مسیح اور مہدی کب آئیں گے؟
قرآن کریم‘ احادیث نبویہ اور بزرگان امت کے رؤیا و کشوف و بیانات کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمتِ محمدیہ میں جس مسیح اور مہدی کے ظہور کی پیشگوئی فرمائی تھی وہ تیرھویں صدی ہجری کے آخر یا چودھویں صدی ہجری کے آغاز میں ظاہر ہوگا۔
قرآن کریم اور زمانہ مہدی و مسیح
(۱) یُدَ بِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَائِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِی یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ اَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ (السجدہ: ۶)
یعنی اللہ تعالیٰ آسمان سے زمین کی طرف اپنے حکم کو اپنی تدبیر کے مطابق قائم کرے گا پھر وہ اس کی طرف ایسے وقت میں جس کی مقدار ایسے ہزار سال کی ہے جس کے مطابق تم دنیا میں گنتی کرتے ہو چڑھنا شروع کرے گا۔
آنحضرت ﷺ نے اسلام کی پہلی تین صدیوں کو خیرالقرون (یعنی بہترین صدیاں) قرار دیا ہے اور وہ ہزار سال جس میں دین کا آسمان کی طرف چڑھنا مقدر تھا وہ یقیناًان تین صدیوں کے بعد شروع ہونا تھا۔ ان تین صدیوں اور ہزار سال کے بعد از سرِ نو دین کا قیام مقدر تھا اور تیرہ صدیاں گزرنے کے بعد وہ وقت آ گیا جب ادیان عالم کے پیروکار ایک آسمانی مصلح کا شدت سے انتظار کرنے لگے۔ ہاں اس مہدی اور مسیح کے ظہور کا زمانہ جس میں آنحضرت ﷺ نے ایمان و دین کے دوبارہ دنیا میں قائم ہونے کی خبر دی تھی۔
(۲) مزید برآں قرآن شریف میں سورہ نور کی آیت استخلاف نمبر۵۶ میں اُمتِ محمدیہ سے وعدہ کیا گیا کہ ان میں اللہ تعالیٰ اسی طرح خلیفے بنائے گا جس طرح اس سے پہلے خلیفے بنائے جو دین کی مضبوطی کا باعث ہونگے۔ اس وعدہ کے مطابق لازم تھاکہ جس طرح موسوی سلسلہ میں تیرھویں صدی گزرنے پر مسیح آیا تھا۔ اسی طرح محمدی سلسلہ میں بھی تیرھویں صدی گزرنے پر مسیح اور مہدی ظاہر ہو۔
(۳) سورۃ جمعہ میں ایمان کے قائم کرنے کیلئے آنحضرت ﷺ کے ایک مثیل غلام کے آنے کی خبر ہے فرمایا
وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْابِھِمْ (الجمعہ:۴)
اور اللہ تعالیٰ ان کے سوا ایک دوسری قوم میں حضرت محمد ﷺ کو بھیجے گا جو ابھی تک ان (صحابہ) سے نہیں ملی۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہؓ کے اس سوال پر کہ وہ کون لوگ ہونگے جن میں آپ دوبارہ تشریف لائیں گے۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ
’’جب ایمان ثریا ستارے پر اٹھ جائے گا تو اہل فارس میں سے ایک شخص یا فرمایا بہت سے اشخاص ایمان کو دوبارہ دنیا میں قائم کریں گے۔‘‘ (بخاری کتاب التفسیر سورۃ الجمعہ)
گویا رسول اللہﷺ نے اہل فارس کے اس مرد کے آنے کو اپنا آنا قرار دیا جس کے ذریعہ آخری زمانہ میں ایمان کا دنیا میں قیام مقدر تھا۔ یہ عجیب نشان ہے کہ بحساب جمل اس آیت کے الفاظ کے اعداد کی تعداد ۱۲۷۵ بنتی ہے جس سے یہ واضح اشارہ ملتا ہے کہ آخری زمانہ میں ایمان قائم کرنے والے جس مسیح و مہدی کے ظاہر ہونے کی اس آیت میں خبر دی گئی ہے وہ تیرہویں صدی کے آخری حصہ میں ظاہر ہونا تھا۔
احادیث نبویؐ اور زمانہ مسیح و مہدی
(۱) اَلْاٰیَاتُ بَعْدَ الْمِاَئتَیْن (ابن ماجہ کتاب الفتن باب الایات)
نشانات دو سوسال بعد رونما ہونگے۔
اس حدیث کی تشریح میں برصغیر کے نامور محدث حضرت مُلاَّ امام علی القاری لکھتے ہیں۔
’’وَیَحْتَمِلُ اَنْ یّکُوْنَ اللَّامُ فِی الْمِائَتَیْنِ لِلْعَھْدِاَیْ بَعْدَ الِمائَتَیْنِ بَعْدَ الأَلْفِ وَھُوَ وَقْتُ ظُھُوْرِ الْمَھْدِی‘‘۔ (مرقاۃ المصابیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد۱۰ صفحہ۸۲ ا ۱ز علی بن سلطان القاری مکتبہ امدادیہ ملتان)
یعنی یہ ممکن ہے کہ الْمِائَتَیْنِ میں لام عہد کا ہو اور مراد یہ ہے کہ ہزار سال بعد دو سو سال یعنی ۱۲۰۰ سال بعد یہ نشانات ظاہر ہونگے اور وہی (یعنی تیرھویں صدی) زمانہ امام مہدی کے ظہور کا ہے۔
(۲) اِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ الُامَّةِ عَلَی رَاسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ یُجَدِّدُ لَھا دِیْنَھَا (ابوداؤد کتاب الملاحم باب مایذکر فی قرن المائۃ)
یعنی یقیناًاللہ تعالیٰ اس اُمت کیلئے ہر صدی کے سر پر مجدد مبعوث کرتا رہے گا۔
اس حدیث کی رو سے علماء اُمت یہ یقین رکھتے تھے کہ چودھویں صدی کے مجدد مہدی ہونگے۔
چنانچہ اہلحدیث عالم نواب صدیق حسن خان صاحب تیرہ صدیوں کے مجددین کی فہرست دینے کے بعد لکھتے ہیں۔
’’چودھویں صدی شروع ہونے میں دس سال باقی ہیں اگر اس صدی میں مہدی اور عیسیٰ کا ظہور ہو جائے تو وہی چودھویں صدی کے مجدد و مجتہد ہونگے‘‘۔ (ترجمہ از فارسی حجج الکرامہ صفحہ ۳۹ از نواب صدیق حسن خان مطبع شاہ جہانی بھوپال مطبوعہ ۱۲۹۱ھ)
مسیح اور مہدی کا زمانہ اور بزرگان
(۱) صاحب کشف بزرگ حضرت نعمت اللہ ولی (۷۲۹تا ۸۳۴ھ)
آپ نے اپنے مشہور فارسی قصیدہ میں آخری زمانہ کے حالات بیان فرمائے ہیں۔ آپ نے لکھا:۔
غین ری سال چوں گزشت ازسال
بوالعجب کاروبار می بینم
مہدی وقت و عیسیٰ دوراں
ہر دو را شاہسوار می بینم
ترجمہ: جب غین رے یعنی ۱۲۰۰ سال گزر جائیں گے اس وقت مجھے عجیب و غریب واقعات ظاہر ہوتے نظر آتے ہیں۔ مہدی وقت اور عیسیٰ دوراں ہر دو کو میں شاہسوار ہوتے دیکھتا ہوں۔ (اربعین فی احوال المہدیین مرتبہ محمد اسماعیل شہید صفحہ۲ و ۴ مطبوعہ ۱۲۶۸ھ)
واضح ہو کہ مسیح اور مہدی چودھویں صدی کے سر پر آنے والے ایک ہی موعود کے دو لقب ہیں جیسے فرمایا:
’’لَاالْمَھْدِیُّ اِلَّا عِیْسٰی بنُ مَرْیَمَ‘‘ (ابن ماجہ کتاب الفتن باب شدۃ الزمان)
یعنی مسیح ابن مریم کے علاوہ کوئی مہدی نہیں ہوگا۔
(۲) حضرت حافظ برخوردار صاحب (۹۸۵ تا ۱۰۹۳ھ)
پچھے ہک ہزار دے گزرے ترے سو سال
حضرت مہدی ظاہر ہوسی کرسی عدل کمال
(قلمی نسخہ ’’انواع‘‘ صفحہ۱۴ از حضرت حافظ برخودار صاحب)
(۳) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (۱۱۱۴ھ تا ۱۱۷۵ھ)
عَلَّمَنِیْ رَبّیِ جَلَّ جَلَالُہٗ اَنَّ القَیَامَةَ قَدِ اقْتَرَبَتْ وَالْمَھْدِیُّ تَھَیَّا لِلْخُرُوْجِ (التفہیمات الالٰہیہ جلد ۲ صفحہ ۱۶۰ تفہیم نمبر ۱۴۶ شاہ ولی اللہ اکیڈمی دہلی)
ترجمہ: خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ قیامت قریب آ چکی ہے اور مہدی کا ظہور ہوا چاہتا ہے۔
پھر مولانا نواب صدیق حسن خان صاحب حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے متعلق لکھتے ہیں۔
’’حضرت شاہ ولی اللہ نے امام مہدی علیہ السلام کی تاریخ ظہوری لفظ چراغ دین میں بیان فرمائی ہے جو کہ حروف ابجد کے لحاظ سے ایک ہزار دو سو اڑسٹھ ۱۲۶۸ھ ہے‘‘۔ (حجج الکرامۃ فی آثار القیامہ صفحہ۴ ۳۹ از نواب صدیق حسن خان مطبع شاہجہانی بھوپال)
(۴) حضرت شاہ عبدالعزیز (۱۱۵۹ھ تا ۱۲۳۹ھ)
’’بعد بارہ سو ہجری کے حضرت مہدی کا انتظار چاہیئے اور شروع صدی میں حضرت کی پیدائش ہے‘‘۔ (اربعین فی احوال المہدیین مرتبہ محمد اسماعیل شہید صفحہ آخر مطبوعہ ۱۲۶۸ھ)
(۵) الشیخ علی اصغر البرو جروی (پیدائش ۱۲۳۱ھ)
’’اندر صرغی اگربمانی زندہ ملک و ملک و ملت و دین برگردد‘‘
کہ سال صرغی میں اگر زندہ رہا تو ملک و ملک و دین میں ایک انقلاب آ جائے گا۔ صرغی کے اعداد بحساب ابجد ۱۳۰۰ بنتے ہیں۔ (نورالا نوار از شیخ علی اصغر صفحہ ۲۱۵مطبوعہ۱۳۲۸ھ)
(۶) مولانا نواب صدیق حسن خان(۱۲۴۸ھ تا ۱۳۰۷ھ)
i ۔
’’بعض مشائخ اور اہل علم کے نزدیک امام مہدی کا ظہور بارہ سو سال ہجری کے بعد ہو گا لیکن تیرہ سو سال سے تجاوز نہیں کرے گا۔‘‘ (حجج الکرامہ صفحہ ۳۹۴ مطبع شاہجہانی بھوپال مطبوعہ ۱۲۹۱ ھ)
ii ۔ پھر لکھتے ہیں
’’اب مدت دَہ ماہ کی ختم تیرھویں صدی کو باقی ہے پھر ۱۳۰۱ھ اور ۱۸۸۴ء سے چودھویں صدی شروع ہو گی اور نزول عیسیٰؑ و ظہور مہدی و خروج دجال اوّل صدی میں ہو گا۔‘‘ (ترجمان وہابیہ صفحہ ۴۱۔ ۴۲ از نواب صدیق حسن خان مطبع محمدی لاہور ۱۳۱۲ ھ)
(۷) ابوالخیر نواب نورالحسن خان
آپ نے ۱۳۰۱ھ میں لکھا:۔
’’ظہور مہدیؑ کا شروع تیرھویں صدی پر ہونا چاہیئے تھا مگر یہ صدی پوری گئی مگر مہدی نہ آئے اب چودھویں صدی ہمارے سر پر آئی ہے۔۔۔شاید اللہ تعالیٰ اپنا فضل و عدل رحم و کرم فرمائے۔ چار چھ برس کے اندر مہدی ظاہر ہو جاویں۔‘‘ (اقتراب الساعۃ صفحہ ۲۲۱ از نواب نورالحسن خان مطبع مفید عام ۱۳۰۱ھ)
(۸) علامہ سید محمد عبدالحی لکھنوی
آپ نے۱۳۰۱ھ میں لکھا:۔
’’اب چودھویں صدی آ گئی ہے۔ چھ ماہ گزر گئے ہیں۔ اس صدی کا یہ پہلا سال ہے دیکھیئے کون سے طاق سال میں تشریف لاتے ہیں۔‘‘ (حدیث الغاشیہ عن الفتن الخالیہ و الغاشیہ صفحہ ۳۵۰ مطبع سعید المطابع بنارس۱۳۰۹ھ)
(۹) حضرت حکیم سید محمد حسن صاحب رئیس امروہہ
آپ نے ۱۳۰۶ھ میں لکھا:۔
’’پس ان (امام مہدی) کی تشریف آوری اکیس سال بعد اس ۱۳۰۶ھ سے ہونے والی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب‘‘(کواکب درّیہ از حکیم سید محمد حسن صاحب رئیس امروہہ صفحہ ۱۵۵ مطبع سید المطابع امروہہ)
(۱۰) مولانا عبدالغفور مصنف ’’النجم الثاقب‘‘
آپ نے۱۳۱۰ھ میں لکھا:۔
’’البتہ زمانہ بعشت مہدی کا یہی ہے‘‘ (النجم الثاقب حصہ دوم صفحہ ۲۳۳ ابوالحسنات محمد عبدالغفور مطبوعہ پٹنہ)
(۱۱) خواجہ حسن نظامی (۱۲۹۶ھ تا ۱۳۷۴ ھ )
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ جو آثار اور نشانات مقدس کتابوں میں مہدی آخر الزمان کیلئے بیان کئے گئے ہیں وہ آج کل ہم کو روز روشن کی طرح صاف نظر آ رہے ہیں مجبوراً تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ زمانہ ظہور خیر البشر بعد از رسول حضرت محمد بن عبداللہ مہدی آخر الزمان علیہ الصلوٰۃ والسلام قریب آ گیا۔‘‘ (کتاب الامر۔ امام مہدی کے انصار اور ان کے فرائض صفحہ ۳ از خواجہ حسن نظامی ۱۹۱۲ء)
انتظار کی ان گھڑیوں میں جب کہ امام مہدی کے ظہور کی تمام نشانیاں ظاہر ہو چکی تھیں۔ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی بانی جماعت احمدیہ (۱۸۳۵ء تا ۱۹۰۸ء) نے یہ دعویٰ فرمایا کہ میں وہی مسیح و مہدی ہوں جس کے ظہور کی پیشگوئیاں قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں موجودہیں اور بزرگان امت جس کا بڑی شدت کے ساتھ انتظار کر رہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی سچائی کیلئے وہ عظیم الشان آسمانی نشان چاند سورج گرہن بھی ظاہر فرما دیا جسے آنحضرتﷺ نے سچے مہدی کی نشانی قرار دیا تھا۔ آپؐ نے فرمایا:۔
’’ہمارے مہدی کی سچائی کے دو نشان ہیں کہ جب سے زمین و آسمان پیدا ہوئے وہ کسی کی سچائی کیلئے اس طرح ظاہر نہیں ہوئے۔ رمضان کے مہینے میں چاند کو (اس کی مقررہ تاریخوں میں سے) پہلی رات اور سورج کو (اس کی مقررہ تاریخوں میں سے) درمیانی تاریخ میں گرہن لگے گا اور جب سے اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا یہ دو نشان ظاہر نہیں ہوئے۔‘‘ (دارقطنی کتاب العیدین باب صفۃ صلوٰۃ الخسوف والکسوف)
چنانچہ عین چودھویں صدی کے سر پر چاند گرہن کیلئے مقرر تاریخوں (۱۳‘۱۴‘۱۵) میں سے پہلی رات یعنی تیرہ رمضان ۱۳۱۱ھ بمطابق ۲۳ مارچ ۱۸۹۴ء کو اور سورج گرہن کیلئے مقرر تاریخوں (۲۷‘۲۸‘۲۹) میں سے درمیانی تاریخ یعنی ۲۸ رمضان بمطابق ۶۔اپریل ۱۸۹۴ء کو گرہن لگا۔ اور حضرت مرزا صاحب نے بڑی شان اور تحدی کے ساتھ اپنی سچائی میں اس نشان کو پیش کرتے ہوئے لکھا۔
’’ان تیرہ سو برسوں میں بہتیرے لوگوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا مگر کسی کیلئے یہ آسمانی نشان ظاہر نہ ہوا۔۔۔۔۔۔مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے میری تصدیق کیلئے آسمان پر یہ نشان ظاہر کیا۔۔۔میں خانہ کعبہ میں کھڑا ہو کر حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ اس نشان سے صدی کی تعیین ہو گئی ہے کیونکہ جب کہ یہ نشان چودھویں صدی میں ایک شخص کی تصدیق کیلئے ظہور میں آیا تو متعین ہو گیا کہ آنحضرت ﷺ نے مہدی کے ظہور کیلئے چودھویں صدی ہی قرار دی تھی‘‘۔(تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۱۴۲۔۱۴۳)