حضرت مالک بن دُخْشُمؓ
ان کا تعلق قبیلہ خزرج کے خاندان بنو غَنم بن عوف سے تھا۔ آپ کی ایک بیٹی تھیں جن کا نام فُرَیْعَہ تھا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 282 مالک بن الدخشم مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
علماء اس بارے میں اختلاف کرتے ہیں کہ آیا حضرت مالک بن دُخْشُم بیعت عُقبہ میں شریک ہوئے تھے یا نہیں۔ ابن اسحاق اور موسی بن عُقبہ کے نزدیک آپ بیعت عقبہ میں شریک ہوئے تھے۔ بہرحال یہ علماء کی بحث چلتی ہی رہتی ہے۔ حضرت مالک بن دُخْشُم غزوہ بدر، اُحد، خندق اور اس کے بعد کے تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمرکاب رہے۔ (الاستیعاب جلد 3 صفحہ 405-406 مالک بن الدخشم مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
سہیل بن عمرو قریش کے بڑے اور باعزت سرداروں میں سے ایک تھے۔ وہ جنگ بدر میں مشرکین کی طرف سے شامل ہوئے اور ان کو حضرت مالک بن دُخْشُم نے قیدی بنایا۔
روایت میں آتا ہے کہ عامر بن سعد اپنے والد حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے غزوہ بدر کے دن سہیل بن عمرو کو تیر مارا جس سے ان کی رَگ کٹ گئی تھی۔ میں بہتے ہوئے خون کے دھبوں کے پیچھے چلتا گیا۔ میں نے دیکھا کہ حضرت مالک بن دُخْشُم نے اس کو پیشانی کے بالوں سے پکڑا ہوا تھا۔ میں نے کہا یہ میرا قیدی ہے۔ میں نے اسے تیر مارا تھا۔ لیکن حضرت مالک نے کہا کہ یہ میرا قیدی ہے میں نے اسے پکڑا ہے۔ پھر وہ دونوں سہیل کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل کو ان دونوں سے لے لیا اور رَوْحَاء کے مقام پر سہیل حضرت مالک بن دُخْشُم کے ہاتھ سے نکل گیا۔ حضرت مالک نے لوگوں میں بلند آواز سے صدا لگائی اور اس کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا کہ جس کو بھی وہ ملے اسے قتل کر دیا جائے۔ جنگ کے لئے آئے تھے۔ مسلمانوں سے لڑائی کی تھی۔ قیدی بنے تو وہاں سے نکل گئے۔ دوبارہ خطرہ پیدا ہو سکتا تھا کہ بہرحال وہ جنگی قیدی تھا۔ اس کے لئے حکم ہوا۔ لیکن اس کی زندگی بچنی تھی۔ سہیل بن عمرو بجائے کسی اور کو ملتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی ملا۔ لیکن جب ملا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قتل نہیں کیا۔ اگر کسی اور صحابی کے ہاتھ چڑھ جاتا تو وہ قتل کر دیتے۔ لیکن چونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا اس لئے آپ نے قتل نہیں کیا۔‘‘ (یہ اُسوہ ہے اور آپ کا یہ اُسوہ ان ظالموں کو جواب ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ آپ نے ظلم کیا اور قتل و غارت کی کہ قتل کا جو سزاوار تھا جس کے لئے فیصلہ بھی ہو چکا تھا وہ بھی جب آپ کو نظر آیا تو آپ نے اسے قتل نہیں کیا۔) ’’ایک روایت کے مطابق سہیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیکر کے درختوں کے جھنڈ میں ملا تھا۔ جس پر آپ نے حکم دیا کہ اس کو پکڑلو۔ اس کے ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ باندھ دئیے گئے۔ یعنی قید کر لیا گیا‘‘۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر جلد 12 جزء 24 صفحہ 333 سہیل بن عمرو بن عبد شمس … مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت)
صحیح بخاری میں یہ روایت ہے کہ حضرت عِتْبَان بن مالک جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان انصاری صحابہ میں سے تھے جو بدرمیں شریک ہوئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا یا رسول اللہ! میری بینائی کمزور ہو گئی ہے۔ میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں۔ جب بارشیں ہوتی ہیں تو اس نالے میں جو میرے اور ان کے درمیان ہے سیلاب آ جاتا ہے اور میں ان کی مسجد میں آکر انہیں نماز نہیں پڑھا سکتا۔ یارسول اللہ میری خواہش ہے کہ آپ میرے پاس آئیں اور میرے گھر میں نماز پڑھیں اور میں اسے مسجد بنالوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انشاء اللہ میں آؤں گا۔ وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دن صبح جس وقت دن چڑھا تو میرے ہاں آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت مانگی۔ میں نے آپ کو اجازت دی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے تو بیٹھے نہیں بلکہ فرمایا کہ تم اپنے گھر میں کہاں چاہتے ہو کہ میں نماز پڑھوں۔ وہ کہتے ہیں میں نے گھر کے ایک کونے کی طرف اشارہ کر کے آپ کو بتایا کہ یہاں میں چاہتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے وہاں کھڑے ہو گئے۔ وہاں نماز پڑھی اور اللہ اکبر کہا اور ہم بھی کھڑے ہو گئے اور صف باندھ لی۔ آپ نے دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر سلام پھیرا۔ راوی کہتے ہیں ہم نے آپ کو خَزِیْرَہ گوشت اور آٹے یا روٹی سے تیار کردہ جو کھانا ہوتا ہے۔ وہ پیش کرنے کے لئے روک لیا جو ہم نے آپ کے لئے تیار کیا ہوا تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ گھر میں محلے کے کچھ اور آدمی اِدھر اُدھر سے آ گئے۔ جب وہ اکٹھے ہو گئے تو ان میں سے کسی کہنے والے نے کہا کہ مالک بن دُخْشُم کہاں ہے؟ تو ان میں سے کسی نے کہا کہ وہ تو منافق ہے۔ اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہیں رکھتا۔ شایدنہ آنے کی وجہ سے کہا۔ اس علاقے میں رہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ مت کہو کیا تم اسے نہیں دیکھتے کہ اس نے لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا اقرار کیا ہے۔ اور اس سے وہ اللہ کی رضا مندی ہی چاہتا ہے۔ اس کہنے والے نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ پھر اس نے کہا کہ ہم تو اس کی توجہ اور اس کی خیر خواہی منافقین کے لئے ہی دیکھتے ہیں۔‘‘ (شاید دل کی نرمی کی وجہ سے وہ چاہتے ہوں گے کہ منافقین کو بھی تبلیغ کریں اور ان کو اسلام کے قریب لائیں۔ اس لئے ہمدردی بھی رکھتے ہوں گے اور اس کی وجہ سے صحابہ میں غلط فہمی پیدا ہو گئی تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے یقیناً اس شخص پر آگ حرام کردی ہے جس نے لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا اقرار کیا بشرطیکہ وہ اس اقرار سے اللہ کی رضا مندی چاہتا ہو‘‘۔ (صحیح بخاری کتاب الصلاۃ باب المساجد فی البیوت حدیث 425)
تو یہ جواب ہے ان نام نہاد علماء کو بھی جو کفر کے فتوے لگانے والے ہیں اور خاص طور پر احمدیوں پر اس حوالے سے ظلم کرنے والے ہیں۔ یہ نام نہاد علماء کے اپنے فتووں نے ہی مسلمان ملکوں کے امن و سکون کو برباد کیا ہوا ہے۔ پاکستان میں آجکل لَبّیک یا رَسُولَ اللہ تنظیم چلی ہوئی ہے۔ وہ نعرے تو لگاتے ہیں۔ لَبّیک یَا رَسُولَ اللہ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ جو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہتا ہے اس کو بھی تم یہ نہ کہو کہ مسلمان نہیں ہے۔ اگر وہ اللہ کی رضا چاہتے ہوئے یہ بات کر رہا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس پر آگ حرام کر دی ہے۔ اور یہ کہتے ہیں نہیں تم لوگ اللہ کی رضا چاہتے ہوئے نہیں کہتے۔ دلوں کا حال یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ جاننے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے قوم کو بچا کے رکھے۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عِتْبَان بن مالک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ حضرت مالک بن دُخْشُم منافق ہیں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کی شہادت نہیں دیتا۔ عِتبان نے جواب دیا کیوں نہیں مگر اس کی گواہی کوئی نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا وہ نماز نہیں پڑھتا؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ وَلَا صَلٰوۃَ لَہٗ لیکن اس کی نماز کوئی نماز نہیں ہے۔ (شاید ان لوگوں میں سے بھی بعض لوگوں میں آجکل کے بعض مولویوں کی طرح یہ سختی تھی۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی طرف سے کسی قسم کی رائے قائم کرنے سے منع فرمایا ہے‘‘۔ (اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 230 مالک بن الدخشم مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء)۔ دلوں کا حال صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا لیکن ان علماء اور خاص طور پر پاکستانی علماء کے بقول ان کے پاس یہ سند ہے، لائسنس ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام پر جو چاہیں ظلم کرتے رہیں۔ حضرت انسؓ بن مالک روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت مالک بن دُخْشُم کو برا بھلا کہا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لَا تَسُبُّوْاَصْحَابِی۔ کہ تم میرے ساتھیوں کو برا بھلا مت کہو۔ (الاستیعاب جلد 3 صفحہ 406 مالک بن الدخشم مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک سے واپسی پر مدینہ سے تھوڑے فاصلے پر ایک جگہ ذی اَوَان میں قیام فرمایاتو آپ کو مسجد ضرار کے بارے میں وحی نازل ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مالک بن دُخْشُم اور حضرت مَعن بن عَدی کو بلا بھیجا اور مسجد ضرار کی طرف جانے کا ارشاد فرمایا۔ حضرت مالک بن دُخْشُم اور حضرت مَعن بن عدی تیزی سے قبیلہ بنو سالم پہنچے جو کہ حضرت مالک بن دُخْشُم کا قبیلہ تھا۔ حضرت مالک بن دُخْشُم نے حضرت معن سے کہا کہ مجھے کچھ مہلت دو یہاں تک کہ میں گھر سے آگ لے آؤں۔ چنانچہ وہ گھر سے کھجور کی سوکھی ٹہنی کو آگ لگا کر لے آئے۔ پھر وہ دونوں مسجد ضرار گئے اور ایک روایت کے مطابق مغرب اور عشاء کے درمیان وہاں پہنچے اور وہاں جا کر اس کو آگ لگا دی اور اس کو زمین بوس کر دیا۔‘‘ (شرح زرقانی علیٰ مواہب اللدنیہ جلد 4 صفحہ 97-98 باب غزوہ تبوک مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)
تو کسی غلط فہمی کی وجہ سے ہم صحابہ پر بدظنی نہیں کر سکتے۔ جن کے بارے میں بعض لوگوں کا یہ تاثر تھا کہ شایدیہ غلط راستہ پر چلے ہوئے ہیں یہاں تک کہ انہیں منافق بھی کہہ دیا لیکن بعد میں وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے منافقین کے مرکز کی تباہی کرنے والے بنے اور اس کو ختم کرنے والے بنے۔