حضرت مصعب بن عمیرؓ
حضرت مصعب بن عمیرؓ کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو عبدالدار سے تھا۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ کی کنیت ابو عبداللہ تھی۔ اس کے علاوہ ان کی کنیت ابو محمد بھی بیان کی جاتی ہے۔ حضرت مصعبؓ کے والد کا نام عمیر بن ہاشم اور ان کی والدہ کا نام خناس یا حَنَاس بنت مالک تھا جو مکہ کی ایک مال دار خاتون تھیں۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ کے والدین ان سے بہت محبت کرتے تھے۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ کی والدہ نے ان کی پرورش بڑے ناز و نعمت سے کی۔ وہ انہیں بہترین پوشاک اور اعلیٰ لباس پہناتی تھیں اور حضرت مصعبؓ مکّے کی اعلیٰ درجےکی خوشبو استعمال کرتے اور حضرمی جوتا جو حضرِموت کے علاقے کا بنا ہوا جوتا تھا، امیر لوگوں کے لیے مخصوص تھا، وہاں سے منگوا کےپہنا کرتے تھے۔ حضرِموت عدن سے مشرق کی طرف سمندر کے قریب ایک وسیع علاقہ ہے۔ بہرحال اعلیٰ لباس، اعلیٰ خوشبو اور جوتا تک وہ باہر سے منگوایا کرتے تھے۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ کی بیوی کا نام حمنہ بنت جحش تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام المومنین حضرت زینب بنت جحش کی بہن تھیں۔ حَمْنَہ بنت جحش سے ایک بیٹی زینب پیدا ہوئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مصعب بن عمیرؓ کو یاد کرتے تو فرمایا کرتے تھے کہ مَیں نے مصعب سے زیادہ حسین و جمیل اور نازونعمت اور آسائش میں پروردہ کوئی شخص نہیں دیکھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ85- 86 ’’مصعب بن عمیر‘‘، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان1990ء) (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد الخامس صفحہ 175 ’’مصعب بن عمیر‘‘ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء) (سیر الصحابہ از شاہ معین الدین احمدندوی جلد دوم مہاجرین حصہ اول صفحہ 270، 275، دار الاشاعت اردو بازار کراچی 2004ء) (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد السابع صفحہ 71 ’’حمنہ بنت جحش‘‘ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء) (معجم البلدان جلد 2 صفحہ 157 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت)
حضرت مصعب بن عمیرؓ جلیل القدر صحابہ میں سے تھے اور ابتدا میں ہی اسلام قبول کرنے والے سابقین میں شامل تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دارِ ارقم میں تبلیغ کیا کرتے تھے اس وقت آپؓ نے اسلام قبول کیا لیکن اپنی والدہ اور قوم کی مخالفت کے اندیشے سے اسے مخفی رکھا۔ حضرت مصعبؓ چُھپ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے۔ ایک دفعہ عثمان بن طلحہؓ نے انہیں نماز پڑھتے دیکھ لیا اور ان کے گھر والوں اور والدہ کو خبر کر دی۔ والدین نے ان کو قید کر دیا۔ آپؓ قید میں ہی رہے یہاں تک کہ ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے۔ ان کو موقع ملا، باہر آئے اور پھر ہجرت کر گئے۔ کچھ عرصے بعد بعض مہاجرین حبشہ سے مکہ واپس آئے تو حضرت مصعب بن عمیرؓ بھی ان میں شامل تھے۔ آپؓ کی والدہ نے جب آپؓ کی حالتِ زار دیکھی تو آئندہ سے مخالفت ترک کر دی اور بیٹے کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ کو دو ہجرتیں کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ نے پہلے حبشہ اور بعد میں مدینے کی طرف ہجرت کی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ86 ’’مصعب بن عمیر‘‘، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان1990ء) (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد الخامس صفحہ 175 ’’مصعب بن عمیر‘‘ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء)
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مصعب بن عمیرؓ کو مَیں نے آسائش کے زمانے میں بھی دیکھا اور مسلمان ہونے کے بعد بھی۔ اسلام کی خاطر انہوں نے اتنے دکھ جھیلے کہ میں نے دیکھا کہ ان کے جسم سے جلداس طرح اترنے لگی تھی جیسے سانپ کی کینچلی اترتی ہے اور نئی جلد آتی ہے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق صفحہ 230، من عذب فی اللہ بمکۃ من المؤمنین، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)
یہ قربانی کے ایسے ایسے معیار تھے جو حیرت انگیز ہیں۔ ایک روز مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اس وقت حضرت مصعبؓ کے پیوند شدہ کپڑوں میں چمڑے کی ٹاکیاں لگی ہوئی تھیں۔ کہاں تو وہ کہ اعلیٰ درجےکا لباس اور کہاں مسلمان ہونے کے بعد یہ حالت کہ چمڑے کے پیوند لگے ہوئے تھے۔ صحابہؓ نے حضرت مصعبؓ کو دیکھا تو سر جھکا لیے کہ وہ بھی حضرت مصعب بن عمیرؓ کی تبدیلی حالت میں کوئی مددنہیں کر سکتے تھے۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ نے آ کر سلام کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب دیا اور اس کی احسن رنگ میں ثنا بیان فرمائی۔ پھر فرمایا کہ الحمد للہ دنیا داروں کو ان کی دنیا نصیب ہو۔ میں نے مصعبؓ کو اُس زمانے میں دیکھا ہے جب شہرِمکہ میں اس سے بڑھ کر صاحبِ ثروت و نعمت کوئی نہ تھا۔ یہ ماں باپ کی عزیز ترین اولاد تھی مگر خدا اور اس کے رسولؐ کی محبت نے اسے آج اس حال تک پہنچایا ہے اور اس نے وہ سب کچھ خدا اور اس کی رضا کی خاطر چھوڑ دیا ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ86 ’’مصعب بن عمیر‘‘، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان1990ء)
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کو دیکھا تو ان کی ناز و نعمت والی حالت کو یاد کر کے رونے لگے جس میں وہ رہا کرتے تھے۔ جو ان کی پہلی حالت تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد آئی کہ کس طرح اب قربانی کر رہے ہو۔
حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت مصعب بن عمیرؓ آئے۔ ان کے بدن پر چمڑے کی پیوند لگی ہوئی ایک چادر تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو ان کی اس ناز ونعمت کو یاد کر کے رونے لگے جس میں وہ پہلے تھے اور جس حالت میں وہ اب تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا حال ہو گا تمہارا اس وقت جبکہ تم میں سے ایک شخص ایک جوڑے میں صبح کرے گا تو دوسرے جوڑے میں شام کرے گا یعنی اتنی فراخی پیدا ہو جائے گی کہ صبح شام تم کپڑے بدلا کرو گے اور پھر آپؐ نے فرمایا کہ اس کے سامنے ایک برتن کھانے کا رکھا جائے گا تو دوسرا اٹھایا جائے گا یعنی کھانا بھی قسم قسم کا ہو گا اور مختلف کورسز (courses) سامنے آتے جائیں گے جس طرح آج رواج ہے۔ اور تم اپنے مکانوں میں ایسے ہی پردے ڈالو گے جیسا کہ کعبے پر پردہ ڈالا جاتا ہے۔ بڑے قیمتی قسم کے پردے استعمال کیے جائیں گے۔ یہ بالکل آج کل کے نظارے یا اس کشائش کے نظارے ہیں جب مسلمانوں کو بعد میں وہ کشائش ملی۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ہم اس وقت آج سے بہت اچھے ہوں گے اور عبادت کے لیے فارغ ہوں گے ایسی فراخی ہو گی، ایسے حالات ہوں گے تو پھر عبادت کے لیے بالکل فارغ ہوں گے اور محنت اور مشقت سے بچ جائیں گے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ تم آج کے دن ان دنوں سے بہتر ہو۔ (سنن الترمذی ابواب صفۃ القیامۃ حدیث 2476) تمہاری حالت، تمہاری عبادتیں، تمہارے معیار اس سے بہت بلند ہیں جو بعد میں آنے والوں کے کشائش کی صورت میں ہوں گے۔
سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ہجرتِ حبشہ کے بارے میں لکھا ہے اس میں سے کچھ مَیں پہلے دوسرے صحابہؓ کے ذکر میں بیان کر چکا ہوں۔ مختصر یہاں ذکر کر دیتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے پر ماہ ِرجب پانچ نبوی میں گیارہ مرد اور چار عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ ان میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ یہ ایک عجیب بات ہے کہ ان ابتدائی مہاجرین میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جو قریش کے طاقتور قبائل سے تعلق رکھتے تھے اور کمزور لوگ کم نظر آتے ہیں جس سے دو باتوں کا پتا چلتا ہے۔ اول یہ کہ طاقتور قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی قریش کے مظالم سے محفوظ نہ تھے۔ دوسرے یہ کہ کمزور لوگ مثلاً غلام وغیرہ اس وقت ایسی کمزوری اور بے بسی کی حالت میں تھے کہ ہجرت کی بھی طاقت نہ رکھتے تھے۔ بہرحال قریشِ مکہ کو ان لوگوں کی ہجرت کا جب علم ہوا تو وہ سخت برہم ہوئے کہ یہ شکار مفت میں ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ چنانچہ انہوں نے ان مہاجرین کا پیچھا کیا مگر جب ان کے آدمی ساحل پر پہنچے تو جہاز روانہ ہو چکا تھااور یہ لوگ ناکام واپس لوٹے۔ حبشہ میں پہنچ کر مسلمانوں کو نہایت امن کی زندگی نصیب ہوئی اور خدا خدا کر کے قریش کے مظالم سے چھٹکارا ملا۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 146-147)
بیعتِ عقبہ اولیٰ کے موقعے پر مدینہ سے آئے ہوئے بارہ افرادنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی۔ جب یہ لوگ واپس مدینہ جانے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کو ان کے ساتھ بھجوایا تا کہ وہ انہیں قرآن پڑھائیں اور اسلام کی تعلیم دیں۔ مدینہ میں آپؓ قاری اور مقری، استاد کے نام سے مشہور ہو گئے۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد الخامس صفحہ 175-176 ’’مصعب بن عمیر‘‘ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء) (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب المجلد الرابع صفحہ 37 ’’مصعب بن عمیر‘‘ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2010ء) (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 199، باب ارسال الرسولؐ مصعب بن عمیر مع وفد العقبۃ، دار ابن حزم بیروت لبنان 2009ء)
مقری یعنی استاد اس کے نام سے مشہور ہو گئے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق اوس اور خزرج کے انصار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ کوئی شخص ہمیں قرآن پڑھانے کے لیے بھیجیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کو بھیجا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الاول صفحہ171 باب ذکر العقبۃ الاولیٰ الاثنی عشر، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان1990ء)
مدینے میں حضرت مصعبؓ نے حضرت اسعد بن زُرارہؓ کے گھر قیام کیا۔ آپؓ نمازوں میں امامت کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 199، باب ارسال الرسولؐ مصعب بن عمیر مع وفد العقبۃ، دار ابن حزم بیروت 2009ء)
حضرت مصعبؓ ایک عرصےتک حضرت اسعد بن زُرارہؓ کے گھر قیام پذیر رہے لیکن بعد میں حضرت سعد بن معاذؓ کے گھر منتقل ہو گئے۔ (سیر الصحابہ از شاہ معین الدین احمدندوی جلد دوم مہاجرین حصہ اول صفحہ 272، دار الاشاعت اردو بازار کراچی 2004ء)
حضرت براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مہاجر صحابہ میں سب سے پہلے ہمارے پاس مدینہ تشریف لانے والے مصعب بن عمیرؓ اور ابن ام مکتومؓ تھے۔ مدینے پہنچ کر ان دونوں صحابہؓ نے ہمیں قرآن مجید پڑھانا شروع کر دیا۔ پھر عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ، بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی صحابہ کو ساتھ لے کر آئے۔ اس کے بعدنبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ کہتے ہیں کہ میں نے کبھی مدینہ والوں کو اتنا خوش ہونے والا نہیں دیکھا تھا جتنا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر خوش ہوئے تھے۔ بچیاں اور بچے بھی کہنے لگے تھے کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں۔ ہمارے یہاں تشریف لائے ہیں۔ (صحیح البخاری کتاب تفسیر القرآن باب سورۃ الاعلیٰ حدیث 4941)
سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ حضرت مصعب بن عمیرؓ کے بارے میں مزید بیان کرتے ہیں کہ
’’دارِ ارقم میں جو اشخاص ایمان لائے وہ بھی سابقین میں شمارہوتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ مشہور یہ ہیں۔ اول مصعب بن عمیر‘‘ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ’’جو بنو عبدالدار میں سے تھے اور بہت شکیل اور حسین تھے اور اپنے خاندان میں نہایت عزیز و محبوب سمجھے جاتے تھے۔ یہ وہی نوجوان بزرگ ہیں جو ہجرت سے قبل یثرب میں پہلے اسلامی مبلغ بنا کر بھیجے گئے اور جن کے ذریعہ مدینے میں اسلام پھیلا۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ129)
پھر ایک سیرت کی کتاب میں لکھا ہے کہ حضرت مصعب بن عمیرؓ مدینہ میں پہلے شخص تھے جنہوں نے ہجرت سے قبل جمعہ پڑھایا۔ حضرت مصعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیعت عقبہ ثانیہ سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینے میں نماز جمعہ کے لیے اجازت طلب کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ نے مدینے میں حضرت سعد بن خیثمہؓ کے گھر پہلا جمعہ پڑھایا۔ اس میں مدینے کے بارہ افراد شامل ہوئے۔ اس موقعے پر انہوں نے ایک بکری ذبح کی۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ اسلام میں پہلے شخص تھے جنہوں نے جمعےکی نماز پڑھائی۔ لیکن ایک روایت دوسری بھی ہے جس کے مطابق حضرت ابواُمَامہ اَسْعَد بن زُرارہؓ تھے جنہوں نے مدینہ میں پہلا جمعہ پڑھایا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ87-88 ’’مصعب بن عمیر‘‘، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان1990ء) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الاول صفحہ171 باب ذکر العقبۃ الاولیٰ الاثنی عشر، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان1990ء)
بہرحال حضرت مصعبؓ پہلے مبلغ تھے۔ حضرت مصعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت اسعد بن زُرارہ کو ساتھ لے کر انصار کے مختلف محلّوں میں تبلیغ کی غرض سے جاتے تھے۔ حضرت مصعبؓ کی تبلیغ سے بہت سے صحابہ مسلمان ہوئے جن میں کِبَارْ صحابہ مثلاً حضرت سعد بن معاذؓ، حضرت عَبَّاد بن بِشؓر، حضرت محمد بن مَسلمؓہ، حضرت اُسید بن حُضیرؓ وغیرہ شامل تھے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 200، باب اول جمعۃ اقیمت بالمدینۃ، دار ابن حزم بیروت 2009ء) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ321، ۳۲۶، ۳۳۸، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان1990ء)
حضرت مصعبؓ کی تبلیغی مساعی اور کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ
’’مکّہ سے رخصت ہوتے ہوئے ان بارہ نَو مسلمین نے درخواست کی کہ کوئی اسلامی معلم ہمارے ساتھ بھیجا جاوے جو ہمیں اسلام کی تعلیم دے اور ہمارے مشرک بھائیوں کو اسلام کی تبلیغ کرے۔ آپﷺ نے مصعب بن عمیرؓ کو جو قبیلہ عبدالدار کے ایک نہایت مخلص نوجوان تھے ان کے ساتھ روانہ کر دیا۔ اسلامی مبلغ ان دنوں میں قاری یا مُقْرِیٔ کہلاتے تھے کیونکہ ان کا کام زیادہ تر قرآن شریف سنانا تھاکیونکہ یہی تبلیغ اسلام کا بہترین ذریعہ تھا۔ چنانچہ مصعبؓ بھی یثرب میں مقریٔ کے نام سے مشہور ہو گئے۔ مصعبؓ نے مدینہ پہنچ کر اسعد بن زُرارہؓ کے مکان پر قیام کیا جو مدینے میں سب سے پہلے مسلمان تھے اور ویسے بھی ایک نہایت مخلص اور بااثر بزرگ تھے اور اسی مکان کو اپنا تبلیغی مرکز بنایا اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں ہمہ تن مصروف ہو گئے اور چونکہ مدینہ میں مسلمانوں کو اجتماعی زندگی نصیب تھی اور تھی بھی نسبتاً امن کی زندگی، اس لیے اسعد بن زرارہؓ کی تجویز پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مصعبؓ بن عمیر کو جمعہ کی نماز کی ہدایت فرمائی۔ اس طرح مسلمانوں کی اشتراکی زندگی کا آغاز ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں مدینہ میں گھر گھر اسلام کا چرچا ہونے لگا اور اوس و خزرج بڑی سرعت کے ساتھ مسلمان ہونے شروع ہو گئے۔ بعض صورتوں میں تو ایک قبیلے کا قبیلہ ایک دن میں ہی سب کا سب مسلمان ہو گیا۔ چنانچہ بنو عَبدالْاَشْہَل کا قبیلہ بھی اسی طرح ایک ہی وقت میں اکٹھا مسلمان ہوا تھا۔ یہ قبیلہ انصار کے مشہور قبیلہ اوس کا ایک ممتاز حصہ تھا اور اس کے رئیس کا نام سعد بن معاذ تھا جو صرف قبیلہ بنو عبدالاشہل کے ہی رئیس اعظم نہ تھے بلکہ تمام قبیلہ اوس کے سردار تھے۔ جب مدینہ میں اسلام کا چرچا ہوا تو سعد بن معاذ کو یہ برا معلوم ہوا اور انہوں نے اسے روکنا چاہا۔‘‘ اسلام لانے سے پہلے یہ سعد بن معاذؓ بڑے مخالف تھے۔ ’’مگر اسعد بن زرارہ سے ان کی بہت قریب کی رشتہ داری تھی یعنی وہ ایک دوسرے کے خالہ زاد بھائی تھے اور اسعد مسلمان ہو چکے تھے۔ اس لیے سعد بن معاذ خود براہ راست دخل دیتے ہوئے رکتے تھے کہ کوئی بد مزگی پیدا نہ ہو جائے۔ لہٰذا انہوں نے اپنے ایک دوسرے رشتہ دار اُسید بن الحضیر سے کہاکہ اَسعد بن زرارہ کی وجہ سے مجھے تو کچھ حجاب ہے۔‘‘ مسلمان ہو گیا ہے اور اس کے ہاں تبلیغ کا ساتھ بھی دے رہا ہے۔ ’’مگر تم جاکر مصعبؓ کو روک دو۔‘‘ بجائے اَسعد بن زرارہؓ کو روکنے کے حضرت مصعبؓ کو روک دو ’’کہ ہمارے لوگوں میں یہ بے دینی نہ پھیلائیں اور اسعد سے بھی کہہ دو کہ یہ طریق اچھا نہیں ہے۔ اُسید قبیلہ عبدالاشہل کے ممتاز رؤساء میں سے تھے۔ حتّٰی کہ ان کا والد جنگِ بُعَاث میں تمام اوس کا سردار رہ چکا تھا اور سعد بن معاذ کے بعد اسید بن الحضیر کا بھی اپنے قبیلہ پر بہت اثر تھا۔ چنانچہ سعد کے کہنے پر وہ مصعب بن عمیر اور اسعد بن زرارہ کے پاس گئے اور مصعب سے مخاطب ہو کر غصہ کے لہجے میں کہا۔ تم کیوں ہمارے آدمیوں کو بے دین کرتے پھرتے ہو؟ اس سے باز آجاؤ ورنہ اچھا نہ ہو گا۔ پیشتر اس کے کہ مصعب کچھ جواب دیتے اسعدنے آہستگی سے مصعب سے کہا کہ یہ اپنے قبیلہ کے ایک بااثر رئیس ہیں۔ ان سے بہت نرمی اور محبت سے بات کرنا۔ چنانچہ مصعب نے بڑے ادب اور محبت کے رنگ میں اسید سے کہا کہ آپ ناراض نہ ہوں بلکہ مہربانی فرما کر تھوڑی دیر تشریف رکھیں اور ٹھنڈے دل سے ہماری بات سن لیں اور اس کے بعد کوئی رائے قائم کریں۔ اُسید اس بات کو معقول سمجھ کر بیٹھ گئے۔‘‘ سعید فطرت تھے، ’’اور مصعب نے انہیں قرآن شریف سنایا اور بڑی محبت کے پیرایہ میں اسلامی تعلیم سے آگاہ کیا۔ اُسید پر اتنا اثر ہوا کہ وہیں مسلمان ہو گئے اور پھر کہنے لگے کہ میرے پیچھے ایک ایسا شخص ہے کہ جو اگر ایمان لے آیا تو ہمارا سارا قبیلہ مسلمان ہو جائے گا۔ تم ٹھہرو میں اسے ابھی یہاں بھیجتا ہوں۔ یہ کہہ کر اسید اٹھ کر چلے گئے اور کسی بہانہ سے سعد بن معاذ کو مصعب بن عمیر اور اسعد بن زرارہ کی طرف بھجوا دیا۔ سعد بن معاذ آئے اور بڑے غضبناک ہو کر اسعد بن زرارہ سے کہنے لگے کہ دیکھو اسعد تم اپنی قرابت داری کا ناجائز فائدہ اٹھارہے ہو اور یہ ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ ابھی میں رشتہ داری کی وجہ سے چپ ہوں لیکن ناجائز فائدہ نہ اٹھاؤ۔ ’’اس پر مصعبؓ نے اسی طرح نرمی اور محبت کے ساتھ ان کو ٹھنڈا کیا۔‘‘ جیسے پہلے کو کیا تھا‘‘ اور کہا کہ آپ ذرا تھوڑی دیر تشریف رکھ کر میری بات سن لیں اور پھرا گر اس میں کوئی چیز قابل اعتراض ہو تو (بے شک) ردّ کر دیں۔ سعدنے کہا۔ ہاں یہ مطالبہ تو معقول ہے اور اپنا نیزہ ٹیک کر بیٹھ گئے اور مصعبؓ نے اسی طرح پہلے قرآن شریف کی تلاوت کی اور پھر اپنے دلکش رنگ میں اسلامی اصول کی تشریح کی۔ ابھی زیادہ دیرنہ گزری تھی کہ یہ بت بھی رام تھا۔‘‘ یعنی سعد بن معاذؓ جو تھے وہ بھی یہ باتیں سن کے رام ہو گئے۔ ’’چنانچہ سعدنے مسنون طریق پر غسل کر کے کلمہ شہادت پڑھ دیا اور پھر اس کے بعد سعد بن معاذ اور اسید بن الحضیر دونوں مل کر اپنے قبیلہ والوں کی طرف گئے اور سعدؓ نے ان سے مخصوص عربی انداز میں پوچھا کہ اے بنی عبدالاشہل! تم مجھے کیسا جانتے ہو؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ آپ ہمارے سردار اور سردار ابن سردار ہیں اور آپ کی بات پر ہمیں کامل اعتماد ہے۔ سعدنے کہا تو پھر میرے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں جب تک تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لاؤ۔ اس کے بعد سعدنے انہیں اسلام کے اصول سمجھائے اور ابھی اس دن پر شام نہیں آئی تھی کہ تمام قبیلہ مسلمان ہو گیا اور سعدرضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اسیدؓ نے خود اپنے ہاتھ سے اپنی قوم کے بت نکال کر توڑے۔
سعد بن معاذرضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اسید بن الحضیرؓ جو اس دن مسلمان ہوئے دونوں چوٹی کے صحابہ میں شمار ہوتے ہیں اور انصار میں تو‘‘ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ’’انصار میں تو لارَیب ان کا بہت ہی بلند پایہ تھا۔‘‘ کوئی شک نہیں اس میں، بہت بلند تھے۔ ’’بالخصوص سعد بن معاذؓ کو تو انصارِمدینہ میں وہ پوزیشن حاصل ہوئی جو مہاجرین ِمکہ میں حضرت ابو بکرؓ کو حاصل تھی۔ یہ نوجوان نہایت درجہ مخلص، نہایت درجہ وفادار اور اسلام اور بانیٔ اسلام کا ایک نہایت جاں نثار عاشِق نکلا اور چونکہ وہ اپنے قبیلہ کا رئیسِ اعظم بھی تھا اور نہایت ذہین تھا اسلام میں اسے وہ پوزیشن حاصل ہوئی جو صرف خاص بلکہ اَخَصّ صحابہ کو حاصل تھی اور‘‘ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ’’اور لارَیب۔ اس کی جوانی کی موت پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ سعدؓ کی موت پر تو رحمٰن کا عرش بھی حرکت میں آگیا ہے۔ ایک گہری صداقت پر مبنی تھا۔ غرض اس طرح سرعت کے ساتھ اوس و خزرج میں اسلام پھیلتا گیا۔ یہود خوف بھری آنکھوں کے ساتھ یہ نظارے دیکھتے تھے اور دل ہی دل میں یہ کہتے تھے کہ خدا جانے کیا ہونے والا ہے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ224تا 227)
حضرت مصعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تبلیغ سے بہت سے افراد مسلمان ہوئے۔ آپؓ سن تیرہ نبوی میں حج کے موقعے پر مدینے سے ستّر انصار کا وفد لے کر مکہ روانہ ہوئے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں، مختلف روایتوں سے لے کر، حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یہ تحریر فرمایا ہے کہ
’’اگلے سال یعنی تیرہ نبوی کے ماہ ذی الحجہ میں حج کے موقعہ پر اوس اور خزرج کے کئی سو آدمی مکہ میں آئے۔ ان میں ستر شخص ایسے شامل تھے جو یا تو مسلمان ہو چکے تھے اور یا اب مسلمان ہونا چاہتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے مکہ آئے تھے۔ مصعبؓ بن عمیر بھی ان کے ساتھ تھے۔ مصعبؓ کی ماں زندہ تھی اور گو مشرکہ تھی مگر ان سے بہت محبت کرتی تھی۔ جب اسے ان کے آنے کی خبر ملی تو اس نے ان کو کہلا بھیجا کہ پہلے مجھ سے آکر مل جاؤ پھر کہیں دوسری جگہ جانا۔ مصعبؓ نے جواب دیا کہ میں ابھی تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ملا۔ آپؐ سے مل کر پھر تمہارے پاس آؤں گا۔ چنانچہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے۔ آپؐ سے مل کر اور ضروری حالات عرض کر کے پھر اپنی ماں کے پاس گئے۔‘‘ یہ بات سن کے، یہ دیکھ کر کہ پہلے مجھے ملنے نہیں آئے ’’وہ بہت جلی بھنی بیٹھی تھی۔ ان کو دیکھ کر بہت روئی اور بڑا شکوہ کیا۔ مصعبؓ نے کہا ماں ! میں تم سے ایک بڑی اچھی بات کہتا ہوں جو تمہارے واسطے بہت ہی مفید ہے اور سارے جھگڑوں کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ اس نے کہا وہ کیا ہے؟ مصعبؓ نے آہستہ سے جواب دیا۔ بس یہی کہ بت پرستی ترک کر کے مسلمان ہو جاؤاور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آؤ۔ وہ پکّی مشرکہ تھی سنتے ہی شور مچادیا کہ مجھے ستاروں کی قَسم ہے میں تمہارے دین میں کبھی داخل نہ ہوں گی اور اپنے رشتہ داروں کو اشارہ کیا کہ مصعبؓ کو پکڑ کر قید کر لیں مگر وہ بھاگ کر نکل گئے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 227)
حضرت مُصْعَب بن عمیرؓ کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ ذکر کرتے ہوئے کہ مدینے کے مبلغ کے طور پر ان کو بھیجا گیا تھا اور ان کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے آپؓ نے فرمایا کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بار بار خبر دی جا رہی تھی کہ تمہارے لیے ہجرت کا وقت آ رہا ہے اور آپؐ پر یہ بھی کھل چکا تھا کہ آپؐ کی ہجرت کا مقام ایک ایسا شہر ہے جس میں کنویں بھی ہیں اور کھجوروں کے باغ بھی پائے جاتے ہیں۔ پہلے آپؐ نے یمامہ کی نسبت خیال کیا کہ شاید وہ ہجرت کا مقام ہو گا مگر جلد ہی یہ خیال آپؐ کے دل سے نکال دیا گیا اور آپؐ اس انتظار میں لگ گئے کہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق جو شہر بھی مقدر ہے وہ اپنے آپ کو اسلام کا گہوارہ بنانے کے لیے پیش کرے گا۔ اسی دوران میں حج کا زمانہ آ گیا۔ عرب کے چاروں طرف سے لوگ مکہ میں حج کے لیے جمع ہونے شروع ہوئے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عادت کے مطابق جہاں کچھ آدمیوں کو کھڑا دیکھتے تھے ان کے پاس جا کر انہیں توحید کا وعظ سنانے لگ جاتے تھے اور خدا کی بادشاہت کی خوشخبری دیتے تھے اور ظلم اور بدکاری اور فساد اور شرارت سے بچنے کی نصیحت کرتے تھے۔ بعض لوگ آپ کی بات سنتے اور حیرت کا اظہار کر کے جدا ہو جاتے۔ بعض باتیں سن رہے ہوتے تو مکہ والے آ کر ان کو وہاں سے ہٹا دیتے تھے۔ بعض جو پہلے سے مکہ والوں کی باتیں سن چکے ہوتے وہ ہنسی اڑا کر آپ سے جدا ہو جاتے۔ اسی حالت میں آپ منیٰ کی وادی میں پھر رہے تھے کہ چھ سات آدمی جو مدینہ کے باشندے تھے آپؐ کی نظر پڑے۔ آپؐ نے ان سے کہا کہ آپ لوگ کس قبیلہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ خزرج قبیلہ کے ساتھ۔ آپؐ نے کہا کہ وہی قبیلہ جو یہودیوں کا حلیف ہے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ آپؐ نے فرمایا کیا آپ لوگ تھوڑی دیر بیٹھ کر میری باتیں سنیں گے؟ ان لوگوں نے چونکہ آپؐ کا ذکر سنا ہوا تھا اور دل میں آپؐ کے دعویٰ سے کچھ دلچسپی تھی، انہوں نے آپؐ کی بات مان لی اور آپؐ کے پاس بیٹھ کر آپؐ کی باتیں سننے لگ گئے۔ آپؐ نے انہیں بتایا کہ خدا کی بادشاہت قریب آ رہی ہے۔ بت اب دنیا سے مٹا دیے جائیں گے۔ توحید کو دنیا میں قائم کر دیا جائے گا۔ نیکی اور تقویٰ پھر ایک دفعہ دنیا میں قائم ہو جائیں گے۔ کیا مدینہ کے لوگ اس عظیم الشان نعمت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں؟‘‘ ان لوگوں نے کہا ’’انہوں نے آپؐ کی باتیں سنیں اور متاثر ہوئے اور کہا آپؐ کی تعلیم کو تو ہم قبول کرتے ہیں۔ باقی رہا یہ کہ مدینہ اسلام کو پناہ دینے کے لیے تیار ہے یا نہیں اس کے لیے ہم اپنے وطن جا کر اپنی قوم سے بات کریں گے پھر ہم دوسرے سال اپنی قوم کا فیصلہ آپؐ کو بتائیں گے۔ یہ لوگ واپس گئے اور انہوں نے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں میں آپؐ کی تعلیم کا ذکر کرنا شروع کیا۔ اس وقت مدینہ میں دو عرب قبائل اَوس اور خزرج بستے تھے اور تین یہودی قبائل یعنی بنو قریظہ اور بنو نضیر اور بنو قینقاع۔ اَوس اور خزرج کی آپس میں لڑائی تھی۔ بنو قریظہ اور بنو نضیر اوس کے ساتھ اور بنو قینقاع خزرج کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ مدتوں کی لڑائی کے بعد ان میں یہ احساس پیدا ہو رہا تھا کہ ہمیں آپس میں صلح کر لینی چاہیے۔ آخر باہمی مشورے سے یہ قرار پایا کہ عبداللہ بن اُبی بن سلول جو خزرج کا سردار تھا اسے سارا مدینہ اپنا بادشاہ تسلیم کر لے۔ یہودیوں کے ساتھ تعلق کی وجہ سے اوس اور خزرج بائبل کی پیشگوئیاں سنتے رہتے تھے۔ جب یہودی اپنی مصیبتوں اور تکلیفوں کا حال بیان کرتے تو اس کے آخر میں یہ بھی کہہ دیا کرتے تھے کہ ایک نبی جو موسیٰ کا مثیل ہو گا ظاہر ہونے والا ہے۔ اس کا وقت قریب آ رہا ہے۔ جب وہ آئے گا ہم پھر ایک دفعہ دنیا پر غالب ہو جائیں گے۔ یہود کے دشمن تباہ کر دیے جائیں گے۔ جب ان حاجیوں سے مدینہ والوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کو سنا آپؐ کی سچائی ان کے دلوں میں گھر کر گئی اور انہوں نے کہا یہ تو وہی نبی معلوم ہوتا ہے جس کی یہودی ہمیں خبر دیا کرتے تھے۔ پس بہت سے نوجوان‘‘ یہ سن کر ’’محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی سچائی سے متاثر ہوئے اور یہودیوں سے سنی ہوئی پیشگوئیاں ان کے ایمان لانے میں مؤید ہوئیں۔‘‘ مددگار ہو گئیں۔ ’’چنانچہ اگلے سال حج کے موقع پر پھر مدینہ کے لوگ آئے۔ بارہ آدمی اس دفعہ مدینہ سے یہ ارادہ کر کے چلے کہ وہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں داخل ہو جائیں گے۔ ان میں سے دس خزرج قبیلہ کے تھے اور دو اوس کے۔ منیٰ میں وہ آپ سے ملے اور انہوں نے آپؐ کے ہاتھ پر اس بات کا اقرار کیا کہ وہ سوائے خدا کے اَور کسی کی پرستش نہیں کریں گے۔ وہ چوری نہیں کریں گے۔ وہ بدکاری نہیں کریں گے۔ وہ اپنی لڑکیوں کو قتل نہیں کریں گے۔ وہ ایک دوسرے پر جھوٹے الزام نہیں لگائیں گے۔ نہ وہ خدا کے نبی کی دوسری نیک تعلیمات میں نافرمانی کریں گے۔
یہ لوگ واپس گئے تو انہوں نے اپنی قوم میں اَور بھی زیادہ زور سے تبلیغ شروع کر دی۔ مدینہ کے گھروں میں سے بت نکال کر باہر پھینکے جانے لگے۔ بتوں کے آگے سر جھکانے والے لوگ اب گردنیں اٹھا کر چلنے لگے۔ خدا کے سوا اب لوگوں کے ماتھے کسی کے سامنے جھکنے کے لیے تیار نہ تھے۔ یہودی حیران تھے کہ صدیوں کی دوستی اور صدیوں کی تبلیغ سے جو تبدیلی وہ نہ پیدا کر سکے اسلام نے وہ تبدیلی چند دنوں میں پیدا کر دی۔ توحید کا وعظ مدینہ والوں کے دلوں میں گھر کرتا جاتا تھا۔ یکے بعد دیگرے لوگ آتے اور مسلمانوں سے کہتے ہمیں اپنا دین سکھاؤ لیکن مدینہ کے نَو مسلم نہ تو خود اسلام کی تعلیم سے پوری طرح واقف تھے اور نہ ان کی تعداد اتنی تھی کہ وہ سینکڑوں اور ہزاروں آدمیوں کو اسلام کے متعلق تفصیل سے بتاسکیں۔ اس لیے انہوں نے مکہ میں ایک آدمی بھجوایا اور مبلغ کی درخواست کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مُصْعَبؓ نامی ایک صحابی کو جو حبشہ کی ہجرت سے واپس آئے تھے مدینہ میں تبلیغ اسلام کے لیے بھجوایا۔ مُصْعَبؓ مکہ سے باہرپہلا اسلامی مبلغ تھا۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 214 تا 216)
ایک اَور جگہ اسی امر کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ ’’جب مدینہ والوں کو اسلام کی خبر ہوئی اور ایک حج کے موقعہ پر کچھ اہل مدینہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور آپؐ کی صداقت کے قائل ہو گئے تو انہوں نے واپس جا کر اپنی قوم سے ذکر کیا کہ جس رسول کی آمد کا مدینہ میں رہنے والے یہودی ذکر کیا کرتے تھے وہ مکہ میں پیدا ہو گیا ہے اس پر ان کے دلوں میں رسول کریمؐ کی طرف رغبت پیدا ہو گئی اور انہوں نے دوسرے حج پر ایک وفد بنا کر آپؐ کی طرف بھجوایا اس وفدنے جب آپؐ سے تبادلۂ خیالات کیا تو آپؐ پر ایمان لے آیا اور آپؐ کی بیعت کر لی۔ چونکہ اس وقت مکہ میں آپؐ کی شدید مخالفت تھی یہ ملاقات ایک وادی میں مکہ والوں کی نظروں سے پوشیدہ ہوئی اور وہیں بیعت بھی ہوئی۔ اس لیے اسے بیعت عقبہ کہتے ہیں۔‘‘ عقبہ کا مطلب ہے کہ دشوار گزار گھاٹی یا پہاڑی، دشوار گزار پہاڑی راستہ۔ تو ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو مدینہ کے مومنوں کی تنظیم کے لیے افسر مقرر کیا اور اسلام کی اشاعت کی تاکید کی اور ان کی امداد کے لیے اپنے ایک نوجوان صحابی مُصْعَب ابن عمیر کو بھجوایا تا کہ وہ وہاں کے مسلمانوں کو دین سکھائیں …… یہ لوگ جاتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعوت بھی دے گئے کہ اگر مکہ چھوڑنا پڑے تو آپؐ مدینہ تشریف لے چلیں۔ جب یہ لوگ واپس گئے تو تھوڑے ہی عرصہ میں مدینے کے لوگوں میں اسلام پھیل گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اور صحابہ کو مدینہ بھجوا دیا جن میں حضرت عمرؓ بھی تھے … اس کے بعد ہجرت کا حکم ملنے پر آپؐ خود وہاں تشریف لے گئے اور آپؐ کے جاتے ہی بہت تھوڑے عرصہ میں وہ سب اہلِ مدینہ جو مشرک تھے مسلمان ہو گئے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد اول صفحہ 171) (فرہنگ سیرت صفحہ 203 ’’عقبہ‘‘ زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی 2003ء)
ہجرتِ مدینہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مُصْعَب بن عمیرؓ اور حضرت ابوایوب انصاریؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ (الطبقات الکبریٰ الجزء الثالث صفحہ 88 مُصْعَب بن عُمیر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت مُصْعَب بن عمیرؓ غزوۂ بدر اور احد میں شامل ہوئے۔ غزوۂ بدر اور احد میں مہاجرین کا بڑا جھنڈا حضرت مُصْعَب بن عمیرؓ کے پاس تھا۔ غزوہ بدر میں مہاجرین کا بڑا جھنڈا حضرت مُصْعَب بن عمیرؓ کے پاس تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو دیا تھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ89 مُصْعَب بن عُمیرمطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
پھر دوسری روایت اس طرح ہے جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیین میں لکھی ہے کہ غزوۂ احد میں بھی مہاجرین کا جھنڈا حضرت مُصْعَب بن عمیرؓ کے پاس تھا۔
’’آپؐ نے لشکر اسلامی کی‘‘، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر اسلامی کی صف بندی کی اور مختلف دستوں کے جداجدا امیر مقرر فرمائے۔ اس موقعہ پر آپؐ کو ایہ اطلاع دی گئی کہ لشکرقریش کاجھنڈا طلحہ کے ہاتھ میں ہو۔ طلحہ اس خاندان سے تعلق رکھتا تھاجوقریش کے مورث اعلیٰ قُصَیّ بن کِلَاب کے قائم کردہ انتظام کے ماتحت جنگوں میں قریش کی علمبرداری کا حق رکھتا تھا۔ یہ معلوم کرکے‘‘ جب یہ پتا لگا تو ’’آپؐ نے فرمایا۔ ہم قومی وفاداری دکھانے کے زیادہ حق دار ہیں۔ چنانچہ آپ نے حضرت علیؓ سے مہاجرین کا جھنڈا لے کر مُصْعَب بن عمیرؓ کے سپرد فرما دیا جو اسی خاندان کے ایک فرد تھے جس سے طلحہ تعلق رکھتا تھا۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ488)
حضرت مُصْعَب بن عمیرؓ غزوۂ احد میں شہید ہوئے۔ غزوۂ احد کے روز حضرت مُصْعَب بن عمیرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے لڑ رہے تھے اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ آپؓ کو ابن قَمِئَہْ نے شہید کیا۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 383، غزوہ احد، مقتل مُصْعَب بن عُمیر مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)
تاریخ میں آتا ہے کہ غزوۂ احد کے علمبردار حضرت مُصْعَب بن عمیرؓ نے جھنڈے کی حفاظت کا حق خوب ادا کیا۔ غزوۂ احد کے روز حضرت مُصْعَب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جھنڈا اٹھائے ہوئے تھے کہ ابن قَمِئَہْ نے جو گھوڑے پر سوار تھا حملہ آور ہو کر حضرت مُصْعَب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دائیں بازو پر جس سے آپؓ نے جھنڈا تھام رکھا تھا تلوار سے وار کیا اور اسے کاٹ دیا۔ اس پر حضرت مُصْعَبؓ یہ آیت تلاوت کرنے لگے کہ وَمَا مُحَمَّدٌاِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ۔ اور جھنڈا بائیں ہاتھ سے تھام لیا۔ ابن قَمِئَہْ نے بائیں ہاتھ پر وار کر کے اسے بھی کاٹ ڈالا تو آپؓ نے دونوں بازوؤں سے اسلامی جھنڈے کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ اس کے بعد ابن قَمِئَہْ نے تیسری مرتبہ نیزے سے حملہ کیا اور حضرت مُصْعَب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سینے میں گاڑ دیا۔ نیزہ ٹوٹ گیا۔ حضرت مُصْعَبؓ گر پڑے۔ اس پر بنو عبدالدار میں سے دو آدمی سُوَیبِط بن سعد بن حَرْمَلَہ اور ابورُوم بن عُمیر آگے بڑھے اور جھنڈے کو ابو رُوم بن عُمیر نے تھام لیا اور وہ انہی کے ہاتھ میں رہا یہاں تک کہ مسلمان واپس ہوئے اور مدینہ میں داخل ہو گئے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ89 مُصْعَب بن عُمیر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
شہادت کے وقت حضرت مُصْعَبؓ کی عمر چالیس سال یا اس سے کچھ زائد تھی۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد الخامس صفحہ 176 مُصْعَب بن عُمیر دارالکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت خاتم النبیینؐ میں اس طرح لکھا ہے کہ ’’قریش کے لشکر نے قریباً چاروں طرف گھیرا ڈال رکھا تھا اور اپنے پے در پے حملوں سے ہر آن دباتا چلا آتا تھا اس پر بھی مسلمان شاید تھوڑی دیر بعد سنبھل جاتے مگر غضب یہ ہوا کہ قریش کے ایک بہادر سپاہی عبداللہ بن قَمِئَہْ نے مسلمانوں کے علمبردار مُصْعَب بن عمیرؓ پر حملہ کیا اور اپنی تلوار کے وار سے ان کا دایاں ہاتھ کاٹ گرایا۔ مُصْعَبؓ نے فوراً دوسرے ہاتھ میں جھنڈا تھام لیا اور ابن قَمِئَہْ کے مقابلہ کے لیے آگے بڑھے مگر اس نے دوسرے وار میں ان کا دوسرا ہاتھ بھی قلم کر دیا۔ اس پر مُصْعَبؓ نے اپنے دونوں کٹے ہوئے ہاتھوں کو جوڑ کر گرتے ہوئے اسلامی جھنڈے کو سنبھالنے کی کوشش کی اور اسے چھاتی سے چمٹا لیا۔ جس پر ابن قَمِئَہْ نے ان پر تیسرا وار کیا اور اب کی دفعہ مُصْعَبؓ شہید ہو کر گر گئے۔ جھنڈاتو کسی دوسرے مسلمان نے فوراً آگے بڑھ کر تھام لیا مگر چونکہ مُصْعَبؓ کا ڈیل ڈول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا تھا ابن قَمِئَہْ نے سمجھا کہ مَیں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مار لیا ہے یا یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی طرف سے یہ تجویز محض شرارت اور دھوکا دہی کے خیال سے ہو۔ بہرحال اس نے مُصْعَبؓ کے شہید ہوکر گرنے پر شور مچا دیا کہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مار لیا ہے۔ اس خبر سے مسلمانوں کے رہے سہے اوسان بھی جاتے رہے اور ان کی جمعیت بالکل منتشر ہو گئی۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ493)
جنگ احد میں مسلمانوں کا جو حوصلہ تھا اس کے پست ہونے کی یہ بھی ایک بڑی وجہ ہوئی تھی لیکن بہرحال بعد میں اکٹھے بھی ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت مُصْعَبؓ کی نعش کے پاس پہنچے تو ان کی نعش چہرے کے بل پڑی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پاس کھڑے ہو کر یہ آیت تلاوت فرمائی کہ
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَمَابَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا۔ (الاحزاب: 24) کہ مومنوں میں سے ایسے مرد ہیں جنہوں نے جس بات پر اللہ سے عہد کیا تھا اسے سچا کر دکھایا۔ پس ان میں سے وہ بھی ہے جس نے اپنی منت کو پورا کر دیا اور ان میں سے وہ بھی ہے جو ابھی انتظار کر رہا ہے اور انہوں نے ہرگز اپنے طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ اس کے بعدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ یَشْہَدُ أَنَّکُمُ الشُّہَدَاءُ عِنْدَ اللّٰہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ کہ خدا کا رسول گواہی دیتا ہے کہ تم لوگ قیامت کے دن بھی اللہ کے ہاں شہداء ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ان کی زیارت کر لو اور ان پر سلام بھیجو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روز قیامت تک جو بھی ان پر سلام کرے گا یہ اس کے سلام کا جواب دیں گے۔ حضرت مُصْعَبؓ کے بھائی حضرت ابورُوم بن عُمیر حضرت سُوَیبط بن سعد اور حضرت عامر بن ربیعہ نے حضرت مُصْعَب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قبر میں اتارا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ89-90 مُصْعَب بن عُمیر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ
’’احد کے شہداء میں ایک صاحب مُصْعَب بن عمیرؓ تھے۔ یہ وہ سب سے پہلے مہاجر تھے جو مدینہ میں اسلام کے مبلغ بن کر آئے تھے۔ زمانہ جاہلیت میں مُصْعَبؓ مکہ کے نوجوانوں میں سب سے زیادہ خوش پوش اور بانکے سمجھے جاتے تھے اور بڑے نازونعمت میں رہتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد ان کی حالت بالکل بدل گئی۔ چنانچہ روایت آتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ان کے بدن پرایک کپڑا دیکھا۔ جس پر کئی پیوند لگے ہوئے تھے۔ آپؐ کو ان کا وہ پہلازمانہ یاد آ گیا تو آپؐ چشم پرآب ہو گئے۔ احد میں جب مُصْعَبؓ شہید ہوئے تو ان کے پاس اتنا کپڑا بھی نہیں تھا کہ جس سے ان کے بدن کو چھپایا جا سکتا۔ پاؤں ڈھانکتے تھے تو سر ننگا ہوجاتا تھا اور سر ڈھانکتے تھے تو پاؤں کھل جاتے تھے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سر کو کپڑے سے ڈھانک کر پاؤں کو گھاس سے چھپا دیا گیا۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ501)
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے افطار کے وقت کھانا لایا گیا اور وہ روزے سے تھے۔ کہنے لگے کہ مُصْعَب بن عمیرؓ شہید ہوئے اور وہ مجھ سے بہتر تھے۔ وہ ایک ہی چادر میں کفنائے گئے۔ اگر ان کا سر ڈھانپا جاتا تو ان کے پاؤں کھل جاتے۔ اگر پاؤں ڈھانپےجاتے تو ان کا سر کھل جاتا۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ یہ بھی کہا کہ حمزہ شہید ہوئے اور وہ مجھ سے بہتر تھے۔ پھر ان کے بعد وہ کہنے لگے ہمیں دنیا کی وہ کشائش ہوئی جو ہوئی یا یوں کہا کہ ہمیں دنیا سے وہ کچھ دیا گیا جو دیا گیا اور ہمیں تو ڈر ہے کہ کہیں ہماری نیکیوں کا بدلہ جلدی ہی نہ مل گیا ہو۔ پھر وہ رونے لگے یہاں تک کہ کھانا چھوڑ دیا۔ (صحیح البخاری کتاب الجنائز باب اذا لم یوجد الا ثوب واحد حدیث 1275)
اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت اور اگلے جہان میں اللہ تعالیٰ کا سلوک ان کے سامنے آ گیا جس کی وجہ سے وہ جذباتی ہو گئے کہ ایسی کشائش ہمیں مل گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہیں بدلہ نہ دے دیا ہو یہ نہ ہو کہ وہاں جا کے ہمیں کچھ نہ ملے۔
حضرت خَبَّابْ بن اَرَتؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وطن چھوڑا۔ اللہ تعالیٰ ہی کی رضامندی ہم چاہتے تھے اور ہمارابدلہ اللہ کے ذمہ ہو گیا۔ ہم میں سے ایسے بھی ہیں جو مرگئے اور انہوں نے اپنے بدلے سے کچھ نہیں کھایا۔ انہی میں سے حضرت مُصْعَب بن عمیرؓ بھی ہیں اور ہم میں ایسے بھی ہیں جن کا میوہ پک گیا اور وہ اس میوے کو چن رہے ہیں۔ حضرت مُصْعَب رضی اللہ تعالیٰ عنہ احد کے دن شہید ہوئے اور ہمیں صرف ایک ہی چادر ملی جس سے ہم ان کو کفناتے۔ جب ہم اس سے ان کا سر ڈھانپتے تو ان کے پاؤں کھل جاتے اور اگر ان کے پاؤں ڈھانپتے تو ان کا سر کھل جاتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا۔ ہم ان کا سر ڈھانپ دیں اور ان کے پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دیں۔ (صحیح البخاری کتاب الجنائز باب اذا لم یجد کفنا الا ما یواری راسہ …… حدیث 1276)
ترمذی کی ایک روایت ہے حضرت علی بن ابوطالبؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہر نبی کو اللہ تعالیٰ نے سات نجیب رفیق عنایت فرمائے ہیں یا فرمایا کہ نقباء عنایت فرمائے ہیں اور مجھے چودہ عطا کیے گئے ہیں تو ہم نے عرض کیا وہ کون سے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا میں اور میرے دونوں بیٹے، جعفر اور حمزہ، ابوبکر، عمر، مُصْعَب بن عُمیر، بلال، سلمان، مقداد، ابوذر، عَمَّار اور عبداللہ بن مسعود۔ (سنن الترمذی ابواب المناقب حدیث 3785)
حضرت عامر بن ربیعہ روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد کہا کرتے تھے کہ حضرت مُصْعَب بن عمیرؓ جب ایمان لائے اس وقت سے غزوۂ احد میں شہید ہونے تک میرے دوست اور ساتھی رہے۔ وہ ہمارے ساتھ دونوں ہجرتوں میں حبشہ گئے۔ مہاجرین میں وہ میرے رفیق تھے۔ میں نے ایسا آدمی کبھی نہیں دیکھا جو ان سے زیادہ خوش اخلاق ہو اور ان سے کم جس سے اختلاف ہو۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ87 مُصْعَب بن عُمیر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوۂ احد کے بعد مدینہ لوٹے تو آپؐ کو حضرت مُصْعَب بن عمیرؓ کی بیوی حضرت حَمْنَہ بنت جَحْشْ ملیں۔ لوگوں نے انہیں ان کے بھائی حضرت عبداللہ بن جحش کی شہادت کی خبر دی۔ اس پر انہوں نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن پڑھا اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی۔ پھر لوگوں نے انہیں ان کے ماموں حضرت حمزہ کی شہادت کی خبر دی۔ اس پر انہوں نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن پڑھا اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی۔ پھر لوگوں نے انہیں ان کے خاوند حضرت مُصْعَب بن عمیرؓ کی شہادت کی اطلاع دی۔ اس پر وہ رونے لگیں اور بے چین ہو گئیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت کے لیے اس کے خاوند کا ایک خاص مقام و مرتبہ ہوتا ہے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 396، غزوہ احد مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)
ایک دوسری روایت میں حضرت حَمْنَہ بنت جحش کے بارے میں ذکر ملتا ہے کہ جب ان سے کہاگیا کہ تمہارا بھائی شہید کر دیا گیا ہے تو انہوں نے کہا اللہ اس پر رحم کرے اور کہا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ لوگوں نے کہا تمہارے خاوند بھی شہید کر دیے گئے ہیں وہ کہنے لگیں ہائے افسوس! اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت کو خاوند سے ایسا تعلق ہے جو کسی اَور سے نہیں۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ما جاء فی البکاء علی المیت حدیث 1590)
یہ واقعہ ایک خطاب میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے اپنے انداز میں بھی بیان فرمایا ہے جس میں حضرت مُصْعَب بن عمیرؓ کی شہادت کا واقعہ اور ان کی شہادت پر ان کی بیوی کے جو جذبات تھے ان کا ذکر فرمایاہے۔ اس طرح آپؒ فرماتے ہیں کہ وہ صحابہ یا صحابیات جن کے اقرباء کی تعداد ایک سے زیادہ ہوتی ان کو ٹھہر ٹھہر کر اس انداز میں خبر دیتے کہ صدمہ یکلخت دل کو مغلوب نہ کر لے۔ چنانچہ جس وقت حضور کی خدمت میں حضرت عبداللہ کی بہن حمنہ بنت جحش حاضر ہوئیں تو آپؐ نے فرمایا اے حمنہ! تو صبر کر اور خدا سے ثواب کی امید رکھ۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ! کس کے ثواب کی؟ آپؐ نے فرمایا اپنے ماموں حمزہ کی۔ تب حضرت حمنہ نے کہا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ غَفَرَ لَہٗ وَ رَحِمَہٗ ھَنِیْئًا لَہُ الشَّھَادَۃَ۔ اس کے بعدحضورؐ نے فرمایا کہ اے حمنہ! صبر کر اور خدا سے ثواب کی امید رکھ۔ اس نے عرض کی کہ یہ کس کے ثواب کی۔ آپؐ نے فرمایا اپنے بھائی عبداللہ کی۔ اس پر حمنہ نے پھر یہی کہا کہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن غَفَرَ لَہٗ وَ رَحِمَہٗ ھَنِیْئًا لَہُ الشَّھَادَۃَ۔ پھر آپؐ نے فرمایا اے حمنہ! صبر کر اور خدا سے ثواب کی امید رکھ۔ انہوں نے عرض کیا حضور یہ کس کے لیے؟ فرمایا مُصْعَب بن عمیرؓ کے لیے۔ اس پر حمنہ نے کہا ہائے افسوس! یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ واقعی شوہر کا بیوی پر بڑا حق ہے کہ کسی اَور کا نہیں۔ اس سے پوچھا مگر تو نے ایسا کلمہ کیوں کہا۔ اس پر انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! مجھے اس کے بچوں کی یتیمی یاد آ گئی تھی جس سے میں پریشان ہو گئی اور پریشانی کی حالت میں یہ کلمہ میرے منہ سے نکل گیا۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مُصْعَب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد کے حق میں یہ دعا کی کہ اے اللہ! ان کے سرپرست اور بزرگ ان پر شفقت اور مہربانی کریں اور ان کے ساتھ سلوک سے پیش آویں۔ (ماخوذ از خطابات طاہر قبل از خلافت صفحہ 363)