مسائل عیدالفطر
عبدالماجد طاہر، لندن
ماہ رمضان کے گزرنے پر یکم شوال کو روزوں کی برکات حاصل کرنے کی توفیق پانے کی خوشی میں عیدالفطر منائی جاتی ہے ۔ نماز عید کا اجتماع ایک رنگ میں مسلمانوں کی ثقافت اور دینی عظمت کا مظہر ہوتا ہے اس لئے مرد وعورت اوربچے سب شامل ہوتے ہیں۔
*۔۔۔حضرت امّ عطیہؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں ارشاد فرماتے تھے کہ ہم عیدین کے دن سب لوگ عورتیں، بچے عید پر جائیں ۔ یہاں تک کہ حائضہ عورتوں کو بھی عید اور اس کی دعامیں شامل ہونے کاحکم ہوتا البتہ وہ نمازمیں شامل نہیں ہوتی تھیں۔ بلکہ اتنا تاکیدی ارشاد اس بارہ میں فرمایا کہ اگر کسی لڑکی کے پاس اوڑھنی نہ ہو تو وہ کسی سہیلی سے مانگ لے اورعید پر ضرور جائے۔(بخاری و مسلم ، کتاب العیدین)
آنحضرت ؐ کیسے عید مناتے تھے
عید کے اس بابرکت تہوارکے لئے بھی آنحضرت ﷺ نے آداب سکھائے اور ہدایات دیں۔ عید کے دن آنحضرت ﷺ خاص صفائی کا اہتمام فرماتے۔ غسل فرماتے، مسواک اورخوشبو کا استعمال کرتے اور صاف ستھرا لباس زیب تن فرماتے ۔ اگر میسر ہو تو نئے کپڑے پہنتے۔ مسلمانوں کے اس قومی و مذہبی تہوارمیں شمولیت کے لئے آنحضرت ﷺ خاص تحریک فرماتے تھے۔
*۔۔۔آنحضرت ﷺ عیدالفطر کے روز صبح کچھ طاق عدد میں کھجوریں تناول فرما کر عید پر جاتے تھے۔ البتہ عیدالاضحی کے دن آپ قربانی کے گوشت سے کھانا شروع کرتے تھے۔ آپ ؐ کا معمول تھا کہ ایک راستے سے عیدگاہ تشریف لاتے اور دوسرے راستے سے واپس تشریف لے جاتے تاکہ مسلمانوں کے تہوار کی عظمت لوگوں پرظاہر ہو اورباہم ملاقات اورخوشی کے زیادہ مواقع میسر آ ئیں۔ اوردونوں راستوں پر آباد لوگ آپ ؐ کی برکت حاصل کر سکیں۔
*۔۔۔عید کے دن کھیل او ر ورزشی مقابلے بھی ہوتے تھے ۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ عید کے موقع پر اہل حبشہ ڈھال اور برچھی سے اپنے کھیل اورمہارت کے فن دکھاتے۔ شاید میں نے آنحضرت ؐ سے کہا یا آپ ؐ نے خود فرمایا کہ کیا ان کے کھیل کرتب دیکھنا چاہتی ہو؟ میں نے کہا ہاں! تب آپ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا اس طرح کہ میرا رخسار آپ کے رخسار کے ساتھ تھا۔ آپ ؐ کھیلنے والوں کا خوب حوصلہ بڑھاتے رہے۔ پھر میں خود ہی تھک گئی تو آپ ؐ نے مجھے فرمایا بس کافی ہے؟ میں نے کہا: ہاں ۔ آپؐ نے فرمایا اچھا تو جاؤ۔
*۔۔۔حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ ایک دفعہ عید کے دن انصار کی دو لڑکیاں میرے پاس بیٹھی جنگ بعاث کے نغمے سنا رہی تھیں۔ آنحضرت ﷺ تشریف لائے تو آپ بسترپر آ کر دوسری طرف منہ کر کے لیٹ گئے ۔ تھوڑی دیر بعد حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے تو ان لڑکیوں کو گاتے دیکھ کر مجھے ڈانٹا اور فرمایا رسول اللہ ﷺ کے گھر میں شیطانی گانا؟ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا :اے ابوبکرؓ ہر قوم کی عید کا ایک دن ہوتاہے اوریہ ہماری عید کا دن ہے۔
*۔۔۔اچھے کھانے ، خوبصورت کپڑے اورکھیل کود تو ظاہری خوشی کے اظہارکے طریقے ہیں ۔ ایک مسلمان کی حقیقی خوشی اور سچی عید تو یہ ہے کہ اس کاخدا اس سے راضی ہو جائے۔ اس لئے تیس دن کے روزے رکھنے کے بعد عید کے روز مسلمان خدا تعالیٰ کے شکرانہ کے طورپر دو رکعت نماز عید بھی ادا کرتے ہیں۔ عید کی دو رکعت نماز کسی بھی کھلے میدان یا عیدگاہ میں زوالِ شمس سے پہلے پڑھی جاتی ہے۔ حسب ضرورت عید کی نماز جامع مسجد میں پڑھی جا سکتی ہے ۔ عید کی نماز باجماعت ہی پڑھی جا سکتی ہے اکیلے جائز نہیں۔
*۔۔۔احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ عیدین کے موقع پر عیدگاہ تشریف لے جاتے اور سب سے پہلا کام یہ کرتے کہ نماز شروع فرماتے ۔ نمازسے فراغت کے بعد لوگوں کے سامنے کھڑے ہوتے اورلوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے۔ حضور ؐ ان کو وعظ و نصیحت فرماتے ، ضروری احکام کا اعلان فرماتے اور پھر ا س سے فارغ ہو کر گھر واپس جاتے۔
*۔۔۔عید کے خطبہ میں عورتوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے اور ان تک آواز پہنچانے کا کوئی ذریعہ نہ ہو تو امام علیحدہ طورپر بھی عورتوں کو خطاب کر سکتا ہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ایک عید کا خطبہ دیا اس کے بعد آپ عورتوں کی صفوں کے پاس تشریف لائے۔ حضرت بلالؓ آپؐ کے ساتھ تھے۔ آپ ؐنے ان کو وعظ ونصیحت فرمائی۔ خاوندوں کی اطاعت کی اور زبان درازی سے بچنے کی تلقین فرمائی اور صدقہ دینے کی تحریک کی۔ حضور ؐ کی اس تحریک پر عورتیں ہاتھوں، کانوں اور گلے کے زیور اتار اتار کر حضرت بلالؓ کی چادر میں ڈالنے لگیں۔ اس کے بعد رسول اللہ ؐ واپس تشریف لائے۔
*۔۔۔نماز عید میں نہ تکبیر ہوتی ہے نہ اذان۔ نماز عید کا وقت سورج کے نیزہ بھرآسمان پر جانے کا ہے۔ موسم کے حالات کے لحاظ سے عید کا وقت لوگوں کی سہولت کو مدنظر رکھ کر مقررکرنا چاہئے۔ عام طورپر عید الفطر نسبتاً تاخیر سے اور عیدالاضحی جلدی پڑھی جائے یہی سنت ہے۔
*۔۔۔نماز عید کی دونوں رکعات میں بلند آواز سے قراء ت کی جاتی ہے۔ آنحضرت ﷺ جب مسجد میں پہنچتے تو اذان و اقامت کے بغیرہی نمازشروع فرما دیتے اور سنت یہی ہے کہ ان میں سے کوئی فعل نہ کیا جائے۔ آپؐاور آپؐ کے صحابہؓ جب عیدگاہ پہنچتے تو عید سے قبل کوئی نفل وغیرہ نہ پڑھتے اور نہ بعد میں پڑھتے اور خطبہ سے پہلے نماز شروع کرتے۔ پہلی رکعت میں سات مسلسل تکبیریں کہتے اور ہر دو تکبیروں کے درمیان ایک ہلکا سا وقفہ ہوتا۔ تکبیرات کے درمیان آپ ؐ سے کوئی مخصوص ذکر مروی نہیں۔ ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرتے تھے۔ جب تکبیریں ختم فرماتے تو قراء ت شروع کرتے۔ یعنی سورہ فاتحہ پھر اس کے بعد سورہ ق و القرآن المجید، ایک رکعت میں پڑھتے اور دوسری رکعت میں اقتربتِ الساعۃ وانشق القمر پڑھتے۔ بسااوقات آپ ؐ دو رکعتوں میں سبح اسم ربک الاعلی اور ھل اتٰک حدیث الغاشیۃ پڑھتے ۔جب قراء ت سے فارغ ہو جاتے تو تکبیر کہتے اور رکوع میں چلے جاتے۔ پھر ایک رکعت مکمل کرتے اور سجدہ سے اٹھتے ۔ پھر پانچ بار مسلسل تکبیریں مکمل کر لیتے تو قرأت شروع کر دیتے۔ اس طرح ہر رکعت کے آغاز میں تکبیریں کہتے اور بعد میں قرأت کرتے ۔
*۔۔۔آنحضرت ﷺ جب نماز مکمل کر لیتے تو فارغ ہونے کے بعد لوگوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے ،لوگ صفوں میں بیٹھے ہوتے توآپ ؐ انہیں وعظ و نصیحت فرماتے۔ عیدگاہ میں کوئی منبر نہ تھا جس پر چڑھ کر وعظ فرماتے ہوں ،نہ مدینہ کامنبر یہاں لایاجا سکتاتھا بلکہ آپ ؐزمین پر کھڑے ہو کر تقریر کرتے۔
*۔۔۔حضرت جابرؓ بتاتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کے ساتھ عید کے دن نماز میں حاضر ہوا تو آپ ؐ نے خطبہ سے پہلے اذان اور اقامت کے بغیر نماز پڑھائی۔ اس سے فارغ ہو کر حضرت بلالؓ کے کندھے کاسہارا لے کر کھڑے ہو گئے اور اللہ سے ڈرنے کا حکم فرمایا۔ اس کی اطاعت کی رغبت دلائی اور نصیحت کی اور پھر انعامات خداوندی وغیرہ یاد دلائے۔ پھر آپؐ خواتین کی طرف تشریف لے گئے اورانہیں نصیحت کی۔
*۔۔۔حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک میں عید اور جمعہ ایک ہی دن اکٹھے آ گئے۔ آپ ؐ نے نماز عید پڑھائی اور پھر فرمایا عید کی نماز جمعہ کا بدل ہے اس لئے اگر کوئی شخص جمعہ کی نماز کے لئے نہ آنا چاہے تو اسے اجازت ہے۔ البتہ ہم انشاء اللہ وقت پرجمعہ پڑھیں گے۔(سنن ابن ماجہ الجزء الاول کتاب اقامۃ الصلوٰۃ والسنۃ فیھا۔ باب ما جاء فیما اذا اجتمع العیدان فی یوم)
اگر عید کی نماز پہلے دن زوال سے پہلے نہ پڑھی جا سکے تو عیدالفطر دوسرے دن اور عیدالاضحیہ تیسرے دن زوال سے پہلے پڑھی جا سکتی ہے۔
نفلی روزے۔ شوال کے چھ روزے
حضرت ابوایوب انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد (عید کا دن چھوڑ کر) شوال کے چھ روزے رکھے اس کا اتنا ثواب ملتاہے جیسے اس نے سال بھر کے روزے رکھے ہوں۔(مسلم کتاب الصیام، باب استحباب صوم ستۃ ایام من شوال)
نفل وہ زائد عبادت ہے جو بندہ خوشی سے اپنے مولا کو راضی کرنے کے لئے بجا لاتا ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ بندہ کی نفلی عبادت سے بہت خوش ہوتا ہے۔ رسو ل اللہﷺ نے ایک حدیث قدسی بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندہ نوافل کے ذریعہ برابر میرا قرب حاصل کرتا چلا جاتا ہے۔(بخاری)
نفلی روزوں کا بھی بہت ثواب ہے جو مختلف مواقع پر آنحضرت ﷺ نے نفلی روزوں کی تحریک کرتے ہوئے بیان فرمایا۔ چنانچہ حدیث مذکور ہ بالا میں رمضان کے تیس روزوں کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنے کا ارشاد فرمایا اوراس کا ثواب سال بھر کے روزوں کے برابر بتایا۔ حساب کی زبان میں اس میں یہ سرّ ہے کہ ایک نیکی کا ثواب اللہ تعالیٰ دس گنا عطا فرماتا ہے اور ۳۶ روزوں کا ثواب ۳۶۰ دنوں کے برابر بنتا ہے جو قریباً ایک سال کا عرصہ ہے ۔
لیکن اصل حکمت رمضا ن کے فرض روزوں کے ساتھ شوال کے نفلی روزوں میں نیکی کا تسلسل ہے اوراس امر کی تربیت ہے کہ رمضان کا مجاہدہ اوراس کی عبادات صرف ایک مہینہ تک محدود نہ رہیں بلکہ سار ے سال پر پھیل جائیں اور رمضان کے علاوہ باقی ایام میں بھی ان نیکیوں کی عادت رہے۔ اورظاہر ہے جسے رمضان کے بابرکت مہینہ کا یہ نتیجہ حاصل ہو جائے اس کا سارا سال کیا سارازمانہ اور ساری عمر رمضان ہے جس میں وہ رمضان کی برکتیں حاصل کرتا چلا جائے گا۔
ماہ رمضان کے اس تسلسل کو دوران سال جاری رکھنے کے لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ہر مہینے میں تین روزے رکھتا ہے وہ صوم الدھر یعنی سال بھر کے روزے رکھنے والے کے برابر ہے۔
*۔۔۔حضرت ابوہریرہؓ کو آنحضرت ﷺ نے جو تین وصیتیں فرمائی تھیں ا ن میں سے ایک یہ تھی کہ ہر مہینہ میں تین نفلی روزے رکھنا۔ (ترمذی)
*۔۔۔حضرت ابوذرؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے مجھے فرمایا اے ابوذر! جب تم مہینہ میں سے تین دن کے روزے رکھنا چاہو تو ۱۳، ۱۴ اور ۱۵ تاریخوں کے روزے رکھنا (ترمذی) لیکن ان تاریخوں کے علاوہ بھی آنحضرت ﷺ سے ہر مہینہ کے نفلی روزے رکھنے حضرت عائشہؓ کی روایت سے ثابت ہیں۔ (ترمذی)
*۔۔۔نفلی روزہ کے لئے رات کو نیت کرنا ضروری نہیں۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لا کر پوچھتے کہ ناشتہ کے لئے کوئی چیز ہے ؟ میں کہتی کہ نہیں ہے تو آپ ؐفرماتے اچھا میں روزہ رکھ لیتاہوں ۔(ترمذی)
*۔۔۔نفلی روزہ کھولنے کے لئے وہ کفارہ نہیں جو فرض روزے کا ہے ۔ آنحضرت ﷺ ام ھانیؓ کے پاس تشریف لائے اور پانی منگوایا۔ حضور ؐ نے پانی پی کر برتن ان کوواپس کیا تو انہوں نے حضور ؐ کا بچاہواپانی پی لیا۔ پھر عرض کی کہ حضور ؐ مجھے تو روزہ تھا ۔ آنحضرت ﷺنے فرمایا یہ قضا کا روز ہ تو نہیں تھا۔ امّ ھانیؓ نے کہا نہیں۔ فرمایا پھر کوئی حرج نہیں ۔ نیز فرمایا ’’ نفلی روزے والا اپنے نفس کا خود امین ہوتاہے چاہے تو روزہ پورا کر ے چاہے افطار کرے ‘‘۔ (ترمذی)
لیکن اگر روزہ افطارکرے تو اس کے بدلے ایک روزہ رکھنا ہوگا۔
(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۳۰؍جنوری ۱۹۹۸ء تا۵؍فروری ۱۹۹۸ء)