حضرت مصلح موعود کی قبولیتِ دعا کے بعض ایمان افروز واقعات
محمود احمد ملک
’’وہ اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا‘‘
۱۸۸۶ء میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قادیان کے ہندوؤں کی طرف سے خاص نشان طلب کرنے پر اپنے رب کے حضور توجہ کی اور اس مقصد کے لئے الٰہی اشارہ پر خاص طور پر ہوشیارپور کا سفر بھی اختیار فرمایا اور وہاں چلّہ کشی فرمائی اور خصوصی دعاؤں میں وقت گزارا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کی دعاؤں کو شرفِ قبولیت بخشا اور آپؑ کو ایک ایسے فرزند کی بشارت عطا فرمائی جو نہ صرف حضرت مسیح موعودؑ کی عاجزانہ دعاؤں کا زندہ اعجازتھا بلکہ اس موعود فرزند کی اپنی زندگی بھی قبولیت دعا کے نشانات اور تعلق باللہ کے واقعات سے لبریز نظر آتی ہے ۔ سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ دعاؤں کی قبولیت کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ جب کسی کو منصب خلافت پر سرفراز کرتا ہے تو اس کی دعاؤں کی قبولیت بڑھا دیتا ہے کیونکہ اگر اس کی دعائیں قبول نہ ہوں تو پھر اس کے اپنے انتخاب کی ہتک ہوتی ہے‘‘۔ (منصب خلافت ص۳۲)
چنانچہ قبولیت دعا کے اعجازی نشانات ہر دورِ خلافت میں ایک نمایاں شان کے ساتھ ظاہر ہوتے رہے اور سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے زمانہ خلافت کے بھی بے شمار ایسے واقعات تاریخ میں محفوظ ہیں جب دنیاوی حالات کے نامساعد ہونے کے باوجود خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنے بندے کی تضرعات کو سنا اور قبولیت کا شرف عطا کیا اور اس طرح نہ صرف خلافت حقہ کے لئے اپنی تائید و نصرت کا ثبوت مہیا فرمادیا بلکہ پیشگوئی مصلح موعود کے عظیم الشان مضمون پر بھی مہر صداقت ثبت کردی جس کے ہر ہر لفظ میں خدا خود بولتا ہوا نظر آتا ہے۔
ایک ایسا واقعہ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ کی خواہش کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے قبولیت بخشی، یوں بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت چودھری اسداللہ خان صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ لاہور ۱۹۲۸ء میں حصولِ تعلیم کے لئے برطانیہ تشریف لے گئے لیکن ماحول کے فرق کی وجہ سے طبیعت اس قدر بوجھل ہوئی کہ واپسی کی سیٹ بُک کروالی اور حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحب کی سرزنش بھی آپ کے ارادہ کو تبدیل نہ کرسکی۔ لیکن روانگی سے چند روز قبل جب حضرت مصلح موعودؓ کا یہ پیغام پہنچا کہ اگر تعلیم حاصل کئے بغیر آ گئے تو میں ناراض ہو جاؤں گا تو دل کی کایا پلٹ گئی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۳ سالہ کورس ۲ سال میں مکمل کرلیا۔
حضرت چودھری اسداللہ خان صاحب لکھتے ہیں کہ کمرہ امتحان سے باہر آکر جب میں نے دوسرے طلباء کے ساتھ جوابات کا موازنہ کیا تو معلوم ہو اکہ میرا پرچہ اچھا نہیں ہوا چنانچہ میں نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کیا تو حضورؓ نے جواباً فرمایا ’’میں دعا کر رہا ہوں، اللہ تعالیٰ تمہیں ضرور کامیاب فرمائے گا‘‘۔ محترم چودھری صاحب نے حضورؓ کا یہ جواب نتیجہ نکلنے سے پہلے ہی اپنے دوستوں کو دکھادیا چنانچہ جب نتیجہ نکلا تو آپ کے نمبر سب دوستوں میں زیادہ تھے۔
محترم چودھری اسداللہ خانصاحب اپنے ایک مضمون میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی شفقت کے واقعات بیان کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں کہ تقسیم ملک سے چند سال پہلے میں شدید بیمار ہوگیا اور پیشاب کی جگہ خون کے اخراج سے اس قدر کمزوری ہوگئی کہ پہلو بدلنا بھی ممکن نہ رہا۔ ایک دن حضرت مصلح موعودؓ عیادت کے لئے تشریف لائے اور باتوں باتوں میں فرمایا ’’آپ کا جلسہ پر جانے کو تو جی چاہتا ہوگا؟‘‘۔ میں نے آبدیدہ ہوکر عرض کیا ’’وہ کون احمدی ہے جو جلسہ پر جانا نہ چاہے‘‘۔ اس پر حضورؓ نے اپنی مبارک آنکھیں اٹھاکر میری طرف دیکھا اور حضورؓ کی گردن سے نہایت خوبصورت سرخی چہرہ کی طرف بڑھنی شروع ہوئی کہ حضورؓ کا چہرہ، گردن، پیشانی اور کان سرخ، خوبصورت اور چمکدار ہوگئے۔ حضورؓ نے شہادت کی انگلی سے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ’’آپ انشاء اللہ ضرور جلسہ پر آئیں گے‘‘۔ تھوڑی دیر کے بعد جب حضورؓ تشریف لے گئے تو مجھے پیشاب کی حاجت ہوئی۔ پیشاب کیا تو اس میں ذرہ بھر بھی خون کی آلائش نہیں تھی۔ اس کے بعد میں تیزی سے روبہ صحت ہوا اور جلسہ سے تین چار روز قبل ہی قادیان میں حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔
حضرت مصلح موعودؓ کی قبولیت دعا کا ایک ایمان افروز واقعہ ڈھاکہ کے محترم فیض عالم صاحب کا بیان کردہ ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ان کی اہلیہ ایک لاعلاج نسوانی مرض میں مبتلا تھیں اور ہر قسم کے علاج کے باوجود مرض بڑھتا ہی جا رہا تھا حتی کہ زندگی سے بھی مایوسی ہوگئی۔ آخر حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعائیہ خط لکھ کر حالات عرض کئے تو حضورؓ نے جواباً تحریر فرمایا ’’اچھی ہو جائے گی‘‘۔ اسی دوران ان کی اہلیہ نے بھی خواب میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ’’ دعا کو دوا کے طور پر استعمال کرتی جاؤ‘‘۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے (ڈاکٹروں کے نزدیک ایک لاعلاج) بیماری سے انہیں کامل صحت ہوگئی اور اولاد بھی عطا ہوئی۔
جس طرح خلیفہ وقت کا وجود زمین کے کسی خاص حصے سے تعلق رکھتے ہوئے بھی ساری دنیا کے لئے برکات اور فیوض کا منبع ہوتا ہے اسی طرح خلیفہ وقت کی دعائیں بھی ساری دنیا کے انسانوں کے لئے یکساں شرف قبولیت پاتی نظر آتی ہیں۔ مصر کے ایک مخلص احمدی محترم عبدالحمید خورشید آفندی صاحب ۱۹۳۸ء میں ۴۰ روز کے لئے قادیان آئے اور حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میں دس بارہ سال سے شادی شدہ ہونے کے باوجود اولاد سے محروم ہوں۔ حضورؓ نے دعا کرنے کا وعدہ کیا اور جب کچھ روز بعد آفندی صاحب دوبارہ حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورؓ نے فرمایا ’’میں نے آپ کے لئے دعا کی ہے ، اللہ تعالیٰ آپ کو فرزند عطا کرے گا‘‘۔ کچھ عرصہ قادیان میں مزید قیام کے بعد آفندی صاحب واپس مصر چلے گئے تو ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام بلاد عربیہ کے پہلے مربی سلسلہ کے نام پر جلال الدین رکھا گیا۔ پھر دوسرا لڑکا شمس الدین اور ایک لڑکی عائشہ پیدا ہوئی۔ عزیزم جلال الدین جوخدام الاحمدیہ قاہرہ کے سیکرٹری اور ملک کے ایک قابلِ فخر وجود بھی تھے صرف ۲۲ سال کی عمر میں وفات پاگئے اور اس قومی نقصان پر مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے بھی اپنا تعزیتی پیغام بھجوایا تھا۔ گویا دعا کی برکت سے نہ صرف اولاد عطا ہوئی بلکہ اپنے معاشرے میں نمایاں مقام حاصل کرنے والی اولاد اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓکی قبولیت دعا کی اسی شان کا ایک واقعہ محترم چودھری ظہور احمد صاحب مرحوم سابق ناظر دیوان یوں بیان کرتے ہیں کہ قادیان کے قریب ایک گاؤں بھاگی ننگل میں ایک شخص لچھمن سنگھ رہتا تھا جس کے ہاں اولاد نہ ہوتی تھی۔ ایک روز اس نے محترم چودھری صاحب کے والد حضرت منشی امام الدین صاحبؓ سے کہا کہ میرے لئے حضرت صاحب (سیدنا حضرت مصلح موعودؓ) سے دعا کروائیں کہ خدا مجھے لڑکا دے دے، اگر مرزا صاحب سچے ہوں گے تو میرے ہاں اولاد ہو جائے گی۔ حضرت منشی صاحب نے قادیان آکر حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کی درخواست کی تو حضورؓ نے فرمایا ’’میں دعا کروں گا اور انشاء اللہ اس کے ہاں اولاد ہوگی‘‘۔ چنانچہ کچھ عرصے بعد اس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جو بعد میں میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے والا اپنے گاؤں کا پہلا شخص بنا۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی پاکیزہ حیات اس قسم کے واقعات سے لبریز نظر آتی ہے جن کے پیچھے مضبوط تعلق باللہ اور خدا تعالیٰ کی خاص نصرت ظاہر ہوتی ہے۔ حضورؓ نے خود یہ واقعہ بیان فرمایا کہ ’’جب چودھری فتح محمد صاحبؓ ولایت سے آئے تو ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ نے ان کی آنکھوں کو دیکھا اور بتایا کہ بائیں آنکھ کا بچنا تو قریباً محال ہے اور دائیں بھی خراب ہو رہی ہے۔ مجھے اس سے قلق پیدا ہوا کہ چودھری صاحب کام کے آدمی ہیں۔ میں نے دعا کی تو رات خواب میں ایک شخص نے کہا کہ ان کی آنکھ تو اچھی ہے۔ صبح میں نے ڈاکٹر صاحب کو یہ خواب بتایا تو انہوں نے معائنہ کرکے کہا کہ مرض ایک بٹا تین رہ گیا ہے‘‘۔۔۔۔ حضرت چودھری فتح محمد صاحب بیان کیا کرتے تھے کہ اس سے پہلے میری آنکھ میں چنے کے برابر زخم ہوگیا تھا اور ہر ایک دوا مضر پڑتی تھی لیکن حضورؓ کی دعا سے ہر ایک دوا مفید ہونے لگی اور اب اس آنکھ کی نظر دوسری سے تیز ہوگئی ہے۔
مذکورہ واقعہ میں کئی دیگر پہلوؤں کے علاوہ یہ بات بھی نمایاں ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ کے دل میں حضرت چودھری فتح محمد صاحبؓ کے لئے دعا کرنے کے جذبے کی بنیادی وجہ حضرت چودھری صاحبؓ کی خدمات دینیہ تھیں۔ پس یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ خلیفہ وقت کی دعاؤں کے حصول اور ان کی قبولیت کو تیز تر کرنے کے لئے دعاؤں کے طالب شخص کا دینی خدمات کے لئے کمربستہ ہونا ایک اہم امر ہے۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی زبان مبارک سے ایک اور واقعہ تاریخ میں یوں محفوظ ہے کہ ’’۔۔۔ ڈاکٹر مطلوب خان صاحب کی موت کی خبر سرکاری طور پر آگئی تھی۔ اس سے چند روز پہلے ان کے والدین یہاں آئے تھے اور بہت ضعیف تھے ۔۔۔ چونکہ موت کی خبر آچکی تھی ، دعا تو کیا ہوتی کرب ضرور ہوا۔ رات خواب میں دیکھا کہ وہ مرا نہیں زندہ ہے۔ دوسرے دن اس کا ذکر احباب سے کردیا۔ چند روز بعد ڈاکٹر مطلوب خاں کا خط آگیا کہ میرے متعلق غلط فہمی ہوگئی تھی، میں مرا نہیں تھا بلکہ دشمن مجھ کو پکڑ کر لے گئے تھے‘‘۔
مکرم عبدالمومن صاحب کے والد محترم نے جب احمدیت قبول کی تو آپ کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور دینی مدرسہ سے اٹھواکر گھر میں بند کردیا گیا۔ جلد ہی آپ نے اپنے علاقے کو خیرباد کہہ دیا اور بہت تکالیف اٹھاتے ہوئے قادیان پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ وہاں پہنچ کر آپکو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعودؑ تو وفات پاچکے ہیں ۔۔۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے یہ تسلی بھی دی کہ اگر تم حضرت مسیح موعودؑ کو نہیں دیکھ سکے تو حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کو تو دیکھ لیا ہے۔۔۔۔
مکرم عبدالمومن صاحب حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں پہلی بار نومبر ۴۹ء میں حاضر ہوئے اور یہ عرض کرتے ہوئے کہ میں بحریہ میں سیلر (Sailor) ہوں، خدمت اقدس میں دعا کی درخواست کی۔ حضورؓ نے دریافت فرمایا ’’پروموشن کہاں تک ہو سکتی ہے؟‘‘۔ عرض کیا ’’لیفٹیننٹ کمانڈر تک‘‘۔۔۔۔ ان دنوں بحریہ کی وسعت کے لحاظ سے ترقی بہت کم ملا کرتی تھی لیکن حضورؓ کی دعاؤں کی قبولیت کا یہ نشان تھا کہ آپ لیفٹیننٹ کمانڈر بن کر ریٹائرڈ ہوئے۔۔۔۔مکرم عبدالمومن صاحب نے ایک اورمخلص احمدی محمد زین الدین صاحب سے براہ راست سنا ہوا ایک ایمان افروز واقعہ یوں بیان کیا کہ مکرم زین الدین صاحب سیلون کو ٹیکسٹائل برآمد کرنے کا کاروبار کرتے تھے۔ ۱۹۴۴ء میں جب آپ اپنا مال لے کر جنوبی ہندوستان کی ایک بندرگاہ تک پہنچے تو آپ کو یہ معلوم کرکے شدید صدمہ ہوا کہ مال بردار جہازوں کو جنگی مقاصد کے لئے طلب کرلیا گیا ہے اور سیلون کے لئے جہاز رانی بند ہوگئی ہے۔ اس اطلاع کا مطلب تھا کہ آپ کا کاروبار ٹھپ ہو جاتا۔ آپ نے شدید پریشانی میں حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کے لئے ٹیلی گرام ارسال کیا۔ اگلے روز بذریعہ ٹیلی گرام حضورؓ کا جواب موصول ہوا ’’آپ کا سامان سیلون پہنچ چکا ہے‘‘۔ آپ فوراً بندرگاہ پہنچے اور اپنے سامان کی بابت معلوم کیا تو متعلقہ افسر نے بتایا کہ ایک جہاز جو سمندر میں تھا اور اس کا ہمیں علم نہیں تھا، وہ جیسے ہی بندرگاہ سے لگا، ہم نے سامان اس پر لاد دیا اور وہ اب سیلون پہنچ گیا ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ کی قبولیت دعا کا ایک نشان اس وقت ظاہر ہوا جب قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد ۴۸ء کے انتہائی کٹھن حالات میں حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحبؓ جو بطور ناظر اعلیٰ خدمات سرانجام دے رہے تھے دل کے شدید حملے کا شکار ہوئے۔ یہ حملہ ایسا شدید تھا کہ ڈاکٹر زندگی سے ناامید ہوگئے۔ ایسے میں حضرت مصلح موعودؓ بہت رقّت اور درد سے اللہ کے حضور دعاؤں میں مصروف تھے۔ حضرت نواب صاحبؓ کا دل ساقط ہوچکا تھا اور زندگی کے آثار تقریباً ختم ہوچکے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے دعائیں قبول کیں اور زندگی کی رَو پھر سے چلنی شروع ہوگئی۔ ڈاکٹر کہتے تھے کہ ایسا دورہ قلب ہم نے کتابوں میں تو پڑھا ہے لیکن اس کا مریض پہلی بار زندگی میں دیکھا ہے۔ چنانچہ اس دورے کے بعد ایک لمبا عرصہ تک حضرت نواب صاحبؓ کو خفیف حرکت کی اجازت بھی نہیں تھی۔ کئی بار حالت خطرناک ہوئی اور ہر بار اللہ تعالیٰ نے دعاؤں سے نازک وقت ٹال دیا۔ حتّٰی کہ کئی ماہ بعد آپؓ قدم اٹھانے کے قابل ہوئے اور پھر تیرہ سال تک معجزانہ طور پر صحتمند زندگی گزاری۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی قبولیت دعا کے اعجازی واقعات آپؓ کے تعلق باللہ کا عظیم الشان ثبوت ہیں۔ چنانچہ بے شمار ایسے واقعات بھی نظر آتے ہیں جب کسی نے حضورؓ کی خدمت میں کسی خاص مقصد کے لئے دعا کی درخواست کرتے ہوئے ابھی خط لکھا ہی تھا یا لکھنے کا قصد ہی کیا تھا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سائل کی مشکلات دور ہونی شروع ہوگئیں۔ مکرم محمد رفیع صاحب ریٹائرڈ سپرنٹنڈنٹ لکھتے ہیں کہ ۱۹۳۰ء میں ان کا بچہ خونی پیچش سے ایسا بیمار ہوا کہ ڈاکٹر عاجز آگئے اور بچہ چند گھڑیوں کا مہمان دکھائی دینے لگا۔ تب میں نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کے لئے تار دیا اور اسی وقت سے بچے کو صحت ہونے شروع ہوگئی اور چند روز میں وہ بالکل تندرست ہوگیا۔
مکرم غلام نبی صاحب سابق ایڈیٹر روزنامہ ’الفضل‘ قادیان کا بیان ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ نے ۳۱؍دسمبر ۱۹۱۴ء کو میرا نکاح پڑھا۔ اس کے بعد کئی سال تک میرے ہاں اولاد نہ ہوئی اور نہ میں نے حضورؓ کو درخواستِ دعا کی کہ حضور کو تو معلوم ہی ہے۔ لیکن ۲۲؍مئی ۱۹۲۲ء کو حضورؓ کا ایک مکتوب شائع ہوا جس میں درج تھا کہ:
۱۔ انسان کو دعا پر مخفی طور پر یقین نہیں ہوتا، وہ خود تو بعض دفعہ دعا کر لیتا ہے مگر دوسرے کو کہتے ہوئے اباء کرتا ہے۔
۲۔ کبھی دوسرے کو دعا کی تحریک مخفی تکبر کی وجہ سے نہیں کی جاتی۔
۳۔ کبھی شیطان اس کے متعلق دھوکہ دے دیتا ہے جس سے انسان دعا کروانا چاہتا ہے کہ میں ایسا مقبول نہیں کہ کوئی میرے لئے دعا کرے یا میں اس کے وقت کو کیوں ضائع کروں۔
۴۔ شامتِ اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ جس کو فوائد سے محروم رکھنا چاہے تو اس کی توجہ اس شخص سے پھیر دیتا ہے جس سے وہ اپنے مطلب کو حاصل کر سکتا ہے ۔۔۔ اور اگر پہلے امور میں سے کوئی وجہ نہیں تو آخری ضرور ہے۔
مکرم غلام نبی صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ خط پڑھ کر میں نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کی درخواست کی اور پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں شادی کے ساڑھے آٹھ برس بعد لڑکی سے نوازا۔
حضرت چودھری غلام حسین صاحب کا بیان ہے کہ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے اکثر حالات جو ابھی سربستہ راز ہوتے ہیں حضرت صاحبؓ پر کھولے جاتے ہیں۔ ۔۔۔ میں نے ہر آڑے وقت میں حضرت مصلح موعودؓ سے رجوع کیا اور جتنا جلد ہوسکا دعا کے لئے لکھا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کو اپنے اس محبوب کی ایسی خاطر منظور ہے کہ ادھر لفافہ لیٹربکس میں گیا اور ادھر مشکل حل ہونی شروع ہوئی۔
خلافت احمدیہ کے ساتھ قبولیت دعا کا مضمون ہمیشہ نمایاں شان سے وابستہ رہا ہے اور دراصل یہ ایک ایسا دوہرا رشتہ ہے کہ ایک طرف خلیفہ وقت کی دعائیں مومنوں کے حق میں قبول کی جاتی ہیں تو دوسری طرف مومنوں کی دعائیں خلافت سے پختہ تعلق کی بناء پر پایہ قبولیت کو پہنچتی ہیں۔ اس حقیقت کو حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس طرح بیان کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’میں بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے پہلے بھی یہی دیکھا تھا اور آئندہ بھی یہی ہوگا کہ اگر کسی احمدی کو منصب خلافت کا احترام نہیں ہے، اس سے سچا پیار نہیں ہے، اس سے عشق اور وارفتگی کا تعلق نہیں ہے اور صرف اپنی ضرورت کے وقت وہ دعا کے لئے حاضر ہوتا ہے تو اس کی دعائیں قبول نہیں کی جائیں گی۔ یعنی خلیفہ وقت کی دعائیں اس کے لئے قبول نہیں کی جائیں گی۔ اُسی کے لئے قبول کی جائیں گی جو اخلاص کے ساتھ دعا کے لئے لکھتا ہے اور اس کا عمل ثابت کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے عہد پر قائم ہے کہ جو نیک کام آپ مجھے فرمائیں گے ان میں میں آپ کی اطاعت کروں گا ۔۔۔ اگر وہ خلافت سے ایسا تعلق رکھتا ہے اور پوری وفاداری کے ساتھ اپنے عہد کو نبھاتا ہے اور اطاعت کی کوشش کرتا ہے تو اس کے لئے بھی دعائیں سنی جائیں گی بلکہ اَن کہی دعائیں بھی سنی جائیں گی۔ اس کے دل کی کیفیت ہی دعا بن جایا کرے گی۔‘‘ ( الفضل ربوہ ۲۷؍جولائی ۱۹۸۲ء)
خدا تعالیٰ ہمیں تو فیق دے کہ ہم خلافت کے ساتھ حقیقی تعلق کا ادراک حاصل کرکے اپنی زندگیوں میں پاک تبدیلی پیدا کرسکیں۔
(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۲۰؍فروری۱۹۹۸ء تا۲۶؍فروری ۱۹۹۸ء)