوں کے عوض خرید لیا اور بعض کے مطابق سات اوقیہ یعنی دو سو اسّی درہم کے عوض خریدا گیا۔ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس بات کا ذکر ہوا تو آپؐ نے فرمایا کہ اس کا سودا بہت ہی نفع مند ہے۔(السیرۃ النبویۃ علی ضوء القرآن والسنۃ از محمد بن محمد بن سویلم جلد 2 صفحہ 124 ۔ از مکتبۃ الشاملۃ) ،(سبل الہدی والرشاد جلد 4 صفحہ 23، 25 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1993ء)،(یوم الفرقان اسرار غزوۂ بدر از الدکتور مصطفی حسن البدوی صفحہ 124 مطبوعہ دار المنہاج بیروت 2015ء)،(امتاع الاسماع جلد 8 صفحہ 341 دار الکتب العلمیہ بیروت 1999ء)،(کتاب المغازی للواقدی جلد اول صفحہ 37-38 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2013ء)
اسی طرح غزوۂ بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساقہ کی کمان آپ کے سپرد فرمائی تھی۔ ساقہ لشکر کا وہ دستہ ہوتا ہے جو پیچھے حفاظت کی غرض سے چلتا ہے۔ ایک دفعہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں کتنی دیر میں قرآن کریم کا دَور کیا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پندرہ راتوں میں۔ حضرت قیسؓ نے عرض کیا کہ میں اپنے آپ میں اس سے زیادہ کی توفیق پاتا ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک جمعہ سے لے کر اگلے جمعہ تک کر لیا کرو۔ انہوں نے عرض کیا کہ میں اپنے آپ میں اس سے بھی زیادہ کی توفیق پاتا ہوں۔ پھر انہوں نے ایک لمبے عرصہ تک اسی طرح قرآن کریم کی تلاوت کی یہانتک کہ جب آپ بوڑھے ہو گئے اور اپنی آنکھوں پر پٹی باندھنے لگے تو آپ نے پندرہ راتوں میں دور مکمل کرنا شروع کر دیا۔ تب یہ کہا کرتے تھے کہ کاش میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رخصت کو قبول کر لیا ہوتا۔ (اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 408 قیس بن ابی صعصعۃؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء) (تاج العروس زیر مادہ سوق)
حضرت قیسؓ کے دو بچے اَلْفاکِہْ اور ام حارث تھے۔ ان دونوں کی والدہ امامہ بنت معاذ تھیں۔ حضرت قیسؓ کی نسل آگے نہ چل سکی۔ حضرت قیسؓ کے تین بھائی تھے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیضیاب ہونے کا موقع ملا لیکن وہ بدر میں شامل نہ تھے۔ ان میں سے حضرت حارثؓ جنگ یمامہ میں شہید ہوئے اور حضرت ابوکلابؓ اور حضرت جابرؓ بن ابی صعصعہ نے غزوۂ موتہ میں جام شہادت نوش کیا۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 392 قیس بن ابی صعصعہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)