مسائل رمضان
ظہور احمد بشیر، لندن
روزہ کیاہے اوریہ کس پر فرض ہے ؟
روزہ اسلامی عبادات کا دوسرا اہم رکن ہے۔ یہ ایسی عبادت ہے جس میں نفس کی تہذیب، اس کی اصلاح اور قوت برداشت کی تربیت مدنظر ہوتی ہے۔ صوم (روزہ) کے لغوی معنی رکنے اور کوئی کام نہ کرنے کے ہیں۔ شرعی اصطلا ح میں طلوع فجر (صبح صادق) سے لے کر غروب آفتاب تک عباد ت کی نیت سے کھانے پینے اور جماع سے رکے رہنے کا نام صوم یا روزہ ہے۔
روزہ کی تکمیل کے لئے یہ تین بنیادی شرائط ہیں۔ لیکن خدا کی خاطر اور اس کی رضا کے حصول کے لئے کھانے پینے اور جنسی خواہش سے رکنے کا حکم ہر قسم کی برائیوں سے بچنے کے لئے بطور علامت ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
’’مَنْ لَّمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہٖ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃً فِی اَنْ یَّدَعَ طَعَامَہٗ وَ شَرَابَہٗ‘‘۔ ( بخاری کتاب الصوم )
یعنی جو شخص روزہ میں جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے۔
اسی طرح ایک اور موقعہ پر فرمایا:
’’ روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں بلکہ ہرقسم کی بیہودہ باتیں کرنے اور فحش بکنے سے رکنے کا مفہوم بھی اس میں شامل ہے۔ پس اے روزہ دار اگر کوئی شخص تجھے گالی دے یا غصہ دلائے تو تو اسے کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں‘‘۔(بخاری کتاب الصوم باب ھل یقول انی صائم اذاشتم)
جو شخص روزہ دار ہونے کے باوجود گالی گلوچ کرتا ہے تو اس کا روزہ صرف بھوکا پیاسا رہنا ہے جس سے اسے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔پس اگر کوئی شخص ان امور اور آداب کا لحاظ نہیں رکھ سکتا جو روزہ کے لئے ضروری ہیں تو اس کے محض بھوکے پیاسے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ روزہ بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں۔ بلکہ یہ تو ایک عبادت ہے جو مقررہ شرائط سے ادا ہوتی ہے۔ کئی بدقسمت ان آداب صوم کا لحاظ نہ رکھ کر اس عبادت کے اعلیٰ ثواب سے محروم ہو جاتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کئی روزہ دار ہیں جن کو ان کے روزہ سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی رات کو اٹھ کر عبادت کرنے والے ہیں مگر ان کوسوائے بیداری اور بے خوابی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘۔ (ابن ماجہ کتاب الصیام، باب ما جاء فی الغیبۃ والرفث للصائم)
رمضان کے روزے ہر بالغ ، عاقل، تندرست، مقیم (یعنی جو حالت سفر میں نہ ہو) مسلمان مرد اورعورت پر فرض ہیں۔ مسافر اور بیمار کے لئے یہ رعایت ہے کہ و ہ دوسرے ایام میں ان روزوں کو پورا کرلیں جو اس ماہ میں ان سے رہ گئے ہیں۔ مستقل بیمار جنہیں صحت یاب ہونے کی کبھی امید نہ ہو یا ایسے کمزور و ناتواں ضعیف جنہیں بعد میں بھی روزہ رکھنے کی طاقت نہ ملے، اسی طرح ایسی مرضعہ (دودھ پلانے والی) اور حاملہ جو تسلسل کے ساتھ ان عوارض سے دوچار رہتی ہے ایسے معذور حسب توفیق روزوں کے بدلہ میں فدیہ ادا کریں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ روزہ رکھنے کی عمر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ کئی ہیں جو چھوٹے بچوں سے بھی روزے رکھواتے ہیں ۔ حالانکہ ہر ایک فرض اور حکم کے لئے الگ الگ حدیں اور الگ الگ وقت ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک بعض احکام کا زمانہ چار سال کی عمر سے شروع ہو جاتا ہے۔ اور بعض احکام ایسے ہیں جن کا زمانہ سات سال سے بارہ سال تک ہے اور بعض ایسے ہیں جن کا زمانہ ۱۵ سے ۱۸ سال تک کی عمر کے بچے پر عائد ہوتا ہے اور یہی بلوغت کی حد ہے۔ ۱۵ سال کی عمر سے روزہ رکھنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔ اور ۱۸ سال کی عمر میں روزے فرض سمجھنے چاہئیں۔ مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے تھے ہمیں بھی روز ہ رکھنے کا شوق ہوتا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں روزہ نہیں رکھنے دیتے تھے ۔ اور بجائے اس کے کہ ہمیں روزہ رکھنے کے متعلق کسی قسم کی تحریک کرنا پسند کریں ہمیشہ ہم پر رعب ڈالتے تھے تو بچوں کی صحت کو قائم رکھنے اور ان کی قوت بڑھانے کے لئے روزہ رکھنے سے انہیں روکنا چاہئے۔ اس کے بعد جب ان کا وہ زمانہ آ جائے جب وہ اپنی قوت کو پہنچ جائیں جو ۱۵ سال کی عمرکا زمانہ ہے تو پھر ان سے روزے رکھوائے جائیں اور وہ بھی آہستگی کے ساتھ۔ پہلے سال جتنے رکھیں ، دوسرے سال اس سے زیاد ہ اور تیسرے سال اس سے زیادہ رکھوائے جائیں۔ اس طرح بتدریج ان کو روزوں کا عادی بنایا جائے‘‘۔(الفضل ۱۱؍ اپریل ۱۹۲۵ء)
روزہ کی اقسام
متعدد قسموں کے روزوں کا ذکر قرآن و حدیث میں پایا جاتا ہے مثلاً فرض روزے،نفلی روزے ۔ فرض روزوں کی مثال جیسے رمضان کے روزے،رمضان کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضاء، کفارۂ ظہار کے روزے، کفارۂ قتل کے روزے ،عمداً رمضان کاروزہ توڑدینے کی سزا کے ساٹھ روزے،کفارہ ٔ قسم کے روزے،نذر کے روزے ،حج تمتع یا حج قران کے روزے،بحالت احرام شکار کرنے کی وجہ سے روزہ ،بحالت ا حرام سرمنڈوانے کی وجہ سے روزہ ۔
دوسری قسم نفلی روزوں کی ہے جیسے شوال کے چھ روزے،عاشورہ کا روزہ، صوم داؤد ؑ یعنی ایک دن روزہ اور ایک دن افطار، یوم عرفہ کا روزہ ، ہر اسلامی مہینے کی ۱۳،۱۴،۱۵ تاریخ کا روزہ ۔
بعض دنوں میں روزہ رکھنا منع اورمکروہ ہے مثلاً صرف ہفتہ یا جمعہ کے دن کوخاص کرکے روزہ رکھنا، پارسیوں کی طرح نیروز و مہرگان کے دن روزہ رکھنا، صوم دہر یعنی بلا ناغہ مسلسل روزے رکھتے چلے جانا، عید کے دن اور ایام تشریق یعنی ۱۱،۱۲،۱۳ ذوالحجہ کو ر وزہ رکھنا سخت منع ہے۔
روزہ کب رکھنا چاہئے؟
رمضان کے روزوں کے لئے حکم ہے کہ لاَ تَصُوْمُوْا حَتّٰی تَرَوُا الْہِلَالَ۔ جب تک ماہ رمضان کا چاند نظر نہ آجائے روزہ نہ رکھو۔ یہ رویت نظری بھی ہو سکتی ہے اور علمی بھی ۔ رویت علمی کی دو صورتیں ہیں ۔ایک یہ کہ شعبان کے پورے تیس دن گزر چکے ہوں یا باتفاق علماءِ امت سائنسی شواہد کی بناء پر ایسا کیلنڈر بنا لیاجائے جس میں چاند نکلنے کا پورا پورا حساب ہو اور غلطی کا امکان نہ رہے۔اس سلسلہ میں حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹؍جنوری ۱۹۹۶ء میں تفصیل سے رہنمائی فرمائی ہے۔ یہ خطبہ جمعہ الفضل کے گذشتہ شمارہ(یکم؍نومبر۲۰۰۲ء) میں دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔
ریڈیو وغیرہ کے ذریعہ چاند نکلنے کی خبر شرعاً معتبر ہے۔اس کے مطابق حسب فیصلہ ارباب علم و اقتدار عمل کیا جائے گا لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ جگہ جہاں چاند دیکھا گیاہے اور جہاں خبر پہنچی ہے دونوں کا افق اور مطلع ایک ہو۔ ورنہ یہ خبر قابل عمل نہ ہوگی۔
اگر فضا صاف نہ ہو ، ابر گہری دھند ہو تو رمضان کے چاند کی رؤیت کے ثبوت کے لئے ایک معتبر عادل آدمی کی گواہی قبول کی جا سکتی ہے لیکن افطار اور عیدالفطر منانے کے فیصلہ کے لئے کم ازکم دو عادل آدمیوں کی گواہی ضروری ہے۔(ترمذی کتاب الصوم باب الصوم بالشہادۃ)
روزہ کے لئے نیت ضروری ہے
جس شخص کا روزہ رکھنے کا ارادہ ہو اسے روزہ رکھنے کی نیت ضرور کرنی چاہئے ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے:۔
جو صبح سے پہلے روزہ کی نیت نہ کرے اس کا کوئی روزہ نہیں۔(ترمذی کتاب الصوم)
نیّت کے لئے کوئی معین الفاظ زبان سے ادا کرنے ضروری نہیں ۔ نیت دراصل دل کے اس ارادے کا نام ہے کہ وہ کس لئے کھانا پینا چھوڑرہا ہے۔ نفلی روزہ میں دن کے وقت دوپہر سے پہلے پہلے (بشرطیکہ نیت کرنے کے وقت تک کچھ کھایاپیا نہ ہو)روزہ کی نیت کر سکتے ہیں۔اسی طرح اگرکوئی عذر ہو مثلاً رمضان کا چاندنکلنے کی خبر طلوع فجر کے بعد ملی ہو اور ابھی کچھ کھایا پیا نہ ہو تو اس وقت روزہ کی نیت کرسکتے ہیں اورایسے شخص کا اس دن کا روزہ ہو جائے گا۔
بیمار اور مسافر روزہ نہ رکھیں
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ :
فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ وَ عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ (البقرة: ۱۸۵)
تم میں سے جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو اسے اور دنوں میں یہ تعداد پوری کرنی ہوگی۔ اور ان لوگوں پر جو اس یعنی روزہ کی طاقت نہ رکھتے ہوں بطور فدیہ ایک مسکین کا کھانا دینا بشرط استطاعت واجب ہے۔
سیدنا حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے ۔ خدا تعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس لئے اس حکم پربھی تو عمل رکھنا چاہئے ۔ مَیں نے پڑھاہے کہ اکثر اکابر اس طرف گئے ہیں کہ اگرکوئی حالت سفر یا بیماری میں روزہ رکھتاہے تو یہ معصیت ہے۔ کیونکہ غرض تو اللہ تعالیٰ کی رضاہے ،نہ اپنی مرضی۔ اور اللہ تعالیٰ کی رضا فرمانبرداری میں ہے ۔ جوحکم وہ دے اس کی اطاعت کی جاوے اور اپنی طرف سے اس پرحاشیہ نہ چڑھایا جاوے۔ اس نے تو یہی حکم دیاہے (مَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ)۔ اس میں کوئی قید اور نہیں لگائی کہ ایسا سفر ہو یا ایسی بیماری ہو، میں سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھتا اور ایسا ہی بیماری کی حالت میں ۔(الحکم جلد ۱۱ نمبر ۴ مورخہ ۳۱؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۴)
اسی طرح فرمایا:۔
’’جو شخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہ صیام میں روزہ رکھتاہے وہ خدا تعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتاہے۔ خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے۔ مرض سے صحت پانے اور سفر کے ختم ہونے کے بعد روزے رکھے۔ خدا کے اس حکم پرعمل کرنا چاہئے کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کازور دکھاکر کوئی نجات حاصل کر سکتاہے۔ خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہویا بہت اور سفر چھوٹا ہو یا لمباہو۔ بلکہ حکم عام ہے اوراس پرعمل کرنا چاہئے ۔ مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے توان پر حکم عدولی کافتویٰ لازم آئے گا ‘‘۔(بدر جلد ۶ نمبر۴۲ ۔ مورخہ ۲۶؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۷)
سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں
حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں آنحضرت ﷺ نے اپنے ساتھیوں کا ہجوم دیکھا جس میں ایک شخص پر سایہ کیا جا رہا تھا۔ حضور ؐ نے سبب پوچھا توعرض کی گئی کہ روزہ دار کو سایہ کیا جا رہاہے۔رسول اللہ ؐ نے بڑے جلال سے فرمایا ’’لَیْسَ مِنَ الْبِرِّ اَلصَّوْمُ فِی السَّفَر‘‘ کہ سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔( بخاری کتاب الصوم)
آنحضرت ﷺ خود مسافر کا روزہ کھلوادیا کرتے تھے ۔ عمر وؓ بن امیہ ضمری بیان کرتے ہیں کہ میں آنحضرت ؐ کی خدمت میں ایک سفر سے حاضر ہوا۔ حضور نے فرمایا ’’ابو امیہؓ کھانے کا انتظار کرو‘‘۔ میں نے کہا حضور ؐ میں تو روزے سے ہوں۔ آپؐ نے ازراہ محبت فرمایا’’ادھر میرے قریب آؤ میں تمہیں بتاؤں کہ مسافر کو اللہ تعالیٰ نے روزہ سے رخصت دی ہے اور آدھی نماز بھی اسے معاف کی ہے‘‘۔( سنن نسائی کتاب الصوم)
چنانچہ صحابہ کرام اور تابعین کرام کا بھی یہی طریق تھاکہ سفرمیں روزہ نہیں رکھا کرتے تھے بلکہ روزہ رکھنا معیوب خیال کرتے تھے۔
حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ فرماتے ہیں کہ رمضان میں سفر میں روزہ رکھنے والا (خدا کے حکم کی نافرمانی کے لحاظ سے) اس شخص کی طرح ہے جو گھر میں رہ کر ( بلا عذر) روزہ نہیں رکھتا ۔(سنن ابن ماجہ)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں:
’’ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لاہور سے کچھ احباب رمضان میں قادیان آئے۔ حضرت صاحب کو اطلاع ہوئی تو آپ مع کچھ ناشتہ کے ان سے ملنے کے لئے مسجد تشریف لائے۔ ان دوستوں نے عرض کیا کہ ہم سب روزے سے ہیں۔ آپ نے فرمایا ’’ سفر میں تو روزہ ٹھیک نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رخصت پرعمل کرناچاہئے ۔ چنانچہ ناشتہ کروا کے ان کے روزے تڑوا دئے‘‘۔(سیرت المہدی حصہ دوم ، روایت ۳۷۸)
نیکی اللہ تعالیٰ کی رضا میں ہے
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ نیکی صرف رضا کے ساتھ تعلق رکھتی ہے جسم میں سختی کے ساتھ نہیں۔ اور روزوں میں بھی جسمانی سختی خدا تعالیٰ کے پیش نظر ہے ہی نہیں۔ اور بہت سی باتیں ہیں جو پیش نظر ہیں مگر تکلیف دینا خدا کے پیش نظر نہیں ہے۔ پس جب خدا فرماتا ہے کہ چھوڑ دو تو چھوڑ دو ۔ جب خدا کہتا ہے رکھو تو رکھو۔ پس فرمایا ( مَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا) جو بیمار ہو (اَوْ عَلٰی سَفَرٍ)یا سفر پر ہو( فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیاَّمٍ اُخَر) تو پھر رمضان میں روزے نہ رکھنا بعد میں رکھ لینا۔ (یُرِیْدُاللّٰہ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْر) اس وہم میں مبتلا نہ ہو کہ سختی کرو گے تو خدا بہت خوش ہوگا ۔ اپنی جان کو مصیبت میں ڈالا ہوا ہے تو اللہ بڑا راضی ہو گیا تم مصیبت میں پڑ گئے۔ اللہ تو تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے سختی نہیں چاہتا ۔۔۔۔۔۔ پس خدا کی وسیع نظر کے سامنے سرتسلیم خم کریں ۔جو اللہ چاہے، جس حد تک سختی ڈالے،اسی کو قبول کریں۔ اس سے آگے بڑھ کر زبردستی آپ خدا کو راضی نہیں کر سکتے‘‘۔( خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹؍ جنوری ۱۹۹۶ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ سفر کے لئے روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟ تو اس پر آپ ؑ نے فرمایا کہ:
’’قرآن کریم سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ( فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَر)یعنی مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے ۔ اس میں امر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کہ جس کو اختیار ہو نہ رکھے ۔ میرے خیال میں مسافر کو روزہ نہ رکھنا چاہئے اور چونکہ عام طور پر اکثر لوگ رکھ لیتے ہیں اس لئے اگر کوئی تعامل سمجھ کر رکھ لے تو کوئی حرج نہیں مگر (فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَر)کا پھر بھی لحاظ رکھنا چاہئے۔ سفر میں تکالیف اٹھا کر جو انسان روزہ رکھتا ہے تو گویا اپنے زور بازو سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتا ہے۔ اس کو اطاعت امر سے خوش نہیں کرنا چاہتا ۔ یہ غلطی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں امر اور نہی میں سچا ایمان ہے‘‘۔ (الحکم ۲۶؍ جنوری ۱۸۹۹ء)
سفر کی حد کیا ہے؟
اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
’’ میرا مذہب یہ ہے کہ انسان بہت دقتیں اپنے اوپر نہ ڈال لے ۔ عرف میں جس کو سفر کہتے ہیں خواہ وہ دو تین کوس ہی ہو اس میں قصر و سفر کے مسائل پرعمل کرے۔ ’’اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالنِّیَات‘‘ بعض دفعہ ہم دو دو تین تین میل اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں مگر کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ ہم سفر میں ہیں لیکن جب انسان اپنی گٹھڑی اٹھا کر سفر کی نیت سے چل پڑتا ہے تو وہ مسافر ہوتاہے۔ شریعت کی بنا دقت پر نہیں ہے۔ جس کو تم عرف میں سفر سمجھو وہی سفر ہے ۔ اور جیسا کہ خدا کے فرائض پر عمل کیا جاتاہے ویسا ہی اس کی رخصتوں پر عمل کرنا چاہئے ۔ فرض بھی خدا کی طرف سے ہیں اور رخصت بھی خدا کی طرف سے‘‘۔ (الحکم جلد ۵، ۱۷؍ فروری ۱۹۰۱ء ص۱۳)
روزہ رکھ کر سفر شروع کرنا
حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:
’’ سفر کے متعلق میرا عقیدہ اور خیال یہی ہے ممکن ہے بعض فقہاء کو اس سے اختلاف ہو کہ جو سفر سحری کے بعد شروع ہو کرشام کو ختم ہو جائے وہ روزہ کے لحاظ سے سفر نہیں۔ سفر میں روزہ رکھنے سے شریعت روکتی ہے۔ مگر روزوں میں سفر کرنے سے نہیں روکتی۔پس جو سفر روزہ رکھنے کے بعد شروع ہو کر افطاری سے پہلے ختم ہو جائے وہ روزہ کے لحاظ سے سفر نہیں، روزہ میں سفرہے، سفر میں روزہ نہیں‘‘۔(الفضل ۲۵؍ ستمبر ۱۹۴۲ء)
سفر میں روزے کی چار صورتیں ہو سکتی ہیں :
(۱)۔۔۔ اگر سفر جاری ہو یعنی پیدل یا سواری پر اور چلتا جا رہاہو تو روزہ نہ رکھا جائے۔ کیونکہ اس صورت میں روزہ چھوڑنا ضروری ہے۔
(۲)۔۔۔ اگر سفر کے دوران کسی جگہ رات کو ٹھہرنا ہے اور سہولت میسر ہے تو روزہ رکھا جا سکتا ہے۔ یعنی روزہ رکھنے اور نہ رکھنے دونوں کی اجازت ہے جبکہ دن بھر وہاں قیام ہے۔
(۳)۔۔۔ سحری کھانے کے بعد گھرسے سفر شروع ہو اور افطاری سے پہلے پہلے سفر ختم ہو جائے یعنی گھر واپس آ جانے کا ظن غالب ہو توروزہ رکھنے اور نہ رکھنے دونوں کی اجازت ہے۔
(۴)۔۔۔ اگر دوران سفر کسی جگہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنا ہے تو وہاں سحری کا انتظام کیا جائے اور روزہ رکھا جائے۔
دائمی مریض اور مسافر
دائمی مریض اور مسافر کے بارہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
’’جن بیماروں اور مسافروں کو امید نہیں کہ کبھی پھر روزہ رکھنے کا موقع مل سکے ۔ مثلاً ایک بوڑھا ضعیف انسان یا ایک کمزور حاملہ عورت جو دیکھتی ہے کہ بعد وضع حمل بسبب بچے کو دودھ پلانے کے وہ پھر معذور ہو جائے گی اورسال پھر اسی طرح گزر جائے گا ایسے اشخاص کے واسطے جائز ہو سکتا ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں کیونکہ وہ روزہ رکھ ہی نہیں سکتے ۔ اور فدیہ دیں۔ فدیہ صرف شیخ فانی یا اس جیسوں کے واسطے ہو سکتا ہے جو روزہ کی طاقت کبھی بھی نہیں رکھتے، باقی اور کسی کے واسطے جائز نہیں کہ صرف فدیہ دے کر روزے کے رکھنے سے معذور سمجھا جا سکے۔ عوام کے واسطے جو صحت پاکر روزہ رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں صرف فدیہ کاخیال کرنا اباحت کا دروازہ کھولنا ہے ۔ جس دین میں مجاہدات نہ ہوں وہ دین ہمارے نزدیک کچھ نہیں۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کے بوجھوں کو سر پر سے ٹالنا سخت گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ میری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ان کو ہی ہدایت دی جائے گی‘‘۔(فتاویٰ احمدیہ صفحہ ۱۸۳)
طالب علم اور روزہ
طالب علم جو امتحان کی تیاری میں مصروف ہے اس کے لئے روزہ رکھنے کے بارہ میں یہ ہدایت ہے کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے روزمرہ کی مصروفیات کو ترک کرنے کا ہمیں حکم نہیں دیا گیا ۔ اس لئے روز مرہ کے کام کی وجہ سے اگر ایک انسان کے لئے روزہ ناقابل برداشت ہے تو وہ مریض کے حکم میں ہے لیکن اس بارہ میں کلیۃً وہ اپنے اقدام کا خود ذمہ دار ہوگا اور اس سے اس کی نیت اور حالت کے مطابق اللہ تعالیٰ سلوک کرے گا گویا اپنے حالات کے بارہ میں فیصلہ دینے میں انسان آپ مفتی ہے۔۔۔۔۔(الفضل ۲۲؍ مئی ۱۹۲۲ء)
مزدور اور روزہ
سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض مزدور روزہ رکھنے میں تکلیف محسوس کرتے ہیں کیا وہ اس عذر کی بناء پر روزہ ترک کر سکتے ہیں؟۔
روزہ رکھنے سے کسی کو تکلیف نہیں ہوتی۔ قرآن مجید نے اس عذر کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی احادیث میں اس کی تصریح آئی ہے حالانکہ مزدور اس وقت بھی تھے۔ ہاں اگر کمزوری ہے اور روزہ ناقابل برداشت ہے تو یہ بیماری کے حکم میں ہے اور بیمار پر روزہ فرض نہیں ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں جب یہ سوال پیش کیا گیا کہ بعض اوقات رمضان ایسے موسم میں آتا ہے کہ کاشتکاروں سے جب کہ کام کی کثرت ہوتی ہے مثلاً تخمریزی کرنا یا فصل کاٹنا ہے۔ اسی طرح مزدور جن کا گزراہ مزدوری پر ہے ان سب سے روزہ نہیں رکھا جاتا ان کی نسبت کیا ارشاد ہے؟۔
اس پر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا : ’’اِنّماالاَعمالُ بالنّیات‘‘ یہ لوگ اپنی حالتوں کو مخفی رکھتے ہیں ۔ ہر شخص تقویٰ و طہارت سے اپنی حالت سوچ لے۔ اگر کوئی اپنی جگہ مزدور رکھ سکتا ہے تو ایسا کرے ورنہ مریض کے حکم میں ہے پھر جب یُسر ہو رکھ لے‘‘۔(البدر ۲۶؍ ستمبر ۱۹۰۷ء)
حائضہ، مرضعہ اور حاملہ
حائضہ عورت روزہ نہیں رکھ سکتی۔ حائضہ کے بارہ میں حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ہم حیض کے باعث روزے چھوڑ تی تھیں توہمیں بعد میں وہ روزے پورے کرنے کا ارشاد ہوتا تھا۔(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام )
نفاس والی عورت کا بھی یہی حکم ہے کہ وہ روزہ نہیں رکھ سکتی۔ لیکن جب بعد میں یہ عذر دور ہو جائیں یعنی حائضہ حیض سے پاک ہو جائے اور نفاس کے دن ختم ہوجائیں تو چھوڑے ہوئے روزوں کی قضاء واجب ہوگی۔ اور یہ روزے انہیں رکھنے ہونگے۔
مرضعہ اور حاملہ کے متعلق حدیث میں آتاہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مسافر سے آدھی نماز معاف کر دی ہے اور حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو روزہ سے رخصت دی ہے‘‘۔ (ترمذی ابواب الصوم)
ؒ یعنی یہ دونوں اپنے عذر کے ختم ہونے کے بعد چھوڑے ہوئے روزے پورے کر لیں۔ اگر طاقت ہو تو فدیہ بھی دینا چاہئے جو اس بات کا کفارہ ہوگا کہ رمضان کی برکتوں والے مہینے میں وہ روزہ کی عبادت بجا لانے سے محروم رہی ہیں۔ اگر فدیہ ادا کرنے کی طاقت نہیں تو روزے کافی ہیں۔
اگر کسی عورت کو ایسی حالت پیش آتی رہتی ہے کہ ایک وقت میں مرضعہ ہے اور دوسرے وقت میں حاملہ تو اس سے روزہ معاف ہے اور صرف فدیہ کافی ہے۔ اسی طرح شیخ فانی اور دائم المریض کے لئے بھی یہی حکم ہے کہ جس کے لئے آئندہ روزہ رکھنے کا امکان صحت کے لحاظ سے کوئی نہیں تو صرف فدیہ ہی ادا کر دے۔
سحری کے آداب
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا :’’تَسَحَّرُوْا فَاِنَّ فِی السُّحُوْرِ بَرَکَۃٌ‘‘اے مسلمانو ! سحری کھایاکرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔
آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں: ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں ایک فرق سحری کھانا بھی ہے۔ مسلمان سحر ی کھا کر روزہ رکھتے ہیں اوراہل کتاب سحری نہیں کھاتے۔(سنن الدارمی،کتاب الصوم بابفضل السحور)
سحری کاوقت آدھی رات کے بعد سے فجر کے طلوع ہونے تک ہے لیکن آدھی رات کو اٹھ کر سحری کھا لینا مسنون نہیں۔ اصل برکت اتباع سنت میں ہے اورسنت یہ ہے کہ طلوع فجر سے تھوڑاپہلے انسان کھا پی لے ۔ آنحضرت ﷺ اورآپ ؐ کے صحابہ کرامؓ 5 کا یہی طریق تھا ۔ صحابہ کرامؓ بیان کرتے ہیں کہ: سحری کھانے کے بعد ہم نماز کیلئے کھڑے ہو جاتے تھے ۔(ترمذی کتاب الصوم باب تأ خیر السحور)یعنی سحری کے اختتام اور نماز فجر کے دوران بہت کم وقفہ ہوتا تھا۔
حضرت انسؓ ، حضرت زیدؓ بن ثابت سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ سحری کھائی پھر ہم نماز فجر کے لئے کھڑے ہوگئے۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ سحری اور نماز فجر کے درمیان کتنا وقفہ ہوا کرتا تھا تو زید بن ثابتؓ نے جواب دیا کہ قریباً پچاس آیات پڑھنے کے برابر وقفہ ہوتاتھا۔(بخاری۔کتاب الصوم)
یعنی اندازاً دس سے پندرہ منٹ ۔ پچاس آیات کی تلاوت پر قریباً اتنا وقت خرچ ہوتا ہے۔
سحری کی تاکید کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے اس کی حکمت بھی بیان فرمائی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ :
’’ آنحضرت ﷺ نے فرمایا سحری کے کھانے کے ذریعہ دن کے روزہ ( کی مشقت) اور رات کی عبادت (میں جاگنے) کے مقابل پر قیلولہ کے ساتھ مدد چاہو‘‘۔(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام باب ما جاء فی السحور)
ایک اورموقع پر آپ ؐنے فرمایا:’’ صبح کا یہ مبارک کھانا رات کے آخری حصہ میں کھایا کرو‘‘۔(الجامع الصغیرالجزء الاول حدیث ۳۲۹۲)
اسی طرح فرمایا :’’ سحری کیا کروخواہ ایک گھونٹ پانی ہی کیوں نہ ہو‘‘۔(الجامع الصغیر الجزء الاول حدیث نمبر ۳۲۹۳)
کیا سحری کھانا ضروری ہے؟
سحری کھائے بغیر روزہ رکھنے میں برکت نہیں لیکن اگر انسان کی اس وقت آنکھ کھلے جب فجر طلوع ہو چکی ہو اور سحری کھانے کا وقت نہ رہا ہو تو بغیر سحری کھانے کے روزہ رکھ لینا جائز ہے۔ لیکن بطور عادت کے ایسا کرنا پسندیدہ نہیں۔
اللہ تعالیٰ کی حدود کو قائم رکھنا بڑا ضروری ہے۔ ہر ایک نیکی کا کام اسی وقت نیکی کا کام ہو سکتاہے جب کہ وہ اللہ کے بیان کردہ احکامات اور آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کے مطابق ہو۔ بغیر سحری کھائے روزہ رکھنا آنحضرت ﷺ نے پسند نہیں فرمایا۔ بلکہ یہ فرمایا کہ’’ سحری کھایاکرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے‘‘۔
آنحضرت ﷺ کی سحری
رسول اللہ ﷺ کے خادم حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ سحری کے وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ اے انس !میں نے روزہ رکھنا ہے مجھے کھانے کی کوئی چیز لا دو‘‘ ۔ حضرت انس کہتے ہیں میں کھجوریں اور ایک برتن میں پانی لے آیا۔ اور اس وقت حضرت بلالؓ کی پہلی اذان ہو چکی تھی۔ حضور نے فرمایا ’’ انس! دیکھو (مسجد میں) کوئی اورآدمی ہے جو میرے ساتھ سحری میں شامل ہو‘‘ ۔حضرت انسؓ نے زیدؓ بن ثابت کو بلایا تو انہوں نے کہا’’ میں تو ستّو پی کر روزہ رکھ چکا ہوں‘‘۔ حضور نے فرمایا ’’ہم نے بھی روزہ ہی رکھنا ہے‘‘۔ چنانچہ زیدؓ بن ثابت نے حضور ؐ کے ساتھ سحری کھائی۔ (سنن نسائی کتاب الصیام )
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور سحری میں کسی قسم کے تکلفات نہیں فرماتے تھے ۔ جو میسر ہوتاتھا اس سے روزہ رکھ لیتے تھے بلکہ ایک موقعہ پر آنحضورؐ نے فرمایا کھجور مومن کے لئے کتنی اچھی سحری ہے۔
آنحضرت ﷺ نے رمضان میں مسلمانوں کی سہولت کے لئے یہ انتظام فرمایا تھا کہ صبح کی دو اذانیں ہوتی تھیں۔ پہلی اذان حضرت بلالؓ فجرکے طلوع ہونے سے پہلے دیتے تھے جس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اب سحری کا آخری وقت ہے جو شخص نماز تہجد ادا کر رہا ہے یا جو سویا ہوا ہے وہ بھی اٹھ کر سحری کھالے اوردوسری اذان حضرت ابن ام مکتومؓ اس وقت دیا کرتے تھے جب فجر طلوع ہو جاتی تھی اوراس کا مقصد سحری کے وقت کے ختم ہو جانے کا اعلان ہوتاتھا ۔ اس لئے حضور ؐ نے فرمایا کہ جب بلال اذان دے تو کھاتے رہا کرو اورجب ابن ام مکتوم اذان دے تو سحری ختم کر لیاکرو۔ (بخاری کتاب الصوم باب قول النبی لا یمنعکم من سحور کم اذان بلال)
لیکن اس میں گنجائش بھی رکھ دی کہ جب تک پوری طرح فجر نہ ہو جائے تو کھا پی سکتے ہیں خواہ اذان ہو رہی ہو۔ (سنن نسائی کتاب الصیام باب کیف الفجر)
افطاری کے آداب
روزہ کی افطاری کا وقت نہایت بابرکت گھڑی ہوتی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی اسے افطاری کے وقت حاصل ہوتی ہے اور دوسری اس وقت ہوگی جب روزہ کی وجہ سے خدا سے اس کا لقاء ہوگا۔(ابن ماجہ کتاب الصیام باب ما جاء فی فضل الصیام)
پس افطاری کے وقت کے نہایت بابرکت لمحات کو ضائع نہیں کرنا چاہئے بلکہ قبولیت دعا کے اس وقت میں دعائیں کرنی چاہئیں۔ آنحضرت ﷺ افطاری کے وقت یہ دعا کیاکرتے تھے :اللّٰھُمَّ اِنِّیْ لَکَ صُمْتُ وَ عَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ۔(ابوداؤدکتاب الصیام باب القول عند الافطار)
حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:جب دن چلا جائے اور رات آ جائے اور سورج ڈوب جائے تو روزہ افطار کر لو۔ ( بخاری کتاب الصوم، باب متی یحل فطر الصائم)
حضرت سہیل بن سعدؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا :کہ روزہ افطار کرنے میں جب تک جلدی کرتے رہیں گے اس وقت تک خیر و برکت بھلائی اور بہتری حاصل کرتے رہیں گے۔( بخاری کتاب الصوم۔ باب تعجیل الافطار)
اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا:’’ دین اسلام اس وقت تک مضبوط رہے گا جب تک لوگ روزہ جلدی افطار کرتے رہیں گے ۔ کیونکہ یہودی اور عیسائی روزہ افطار کرنے میں تاخیر کرتے تھے ‘‘۔(ابوداؤد کتاب الصوم۔باب مایستحب من تعجیل الفطر)
حضرت ابی اوفی ؓا ٓنحضرت ﷺ کے ایک سفر کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ میں اس سفر میں حضور ﷺ کے ہمراہ تھا ۔ غروب آفتاب کے بعد حضور ؐ نے ایک شخص کو افطاری لانے کا ارشاد فرمایا۔ اس شخص نے عرض کی کہ حضور ذرا تاریکی ہو لینے دیں۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ افطاری لاؤ۔ اس شخص نے پھر عرض کی کہ حضور ابھی توروشنی ہے۔ حضور ؐ نے فرمایا افطاری لاؤ ۔ وہ شخص افطاری لایا۔ آپ ؐ نے روز ہ افطار کرنے کے بعد اپنی انگلی سے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جب تم غروب آفتاب کے بعد مشرق کی طرف سے اندھیرا اٹھتے دیکھو تو افطار کر لیاکرو۔ (صحیح مسلم۔ کتاب الصوم باب بیان وقت انقضاء الصوم)
آنحضرت ﷺ کی افطاری
آنحضرت ﷺ روزہ افطار کرنے میں بھی کوئی تکلف نہیں فرماتے تھے ۔ حضرت انسؓ بن مالک جو آپ کے خادم خاص تھے بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نماز مغرب سے قبل تازہ کھجور کے چند دانوں سے روزہ افطار فرماتے تھے ۔ اگر تازہ کھجور میسر نہ ہو تو خشک کھجور کھا کر ہی روزہ کھول لیتے اوراگر خشک کھجور بھی نہ ملتی تو پانی کے چند چلو بھر کر افطاری کر لیتے ۔(ابوداؤد ،کتاب ا لصوم، باب ما یفطر علیہ )
آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کو بھی ایسی سادہ افطاری کی تلقین فرمائی ہے۔ آ پؐ نے فرمایا:
’’ جب تم میں سے کوئی افطاری کرے تو کھجور سے کرے کیونکہ یہ بہت خیر وبرکت رکھتی ہے اوراگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے روزہ کھولے جو طہارت مجسم ہے‘‘۔(ترمذی کتاب الزکوٰۃ باب فی الصدقۃ علی ذی القرابۃ)
روزہ افطار کروانے کا ثواب
آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو روزہ افطار کرائے اسے روزہ رکھنے والے کے برابر ثواب ملے گا لیکن اس سے روزے دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔
ایک دفعہ حضرت سعدؓ بن معاذ کے ہاں رسول اللہ ﷺ افطاری کے لئے تشریف لے گئے۔ آنحضرت ﷺ نے روزہ کھولا اور فرمایا ’’تمہارا کھانا نیک لوگوں نے کھایا اور فرشتوں نے دعائیں کیں‘‘۔ (ابن ماجہ کتاب الصیام باب فی ثواب من فطر صائما)
وہ امور جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے
عمداً یعنی جان بوجھ کر کھانے پینے اور جماع یعنی جنسی تعلق قائم کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ٹیکہ لگوانے اور جان بوجھ کر قے کرنے سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
حدیث میں آتاہے کہ :اگر کسی روزہ دار کو بے اختیار قے آ جائے تو اس پر روزہ کی قضاء نہیں لیکن جو روزہ دار جان بوجھ کر قے کرتاہے تو وہ روزہ قضاء کرے۔ (ترمذی ۔ ابواب الصوم، باب ما جاء من استقاء عمداً)
جان بوجھ کر روزہ تو ڑنا
اللہ تعالیٰ کے محارم اور شعائراللہ کی تعظیم اور حفاظت ضروری ہے ۔ روزہ کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے بیمار، معذور اور مسافر کو رخصت دی ہے اس کے بعد بھی وہ شخص جو بغیر کسی ایسے عذر کے جس میں شریعت نے روزہ توڑ نے کی اجازت دی ہو جان بوجھ کر روزہ توڑے تو سخت گنہگار ہے اور سزا کا مستحق ہے۔ ایسے شخص پر اس روزہ کی قضاء کے علاوہ بغرض توبہ کفارہ واجب ہوگا۔ یعنی اسے متواتر ساٹھ روزے رکھنے پڑیں گے یا ساٹھ مسکینوں کو اپنی حیثیت کے مطابق کھانا کھلانا پڑے گا۔(ترمذی، ابواب الصوم، باب ما جاء فی کفارۃ الفطر فی رمضان)
وہ امور جن سے روزہ نہیں ٹوٹتا
روزہ کی شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے فقہاء نے ایک عمومی اصول لکھا ہے کہ وضو جسم سے کوئی چیز خارج ہونے سے ٹوٹتاہے اور روزہ جسم میں کوئی چیز داخل ہونے سے ٹوٹتا ہے۔ یعنی انسان کوئی چیز جان بوجھ کر کھا پی لے تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔ لیکن اگر کوئی شخص بھول کر کھا پی لے تو اس کا روزہ
علیٰ حالہٖ باقی رہے گا۔ اور کسی قسم کا نقص اس کے روزہ میں واقع نہیں ہوگا۔ اس بارہ میں آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے:اگرکوئی شخص بھول کر روزہ میں کھا پی لے تو اس سے اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا ۔ وہ اپنا روزہ پورا کرے کیونکہ اس کو اللہ تعالیٰ کھلا پلا رہا ہے۔( بخاری کتاب الصوم۔ باب الصائم اذا اکل او شرب نا سیا)
البتہ اگر کوئی شخص غلطی سے روزہ توڑ بیٹھے مثلاً روزہ یاد تھا لیکن یہ سمجھ کر روزہ کھول لیا کہ سورج ڈوب گیا ہے یا یہ کہ افطار کاوقت ہو چکا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ابھی تو سورج غروب نہیں ہوا اور نہ ہی افطار کا وقت ہوا ہے تو ایسی صورت میں اس کا روزہ مکمل نہیں ہوگا اور اس کی قضاء ضروری ہوگی لیکن اس غلطی کی وجہ سے نہ وہ گنہگارہے اور نہ اس پر کوئی کفارہ ہے۔
حضرت ابن عباسؓ روزہ دار کو یہ رعایت بھی دیتے ہیں کہ اگر ہنڈیا کا ذائقہ نمک مرچ وغیرہ چکھ کر تھوک دے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
اگر کلی کرتے وقت بلا اختیار پانی کے چند قطرے حلق سے نیچے اتر جائیں تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اسی طرح کان میں دو ا ڈالنے، بے اختیار قے آنے، آنکھ میں دوا ڈالنے ، نکسیر پھوٹنے ، دانت سے خون جاری ہونے ، مسواک یا برش کرنے، ،خوشبو سونگھنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اسی طرح دن کے وقت سوتے میں احتلام ہو جانے کی وجہ سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔(سنن ابی داؤد،کتاب الصوم، باب فی الصائم یحتلم نہاراً فی شہر رمضان)
سرمہ لگانے سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’دن کو سرمہ لگانے کی ضرورت ہی کیا ہے رات کو لگائے‘‘۔(البدر ۷؍ جون ۱۹۰۷ء)
جنابت کی حالت میں اگر نہانا مشکل ہو تو نہائے بغیر کھانا کھا کر روزہ کی نیت کر سکتا ہے او ر روزہ رکھا جا سکتا ہے۔
روزے کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ کا استعمال غیر پسندیدہ ہے البتہ سادہ برش کرنا اور کلی کرنا جائز ہے۔ اسی طرح بیرونی اعضاء پر ٹنکچر کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اگر کوئی روز ہ دار کسی حادثہ میں مریض کو خون دے تو اس کے خون دینے سے اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا لیکن چونکہ ایسا کرنے سے کمزوری ہو جاتی ہے اس لئے روزہ کھول دینا چاہئے۔ خون دینا چونکہ انسانی جان کی حفاظت کے لئے بعض اوقات ضروری ہے اور روزہ تو بعد میں بھی رکھنے کی اجازت ہے اور خدا تعالیٰ نے یہ رعایت دی ہے اس لئے روزہ ایسی مجبوری کی صورت میں خون دینے کے لئے روک نہیں بننا چاہئے۔
فدیہ
عام ہدایت یہ ہے کہ انسان روزے بھی رکھے اور اگر استطاعت ہو تو فدیہ بھی دے۔ روزوں کا رکھنا فرض ہوگا اور فدیہ کا ادا کرنا سنت اور اس بات کا شکرانہ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ عبادت کی توفیق بخشی ہے کیونکہ روزہ رکھ کر جو فدیہ دیتا ہے وہ زیادہ ثواب کا مستحق ہوتا ہے کیونکہ روزہ رکھنے کی توفیق پانے پر خدا تعالیٰ کا شکرانہ ادا کرتا ہے۔
رمضان کے روزوں کا فدیہ اس شخص کیلئے ضروری نہیں جووقتی بیمار ہونے کی وجہ سے چند روزے چھوڑ دینے پر مجبور ہو گیا ہو۔ سوائے اس کے کہ وہ اس نیت سے فدیہ دے کہ اللہ تعالیٰ اسے بوجہ بیماری یا سفر چھوٹنے والے ان روزو ں کی قضاء کی توفیق بخشے اور رمضان کے ان روزوں کے اجر سے محروم نہ فرمائے جو بوجہ مجبوری اسے چھوڑنے پڑے۔
رمضان کے روزوں کا لازمی فدیہ صرف ایسے ذی استطاعت لوگوں کے لئے ہے جن کے متعلق یہ توقع نہیں کہ مستقبل قریب میں ان روزوں کی قضاء کر سکیں گے جیسے بوڑھا ضعیف جس کے قویٰ میں انحطاط شرع ہو چکا ہے یا کو ئی دائم المریض یا حاملہ اور مرضعہ (یعنی دودھ پلانے والی عورت) ہے۔ ایسے لوگوں کو اگر آسودگی حاصل ہو تو ہر روز ہ کے عوض ایک آدمی کا دو وقت کا کھانا یا اس کے برابر رقم کسی کو دے دینی چاہئے۔
اگر روک عارضی ہو اوربعد میں دور ہو جائے تو خواہ فدیہ دیا ہو یا نہ دیا ہو روزہ بہرحال رکھنا ہوگا کیونکہ فدیہ دے دینے سے روزہ اپنی ذات میں ساقط نہیں ہو جاتا بلکہ یہ تو محض اس بات کا بدلہ ہے کہ وہ ان دنوں میں باقی مسلمانوں کے ساتھ مل کر اس عبادت کو ادا نہیں کر سکا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک شخص نے سوال کیا کہ میں نے آج سے پہلے کبھی روزہ نہیں رکھا ، اس کاکیا فدیہ دوں؟۔ اس پرآپ نے فرمایا :
’’ خدا کسی شخص کو اس کی وسعت سے باہر دکھ نہیں دیتا ۔ وسعت کے موافق گزشتہ کا فدیہ دے دو۔ آئندہ عہد کرو کہ سب روزے رکھوں گا‘‘۔ (البدر جلد ۱،نمبر ۱۲, ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۱)
فدیہ کی مقدار
فدیہ کی مقدار کے متعلق اصولی ہدایت یہ ہے کہ( مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُم) (المائدہ :۹۰) جو تم بالعموم اوسطاً اپنے گھروالوں کو کھلاتے ہو۔ یعنی اپنے اوسط معیار کے موافق کھانا کھلانا چاہئے۔
حضرت امام ابو حنیفہ ؒ نے اس کا اندازہ گندم کے لحاظ سے نصف صاع یعنی قریباً پونے دو سیر بیان کیاہے۔ یہ ایک فوت شد ہ روزے کا فدیہ ہوگا جو دو وقت کے کھانے کے لئے کفایت کرے گا۔
فدیہ کس کو ادا کیا جائے؟
یہ ضروری نہیں کہ فدیہ کسی ایسے غریب کو ہی دیا جائے جو روزہ رکھتا ہے۔ اصل مقصد مستحق و نادار کوکھانا کھلانا ہے خواہ وہ روزے رکھ سکتا ہو یا کسی عذرکی بنا پر نہ رکھ سکتا ہو۔اسی طرح فدیہ اسی پر واجب ہے جو ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو ورنہ ایک غیر مستطیع کے لئے ندامت، توبہ،استغفار ، دعا اور ذکر الٰہی کا ورد کفایت کرے گا۔ فدیہ کی رقم جماعتی انتظام کے تحت جمع کرانی چاہئے۔
اعتکاف اور اس کے مسائل
اعتکاف کے لغوی معنی کسی جگہ میں بند ہو جانے یا ٹھہرے رہنے کے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں ’’اَللَّبْثُ فِی الْمَسْجِدِ مَعَ الصَّوْمِ وَنِیَّۃِ الْاِعْتِکَافِ‘‘ یعنی عبادت کی نیت سے روزہ رکھ کر مسجد میں ٹھہرنے کا نام اعتکاف ہے۔
روز ہ کی طرح اعتکاف کا بھی وجود دیگر مذاہب میں ملتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
( وَعَھِدْنَاإلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرْبَیْتِیَ لِلطَّائِفِیْنَ وَالْعَاکِفِیْنَ وَالرُّکَعِ السُّجُوْد)( البقرہ : ۱۲۶)
ہم نے ابراہیم ؑ اور ا سمٰعیلؑ کو تاکیدی حکم دیا تھا کہ میرے گھر (خانہ کعبہ) کو طواف کرنے اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک اور صاف رکھو۔
آنحضرت ﷺ کا بعثت سے قبل کے ایام میں دنیوی اشغال سے فارغ ہو کر غار حرا میں یاد خداوند ی میں مشغول رہنا بھی ایک رنگ میں اعتکاف ہی تھا۔ اعتکاف انسان جب چاہے اورجس دن چاہے بیٹھ سکتا ہے لیکن رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھنا مسنون ہے۔
آنحضرت ﷺ کے اعتکاف کے بار ے میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ:
’’ آنحضرت ﷺ کا اپنی وفات تک یہ معمول رہا کہ آپ ؐ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے۔ آپ ؐ کی وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرات بھی اس سنت کی پیروی کرتی رہیں‘‘۔(صحیح مسلم، کتاب الاعتکاف باب اعتکاف العشر الاواخر)
آنحضرت ﷺ لیلۃ القدر کی تلاش کرنے والوں کو رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھنے کی ہدایت فرمایا کرتے تھے ۔ چنانچہ آپ ؐ نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ ’’ مجھے بتایا گیا ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ میں ہے ۔ تم میں سے جو شخص اعتکاف بیٹھنا چاہے وہ اس عشرہ میں بیٹھے ۔ چنانچہ صحابہؓ آپ ؐ کے ساتھ آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھتے ۔
اعتکاف کتنے دن بیٹھنا چاہئے
اعتکاف کے لئے کوئی میعاد مقرر نہیں۔ یہ بیٹھنے والے کی مرضی پر منحصر ہے، جتنے دن بیٹھنا چاہے بیٹھے ۔ تاہم مسنون اعتکاف جو آنحضرت ﷺ کے طرز عمل سے ثابت ہے یہ ہے کہ کم از کم دس دن کا ہو۔ حدیث میں ہے:
’’ حضورﷺہمیشہ ماہ رمضان میں دس دن اعتکاف بیٹھا کرتے تھے ۔ البتہ جس سال آپ ؐ کی وفات ہوئی اس سال آپ ؐ بیس دن کا اعتکاف بیٹھے‘‘۔
اعتکاف کب شروع ہوگا؟
اعتکاف بیس رمضان کی نماز فجر سے شروع کرنا چاہئے کیونکہ آنحضرت ﷺ کے بارے میں واضح طور پر موجود ہے کہ آپ دس دن کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور دس دن اسی صورت میں مکمل ہوتے ہیں جبکہ بیس رمضان کی صبح کو اعتکاف میں بیٹھا جائے۔ اور عید کا چاند نظر آنے پر معتکف کا اعتکاف مکمل ہو جاتا ہے۔
آنحضرتﷺ نماز فجر کے بعد اپنے مُعتکَف میں قیام پذیر ہو جاتے ۔ حضرت عائشہؓ کی روایت ہے: ’’ رسول اللہ ﷺ جب اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو
نماز فجر ادا کرنے کے بعد اپنے مُعتکَف میں جو اس غرض کے لئے تیار کیا جاتا چلے جایا کرتے تھے‘‘۔
حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں:’’ اعتکاف بیسویں کی صبح کو بیٹھتے ہیں ۔ کبھی دس دن ہو جاتے ہیں اور کبھی گیارہ‘‘۔(الفضل ۳؍نومبر ۱۹۱۴ء)
اعتکاف کس جگہ پر کیا جا سکتا ہے
اعتکاف کے لئے موزوں اور مناسب جگہ جامع مسجد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ذکر ہے: (وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسَاجِدِ)
کیونکہ مساجد ہی اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی عبادت کے لئے مخصوص ہیں اور احادیث میں مسجد میں ہی اعتکاف بیٹھنے کی تاکید ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں :
اعتکاف صرف جامع مسجد میں ہوسکتا ہے ۔ (ابوداؤد کتاب الاعتکاف باب المعتکف یعود المریض)
چنانچہ سارے آئمہ اس رائے پر متفق ہیں کہ اعتکاف ایسی مسجد میں ہو سکتا ہے جس میں باجماعت نماز ہوتی ہو۔ گو مجبوری کی بناء پر مسجد کے باہر بھی اعتکاف ہو سکتا ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’ مسجد سے باہر اعتکاف ہو سکتا ہے مگر مسجد والا ثواب نہیں مل سکتا۔ جب باقاعدہ عام مسجد میسر نہ آئے مثلاً کہیں اکیلا احمدی رہتاہے یا مقامی جماعت کے افراد کسی دوست کے گھر میں نماز ادا کرتے ہیں تو ایسی صورت میں اپنے گھر میں ایسی جگہ جو نماز کے لئے عام طور پر مخصوص کر لی گئی ہو اعتکاف بیٹھ سکتے ہیں۔ مجبوری کی حالت کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور وہ بندے کی نیت کے مطابق اعمال کا ثواب دیتا ہے‘‘۔
عورت بھی مسجد میں اعتکاف بیٹھ سکتی ہے لیکن اگر کسی جگہ مسجد نہیں یا مسجد میں عورت کی رہائش کا معقول اور مناسب انتظام نہیں تو گھرمیں نماز کے لئے ایک الگ جگہ مخصوص کر کے وہاں اعتکاف بیٹھنا اس کے لئے زیادہ بہتر ہے۔ اعتکاف کے دوران اگر عورت کے مخصوص ایام شروع ہو جائیں تو وہ اعتکاف ترک کر دے۔ اس حالت میں اس کا مسجد میں رہنا درست نہیں ہوگا۔
کیا اعتکاف کے لئے روزہ شرط ہے؟
عام حالات میں اعتکاف کے لئے روزہ ضروری شرط ہے۔حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ روزہ کے بغیر اعتکاف درست نہیں۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں:
’’ لَا اِعْتِکَافَ اِلَّابِالصَوْم‘‘ کہ روزہ کے بغیر اعتکاف نہیں ہے۔آیت کریمہ(ثُمَّ اَتِمُّواالصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فَی الْمَسَاجِدِ) کا انداز بیان بھی اسی مسلک کی تائید کرتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ تصریح کہیں نہیں ملتی کہ آنحضرت ﷺ یاآپؐ کے صحابہ کبھی روزہ کے بغیر اعتکاف بیٹھے ہوں۔ صحابہؓ میں سے حضرت ابن عباسؓ ، حضرت ابن عمرؓ اور آئمہ میں سے امام مالک ؒ ، امام ابو حنیفہؒ امام اوزاعیؒ کا یہی مسلک ہے کہ اعتکاف کے لئے روزہ ضروری ہے۔
مُعتکِف کن ضروریات کے لئے مسجد سے باہر جا سکتا ہے
معتکف کے لئے حوائج ضروریہ کے علاوہ کسی اوروجہ سے مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں۔
حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اعتکاف کی حالت میں سوائے انسانی حاجت کے گھرمیں نہیں آتے تھے۔(یہ امر یاد رہے کہ آنحضرت ﷺ کا گھر مسجد کے ساتھ ملحق تھا)۔
کلی انقطاع اعتکاف کا اعلیٰ درجہ ہے۔ حضرت عائشہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ سنت یعنی آنحضرت ﷺ کے طریق کی متابعت یہ ہے کہ معتکف مسجد سے باہر نہ نکلے۔ نہ بیمار کی عیادت کے لئے اور نہ ہی جنازہ میں شامل ہونے کے لئے ۔ ہاں حوائج ضروریہ کے لئے باہر جا سکتا ہے۔ (ابوداؤد،کتاب الصیام،باب المعتکف یعود المریض)
انسانی حاجت سے مراد کیا ہے؟ اس کا ایک مفہوم بیت الخلاء جانا ہے۔ اس مفہوم پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ یہ ایسی ضرورت ہے جس کے لئے مسجد سے باہر آنا ضروری ہے۔ اسی طرح اگر محلہ کی مسجد میں اعتکاف بیٹھا ہے تو جمعہ پڑھنے کے لئے جامع مسجد جانے کی بھی اجازت ہے اور اسے بھی حاجت انسانی سمجھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ باقی ضروریات مثلاً درس القرآن یا اجتماعی دعا میں شامل ہونے، کھانا کھانے، نماز جنازہ پڑھنے ، کسی عزیز کی بیمار پرسی کرنے یا کسی کی مشایعت کے لئے باہر آنے کی اجازت میں اختلاف ہے۔ اکثر ان اغراض کے لئے مسجد سے باہر آنے کو جائز نہیں سمجھتے اور اعتکاف کی روح بھی اس امر کی متقاضی ہے کہ ان ثانوی اغراض کے لئے معتکف مسجد سے باہرنہ آئے بلکہ کلی انقطاع کی کیفیت اپنے اوپر وارد کرنے کی کوشش کرے اوراس قسم کی ترغیبات اور خواہشات کی قربانی دینے کا اپنے آپ کو عادی بنائے۔
تا ہم بعض فقہاء نے کہا ہے کہ حوائج ضروریہ میں کچھ وسعت ہے۔ بعض اور ضرورتوں کے لئے معتکف مسجد سے باہر جا سکتاہے۔ بعض روایات سے بھی اشارۃً اس کی تائید ہوتی ہے کہ انسان کسی اور ضرورت کے پیش نظر بھی مسجد سے باہر جا سکتا ہے۔ مثلاً ایک بار حضرت صفیہؓ رات کو آپ سے ملنے گئیں اور دیر تک باتیں کرتی رہیں اور جب واپس ہوئیں تو آپ ؐ انہیں گھر تک پہنچانے آئے حالانکہ یہ گھر مسجد سے کافی دور تھا۔(ابوداؤد ، باب المعتکف یدخل البیت لحاجۃ)
حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ:’’ اعتکاف کے دوران جب بھی قضائے حاجت کے لئے گھرآتی اور گھر میں کوئی بیمار ہوتا تو چلتے چلتے اس کی طبیعت پوچھ لیتی‘‘۔(ابن ماجہ،کتاب الصوم باب فی المعتکف یعودالمریض)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیادت مریض کے جواز کے بارہ میں جو لکھا ہے اسکا بھی غالباً یہی مطلب ہے کہ ایسے رنگ میں عیادت جائز ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی خدمت میں ایک سوال پیش ہوا کہ معتکف اپنے دنیوی کاروبار کے متعلق بات کر سکتا ہے یا نہیں۔ تو آپ ؑ نے فرمایا : ’’سخت ضرورت کے وقت کر سکتا ہے اور بیمار کی عیادت کے لئے اورحوائج ضروریہ کے واسطے باہر جا سکتا ہے‘‘ (بدر ۲۱؍ فروری ۱۹۰۷ء)
بعض باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ انسان کو ان کے کرنے یانہ کرنے کا اختیار ہوتا ہے لیکن اگران کو کیا جائے تو پھر ضروری شرائط کے ساتھ ان کی
بجا آوری مشروط ہے۔ اعتکاف کا بھی یہی حال ہے۔ آپ چاہیں تو اعتکاف بیٹھیں اور چاہیں تو اپنے حالات کے پیش نظر ترک کریں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ مسنون اعتکاف کی نیت سے اعتکاف بھی بیٹھیں اور پھر اپنی مرضی کو بھی اس میں دخل انداز ہونے دیں۔
پس مسنون اعتکاف وہی ہے جو آنحضرت ﷺ کے طریق کے مطابق ہو اور جو حدیثوں سے ثابت ہو اور وہ یہ ہے کہ رمضان کا آخری عشرہ آپ ؐ مسجد میں روزہ سے گزارتے اورحوائج ضروریہ کے علاوہ باقی کسی ضرورت سے مسجد سے باہر نہ آتے ۔
فطرانہ کب ادا کیاجائے؟
صدقۃ الفطر رمضان کے داخل ہونے سے ہی واجب ہوجاتا ہے تاہم اس کی ادائیگی عید کی نمازسے قبل یکم شوال تک ضروری ہے۔ بہتر یہی سمجھا جاتا ہے کہ غرباء کو عید کی تیاری کے لئے پہلے فطرانہ دے دیا جائے تا کہ وہ عید کی خوشیوں میں برابر کے شریک ہو سکیں۔حضرت ابن عمرؓ کے متعلق آتا ہے کہ آپ عید سے ایک یا دو دن قبل فطرانہ ادا فرماتے تھے۔
فطرانہ کی شرح کیا ہے؟
فطرانہ کے طور پر ہر فرد پر ایک صاع کھجور یاان کے برابر قیمت ادا کرنی مقرر ہے۔ صاع عربوں میں ماپ کا ایک پیمانہ ہے جس میں د و (۲) رِطل ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک صاع میں کل آٹھ پاؤنڈ ہوئے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول خدا ﷺ نے صدقۃ الفطر ایک صاع کھجور یا جَو ہر آزا د و غلام ، ہرمرد و عورت اور ہرچھوٹے بڑے مسلمان پر فرض فرمایا تھا اورحکم دیا تھا کہ لوگوں کے عید کی نماز کے لئے جانے سے پہلے یہ ادا کیا جائے۔
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ یہ بھی بیان فرماتے ہیں کہ جؤ ، کھجور، منقہ وغیرہ کا ایک صاع صدقۃ ا لفطر میں ہر کس کی طرف سے دیا جاتا تھا۔
ہماری جماعت میں حالات کے مطابق گندم کی جوقیمت ہواس لحاظ سے ایک صاع یعنی قریباً دو سیر گندم کی قیمت کا انداز ہ کر کے رقم معین کر دی جاتی ہے۔ اور اس کی ادائیگی کا اعلان کر دیا جاتاہے۔ جیسے یہاں برطانیہ میں فطرانہ کی شرح فی کس ڈیڑھ پاؤنڈ سٹرلنگ مقرر کی گئی ہے۔
(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل۸؍نومبر، ۱۵؍نومبر۲۰۰۲ء)