ماہِ رمضان کے مبارک ایّام کیسے گزارے جائیں؟
ظہور احمد بشیر، لندن
رمضان المبارک انسان کی روحانیت کو تیز کرنے کے لئے اور نیکیوں میں ترقی کرنے کے لئے نہایت سازگار موسم ہے ۔ کیونکہ ہر طرف نیکی کی فضاء قائم ہوجاتی ہے ۔ اس لئے اپنے بدن کے تما م عضاء نیکیوں پر مامور کردینے چاہئیں۔ بکثرت قرآن کریم کی تلاوت کرنی چاہئے استغفار اور درود اور دیگر دعاؤں سے اپنی زبانیں تر رکھنی چاہئیں۔ خدمت خلق کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئے ۔ اپنے مال بھی خدا کی راہ میں قربان کرنے چاہئیں اورا پنے اوقات بھی خدمت دین میں اور دعوت الی اللہ میں صرف کرنے چاہئیں اور بکثرت عبادت بجالانی چاہئے۔
دین اسلام کے پانچ مجاہدات
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ملفوظات جلد دوم ،جدید ایڈیشن صفحہ ۴۳۳ پر فرماتے ہیں:
’’خدا تعالیٰ نے دین اسلام میں پانچ مجاہدات مقرر فرمائے ہیں۔ نماز، روزہ ، زکوٰۃ ، صدقات ، حج او ر اسلامی دشمن کا ردّ اور دفع خواہ وہ سیفی ہو خواہ قلمی ہو۔ یہ پانچ مجاہدے قرآن شریف سے ثابت ہیں مسلمانوں کو چاہئے کہ ان میں کوشش کریں اوران کی پابندی کریں۔ یہ روزے تو سال میں ایک ماہ کے ہیں۔ بعض اہل اللہ تو نوافل کے طور پر اکثر روزے رکھتے ہیں اور ان میں مجاہدہ کرتے ہیں۔ ہاں دائمی روزے رکھنا منع ہیں۔ یعنی ایسا نہیں چاہئے کہ آدمی ہمیشہ روزے ہی رکھتا رہے بلکہ ایسا کرنا چاہئے کہ نفلی روزے کبھی رکھے اور کبھی چھوڑ دے‘‘۔
روزوں کی فلاسفی
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’رمضان شریف کے مہینہ کی بڑی بھاری تعلیم یہ ہے کہ کیسی ہی شدید ضرورتیں کیوں نہ ہوں مگرخداکا ماننے والا خدا ہی کی رضامندی کے لئے ان سب پر پانی پھیردیتاہے اور ان کی پرواہ نہیں کرتا۔ قرآن شریف روزہ کی اصل حقیقت اور فلاسفی کی طرف خود اشارہ فرماتا اور کہتاہے (یٰٓااَیُّھَالَّذِیْنَ اٰمنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن) روزہ تمہارے لئے اس واسطے ہے کہ تقویٰ سیکھنے کی تم کوعادت پڑ جاوے۔ ایک روزہ دار خدا کے لئے ان تما م چیزوں کو ایک وقت ترک کرتاہے جن کوشریعت نے حلال قرار دیا ہے اور ان کے کھانے پینے کی اجازت دی ہے صرف اس لئے کہ اس وقت میرے مولیٰ کی اجازت نہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ پھر وہی شخص ان چیزوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرے جن کی شریعت نے مطلق اجازت نہیں دی۔ اور وہ حرام کھاوے، پیوے اوربدکاری اورشہوت کو پورا کرے‘‘۔(الحکم ۲۴؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۲)
حمدِالہٰی ، تسبیح ، تہلیل، تبتّل اور انقطاع الی اللہ اختیار کیا جائے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’تیسری بات جو اسلام کارکن ہے وہ روزہ ہے۔روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں ۔ اصل یہ ہے کہ جس ملک میں انسان جاتانہیں اورجس عالم سے واقف نہیں اس کے حالات کیا بیان کرے۔روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتاہے بلکہ اس کی حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتاہے ۔ انسانی فطرت میں ہے جس قدر کم کھاتاہے اسی قدر تزکیہ نفس ہوتاہے اورکشفی طاقتیں بڑھتی ہیں ۔ خدا تعالیٰ کا منشاء اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ ۔ ہمیشہ روزہ دارکو یہ مدنظر رکھناچاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اسے چاہئے کہ خداتعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تا کہ تبتل اور انقطاع حاصل ہو۔پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے اور جولوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اورنرے رسم کے طورپر نہیں رکھتے انہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں۔ جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے۔(الحکم جلد۱۱ نمبر ۲۔ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۹)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مزیدفرماتے ہیں:۔
’’ آنحضرت ﷺ رمضان شریف میں بہت عبادت کرتے تھے ۔ ان ایام میں کھانے پینے کے خیالات سے فارغ ہو کر اور ان ضرورتوں سے انقطاع کرکے تبتل الی اللہ حاصل کرنا چاہئے‘‘۔(تقاریر جلسہ سالانہ ۱۹۰۶ء صفحہ ۲۰، ۲۱)
تلاوت قرآن کریم دعاؤں اورذکر الٰہی کے خاص دن
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’اس مہینہ میں قرآن مجید کی تلاوت کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے ۔ اور بہتر یہ ہے کہ قرآن مجید کے دو دَور مکمل کئے جائیں ورنہ کم از کم ایک توضرورہو۔ اورہر رحمت کی آیت پر خدائی رحمت طلب کی جائے اور ہر عذاب کی آیت پر استغفار کیاجائے ۔
اس مہینہ میں دعاؤں اور ذکر الٰہی پر بھی بہت زور ہونا چاہئے اور دعا کے وقت دل میں یہ کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے کہ ہم گویا خدا کے سامنے بیٹھے ہیں یعنی خدا ہمیں دیکھ رہاہے اور ہم خدا کو دیکھ رہے ہیں۔ دعاؤں میں اسلام اور احمدیت کی ترقی اور حضرت خلیفۃ المسیح ۔۔۔ ایدہ اللہ کی صحت اور دراز183 عمر اور سلسلہ کے مبلغوں اور کارکنوں اور قادیان کے درویشوں اور ان کے مقاصد کی کامیابی کو مقدم کیاجائے ۔ عمومی دعاؤں میں (رَبَّنااٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّار) بڑی عجیب و غریب دعا ہے اور نفس کی تطہیر کے لئے( لاَ اِلٰہ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ)غیرمعمولی تأثیر رکھتی ہے ۔ اور استعانت باللہ کے لئے یَاحَیُّ یَاقَیُّومُ بِرَحْمَتِکَ نَسْتَغِیْثُکامیاب ترین دعا ؤں میں سے ہے۔ اور سورۂ فاتحہ تو دعاؤں کی سرتاج ہے۔ (روزنانہ الفضل ربوہ ، ۹؍مارچ ۱۹۶۰ء )
کثرت کے ساتھ درود پڑھنا چاہئے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
’’برکات کے حصول کے لئے کثرت کے ساتھ درود پڑھنا اوّل درجہ کی تاثیر رکھتا ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لکھتے ہیں کہ ایک رات میں نے اس کثر ت سے درود پڑھا کہ میرا دل و سینہ معطّر ہو گیا ۔ اس رات خواب میں دیکھا کہ فرشتے نور کی مشکیں بھر بھر کے میرے مکان کے اندر آ رہے ہیں ۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ یہ نور اس درود کا ثمرہ ہے جو تو نے محمد ﷺ پر بھیجا ہے‘‘۔(روزنانہ الفضل ربوہ ، ۹؍مارچ ۱۹۶۰ء )
رمضان المبارک قبولیت دعا کے خاص ایام
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ،مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
’’….. چونکہ اس آیت سے پہلے بھی اوراس کے بعد بھی روزوں کا ذکرہے اس لئے اس آیت کے ذریعہ مومنوں کو اس طر ف توجہ دلائی گئی ہے کہ یوں تو اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی اپنے بندوں کی دعائیں سنتا اور ان کی حاجات کو پورا فرماتا ہے لیکن رمضان المبارک کے ایام قبولیت دعا کے لئے مخصوص ہیں ۔ اس لئے تم ان دنوں سے فائدہ اٹھاؤ اورخدا تعالیٰ کے قریب ہونے کی کوشش کرو۔ ورنہ اگر رمضان کے مہینہ میں بھی تم خالی ہاتھ رہے تو تمہاری بدقسمتی میں کوئی شبہ نہیں ہوگا۔
۔۔۔یہ آیت خدا تعالیٰ نے روزوں کے ساتھ بیان کی ہے جس سے پتہ لگتاہے کہ اس کا روزوں سے بہت گہرا تعلق ہے۔ اوراس کے روزوں کے ساتھ بیا ن کرنے کی وجہ یہی ہے کہ جس طرح مظلوم کی ساری توجہ محدود ہو کر ایک ہی طرف یعنی خدا تعالیٰ کی طرف لگ جاتی ہے اسی طرح ماہ رمضان میں مسلمانوں کی توجہ خدا تعالیٰ کی طرف ہوجاتی ہے۔ اور قاعدہ ہے کہ جب کوئی پھیلی ہوئی چیزمحدود ہو جائے تواس کا زور بہت بڑھ جاتاہے جیسے دریا کا پاٹ جہاں تنگ ہوتاہے وہاں پانی کا بڑا زور ہوتاہے۔اسی طرح رمضان کے مہینہ میں وہ اسباب پیدا ہو جاتے ہیں جو دعا کی قبولیت کاباعث بن جاتے ہیں ۔ اس مہینہ میں مسلمانوں میں ایک بہت بڑی جماعت ایسی ہوتی ہے جو راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ تعالیٰ کی عباد ت کرتی ہے ۔ پھرسحری کے لئے سب کواٹھنا پڑتاہے اور اس طرح ہر ایک کوکچھ نہ کچھ عبادت کا موقعہ مل جاتا ہے ۔ اس وقت لاکھوں انسانوں کی دعائیں جب خداتعالیٰ کے حضور پہنچتی ہیں تو خدا تعالیٰ ان کو ردّ نہیں کرتابلکہ انہیں قبول فرماتاہے۔ اُس وقت مومنوں کی جماعت ایک کرب کی حالت میں ہوتی ہے ۔پھر کس طرح ممکن ہے کہ ان کی دعا قبول نہ ہو۔ درد اور کرب کی حالت کی دعا ضرور سنی جاتی ہے۔ جیسے یونسؑ کی قوم کی حالت کو دیکھ کر خدا تعالیٰ نے ان کو بخش دیا اور ان سے عذاب ٹل گیا ۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ سب اکٹھے ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور جھک گئے تھے۔
پس رمضان کا مہینہ دعا ؤں کی قبولیت کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتاہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں دعا کرنے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے (قَرِیْبٌ) کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ اگر وہ قریب ہونے پر بھی نہ مل سکے تو اور کب مل سکے گا۔ جب بندہ اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیتاہے اور اپنے عمل سے ثابت کر دیتاہے کہ اب وہ خدا تعالیٰ کا در چھو ڑ کر اور کہیں نہیں جائے گا تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دروازے اس پر کھل جاتے ہیں اور (اِنِّی قَرِیْبٌ)کی آواز خود اس کے کانوں میں آنے لگتی ہے جس کے معنے سوائے اِس کے اور کیا ہو سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہروقت اُس کے ساتھ رہتاہے۔ اور جب کوئی بندہ اس مقام تک پہنچ جائے تواسے سمجھ لینا چاہئے کہ اُس نے خدا کو پا لیا‘‘۔(تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعودؓ تفسیر سورۃ البقرہ زیر آیت ۱۸۷)
کلام الٰہی کو یاد کرانے کا مہینہ
سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
’’پس رمضان کلام الٰہی کو یاد کرانے کا مہینہ ہے ۔ اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے فرمایا کہ اس مہینہ میں قرآن کریم کی تلاوت زیادہ کرنی چاہئے۔ اور اسی وجہ سے ہم بھی اس مہینہ میں درس قرآن کا انتظام کرتے ہیں ۔ دوستوں کوچاہئے کہ اس مہینہ میں زیادہ سے زیادہ تلاوت کیاکریں۔ اور قرآن کریم کے معانی پر غور کیاکریں تا کہ ان کے اندر قربانی کی روح پیدا ہو جس کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی‘‘۔ (تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعودؓ سورۃ البقرہ زیر آیت ۱۸۶)
دلوں میں خدا کی محبت کا بیج بونے کا مہینہ
حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’اپنی اگلی نسلوں کی تربیت کی کوشش کریں ۔ ان کو باربار یہ بتائیں کہ عبادت کے بغیر تمہاری زندگی بالکل بے معنی اور بے حقیقت بلکہ باطل ہے ۔ ایک ایسی چیزہے جو خدا تعالیٰ کے ہاں کسی شمارمیں نہیں آئے گی۔ اس لئے جانوروں کی طرح یہیں مرکرمٹی ہو جاؤ گے ۔ مگر فرق صرف یہ ہے کہ جانور تومرکر نجات پا جاتے ہیں تم مرنے کے بعد جزا سزا کے میدان میں حاضر کئے جاؤگے ۔ پس یہ شعور ہے جسے ہمیں اگلی نسلوں میں پیدا کرناہے اور رمضانِ مبارک میں ایک بہت اچھا موقع ہے کیونکہ فضا سازگار ہو جاتی ہے۔
رمضان ایک ایسامہینہ ہے جس میں ایسے چہرے بھی دکھائی دیتے ہیں مسجدوں میں، جو پہلے کبھی دکھائی نہیں دئے اور ان کو دیکھ کر دل میں کسی قسم کی تحقیر کے جذبے نہیں پیدا ہوتے۔ کیونکہ اگر انسان ان چہروں کو دیکھے اور تحقیر کی نظر سے کہ اب آگیا ہے رمضان میں، پہلے کہاں تھا تو میرا یہ ایمان ہے کہ ایسی نظرسے دیکھنے والے کی اپنی عبادتیں بھی سب باطل ہو جائیں گی اور ضائع ہو جائیں گی۔ کیونکہ اللہ کے دربار میں اگر کوئی حاضر ہوتاہے ، ایک دفعہ بھی حاضر ہوتاہے اگر آپ کو اللہ سے محبت ہے تو پیار کی نظر ڈالنی چاہئے اس پر اور کوشش کرنی چاہئے کہ اس کو اور قریب کریں اور اس کو بتائیں کہ الحمدللہ تمہیں دیکھ کر بہت ہی خوشی ہوتی ہے ۔ تم اٹھے ، تکلیف کی ہے ، پہلے عادت نہیں تھی ۔ اب آ گئے ہو’ بسم اللہ جی آیاں نوں‘ کہو اس کو اور اس کو پیار کے ساتھ سینے سے لگائیں تا کہ آپ کے ذریعے سے اور آپ کے اخلاص کے اظہار کے ذریعے سے وہ ہمیشہ کے لئے خدا کا ہو جائے ۔
یہ وہ طریق ہے جس سے آپ اپنے گھر میں اپنے بچوں کی بہت عمدہ تربیت کر سکتے ہیں ۔ جب وہ صبح اٹھتے ہیں تو ان کو پیار اور محبت کی نظر سے دیکھیں ، ان کی حوصلہ افزائی کریں ۔ ان کو بتائیں کہ تم جو اٹھے ہو توخدا کی خاطر اٹھے ہو اور ان سے یہ گفتگو کیا کریں کہ بتاؤ آج نماز میں تم نے کیا کیا۔ کیا اللہ سے باتیں کیں، کیا دعائیں کیں اور اس طریق پر ان کے دل میں بچپن ہی سے خدا تعالیٰ کی محبت کے بیج مضبوطی سے گاڑے جائیں گے یعنی جڑیں ان کی مضبوط ہونگی ۔ ان میں وہ تمام صلاحیتیں جو خدا کی محبت کے بیج میں ہوا کرتی ہیں وہ نشوونما پاکر کونپلیں نکالیں گی۔
پس رمضان اس پہلو سے کاشتکاری کا مہینہ ہے۔ آپ نے بچوں کے دلوں میں خداکی محبت کے بیج بونے ہیں ۔ اس طریق پر ان کی آبیاری کرنی ہے یعنی روزمرہ ان کو نیک باتیں بتابتا کر کہ ان بیجوں سے بڑی سرسبز خوشنما کونپلیں پھوٹیں اور رفتہ رفتہ وہ بچے ایک شجر ہ طیبہ کی صورت اختیار کر جائیں جس کی جڑیں تو زمین میں پیوستہ ہوتی ہیں مگر شاخیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔
تو رمضانِ مبارک کو روزوں کے لحاظ سے جیسے گزارنا ہے وہ تو عام طورپر سب جانتے ہی ہیں مگر میں ان فائدوں پر نگاہ رکھ رہاہوں جو رمضان میں خاص طورپر ہجوم کر کے آ جاتے ہیں اوراس وقت آ پ اس ہجوم سے استفادہ کریں اور زیادہ سے زیادہ برکتیں لوٹ لیں۔ یہ مقصد ہے اس نصیحت کا جس کے لئے میں آ ج آ پ کو متوجہ کررہاہوں۔ بعض لوگ جانتے ہیں کنکوے اڑائے جاتے ہیں مگر بسنت میں جوکنکووں کے اڑنے کا عالَم ہے وہ چیز ہی اور ہو جاتی ہے ۔ پس خدا کی یادوں کے لئے یہ مہینہ بسنت بن گیاہے اورباربار ذکرالٰہی کے جوگیت ہیں وہ گھر گھرسے بلند ہوتے ہیں ۔ مختلف وقتوں میں اٹھتے ہیں ، صبح و شام تلاوت کی آوازیں آتی ہیں اور طرح طرح سے انسان اللہ کی یاد کو زندہ اور تازہ اور دائم کرنے کی کوشش کرتاہے تاکہ جو یاد آئے وہ پھرہاتھ سے نکل نہ جائے ‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۷؍جنوری ۱۹۹۷ء)
بچوں کو سحری کے وقت اٹھا کر نوافل پڑھنے کی عادت ڈالی جائے
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’دوسری بات رمضان میں یہ ہے کہ بچوں کو سحری کے وقت اٹھا کر کھانے سے پہلے نوافل پڑھنے کی عادت ڈالی جائے۔ قادیان میں یہی دستور تھا جو بہت ہی ضروری اور مفید تھا۔ جسے اب بہت سے گھرو ں میں ترک کر دیا گیا ہے۔ قادیان میں یہ بات رائج تھی کہ روزہ شروع ہونے سے پہلے بچوں کو عین اس وقت نہیں اٹھاتے تھے کہ صرف کھانے کاوقت رہ جائے بلکہ لازماً اتنی دیر پہلے اٹھاتے تھے کہ بچہ کم سے کم دو چار نوافل پڑھ لے ۔ چنانچہ مائیں بچوں کو کھانا نہیں دیتی تھیں جب تک پہلے نفل پڑھنے سے فارغ نہ ہو جائیں۔
سب سے پہلے اٹھ کر وضو کرواتی تھیں اور پھر ان کو نوافل پڑھاتی تھیں تا کہ ان کو پتہ لگے کہ روزہ کااصل مقصد روحانیت حاصل کرنا ہے۔ اس امر کا اہتمام کیا جاتا تھاکہ بچے پہلے تہجد پڑھیں ، قرآن کریم کی تلاوت کریں پھرکھانے پہ آئیں۔ اور اکثر اوقات الا ما شاء اللہ تہجد کا وقت کھانے کے وقت سے بہت زیادہ ہوتاتھا۔ کھاناتو آخری دس پندرہ منٹ میں بڑی تیزی سے کھا کرفارغ ہو جاتے تھے جب کہ تہجد کے لئے ان کو آدھ پون گھنٹہ مل جاتا تھا۔ اب جن گھروں میں بچوں کو روزہ رکھنے کی ترغیب بھی دی جاتی ہے ان کو اس سلیقے اور اہتمام کے ساتھ روزہ نہیں رکھوایا جاتا بلکہ آخری منٹوں میں جب کہ کھانے کا وقت ہوتاہے ان کو کہہ دیا جاتا ہے آؤ روزہ رکھ لو اور اسی کو کافی سمجھا جاتا ہے۔
یہ تو درست ہے کہ اسلام توازن کا مذہب ہے، میانہ روی کا مذہب ہے لیکن کم روی کا مذہب تو نہیں۔ اس لئے میانہ روی اختیار کرنی چاہئے۔ جہا ں روزہ رکھنا فرض قرار دیا ہے وہاں فرض سمجھنا چاہئے۔ جہاں روزہ فرض قرار نہیں دیا وہاں اس رخصت سے خدا کی خاطراستفادہ کرنا چاہئے۔ یہ نیکی ہے ۔ اسکا نام میانہ روی ہے۔ اس لئے جماعت کو اپنے روز مرہ کے معیار کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے اورروزہ کھلوانے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے اور روزہ کا معیار بڑھانے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۰؍ مئی ۱۹۸۶ء)
رمضان میں جھوٹ سے چھٹکارہ پائیں
سیدناحضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’حضرت ابوہریرہؓ بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے فرمایا جوشخص جھوٹ بولنے اور جھوٹ پر عمل کرنے سے اجتناب نہیں کرتا ، اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکاپیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔
۔۔۔تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی اس نصیحت کو پکڑیں اور اس نصیحت سے اپنے سفر کا آغاز کریں کیونکہ اکثر جو نومبایعین ہیں ان کو تو میں نے سچا ہی دیکھاہے، خصوصاً یورپ میں اکثر لوگ سچ کے ہی عادی ہیں ۔ یہ بدقسمتی ہے بعض تیسرے درجے کی دنیا کی جس میں افریقہ بھی شامل ہے پاکستان،ہندوستان، بنگلہ دیش ، ایسے لوگ ہیں بڑا ہی جھوٹ بولتے ہیں اور روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں جھوٹ کا سہارا لئے بغیر آگے بڑھ ہی نہیں سکتے ۔ ان کے سیاست دان بھی جھوٹے، ان کے پولیس کارندے بھی جھوٹے ، ان کی سول سروس والے بھی جھوٹے ،ان کے تقویٰ انصاف قائم کرنے والے بھی جھوٹے، ان کے مانگنے والے بھی جھوٹے، ان کے دینے والے بھی جھوٹے ، اتنا جھوٹ ہے کہ ایسی وبا جھوٹ کی شاید ہی دنیا میں کبھی کبھی دنیا پر بلا کے طور پر اتری ہو ۔ تو رمضان کا مہینہ ہے سب سے پہلے وہ لوگ جو ایسے ملکوں سے یہاں آئے ہیں یا دوسرے ملکوں میں گئے ہیں جہاں جھوٹ نہیں ہے وہ پہلے اپنے نفس کی تو اصلاح کرلیں ۔ بھوکے رہیں گے اور جھوٹ بھی بولیں گے تو بھوکے رہنا سب کچھ باطل ہو جائے گا۔ مفت کا عذاب ہے ، گناہِ بے لذت ہے۔ یعنی یوں کہنا چاہئے، ثواب ہے جو تکلیف دہ ثواب ہے لیکن ثواب نہیں ملتا۔ ایسا ثواب ہے جو فرضی ثواب ہے تکلیف چھوڑ جاتاہے ثواب نہیں ہوتا۔ تو اس کا کیا فائدہ‘‘ ۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۳؍فروری۱۹۹۵ء )
سحری و افطاری کو تربیت کے لئے استعمال کریں
حضور ایدہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ دیکھو رمضان میں کیسے اعلیٰ اعلیٰ مواقع آپ کو نصیب ہوتے ہیں اور کس طرح روزمرہ آپ کی اولاد کی تربیت آپ کے لئے آسان ہو جاتی ہے۔ ایک ماحول بنا ہوا ہے ، اٹھ رہے ہیں روزوں کے وقت، افطاری کے وقت اکٹھے ہو رہے ہیں اس وقت عام طو ر پرلوگ گپیں مارکے اپنا وقت ضائع کر دیتے ہیں۔ سحری کے وقت بھی میں نے دیکھا ہے یہ رجحان ہے کہ ہلکی پھلکی باتیں کرکے توہنسی مذاق یا دوسری باتوں میں سحری کے وقت کو ٹال دیتے ہیں اور ضائع کردیتے ہیں۔ اسی طرح افطاری کا حال ۔ تو میں آپ کو یہ سمجھانا چاہتاہوں کہ جہاں تک ممکن ہو سکے سحری اور افطاری کو تربیت کے لئے استعمال کریں اور تربیت کے مضمون کی باتیں کیا کریں‘‘۔( خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۷؍ جنوری۱۹۹۷ء)
روزوں میں حائل بیماریوں سے بچنے کے لئے دعا
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’پس میرے نزدیک خوب ہے کہ انسان دعا کرے کہ الٰہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتاہوں ۔ اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ، یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کرسکوں یا نہ اور اور اس سے توفیق طلب کرے ۔ مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خدا تعالیٰ طاقت بخش دے گا‘‘۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو دوسری امتوں کی طرح اس امت میں کوئی قید نہ رکھتا ۔ مگر اس نے قید بھلائی کے واسطے رکھی ہیں۔ میرے نزدیک اصل یہی ہے کہ جب انسان صدق اور کمال اخلاص سے باری تعالیٰ میں عرض کرتاہے کہ اس مہینہ سے مجھے محروم نہ رکھے تو خدا تعالیٰ اسے محروم نہیں رکھتا اور ایسی حالت میں اگر انسان ماہ رمضان میں بیمار ہو جائے تو یہ بیماری اس کے حق میں رحمت ہوتی ہے کیونکہ ہر ایک عمل کا مدار نیت پر ہے۔ مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے وجود سے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں دلاور (بہادر) ثابت کردے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶؍جنوری ۱۹۹۸ء)
روزہ صحت و تندرستی کا ضامن ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم فرماتے ہیں صُومُوا تَصِحُّوْا روزے رکھو تا کہ تمہاری صحت اچھی ہو۔اور صحت تبھی اچھی ہو سکتی ہے کہ اگرآپ روزوں سے یہ سبق سیکھیں کہ ہم جو بہت زیادہ کھایا کرتے ہیں بڑی سخت بے وقوفی تھی۔ رمضان نے ہمیں یہ کھانے کا سلیقہ سمجھا دیا ہے ۔ درحقیقت اس سے بہت کم پرہمارا گزارہ ہو سکتاہے جو ہم پہلے کھایاکرتے تھے۔ تو اپنی خوراک بچاؤ اور اس کے ساتھ اپنی صحت کی حفاظت کرو ۔
اب امرواقعہ یہ ہے کہ اس سے بہتر ڈائٹنگ کا اور کوئی طریق نہیں ہے جوروزوں نے ہمیں سکھایا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ روزے میں کھانا کم کرنا لازم ہے کیونکہ کھانا کم کئے بغیر جو اعلیٰ مقصد ہے روزے کا وہ پورا نہیں ہو سکتا۔یعنی صرف یہ نہیں کہ کچھ وقت بھوکے رہناہے بلکہ دونوں کناروں پر بھی صبر سے کام لو اور نسبتاً اپنی غذا تھوڑی کرتے چلے جاؤ۔ فرماتے ہیں اس کے بغیر انسان کی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں ہو سکتی۔ ذکرالٰہی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ذکر الٰہی ایک روحانی غذا ہے اور روزمرہ کا کھانا ایک جسمانی غذا ہے ۔ تو رمضان کی برکت یہ ہے یا روزوں کی برکت یہ ہے کہ وہ جسمانی غذا سے ہماری توجہ روحانی غذا کی طرف پھیر دیتے ہیں اور ذکرالٰہی میں ایک لطف آنا شروع ہو جاتاہے اور وہ روحانی لطف ہے جو آپ کی روح کو تروتازہ کرتاہے ۔ اس کی مضبوطی کاانتظام کرتاہے اور جسم پہ جوزائد چربیاں چڑھی تھیں ان کو پگھلاتاہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۷؍جنوری ۱۹۹۷ء )
سحری اور افطاری میں اعتدال کو پیش نظر رکھیں
سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
’’اسی طرح افطاری میں تنوع اور سحری میں تکلفات بھی نہیں ہونے چاہئیں اور یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ سارا دن بھوکے رہے ہیں اب پُرخوری کرلیں ۔ رسول کریم ﷺکے زمانہ میں صحابہ کرام ؓ افطاری کے لئے کوئی تکلفات نہ کرتے تھے ۔ کوئی کھجور سے، کوئی نمک سے ، بعض پانی سے اور بعض روٹی سے افطار کر لیتے تھے۔ ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم اس طریق کو پھر جاری کریں اور رسول کریم ﷺ اور صحابہؓ کے نمونہ کو زندہ کریں‘‘ ۔ (تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعودؓ سورۃ البقرہ زیر آیت ۱۸۶)
افطار پارٹیاں کیسی ہونی چاہئیں
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’پس افطاریوں میں بھی بہتر یہی ہے کہ آپ اپنے ہمسایوں کو دیکھیں، ارد گرد جگہ تلاش کریں اور روزمرہ واقف جو آپ کے دکھائی دیتے ہیں ان کو بھیجیں مگر صدقے کے رنگ میں نہیں۔ کیونکہ افطاری کا جو تعلق ہے وہ صدقے سے نہیں ہے۔ افطاری کا تعلق محبت بڑھانے سے ہے اوررمضان کے مہینے میں اگر آپ کچھ کھانا بنا کے بھیجتے ہیں تو طبعی طور پر محبت بھی بڑھتی ہے اور دعا کی طرف بھی توجہ پیدا ہوتی ہے۔ اگرآپ اس عزت اور احترام سے چیز دیں کسی غریب کو یا ایسے شخص کو جو نسبتاً غریب ہے کہ اس میں محبت کا پہلو غالب ہو اور صدقے کا کوئی دور کا عنصر بھی شامل نہ ہو تویہ وہ افطاری ہے جو آپ کے لئے باعث ثواب بنے گی اور آپ کے حالات بھی سدھارے گی۔
………مگر جب آپ افطاری کی دعوتیں کرتے ہیں تو بعض دفعہ بالکل برعکس نتیجہ ظاہر ہوتاہے ۔ بجائے اس کے کہ روزہ کھول کے انسان ذکر الٰہی میں مصروف ہو قرآن کریم کی تلاوت کرے جو تراویح پڑھتے ہیں وہ تراویح کے لئے تیار ہو کر جائیں اس کی بجائے مجلسیں لگ جاتی ہیں جو بعض دفعہ اتنی لمبی چل جاتی ہیں کہ عبادتیں بھی ضائع ہونے لگتی ہیں اور اگراس دن کی عشاء کی نماز پڑھ بھی لیں وقت کے اوپر تو دوسرے دن تہجد کی نماز پر اثر پڑ جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔ رمضان کے مہینے میں یہ مشاغل کرنا اس قسم کے یہ میرے نزدیک رمضان کے مقاصد سے متصادم ہے۔ اس سے ٹکرانے والی بات ہے۔ تو جو افطاریاں ہو چکیں پہلے ہفتے میں ہو گئیں آئندہ سے توبہ کریں اورمجالس نہ لگائیں گھروں میں۔ مجالس وہی ہیں جو ذکر الٰہی کی مجلسیں ہیں اور افطاری کی مجلسوں کو میں نے نہیں کبھی ذکر الٰہی کی مجلسوں میں تبدیل ہوتے دیکھا۔ پھر وہ سجاوٹ کی مجلسیں بن جاتی ہیں، اچھے کپڑے پہن کر عورتیں ، بچے جاتے ہیں۔ وہاں خوب گپیں لگائی جاتی ہیں، کھانے کی تعریفیں ہوتی ہیں اور طرح طرح کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور دوسرے دن اپنے تہجد کو ضائع کردیتے ہیں اور پھر بے ضرورت باتیں بہت ہوتی ہیں‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۷؍ جنوری ۱۹۹۷ء)
بچوں کو روزہ رکھنے کی مشق کرائی جائے
سیدنا حضرت مرز ا بشیر الدین محمود احمدخلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
’’یہ امریاد رکھنا چاہئے کہ شریعت نے چھوٹی عمر کے بچوں کو روزہ رکھنے سے منع کیاہے لیکن بلوغت کے قریب انہیں کچھ روزے رکھنے کی مشق ضرور کرانی چاہئے۔مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ تیرہ سال کی عمر میں دی تھی۔ لیکن بعض بیوقوف چھ سات سال کے بچوں سے روزہ رکھواتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس کا ثواب ہوگا۔یہ ثواب کا کام نہیں بلکہ ظلم ہے کیونکہ یہ عمرنشوونما کی ہوتی ہے ۔ ہاں ایک عمر وہ ہوتی ہے کہ بلوغت کے دن قریب ہوتے ہیں اور روزہ فرض ہونے والا ہی ہوتا ہے اُس وقت ان کوروزہ کی مشق ضرور کروانی چاہئے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت اور سنت کو اگر دیکھا جائے تو بارہ تیرہ سال کے قریب کچھ کچھ مشق کرانی چاہئے ۔ اور ہرسال چند روزے رکھوانے چاہئیں یہاں تک کہ اٹھارہ سال کی عمر ہوجائے جو میرے نزدیک روزہ کی بلوغت کی عمرہے ۔ مجھے پہلے سال صرف ایک روزہ رکھنے کی اجازت حضرت
مسیح موعودعلیہ السلام نے دی تھی ۔ اس عمر میں توصرف شوق ہوتاہے ۔ اس شوق کی وجہ سے بچے زیادہ روزے رکھنا چاہتے ہیں مگریہ ماں باپ کا کام ہے کہ انہیں روکیں۔ پھر ایک عمرایسی ہوتی ہے کہ اس میں چاہئے کہ بچوں کو جرأت دلائیں کہ وہ کچھ روزے رکھیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے رہیں کہ وہ زیادہ نہ رکھیں۔ اور دیکھنے والوں کوبھی اس پراعتراض نہ کرنا چاہئے کہ یہ سارے روزے کیوں نہیں رکھتا۔ کیونکہ اگر بچہ اس عمر میں سارے روزے رکھے گا توآئندہ نہیں رکھ سکے گا۔
اسی طرح بعض بچے خَلقی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں ۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنے بچوں کو میرے پاس ملاقات کے لئے لاتے ہیں توبتاتے ہیں کہ اس کی عمر پندرہ سال ہے حالانکہ وہ دیکھنے میں سات آٹھ سال کے معلوم ہوتے ہیں ۔ مَیں سمجھتاہوں کہ ایسے بچے روزوں کے لئے شاید اکیس سال کی عمر میں بالغ ہوں۔ اس کے مقابلہ میں ایک مضبوط بچہ غالباً پندرہ سال کی عمر میں ہی اٹھارہ سال کے برابر ہو سکتاہے۔ لیکن اگروہ میرے ان الفاظ ہی کو پکڑ کر بیٹھ جائے کہ روزہ کی بلوغت کی عمر اٹھارہ سال ہے تو نہ وہ مجھ پرظلم کرے گا اور نہ خداتعالیٰ پر بلکہ اپنی جان پرآپ ظلم کرے گا ۔ اسی طرح اگرکوئی چھوٹی عمرکابچہ پورے روزے نہ رکھے اور لوگ ا س پرطعن کریں تو وہ اپنی جان پرظلم کریں گے‘‘ ۔(تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعودؓ سورۃ البقرہ زیر آیت ۱۸۵)
رمضان کا آخری عشرہ
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ایک حدیث مسنداحمد بن حنبل جلد ۲صفحہ ۷۵ مطبوعہ بیروت سے لی گئی ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ، عمل کے لحاظ سے ان دس دنوں یعنی آخری عشرہ سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کے نزدیک عظمت والے اور محبوب اور کوئی دن نہیں ہیں۔ عمل کے لحاظ سے جو ان دنوں میں برکت ہے ایسے اور کسی عشرے اور کسی اوردن میں برکت نہیں ہے۔ پس مبارک ہو کہ ابھی کچھ دن باقی ہیں اور یہ برکتیں کلیۃً ہمیں وداع کہہ کر چلی نہیں گئیں۔ آپ ان کا استقبال کریں تو آپ کے گھر اتر کر ٹھہر بھی سکتی ہیں اور یہی حقیقی نیکی کا مفہوم ہے ۔ نیکی وہ جو آکر ٹھہر جائے اور پھر رخصت نہ ہو۔
ان ایام میں خصوصیت سے رسول اللہ ﷺ نے جس ذکر الٰہی کی تاکید فرمائی ہے وہ ایک ہے تہلیل ۔ تہلیل سے مراد ہے لاَاِلہَ اِلاّاللّٰہ، دوسرے تکبیر اَللّٰہُ اَکْبَر،اَللّٰہُ اَکْبَر،تیسرے تحمید، اَلْحَمْدُلِلّٰہ، اَلْحَمْدُلِلّٰہ۔ تو یہ تین سادہ سے ذکر ہیں جو بآسانی ہر شخص کو توفیق ہے کہ ان پر زور ڈالے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ۲۳؍جنوری ۱۹۹۸ء ۔)
آنسوؤں اور دعاؤں کی آبشاریں
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’جب رمضان آخر پر آتا ہے تو اس کی کیفیت ایسی ہوتی ہے جیسے آبشار کے قریب پانی کے بہاؤ کی ہوتی ہے ۔ اس میں ایک روانی اور تیزی آ جاتی ہے اور رمضان کے آخری دس دن تو انسان کو بہا لے جاتے ہیں۔ آنسوؤں کی آبشاریں بھی جاری ہوتی ہیں جو دلوں سے پھوٹتی ہیں‘‘۔
فرمایا:’’ جو دن باقی ہیں ان کا حق ادا کریں اور ان کو اس طرح اپنا لیں کہ آپ کو ان دنوں سے پیار ہونے لگے اور وہ دن آپ کو ایسا اپنا لیں کہ وہ اپنی برکتیں آپ کے ساتھ چھوڑ جائیں‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲؍فروری ۱۹۹۶ء)
نئی پیدائش کی خوشخبری
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’ہر رمضان ہمارے لئے ایک نئی پیدائش کی خوشخبری لے کر آتا ہے۔ اگر ہم ان شرطوں کے ساتھ رمضان میں سے گزر جائیں جو آنحضرت ﷺ نے بیان فرمائی ہیں تو گویا ہرسال ایک نئی روحانی پیدائش ہوگی اور گزشتہ تما م گناہوں کے داغ دھل جائیں گے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍ جنوری ۱۹۹۶ء)
پس رمضان کے مقدس اور بابرکت مہینہ کی بہت حفاظت اور اہتمام کرنا چاہئے تاکہ جسمانی، روحانی اور اخلاقی ہر لحاظ سے سارا سال رمضان ہمارے لئے امن و سلامتی کا ذریعہ بنا رہے اور یہ ایک بابرکت مہینہ سارے سال کے شرور و معاصی کے ازالہ اور کفارہ کا موجب بن جائے ۔
(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۲۲؍نومبر۲۰۰۲ء تا۲۸؍نومبر۲۰۰۲ء)