ماہِ رمضان کے فضائل اور برکات
ظہور احمد بشیر، لندن
جس طرح ظاہری موسموں میں ایک بہار کا موسم ہے اسی طرح روحانی کائنات کا موسم بہار ماہ رمضان ہے ۔کتنے ہی خوش قسمت ہیں ہم جن کی زندگیوں میں ایک مرتبہ پھر یہ روحانی بہار عود کر آئی ہے ۔ ورنہ کتنے ہی ایسے تھے جو اس بہار سے پہلے ہی ہم سے جدا ہوگئے ۔ پس ہمیں خوش ہونا چاہئے کہ یہ دن دوبارہ ہماری زندگیوں میں آ نے والے ہیں۔ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیؐ نے ایک موقعہ پر اس ماہ مبارک کی آمد کی خبر یوں دی کہ :
’’سنو سنو تمہارے پاس رمضان کا مہینہ چلا آتا ہے ۔ یہ مہینہ مبارک مہینہ ہے جس کے روزے اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض کردیئے ہیں اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور سرکش شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے ۔ اور اس میں ایک رات ایسی مبارک ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے جو اس کی برکات سے محروم رہا تو سمجھو کہ وہ نامراد رہا‘‘۔(نسائی کتاب الصوم)
رمضان ایسا پیار امہینہ ہے جس کے استقبال کے لئے آسمان پر بھی تیاریاں ہوتی ہیں اور جنت سجائی جاتی ہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ:
’’ماہ رمضان کے استقبال کے لئے یقیناًسارا سال جنت سجائی جاتی ہے ۔اور جب رمضان آتا ہے تو جنت کہتی ہے کہ یا اللہ اس مہینے میں اپنے بندوں کو میرے لئے خاص کردے ‘‘۔(بیہقی شعب الایمان)
اسی لئے آپؐ نے ایک موقعہ پر فرمایا :
’’رمضان کا خاص خیال رکھو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے جو بڑی برکت والا اور بلند شان والا ہے ۔ اس نے تمہارے لئے گیارہ ماہ چھوڑ دیئے ہیں جن میں تم کھاتے ہو اور پیتے ہو اور ہر قسم کی لذات حاصل کرتے ہو مگر اس نے اپنے لئے ایک مہینہ کو خاص کرلیا ہے‘‘ ۔(مجمع الزوائد)
رمضان المبارک کو ’’سَیِّدُ الشُّہُور‘‘یعنی تمام مہینوں کا سردار بھی کہا گیا ہے ۔ یہ مہینہ بے شمار برکات کا مہینہ ہے ۔ چودہ سو برس سے لاکھوں کروڑوں صلحاء و ابرار ان برکات کا مشاہدہ کرتے آئے ہیں اور آج بھی ان برکات سے بہرہ اندوز ہونے والے بزرگ بکثرت موجود ہیں۔ ان ایام میں مخلص روزہ داروں کو خاص روحانی کیف سے نواز ا جاتا ہے، ان کی دعائیں سنی جاتی ہیں۔ ان پر انوار کے دروازے کھلتے ہیں۔ انہیں معارف سے بہرہ ور کیا جاتا ہے ۔ وہ کشف ، رویا او ر الہام کی نعمت سے سرفراز ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں خد ا کی لقا نصیب ہوتی ہے ۔
سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
’’غرض رمضان ایک خاص اہمیت رکھنے والا مہینہ ہے اور جس شخص کے دل میں اسلام اور ایمان کی قدر ہوتی ہے وہ اس مہینہ کے آتے ہی اپنے دل میں ایک خاص حرکت اور اپنے جسم میں ایک خاص قسم کی کپکپاہٹ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔کتنی ہی صدیاں ہمارے اور محمد رسو ل اللہ ﷺ کے درمیان گزر جائیں ، کتنے ہی سال ہمیں اور ان کو آپس میں جدا کرتے چلے جائیں ، کتنے ہی دنوں کا فاصلہ ہم میں اور ان میں حائل ہوتا چلا جائے۔ لیکن جس وقت رمضان کا مہینہ آتاہے تو یوں معلوم ہوتاہے کہ ان صدیوں اور سالوں کو اس مہینہ نے لپیٹ لپاٹ کر چھوٹا سا کر کے رکھ دیاہے اور ہم محمد رسول اللہ ﷺ کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ بلکہ محمد رسول اللہ ﷺکے ہی قریب نہیں چونکہ قرآن خداتعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اس لئے یوں معلوم ہوتاہے کہ اس تما م فاصلہ کو رمضان نے سمیٹ سماٹ کر ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب پہنچا دیا ہے۔ اور وہ بُعد جو ایک انسان کو خدا تعالیٰ سے ہوتاہے، وہ بُعد جو ایک مخلوق کو اپنے خالق سے ہوتاہے ،وہ بُعد جو ایک کمزور اور نالائق ہستی کو زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے خدا سے ہوتاہے وہ یوں سمٹ جاتاہے، وہ یوں غائب ہو جاتاہے جیسے سورج کی کرنوں سے رات کا اندھیرا ۔ یہی وہ حالت ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:(وَاِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ) ۔ جب رمضان کا مہینہ آئے اور میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں کہ مَیں انہیں کس طرح مل سکتاہوں تو توُ انہیں کہہ دے کہ رمضان اور خدا میں کوئی فرق نہیں۔یہی وہ مہینہ ہے جس میں خدا اپنے بندوں کے لئے ظاہر ہوا اور اس نے چاہا کہ پھر اپنے بندوں کو اپنے پاس کھینچ کر لے آئے۔ اس کلام کے ذریعہ جو حبل اللہ ہے، جو خدا کا وہ رسّہ ہے جس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں ہے اور دوسر ا مخلوق کے ہاتھ میں ۔ اب یہ بندوں کا کام ہے کہ وہ ا س رسّہ پر چڑھ کر خدا تک پہنچ جائیں‘‘۔(تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعودؓ سورۃ البقرہ زیر آیت ۱۸۶)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام رمضان کے ان ایام سے متعلق فرماتے ہیں:۔
’’میری تو یہ حالت ہے کہ مرنے کے قریب ہو جاؤں تب روزہ چھوڑتاہوں ۔ طبیعت روزہ چھوڑنے کو نہیں چاہتی۔ یہ مبارک دن ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل ورحمت کے نزول کے دن ہیں‘‘۔(الحکم ۲۴؍جنوری ۱۹۰۱ئ،صفحہ ۵)
رمضان میں آنحضور ﷺ کی عبادت
*۔۔۔حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ :
’’رمضان میں تو آپؐ کمر ہمت کس لیتے تھے اور پوری کوشش اور محنت فرماتے تھے‘‘۔
*۔۔۔ آنحضور ؐ کی ا س عبادت کی کیفیت کا بھی ذکر ملتاہے کہ راتوں کو عبادت کرتے ہوئے آپؐ کا سینہ خدا کے حضور گریاں و بریاں ہوتا۔ دل ابل ابل جاتا اور سینہ میں یوں گڑگڑاہٹ کی آواز سنائی دیتی جیسے ہنڈیا کے ابلنے سے آواز پیدا ہوتی ہے‘‘۔ (شمائل ترمذی)
*۔۔۔حضرت عائشہؓ سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ آنحضور ؐ رمضان المبارک میں رات کو کیسے عبادت فرماتے تھے ۔ فرمایا، حضور ؐ رمضان میں اور رمضان کے علاوہ ایام میں بھی گیارہ رکعتوں سے زائد نہیں پڑھتے تھے۔ آپ ؐ چار رکعات ادا فرماتے۔ ’’ وَلَا تَسْئَلْ عَنْ حُسْنِھِنَّ وَ طُوْلِھِنَّ‘‘ اور تم ان رکعتوں کے حسن اور لمبائی کے متعلق نہ پوچھو ( یعنی میرے پاس الفاظ نہیں کہ حضور ؐ کی اس لمبی نماز کی خوبصورتی بیان کروں)۔ پھر اس کے بعد ایسی ہی لمبی اور خوبصورت چار رکعات اور ادا فرماتے اور پھر تین وتر آخر میں پڑھتے تھے ۔( یعنی کل گیارہ رکعات)۔
(بخاری کتاب الصوم، باب فضل من قام رمضان)
لقاءِ الٰہی رمضان کا سب سے اعلیٰ پھل
روزہ رکھنے والے کو روزہ کی جزاء میں خدا ملتاہے۔ لقاء الٰہی اور دیدار الٰہی نصیب ہوتا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
’’ تمہارا رب فرماتا ہے کہ ہر نیکی کا ثواب دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہے اور روزہ کی عبادت تو خاص طورپر میرے لئے ہے اورمیں خود اس کی جزاء 5 دوں گا یا میں خود اس کا بدلہ ہوں‘‘۔(ترمذی ۔ابواب الصوم)
اسی طرح آپ ؐ نے فرمایا کہ:
’’روزہ دار کے لئے دو خوشیاں مقدر ہیں ایک خوشی اسے اس وقت ملتی ہے جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسری خوشی اس وقت ہوگی جب وہ روزہ کی وجہ سے اپنے رب سے ملاقات کرے گا‘‘۔(بخاری کتاب الصوم)
سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے رمضان المبارک کی فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’ جو رمضان کاسب سے بلند مقصد اور سب سے اعلیٰ پھل ہے وہ یہ ہے کہ اللہ مل جاتاہے۔ چنانچہ۔۔۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (وَاِذَا سَألَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَاِنّی قَرِیبٌ) آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا ہے اے رسول! یعنی رسول کا نام تو نہیں مگر مخاطب آنحضورؐ ہی ہیں۔ (وَاِذَا سَألَکَ عِبَادِیْ عَنِّی) جب میرے بندے تجھ سے سوال کریں، (عَنّی) میرے بارے میں،(فَاِنّی قَرِیبٌ) تو میں قریب ہوں۔ اس دعا میں جس کی طرف اشارہ ہے یہاں دنیا کی ضرورتیں پوری کرنے کا کوئی حوالہ نہیں ۔ (وَاِذَا سَألَکَ عِبَادِیْ عَنِّی)یعنی جب میرے بندے مجھے ڈھونڈتے پھریں، مجھے چاہتے ہوں اور تجھ سے پوچھیں کیسے ہم اپنے رب کو پا لیں تو اس وقت یہ نہیں فرمایا فَقُل اِنّی قَرِیبٌ توُ ان سے کہہ دے اِنّ اللّٰہَ قَرِیبٌ۔ کہ اللہ قریب ہے یا میں قریب ہوں۔ فوری جواب ہے ( فَاِنّی قَرِیب)۔ قریب والا بعض دفعہ دوسرے کاحوالہ بھی نہیں دیتا، کسی دوسرے کو یہ نہیں بتائے گا کہ اس کو بتا دو کہ میں قریب ہوں۔ تو اس میں سوال کرنے والے کی نیت کے خلوص کا ذکر ہے۔ اگر واقعۃً کوئی اللہ کو چاہتا ہے تو اے رسولؐ جب بھی وہ تجھ سے پوچھے گا میں اس کو سن رہا ہونگا۔ مجھے بتانے کے لئے اس وقت تیرے حوالے کی ضرورت نہیں۔ (اِنّی قَرِیبٌ) میں تو ساتھ کھڑا ہوں، رگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہوں۔ لیکن (اُجِیبُ دَعوَۃَ الدّاع اِذَا دَعَانِ)۔میں پکارنے والے کی دعوت کو سنتا ہوں جب وہ مجھے پکارے۔ یعنی میرا شوق رکھتا ہو، دنیا طلبی کی خاطر نہ میںیاد آؤں۔ یہ عجیب منظر ایک کھینچا گیا ہے (اِذَا دَعَان)۔ جس کا رمضان میں آپ کو زیادہ دیکھنے کا موقع ملے گا، بہت ہی دل کش منظر ہے۔ کئی لوگ ہیں جنہوں نے زندگیاں وقف کر دیں، جنگلوں میں ڈھونڈتے پھرے، اللہ اللہ پکارتے پھرے اور پھر بھی ان کو اللہ نہیں ملا۔ کئی لوگ ہیں جو بعض دفعہ بے اختیار ہو کر اللہ کہتے ہیں تو اللہ ان کو مل جاتا ہے۔ اس مضمون کا فرق کیا ہے۔ یہ فرق اب یہاں بیان کیا جائے گا۔
(فَلْیَستَجِیبُوا لِیْ) ان پکارنے والوں کا فرض ہے کہ میری بات بھی تو مانا کریں۔ مجھے اس طرح نہ پکاریں جیسے نوکروں کو پکارا جاتا ہے۔ جب ضرورت پیش آئے آواز دو وہ کہے گا حاضر سائیں! ۔ ایسے بندے جو میری باتوں کی طرف دھیان دیتے ہیں جو میری باتوں کے اوپر عمل کرتے ہیں وہ پہلے میرے بندے بنتے ہیں پھر جب وہ پکاریں گے تو ان کو جنگلوں میں جانے کی ضرورت نہیں رہتی جہاں بھی پکاریں گے (اِنّی قَرِیْبٌ) میں ان کے پاس ہونگا۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍دسمبر ۱۹۹۷ء )
روزہ ۔ملائکہ کی دعاؤں اور استغفار کے حصول کا ذریعہ
*۔۔۔ حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
’’جب کوئی رمضان کے پہلے دن روزہ رکھتا ہے تو اس کے پہلے سب گناہ بخش دئے جاتے ہیں ۔ اسی طرح ہر روز ماہ رمضان میں ہوتا ہے اور ہر روز اس کے لئے ستّر ہزار فرشتے اس کی بخشش کی دعائیں صبح کی نماز سے لے کر ان کے پردوں میں چھپنے تک کرتے ہیں‘‘۔(کنزالعمال ۔ کتاب الصوم)
*۔۔۔ ایک موقع پر آپ ؐ نے فرمایا کہ:
’’ فرشتے روز ہ دار کے لئے دن رات استغفار کرتے ہیں‘‘۔(مجمع الزوائد)
گناہ سے پاک ہونے کا بہترین موقع
*۔۔۔ حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
’’ جو شخص رمضان کے مہینے میں حالت ایمان میں ثواب اور اخلاص سے عبادت کرتاہے وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتاہے جیسے اس روز تھا جب اس کی ماں نے اسے جنا‘‘۔ (نسائی ، کتاب الصوم)
*۔۔۔ ’’آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں روزہ گناہوں کو یکسر مٹا دیتا ہے ۔ نذر بن شیبانؓ کہتے ہیں کہ میں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے کہا آپ مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جو آپ نے اپنے والد سے سنی ہو اور انہوں نے ماہ رمضان کے بارے میں آنحضرت ﷺ سے براہ راست سنی ہو۔ نذر بن شیبانؓ کہتے ہیں میں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے کہا تھا۔ یہ کیا خیال آیا ان کو ، معلوم ہوتا ہے کوئی یہ روایت عام ہوئی ہوگی اور اس کا چرچا انہوں نے سنا ہوگا اور وہ چاہتے ہونگے کہ میں ان کی زبان سے خود سن لوں۔ ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے کہا ہاں مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے رمضان کے روزے رکھنے تم پر فرض کئے اور میں نے تمہارے لئے اس کا قیام جاری کر دیا پس جو کوئی ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے روزے رکھے و ہ گناہوں سے ایسے نکل آتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہو‘‘۔
روزہ ۔جنت کے حصول کا ذریعہ
ایک موقعہ پر آپﷺ نے فرمایا:
’’ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے‘‘۔
*۔۔۔اسی طرح آپﷺ فرماتے ہیں:
’رمضان المبارک کی پہلی رات کو اللہ تعالیٰ اپنی جنت کو حکم دیتا ہے کہ میرے بندے کے لئے تیار ہو جا اور خوب بن سنور جا۔ ممکن ہے جو دنیا سے تھک گیا ہو وہ میرے گھر اور میرے پاس آنا چاہے‘‘۔(مجمع الزوائد)
*۔۔۔حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ اگر بندہ ایک دن کاروزہ اپنی خوشی اوررضاء و رغبت سے رکھے پھراسے زمین کے برابر سونا دیا جائے تو وہ حساب کے دن اس کے ثواب کے برابر نہیں ہوگا‘‘۔(الترغیب والترھیب)
*۔۔۔حضرت ابوامامہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جس کے ذریعہ میں جنت میں داخل ہو جاؤں۔ تو آپ ؐ نے فرمایا:’’روزہ کو لازم پکڑ لو کیونکہ یہ وہ عمل ہے جس کاکوئی مثل اور بدل نہیں‘‘۔(الترغیب و الترھیب، نسائی ۔ کتاب الصوم )
روزہ ۔آگ سے بچاؤ کا ذریعہ
حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ:
’’ جو بندہ خدا کی راہ میں ایک دن روزہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے چہرے سے آگ دور کردیتاہے‘‘۔(صحیح مسلم و ابن ماجہ)
ایک اور روایت میں ہے کہ خدا کی خاطر ایک دن کاروزہ رکھنے والے سے جہنم سو سال دور کر دی جاتی ہے۔(نسائی ۔کتاب الصوم)
ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا:’’روزہ آگ سے بچانے کے لئے ایک ڈھال ہے‘‘۔(ترمذی ، ابواب الصوم)
عبادتوں کے گُر سکھانے والا مہینہ
حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے رمضان المبارک کو عبادت کے لحاظ سے تما م مہینوں سے افضل قرار دیا اور فرمایا : جو شخص رمضان کے مہینہ میں حالت ایمان میں اور اپنا محاسبہ کرتے ہوئے رات کو اٹھ کر عبادت کرتا ہے وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جیسے اس روزتھا جب اس کی ماں نے اسے جنا۔(سنن نسائی کتاب الصیام، باب ثواب من قام رمضان و صامہ ایمانا و احتساباً)
سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ فرماتے ہیں:
’’پس رمضان مبارک نے آپ کو عبادت کے گر سکھادئے ہیں ۔ اگر آپ نے خود نہیں سیکھے تو سیکھنے والوں کو دیکھا ضرور ہے۔ کو ئی مسلمان گھر شاذ ہی ایساہو جہاں کو ئی بھی عبادت نہ کی جا رہی ہو رمضان میں، جہاں کو ئی بھی روزہ رکھنے والا نہ ہو ۔ اگر ایساہے تو وہ بعید نہیں کہ آج اس جمعۃ الوداع میں بھی حاضر نہ ہوئے ہوں۔ اس لئے ان تک نہ تو میری آواز پہنچے گی نہ وہ میرے مخاطب ہیں۔میں ان سے بات کر رہا ہوں جن کے سینے میں کچھ ایمان کی رمق ضرور ہے اور خدا تعالیٰ نے ایمان کی اس رمق کو ہمیشہ پیار کی نظر سے دیکھا ہے۔ ایک چنگاری تو روشن ہے ، ایک امید تو ہے ۔ پس میں ان سے مخاطب ہوں جن کے سینے میں یہ امید کی چنگاری روشن ہے۔ ابھی تک اگر راکھ تلے دب بھی گئی ہے تو اندر یہ کوئلہ ابھی جل رہاہے اور زندہ ہے ۔
پس اس پہلو سے آپ کو میں متوجہ کرتاہوں کہ رمضان کی یہ برکتیں جو لوگوں نے جو دن کو عبادت کرتے تھے راتوں کو نہیں اٹھا کرتے تھے ان برکتوں نے انہیں راتوں کو اٹھنابھی سکھا دیا ۔ انہیں خدا کے حضور وہ اطاعت اور فرمانبرداری کی توفیق بخشی جو عام دنوں میں نصیب نہیں تھی۔ رمضان نے گناہوں سے بچنے کی ایک بہت بڑی توفیق عطا فرمائی جو وقت کے لحاظ سے مشروط ہی سہی مگر توفیق ضرور ملی ۔ وہ لوگ جو اپنی بدعادتوں کو چھوڑنے پرکسی طرح آمادہ نہیں ہوتے یا چھوڑنے کی طاقت نہیں رکھتے ایک محدود وقت کے لئے جو سحری سے لے کر افطار تک چلتاہے مجبور ہوتے ہیں، ان باتوں سے رکے رہتے ہیں تو رمضان نے سہارا دیا ہے، رمضان نے آپ کو نیکی کے کاموں پہ چلنے کے لئے وہ سوٹا مہیا کر دیا جس کی ٹیک لگاکر آپ رفتہ رفتہ آگے بڑھ سکتے ہیں ۔ اسے چھوڑ نہ دیں بالکل ۔ لولوں لنگڑوں کی طرح پھر وہیں نہ بیٹھ رہیں جہاں بیٹھتے ہوئے اپنی عمر ضائع کی‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۷؍فروری ۱۹۹۷ء)
رزق میں فراخی کا مہینہ
حضرت سلمان فارسیؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے ’’رمضان المبارک‘‘ کے ذکر میں فرمایا:
یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں مومن کارزق زیادہ کیا جاتا ہے۔
روزہ سے تزکیۂ نفس ہوتا ہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں
سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اوراس کا اثر ہے جو تجربے سے معلوم ہوتاہے۔ انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اسی قدر تزکیہ نفس ہوتاہے اورکشفی قوتیں بڑھتی ہیں‘‘۔
اسکی تشریح کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ فرماتے ہیں:
’’پس رمضان کے مہینے میں کھانے میں زیادتی رمضان کا حق ادا نہیں کر تی بلکہ رفتہ رفتہ کھانے میں کمی رمضان کاحق ادا کرتی ہے۔ عام طورپر دیکھا گیاہے کہ لوگ شروع میں تو بھوک نہیں لگتی اس وقت میں اسلئے نسبتاً کم کھاتے ہیں اورجوں جوں رمضان آگے بڑھتاجاتا ہے وہ زیادہ کھانے لگتے ہیں یہاں تک کہ آخری دنوں میں تو رمضان ان کو پتلا کرنے کی بجائے موٹا کر جاتا ہے۔ یہ جسم کی فربہی دراصل نفس کی فربہی بھی ہو سکتی ہے۔ اسلئے عام طورپر بھولے پن میں ، لاعلمی میں لوگ ایسا کرتے ہیں مگر ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ’’ تزکیۂ نفس ہوتاہے‘‘ جو کم کھانے سے زیادہ ہوتاہے۔ پس جتنا آپ کم کھانے کی طرف متوجہ ہونگے اتنا ہی رمضان آپ کے لئے فائدہ بخش ہوگا۔’’اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں‘‘ یعنی خدا تعالیٰ کو انسان مختلف صورتوں اور صفات میں دکھائی دینے لگتا ہے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۶؍جنوری ۱۹۹۶ء)
تہجد ،رمضان کی اصل برکت
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ رمضان خصوصیت کے ساتھ تہجد کے ساتھ تعلق رکھتاہے۔ یعنی تہجد کی نماز یں۔۔۔ خصوصیت سے رمضان سے تعلق رکھتی ہیں اگرچہ دوسرے مہینوں میں بھی پڑھی جاتی ہیں۔ اور اس پہلو سے وہ سب جو روزے رکھتے ہیں ان کے لئے تہجد میں داخل ہونے کا ایک راستہ کھل جاتاہے۔ کیونکہ اس کے بغیر اگر عام دنوں میں تہجد پڑھنے کی کوشش کی جائے توہو سکتاہے بعض طبیعتوں پر گراں گزرے مگر رمضان میں جب اٹھنا ہی اٹھنا ہے تو روحانی غذا بھی کیوں انسان ساتھ شامل نہ کرلے۔ اس لئے اسے اپنا ایک دستور بنا لیں اور بچوں کو بھی ہمیشہ تاکید کریں کہ اگروہ سحری کی خاطراٹھتے ہیں تو ساتھ دو نفل بھی پڑھ لیا کریں اور اگر روزے رکھنے کی عمر کو پہنچ گئے ہیں پھر تو ان کو ضرور نوافل کی طرف متوجہ کرنا چاہئے۔ یہ درست نہیں کہ اٹھیں اور آنکھیں ملتے ہوئے سیدھا کھانے کی میز پرآ جائیں یہ رمضان کی روح کے منافی ہے۔ اورجیساکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے فرمایا اصل برکت تہجد کی نماز سے حاصل کی جاتی ہے۔ اورامید ہے کہ اس کو اب رواج دیاجائے گا بچوں میں بھی اور بڑوں میں بھی ‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۶؍جنوری ۱۹۹۶ء)
روزہ رکھنے کی تڑپ
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس روزے سے محرومی کے نتیجے میں اگر درددل ہو تو ایک بہت ہی اعلیٰ نشان ہے اس بات کا کہ واقعۃً تمہاری روزوں سے محرومی تمہیں ثواب سے محروم نہیں رکھے گی۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بعض دفعہ ایسے درد دل والے کو عام روزہ رکھنے والے کے ثواب سے بھی زیادہ ثواب ملتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ جبکہ حیلہ جُو انسان تاویلوں پر تکیہ کرتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ تکیہ کوئی شے نہیں‘‘۔
’’جو شخص کہ روزہ سے محروم رہتاہے مگر اس کے دل میں نیت دردِ دل سے تھی کہ کاش میں تندرست ہوتا اور روز رکھتا اور اس کا دل اس بات کے لئے گریاں ہے تو فرشتے اس کے لئے روزہ رکھیں گے بشرطیکہ وہ بہانہ جُو نہ ہو تو خدا تعالیٰ اسے ہرگز ثواب سے محروم نہیں رکھے گا‘‘۔(خجمعہ فرمودہ۲۶؍جنوری ۱۹۹۶ء)
جو رمضان کی پابندیاں برداشت نہیں کرتا وہ بہت بڑی نعمتوں سے محروم رہتا ہے
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رمضان آیا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا :
’’ تم پر ایک ایسا مہینہ آیا ہے کہ اس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ جو شخص اس مہینہ میں نیکی کرنے سے محروم رہا وہ ہر نیکی سے محروم رہا۔ اور اس ماہ میں نیکی سے وہی محروم رہتاہے جو بدنصیب ہو‘‘۔(ابن ماجہ)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’رمضان المبارک میں جو لوگ روزے نہیں رکھتے وہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ وہ کن نیکیوں سے محروم رہ گئے ہیں۔ چند دن کی بھوک انہوں نے برداشت نہیں کی ۔چند دن کی پابندیاں انہوں نے برداشت نہیں کیں اور بہت ہی بڑی نعمتوں سے محروم رہ گئے۔ اور پہلے سے اور بھی زیادہ دنیا کی زنجیروں میں جکڑے گئے کیونکہ جو رمضان کی پابندیاں برداشت نہیں کرتا اس کی عادتیں دنیا سے مغلوب ہو جاتی ہیں اور وہ درحقیقت اپنے آپ کو مادہ پرستی کے بندھنوں میں خود جکڑنے کاموجب بن جایا کرتاہے۔ یہ لوگ دن بدن ادنیٰ زندگی کے غلام ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اس کے بعد اگرچاہیں بھی تو پھران بندھنوں کو توڑ کر آزاد نہیں ہو سکتے اس لئے یہ بھی ضروری فیصلہ ہے کہ رمضان کی چند دن کی پابندیاں بشاشت اور ذوق وشوق سے قبول کی جائیں۔۔۔۔۔۔ تم یہ پابندیاں اختیار کر کے دیکھو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ اس کے فائدے لامتناہی ہیں۔ چند دن کی سختیاں بہت وسیع فائدے ایسے چھوڑ جائیں گی کہ سارا سال تم ان چند دنوں کی کمائیاں کھاؤ گے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍اپریل ۱۹۸۸ء)
آخری عشرہ کی اہمیت
*۔۔۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ(رمضان کے ) آخری عشرہ میں داخل ہوتے تو کمر ہمت کس لیتے اور اپنی رات کو (عبادت میں شب بیداری سے) زندہ کرتے اور اپنے گھروالوں کوبھی جگاتے۔(بخاری کتاب الصوم)
*۔۔۔ حضرت عائشہ ؓ کی ہی دوسری روایت ہے کہ آنحضرت ﷺرمضان کے آخری عشرہ میں عبادات میں جتنی کوشش اور محنت اور مجاہدہ فرماتے تھے وہ جدوجہد اس کے علاوہ ایام میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔ (ابن ماجہ)
*۔۔۔رمضان المبارک کے اس آخری عشرہ کی ایک اور برکت آنحضور ﷺ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ:
’’رمضان کی آخری رات میں میری امت کی مغفرت ہوتی ہے۔آپ ؐ سے پوچھا گیا اے خدا کے رسول ؐ کیا رمضان کی آخری رات لیلۃ القدر ہوتی ہے؟ فرمایا نہیں بلکہ عمل کرنے والا جب عمل سے فارغ ہوتاہے تو اس وقت اسے اس کااجر دیا جاتا ہے‘‘( اور یہ مغفرت کا اجر ہے)(مسند احمد بن حنبل)
رمضان کے تقاضے پورے کرنے والوں کے لئے بشارت
مسند احمد بن حنبل میں حضرت ابوسعیدخدری سے روایت ہے ۔ وہ کہتے ہیں میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کویہ کہتے سنا کہ جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے اور جس نے رمضان کے تقاضوں کوپہچانا اور ان کو پورا کیا اورجو رمضان کے دوران اُن تمام باتوں سے محفوظ رہا جن سے اس کو محفوظ رہنا چاہئے تھا یعنی جس نے ہر قسم کے گناہ سے اپنے آپ کو بچائے رکھا تو ایسے روزے دار کے لئے اس کے روزے اس کے پہلے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۶؍جنوری ۱۹۹۶ء)
پس روزے محض للہ خلوص نیت اور صدق دل کے ساتھ رکھنے چاہئیں اور تمام عبادتیں اور نیکیاں بجالانی چاہئیں کیونکہ رمضان نیکیوں میں ترقی کرنے کے لئے سب سے موزوں ترین مہینہ ہے ۔اللہ کرے ہم رمضان کی برکتوں سے اپنی جھولیاں بھرنے والے ہوں۔
(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل یکم؍نومبر۲۰۰۲ء تا ۷؍نومبر ۲۰۰۲ء)