حضرت معاذ بن جبلؓ
حضرت معاذؓ بہت فیاض تھے اور خوب خرچ کرنے والے تھے جس کی وجہ سے اکثر انہیں قرض بھی لینا پڑتا تھا۔ جب قرض خواہوں نے زیادہ تنگ کیا تو کچھ دن گھر میں چھپ کر بیٹھے رہے تو وہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت معاذؓ سے قرض دلوانے کی گزارش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ کو آدمی بھیج کر بلوایا۔ جب حضرت معاذؓ کی جائیداد سے قرض زیادہ ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنا حصہ نہ لے گا خدا اس پر رحم کرے گا۔ چنانچہ کچھ لوگوں نے اپنا قرض معاف کر دیا لیکن پھر بھی کچھ لوگ قرض کا مطالبہ کرتے رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری جائیداد کو ان لوگوں میں تقسیم کر دیا لیکن ابھی بھی قرض مکمل ادا نہ ہوا بلکہ یہ ہوا کہ ہر ایک کو قرض کا کچھ حصہ مل گیا۔ قرض خواہوں نے مزید کا تقاضا کیا کہ بقایا بھی ہمیں دیا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں چھوڑ دو۔ ابھی اس سے زیادہ نہیں مل سکتا۔ اسی مال کو لے جاؤ۔ جب حضرت معاذؓ کے پاس کچھ بھی باقی نہ رہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن کی طرف بھیجا اور فرمایا کہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارا نقصان پورا کرے اور تمہارا قرض ادا کرا دے۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3صفحہ502 معاذ بن جبلؓ مطبوعہ دارالاشاعت کراچی) (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد 5صفحہ 188معاذ بن جبل دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2003ء) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء3 صفحہ 441، 440معاذ بن جبل ومن سبداائائر بنی سَلَمَۃ۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
اس موقعے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ کو یہ بھی فرمایا کہ اے معاذ ! تم پر قرض بہت ہے۔ اگر کوئی ہدیہ لائے تو اسے قبول کر لینا۔ مَیں تمہیں اس کی اجازت دیتا ہوں۔ (بحوالہ سیرالصحابہ جلد 5 صفحہ 146 دار الاشاعت لاہور) آپؐ نے فرمایا: تحفے قبول کرنے کی تمہیں اجازت ہے۔ یعنی تحفہ قبول کرنا تو ویسے کوئی حرج نہیں۔ یہی کہا جاتا ہے کہ محبت بڑھتی ہے۔ ایک دوسرے کو تحفے دینے چاہئیں لیکن یہ کیونکہ وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندہ بنا کے بھیجے گئے تھے اس لیے آپؐ نے خاص طور پر فرمایا کہ اس نمائندگی کی وجہ سے اگر تمہیں لوگ تحفہ دیں تو تمہیں اختیار ہے کہ وہ تحفہ تم اپنے پرخرچ کر سکتے ہو کیونکہ وہ عموماً بیت المال کے لیے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دیا جاتا تھا۔
حضرت معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن کی طرف بھیجا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں نصیحت کرنے کے لیے ان کے ساتھ باہر تشریف لے گئے۔ حضرت معاذؓ سواری پر بیٹھے ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی سواری کے ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بات مکمل کر چکے تو فرمایا اے معاذ ! ممکن ہے کہ آئندہ سال تمہاری مجھ سے ملاقات نہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم میری مسجد اور میری قبر کے پاس سے گزرو۔ حضرت معاذؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدائی کی وجہ سے یہ سن کے زاروقطار رونے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا رخ تبدیل کیا اور مدینےکی طرف منہ مبارک کر کے فرمایا: لوگوں میں سے میرے نزدیک وہ ہیں جو متقی ہیں چاہے وہ کوئی ہوں اور کہیں بھی ہوں۔ (ماخوذازمسند احمد بن حنبل مسند معاذ بن جبل جلد7 صفحہ 359 حدیث 22402 عالم الکتب بیروت 1998ء)
ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ کو اس موقعے پر فرمایا تم عنقریب ایسے لوگوں کے پاس جاؤ گے جو اہل کتاب ہیں۔ جب تم ان کے پاس پہنچو تو انہیں اس بات کی دعوت دو کہ وہ شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو پھر انہیں یہ بتاؤ کہ اللہ نے ان پر ہر دن رات میں پانچ نمازیں مقرر کی ہیں اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو پھر انہیں یہ بتاؤ کہ اللہ نے ان پر صدقہ مقرر کیا ہے جو ان کے دولتمندوں سے لیا جائے اور ان کے محتاجوں کو لوٹا دیا جائے۔ پھر اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان لیں تو خبردار ان کے عمدہ عمدہ مال صدقے میں نہ لینا بلکہ درمیانے درجے کا لینا اور مظلوم کی پکار سے بچنا اس لیے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی روک نہیں ہوتی۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب بعث ابی موسیٰ و معاذ الی یمن……حدیث4347)
مظلوم کی آہ سے بچنے کی خاص طور پر نصیحت فرمائی کیونکہ اس کی آہ اور اللہ کے درمیان کوئی روک نہیں ہوتی۔
حضرت معاذ بن جبلؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف قاضی بنا کر بھیجا۔ آپؓ ان لوگوں کو قرآن اور دین سکھاتے تھے۔ ان کے درمیان فیصلے کرتے تھے۔ یمن کے عاملین جو زکوٰۃ اکٹھی کرتے تھے وہ حضرت معاذ بن جبلؓ کے پاس بھجواتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کا انتظام پانچ صحابہ حضرت خالد بن سعیدؓ، حضرت مہاجر بن اُمَیَّہؓ، حضرت زیادؓ بن لبیدؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ اور حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ میں تقسیم فرمایا ہوا تھا۔ (الاستیعاب جلد 3 صفحہ 460 ’معاذ بن جبل‘۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2010ء)
یعنی انتظامات ان پانچ کے سپرد تھے۔ یہ ایک روایت ہے۔
حضرت معاذ بن جبلؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے یمن کی طرف بھیجا تو ارشاد فرمایا کہ ہر تیس گائے میں زکوٰۃ کے طور پر ایک سالہ گائے لینا اور ہر چالیس گائے پر دو سالہ یعنی زکوٰۃ کی شرح بیان فرما رہے ہیں، نصاب بیان فرما رہے ہیں اور ہر بالغ سے ایک دینار یا اس کی قیمت کے برابر مَعَافِر یعنی ایک یمنی کپڑا ہوتا ہے وہ وصول کرنا۔ مَعَافِر ایک قبیلے کا نام تھا جو یہ کپڑا بناتے تھے۔ انہی کے نام پہ اس کا نام بھی ہو گیا۔ یہ مسند احمد بن حنبل کی روایت ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 348 مسند معاذ بن جبل حدیث 22363، عالم الکتب بیروت 1998ء) (لغات الحدیث جلد 3صفحہ 142 پیر محمد کتب خانہ آرام باغ کراچی)
علامہ ابن سعد کہتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبلؓ کے پاؤں میں لنگڑاہٹ تھی۔ جب وہ یمن گئے تو انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور اپنا پاؤں پھیلا دیا یعنی ٹانگ آگے کر لی یا دائیں طرف پھیلا دی ہوگی جس طرح بھی ان کی صورت تھی تو جو بھی پاؤں خراب تھا لوگوں نے بھی اسی طرح اس طرف اپنے پاؤں پھیلا دیے۔ حضرت معاذؓ نے جب نماز پڑھا لی تو کہا تم لوگوں نے اچھا کیا کہ جس طرح مَیں کر رہا تھا تم نے کیا لیکن آئندہ ایسا نہ کرنا کیونکہ مجھے تکلیف ہے اس لیے میں نے نماز میں اپنا پاؤں پھیلایا تھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 439 معاذ بن جبل۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
مطلب یہ تھا کہ مجھے دیکھ کے تم نے اطاعت کا جو نمونہ دکھایا وہ ہر لحاظ سے ہی قابل تعریف ہے۔ اطاعت اسی طرح ہونی چاہیے کہ امام کے پیچھے مکمل طور پر اس کی پیروی کی جائے لیکن میری یہ مجبوری ہے۔ یہ سنت نہیں ہے اور جس کو مجبوری نہیں وہ صحیح طرح نماز پڑھے۔ اسی طرح جس طرح حکم ہے، جس طرح سنت ہے، جس طرح ہمارے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تعامل رہا ہے۔ حضرت معاذؓ نے یمن میں بیت المال کے پیسوں سے تجارت کی اور اس سے جو منافع ہوا اس سے اپنا قرض ادا کیا۔ آپ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے مال سے تجارت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے ہدیہ بھی قبول کرتے رہے اور یہاں تک کہ آپ کے پاس تیس رأس بھیڑ بکریاں ہو گئیں۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد3 صفحہ 505حضرت معاذ بن جبلؓ مطبوعہ دار الاشاعت کراچی) (الاستیعاب جلد3 صفحہ 1404معاذ بن جبل مطبوعہ دارالجیل بیروت 1992)
یہ اجازت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دی تھی یقیناً قرض کی ادائیگی کے لیے تھی اور تجارت اس حد تک تھی کہ جو منافع ہوتا تھا اس مال میں سے کچھ قرض اتارتے جاتے تھے یا منافع اگر نہیں بھی لیتے تھے تو یہ بھی ممکن ہے کہ تجارت پر جو منافع تھا اس میں اپنے کام کی اجرت کے طور پر لیتے ہوں کہ یہ میں نے اس طرح خرچ کیا۔ جو میرا مشورہ تھا اور جو محنت تھی اس کی یہ اجرت ہے اور اس کی اجازت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمائی تھی اس لیےپھر انہوں نے یہ لے لی تاکہ قرض ادا ہو اور یہی بات قابل قبول لگتی ہے کہ منافع کی شرح میں سے اجرت لیتے ہوں یا کچھ حد تک منافع لیتے ہوں لیکن بہرحال جو بھی تھا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب حضرت معاذؓ حج کرنے آئے تووہ حضرت عمرؓ سے ملے جنہیں حضرت ابوبکرؓ نے حج پر عامل بنایا تھا۔ حضرت عمرؓ اور حضرت معاذؓ کی یَوْمُ التَّرْوِیَہْ کو ملاقات ہوئی۔ دونوں نے آپس میں معانقہ کیا اور ایک دوسرے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعزیت کی۔ پھر دونوں زمین پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء3 صفحہ 441 معاذ بن جبل ومن سائر بنی سَلَمَۃ۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
الاستیعاب میں لکھا ہے، یہ بھی تاریخ کی ایک کتاب ہے، کہ حضرت معاذؓ بہت سخی تھے اور اسی سخاوت اور فیاضی کی وجہ سے یہ نوبت آ گئی کہ ان کا سارا مال قرضے کی زد میں آ گیا۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؐ سے درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرض خواہوں سے کہیں کہ وہ ان کا قرض معاف کر دیں۔ پہلے بھی یہ بیان ہوا ہے۔ یہ مختلف حوالے سے دوسری یا وہی بات بیان ہو رہی ہے۔ آپؐ نے ان کے قرض خواہوں سے کہا لیکن انہوں نے قرض معاف کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر آگے اس نے یہ لکھا ہے کہ اگر کوئی کسی کی خاطر کسی کا قرض معاف کرتا تو وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر حضرت معاذ بن جبلؓ کا قرض معاف کر دیتے۔ سب سے بڑا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام تھا آپ کی خاطر ہی کوئی اپنے قرض کو معاف کر سکتا تھا یا مالی قربانی دے سکتا تھا۔ لیکن اس میں سے بھی بہت سارا جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے بعض لوگوں نے معاف نہیں کیا اور یہی عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! ہم تو قرض واپس لیں گے۔ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر قرض کی ادائیگی کے لیے حضرت معاذ بن جبلؓ کی جائیداد وغیرہ سب بیچ دی اور حضرت معاذ بن جبلؓ خالی ہاتھ رہ گئے۔ پھر جس سال مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ کو یمن کے ایک حصے کا امیر بنا کر بھیجا۔ یہاں بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ امیر بنا کے بھیجا تھا۔ اس لیے ہدیہ وغیرہ جو تھا، جو بطور امیر اُن کو ملتا تھا وہ یہی خیال کیا جاتا ہے کہ بیت المال کا ہو گا۔ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اللہ کے مال میں، بیت المال کے مال میں تجارت کی۔ وہ وہاں رہے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور وہ خوشحال ہو گئے۔ اس عرصے میں تجارت میں ان کو فائدہ ہوتا رہا اور وہ جتنا بھی حصہ لیتے تھے، لیتے رہے تو خوشحالی ہو گئی۔ پھر جب وہ واپس آئے تو حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ اس شخص کو یعنی حضرت معاذؓ کو بلوائیں اور اس کے پاس اس کی ضرورت کا سامان چھوڑ کر اس سے وصول کر لیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض کی ادائیگی کی اجازت دی تھی۔ اب قرض کی ادائیگی ہو گئی اور جو ضرورت کے لیے ایک انسان کو چیزیں چاہئیں وہ بھی ان کے پاس رہنی چاہئیں لیکن یہ جو خوشحالی ہوئی ہے یہ حضرت عمرؓ کے خیال میں نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اس لیے یہ مال چھوڑ کے باقی جو ہے وصول کر لیں۔ اب حضرت ابوبکرؓ کے پاس یہ معاملہ آیا۔ حضرت ابوبکرؓ کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق تھا ان کو یہ برداشت نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کی اجازت دی ہو اور میں اس میں اس کے خلاف کوئی فیصلہ کروں تو بہرحال حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا اور میں اس سے کچھ نہیں لوں گا اور یہ کہہ کے بھیجا تھا کہ تم تجارت کر سکتے ہو اور کچھ حصہ لے سکتے ہو یہاں تک کہ وہ خود مجھے دے دیں۔ مَیں نے تو نہیں مانگنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پہ گئے تھے اور یہ اجازت سے جو بھی ہدیہ اور باقی چیزیں لیتے تھے تو سوائے اس کے کہ مجھے خود دے دیں مَیں نے نہیں کہنا۔ حضرت عمرؓ پھر حضرت معاذؓ کے پاس گئے۔ حضرت عمرؓ بھی بعض اصولوں کے بڑے پکے تھے۔ وہ حضرت معاذؓ کے پاس گئے اور حضرت معاذؓ سے ذکر کیا۔ حضرت معاذؓ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کی طرف اس لیے بھیجا تھا تا کہ میری ضرورت پوری ہو اور میں تو کچھ بھی نہیں دوں گا۔ اور یہ روایات سے بھی اور ان کی زندگی کے سارے عرصہ اور سیرت سے بھی ثابت ہے کہ اگر تو ان کے پاس خوشحالی بھی تھی تو چند دن کے لیے ہوتی ہو گی کیونکہ اکثر وہ لوگوں میں بانٹ دیا کرتے تھے۔ بعض ایسی روایات آگے آئیں گی جن سے پتہ لگتا ہے کہ کس طرح وہ بانٹا کرتے تھے۔ پھر اس کے بعد حضرت معاذؓ حضرت عمرؓ کے پاس گئے اور کہا کہ مَیں آپ کی بات مانتا ہوں۔ پہلے تو حضرت عمرؓ کو کہہ دیا مَیں کچھ نہیں دوں گا اور پھر کچھ عرصے کے بعد یا کچھ وقفے کے حضرت عمرؓ کے پاس گئے اور کہا اچھا میں آپ کی بات مانتا ہوں اور میں وہی کروں گا جس کا آپ نے کہا ہے کیونکہ میں نے خواب دیکھی ہے، (کچھ عرصہ کے بعد ہی گئے ہوں گے کیونکہ یہاں خواب کا ذکر ہے۔) کہتے ہیں میں نے خواب دیکھی ہے کہ پانی میں ڈوب رہا ہوں اور آپؓ نے یعنی حضرت عمرؓ نے مجھے بچایا ہے۔ اس کے بعد حضرت معاذؓ حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں آئے اور ساری بات ان سے بیان کی اور قسم کھا کر کہا کہ مَیں آپؓ سے کسی چیز کو بھی نہیں چھپاؤں گا جو میں نے لیا جس طرح لیا سب کچھ میرے سامنے ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ میں آپ سے کچھ بھی نہیں لوں گا۔ ٹھیک ہے آپ نے اپنا سارا کچھ حساب کتاب مجھے بتا دیا لیکن میں کچھ نہیں لوں گا۔ میں نےتمہیں وہ سب ہدیہ دیا۔ تحفہ کے طور پر تمہیں دے دیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا یہ بہترین حل ہے۔ (ماخوذ از الاستیعاب جلد 3 صفحہ 461 باب حرف المیم معاذ بن جبل۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2010ء)
حضرت عمرؓ بھی ساتھ تھے۔ جب یہ بات ان کو پتہ لگی کہ جو کچھ ہے وہ خود حضرت معاذؓ کو دے رہے ہیں تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ ہاں یہ ٹھیک ہے اب کیونکہ خلیفہ وقت نے فیصلہ کر دیا ہے تو کامل اطاعت کے ساتھ اس کو قبول کر لیا۔ ان کو اس سے غرض نہیں تھی کہ کیوں لیا جا رہا ہے۔ ان کو یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اب یہ خلیفہ وقت کا فیصلہ ہونا چاہیے کہ یہ خرچ کر سکتے ہیں یا نہیں کر سکتے یا اپنے پاس مال رکھ سکتے ہیں یا نہیں رکھ سکتے۔ پہلے حضرت عمرؓ زور دیتے رہے کہ لینا چاہیے لیکن جب حضرت ابوبکرؓ نے فیصلہ کر دیا کہ میں نہیں لوں گا اور میں تحفہ کے طور پر دے رہا ہوں تو پھر حضرت عمرؓ کے پاس کوئی عذر نہیں تھا۔ خاموشی سے کہا بالکل ٹھیک ہے۔ یہ فیصلہ اس سارے معاملے کا بہترین حل ہے۔ یہاں مزید وضاحت ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس وقت تک انہیں اس طرف متوجہ نہیں کیا جب تک حضرت معاذؓ کی ضرورت پوری نہیں ہو گئی اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی ہو گئی اور ان کی ضرورت بھی پوری ہو گئی، کشائش بھی پیدا ہو گئی، قرضے بھی اتر گئے تو خواب کے ذریعے خود ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت معاذؓ کو اس طرف توجہ دلا دی کہ اب نہیں۔ اب اپنی جائیداد پہ ہی گزارا کرو۔ اب نہ وہ ہدیہ بحیثیت امیر کے تم لے سکتے ہو نہ بیت المال میں سے خرچ کر سکتے ہو اور اس کے بعد وہ زیادہ عرصہ وہاں رہے بھی نہیں۔ بہرحال یہ اس کی مختصر وضاحت ہے۔
حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا جب تمہیں کوئی معاملہ درپیش ہو گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اللہ کی کتاب میں اس کا حکم نہ ملا تو؟انہوں نے عرض کیا۔ پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اللہ کے رسول کی سنت میں بھی اس کا حکم نہ ملا تو؟انہوں نے عرض کیا کہ میں پھر اجتہاد سے اپنی رائے قائم کروں گا اور میں اس میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گا۔ معاذ نے بیان کیا کہ یہ باتیں سن کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر میرے سینے پر ہاتھ مارا۔ پھر فرمایا کہ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے اللہ کے رسول کے قاصد کو ایسی بات کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کی خوشنودی کا باعث ہوئی۔ (مسند احمد بن حنبل مسند معاذ بن جبل جلد 7 صفحہ 347حدیث22357 عالم الکتب بیروت 1998ء)
حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یمن بھیجا تو آپؐ نے فرمایا: نازو نعم والی زندگی اختیار کرنے سے بچو کیونکہ اللہ کے بندے نازونعم والی زندگی اختیار نہیں کرتے۔ (مسند احمد بن حنبل مسند معاذ بن جبل جلد 7 صفحہ 375 حدیث 22456 عالم الکتب بیروت 1998ء)
اس سے اس بات کی بھی مزید وضاحت ہو گئی کہ جو ہدیے اور تجارت کا مال تھا وہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ تھا کہ ان کا ہاتھ کھلا ہے۔ غریبوں کی مدد کرنے و الے ہیں اسی پر خرچ کریں گے لیکن پھر بھی یہ نصیحت کر دی کہ یہ سب کچھ اجازتیں میں تمہیں دے رہا ہوں اس لیے نہیں کہ نازو نعم کی زندگی گزارو بلکہ اس لیے کہ تمہاری ضروریات پوری ہوں۔ اس سے بچنے کی تاکید فرمائی۔
حضرت معاذؓ بیان کرتے ہیں کہ یمن کی طرف روانہ ہونے کے لیے جب میں نے رکاب میں اپنا پاؤں رکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آخری نصیحت یہ فرمائی کہ لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا۔ لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء3 صفحہ 439 ’’معاذ بن جبل‘‘ ومن سائر بنی سَلَمَۃ۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
آج کل کے مسلمانوں کا حال دیکھیں کہ کیا وہ اسی طرح پیش آتے ہیں اور منا رہے ہیں سیرت النبیؐ کی میلاد النبیؐ۔ میلاد النبیؐ منانے کی اصل چیز تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور آپؐ کی نصائح پر عمل کیا جائے۔
جب حضرت معاذؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن پر حاکم بنا کر بھیجا تو ان کے رتبہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ اِنِّیْ بَعَثْتُ لَکُمْ خَیْرَ اَھْلِیْ کہ مَیں اپنے لوگوں میں سے بہترین کو تمہارے لیے بھیجتا ہوں۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 502حضرت معاذبن جبلؓ مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)
ابن اَبُوْنَجِیْح روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ کو اہل یمن کی طرف حاکم بنا کر بھیجا اور اہل یمن کو تحریر فرمایا کہ یقیناًً میں نے تم پر اپنے لوگوں میں سے بہترین صاحب علم اور صاحب دین شخص کو حاکم بنایا ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء3 صفحہ 438-439 معاذ بن جبل ومن سائر بنی سَلَمَۃ۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
ایک حدیث میں آتا ہے، یہ روایت مسند احمد بن حنبل کی ہے۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دس باتوں کی وصیت کرتے ہوئے فرمایا۔ پہلی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا خواہ تم قتل کر دیے جاؤ یا جلا دیے جاؤ۔ دوسری بات یہ کہ والدین کی نافرمانی نہ کرو خواہ وہ تمہیں گھر بار اور مال سے بےدخل کر دیں۔ والدین کی نافرمانی نہیں کرنی چاہے کچھ بھی ہو جائے کچھ بھی ان سے نہ ملے۔ پھر تیسری بات یہ فرمائی کہ فرض نماز جان بوجھ کر نہ چھوڑو کیونکہ جان بوجھ کر فرض نماز چھوڑنے والا اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری اور حفاظت سے باہر نکل جاتا ہے۔ پھر فرمایا شراب نہ پیو کیونکہ شراب ہر بے حیائی کی جڑ ہے۔ پھر فرمایا گناہ اور نافرمانی سے بچو کیونکہ گناہ کی وجہ سے خدا کی ناراضگی نازل ہوتی ہے۔ پھر فرمایا دشمن سے مڈھ بھیڑ کے وقت فرار اختیار نہ کرو۔ اگر دشمن سے آمنا سامنا ہو جائے تو پھر ڈر کے دوڑ نہیں جانا خواہ لوگ ہلاک ہو جائیں۔ پھر فرمایا اگر لوگ طاعون جیسی وبا کا شکار ہو جائیں اور تم ان کے درمیان ہو تو اپنی جگہ پر ہی رہو۔ طاعون کی بیماری اگر پھیلتی ہے، کوئی بھی ایسی وبا پھیلتی ہے جو وسیع طور پر پھیلنے والی ہے تو پھر اگر تم بیماری کے علاقے میں ہو تو جہاں ہو وہیں رہو۔ پھر فرمایا کہ اپنے اہل و عیال پر اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرو۔ جتنی طاقت ہے اتنا ان پہ خرچ کرو، ان کے حق ادا کرو اور ان کی تادیب و تربیت میں کوتاہی نہ کرو۔ پھر ان کی تربیت صحیح طرح کرو اور کہیں تھوڑی بہت سختی بھی کرنی پڑے تو وہ بھی کرو تا کہ ان کی صحیح تربیت ہو اور انہیں خدا کا خوف یاد دلاتے رہو۔ یہ دس باتیں ہیں جو آپ نے ان کو فرمائیں۔ (مسند امام احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 366 مسند معاذ بن جبل حدیث 22425 عالم الکتب بیروت 1998ء)
حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ سے فرمایا اے معاذ! مَیں تمہیں مشفق بھائی کی نصیحت جیسی نصیحت کرتا ہوں۔ یہ روایت ابن عمرؓ سے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ مَیں تمہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ مریض کی عیادت کرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ بیواؤں اور ضعیفوں کی ضروریات پوری کرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ ضرورت مندوں اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھنے اور لوگوں کو اپنی طرف سے انصاف فراہم کرنے اور حق بات کہنے اور اس بات کی تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنےوالے کی ملامت تمہارے آڑے نہ آئے۔ (کنز العمال جلد15 صفحہ 903۔ حدیث 43555 کتاب المواعظ… الخ۔ الفصل السادس موسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)
حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ اپنے ساتھیوں سے کہا: کسی چیز کی خواہش کرو۔ کسی نے کہا میری خواہش ہے کہ یہ گھر سونے سے بھر جائے اور میں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کروں اور صدقہ کر دوں۔ ایک شخص نے کہا میری خواہش ہے کہ یہ مکان ہیرے جواہرات سے بھر جائے اور میں اس کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کروں اور صدقہ کر دوں۔ صحابہ کی کیسی عجیب اور عظیم خواہشیں تھیں۔ پھر حضرت عمرؓ نے کہا اَور خواہش کرو۔ انہوں نے کہا اے امیر المومنین! ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ہم کیا خواہش کریں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا میری یہ خواہش ہے کہ یہ گھر حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ اور حضرت مُعاذ بن جَبَلؓ اور سالم مولیٰ ابوحذیفہؓ اور حضرت حذیفہ بن یمانؓ جیسے لوگوں سے بھرا ہوا ہو۔ (المستدرک علی الصحیحین جلد 3 صفحہ 252 حدیث 5005 کتاب معرفۃ الصحابۃ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
پچھلی دفعہ بھی یہ واقعہ بیان کیا تھا۔ اس دفعہ حضرت معاذ بن جبلؓ کے ذکر میں بھی یہ روایت آگئی۔
حضرت معاذؓ 9؍ ہجری سے 11؍ہجری تک دو سال یمن میں رہے۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد3صفحہ505معاذ بن جبلؓ مطبوعہ دارالاشاعت کراچی)
ایک مرتبہ حضرت عمربن خطابؓ نے چار سو دینار ایک تھیلی میں ڈالے اور غلام سے کہا حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ کے پاس لے جاؤ۔ (یہ گذشتہ خطبے میں حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ کے ذکر میں بھی بیان ہوا تھا لیکن اس کی بقایا تفصیل رہ گئی تھی تو اس لیے پوری تفصیل اب بیان کر دیتا ہوں)۔ اور گھر میں ان کے پاس تھوڑی دیر ٹھہرو۔ دیکھو کہ وہ اس مال کے ساتھ کیا کریں گے۔ چنانچہ غلام تھیلی لے کر ان کے پاس گیا اور کہا امیر المومنین نے آپؓ کے لیے کہا ہے کہ اس مال کو اپنی ضروریات کے لیے استعمال کریں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ ان پر رحم کرے۔ پھر انہوں نے اپنی لونڈی کو بلایا اور کہا یہ سات دینار فلاں کے پاس لے جاؤ اور یہ پانچ فلاں کے پاس لے جاؤ اور یہ پانچ فلاں کے پاس لے جاؤ یہاں تک کہ وہ سب ختم کر دیے۔ اپنی ملازمہ کو بُلا کے مختلف گھروں میں بھجوانے کے لیے دیےکہ جا کے فلاں فلاں گھروں میں یہ دے آؤ۔ غریب گھر ہوں گے۔ پھر وہ غلام جو تھا حضرت عمرؓ کے پاس واپس آیا اور ساری بات بتائی۔ حضرت عمرؓ نے اتنے ہی دینار حضرت معاذؓ کے لیے بھی تیار رکھے ہوئے تھے۔ جتنے ابوعبیدہؓ کو بھیجے تھے اتنے ہی حضرت معاذؓ کے لیے تیار رکھے تھے۔ دوسری تھیلی تیار کی ہوئی تھی۔ انہوں نے غلام سے کہا کہ اس کو حضرت معاذؓ کے پاس لے جاؤ اور ان کے پاس گھر میں تھوڑی دیر رکنا اور دیکھنا کہ وہ ان کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ غلام تھیلی لے کر حضرت معاذؓ کے پاس گیا۔ ان سے کہا کہ امیر المومنین نے کہا ہے کہ اس کو اپنی ضروریات کے لیے استعمال کریں۔ حضرت معاذؓ نے کہا اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے۔ پھر انہوں نے لونڈی کو بلایا اور کہا اتنے دینار فلاں گھر لے جاؤ اور اتنے فلاں گھر میں لے جاؤ۔ اتنے میں حضرت معاذؓ کی اہلیہ بھی آ گئیں اور انہوں نے کہا بخدا ہم بھی مساکین ہیں یعنی گھر میں بھی کچھ نہیں ہے۔ کچھ گھر کے لیے بھی تو رکھ لو۔ منافع کمانے کی، ہدیہ لینے کی وہ باتیں جو پہلے آئی تھیں وہ بھی یہاں مزید clear ہوتی ہیں، واضح ہو جاتی ہیں۔ ہمارے گھر میں بھی کچھ نہیں ہے۔ ہم بھی مسکینوں میں شامل ہیں۔ ہمیں بھی دیں۔ تھیلی میں صرف اس وقت دو دینار بچے تھے۔ سارے آپ بانٹ چکے تھے۔ حضرت معاذؓ نے وہ دونوں دینار جو تھے اپنی اہلیہ کی طرف اچھال دیے اور غلام حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور ان کو ساری بات سے آگاہ کیا۔ حضرت عمرؓ اس سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا یقیناً یہ دونوں حضرت عبیدہؓ اور حضرت معاذؓ اسی طرح خرچ کرنے میں آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ (مجمع الزوائد جلد 3 صفحہ 234۔ کتاب الزکاۃ باب فی الانفاق۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
جس طرح یہ خرچ کرتے ہیں ان کی یہ صفت ایک ہے۔
شُرَیْح بن عُبَید اور رَاشِد بن سَعد وغیرہ سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطابؓ جب سَرْغْ مقام پر پہنچے، سَرْغْوادی تبوک کی ایک بستی کا نام ہے۔ تو آپؓ کو بتایا گیا کہ شام میں سخت وبا پھیلی ہوئی ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ شام میں شدید وبا پھیلی ہوئی ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ اگر میری وفات کا وقت آ جائے اور ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ زندہ ہوں تو مَیں انہیں اپنا خلیفہ نامزد کر دوں گا اور اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ سے ان کے متعلق سوا ل کیا کہ تم نے اسے امّتِ محمدیہ پر خلیفہ کیوں مقرر کیا تو مَیں یہ عرض کروں گا کہ مَیں نے تیرے رسولؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ہر نبی کا ایک امین ہوتا ہے اور میرا امین ابوعبیدہ بن جَرَّاح ہے۔ یہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے۔ لوگوں کو یہ بات اچھی نہ لگی وہ کہنے لگے کہ قریش کے بڑے لوگوں یعنی بنو فِہْرکا کیا بنے گا؟ پھر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر میری وفات کا وقت آ جائے اور ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ بھی فوت ہو چکے ہوں تو معاذ بن جبلؓ کو اپنا خلیفہ مقرر کر دوں گا اور اگر میرے رب عزّوجل نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے اسے کیوں خلیفہ مقرر کیا تو مَیں کہوں گا کہ مَیں نے تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ وہ قیامت کے دن علماء کے آگے آگے لائے جائیں گے۔ (مسند احمد بن حنبل مسند الخلفاء الراشدین مسند عمر بن الخطاب جلد 1صفحہ 109حدیث 108 عالم الکتب بیروت1998ء) (معجم البلدان جلد 3صفحہ239)
علم میں ان کا بہت مقام ہو گا۔ حضرت معاذ بن جبلؓ اور حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ نے جنگِ یرموک 15؍ ہجری کے موقعے پر میمنہ، وہ حصہ جو لڑائی کے وقت فوج کا جو کمانڈر ہوتا ہے اس کے دائیں طرف کھڑا ہوتا ہے اس کے ایک حصے کا افسر مقرر کیا۔ عیسائیوں کا حملہ اس قدر سخت ہوا کہ مسلمانوں کا میمنہ ٹوٹ کر فوج سے الگ ہو گیا لوگ بکھر گئے۔ جب حضرت معاذؓ نے یہ حالت دیکھی تو نہایت شجاعت اور ثابت قدمی کا ثبوت دیا اور گھوڑے سے نیچے اتر گئے اور کہا کہ مَیں اب پیادہ پا لڑوں گا۔ اگر کوئی بہادر اس گھوڑے کا حق ادا کر سکتا ہے تو گھوڑا اس کے لیے حاضر ہے۔ ان کے بیٹے بھی میدانِ جنگ میں موجود تھے انہوں نے کہا مَیں اس کا حق ادا کروں گا کیونکہ مَیں سوار ہو کر اچھا لڑ سکتا ہوں۔ غرض دونوں باپ بیٹا رومی فوج کو چیر کر اندر گھس گئے اور اس دلیری سے لڑے کہ مسلمانوں کے اکھڑے ہوئے پاؤں پھر سنبھل گئے۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3صفحہ 508معاذ بن جبلؓ مطبوعہ دار الاشاعت کراچی) (فیروز اللغات صفحہ 1332زیر لفظ میمنہ)
اور جو خوف کی حالت تھی وہ پھر انہوں نے دوبارہ ان کو شکست دے کے مسلمانوں کو فتح دلوا دی۔ ابوادریس خَوْلَانی بیان کرتے ہیں کہ میں شام میں دمشق کی مسجد میں داخل ہوا تو وہاں چمکتے دانتوں والا نوجوان موجود تھا اور اس کے گرد لوگ جمع تھے۔ جب لوگوں کا کسی بات پر اختلاف ہوتا تو وہ معاملہ اس کے پاس لے جاتے اور اس کی رائے کو فوقیت دیتے تو میں نے ان کے بارے میں پوچھا تو بتایا گیا کہ یہ حضرت معاذ بن جبلؓ ہیں۔ اگلے روز میں دوپہر کے وقت گیا تو دیکھا کہ وہ میرے سے پہلے دوپہر کے وقت وہاں موجود تھے۔ میں نے دیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ میں نے ان کا انتظار کیا۔ جب انہوں نے نماز ادا کر لی تو میں ان کے سامنے گیا اور انہیں سلام کیا۔ میں نے ان سے کہا کہ اللہ کی قسم! مجھے اللہ کی خاطر آپ سے محبت ہے۔ حضرت معاذؓ نے کہا اللہ کی قسم! مَیں نے کہا اللہ کی قسم!حضرت معاذؓ نے پھر کہا، پھر سوال کیا اللہ کی قسم! مَیں نے کہا اللہ کی قسم۔ پھر انہوں نے میری چادر کا کنارہ پکڑ کر مجھے اپنی طرف کھینچا اور کہا کہ خوش ہو جاؤ کیونکہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ عزّوجل نے یہ فرمایا ہے کہ میری خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والوں، میری خاطر ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے والوں، میری خاطر ایک دوسرے سے ملنے والوں اور میری خاطر ایک دوسرے پر خرچ کرنے والوں کے لیے میری محبت لازم ہو گئی۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت لازم ہو گئی۔ (مسند احمد بن حنبل مسند معاذ بن جبل جلد 7 صفحہ 353-354حدیث 22380 عالم الکتب بیروت 1998ء)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت معاذ بن جبلؓ کی دو بیویاں تھیں جب باری کے مطابق ایک کے پاس ہوتے تو دوسری کے پاس پانی تک بھی نہیں پیتے تھے۔ اتنا انصاف تھا۔
ایک اَور روایت ہے کہ حضرت معاذ بن جبلؓ کی دو بیویاں تھیں۔ جس دن ایک کی باری ہوتی دوسری کے گھر میں وضو تک نہیں کرتے تھے۔ پھر دونوں ملک شام میں وبائی بیماری میں فوت ہو گئیں۔ ان دونوں کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔ دفن کرتے وقت حضرت معاذؓ نے قرعہ ڈالا کہ پہلے کس کو قبر میں داخل کریں۔ یہ ان کا انصاف تھا۔ (حلیۃ الاولیاء جلد اول حصہ اول صفحہ 204 مترجم محمد اصغر مغل۔ دار الاشاعت کراچی 2006ء)
ایک اور روایت ہے سیر الصحابہ کی کہ حضرت معاذؓ کی دو بیویاں تھیں۔ اور وہ دونوں طاعونِ عَمَوَاس سے وفات پا گئی تھیں۔ جبکہ ایک بیٹے کا پتا چلتا ہے جس کا نام عبدالرحمٰن بیان ہوا ہے اور وہ جنگ یرموک میں حضرت معاذؓ کے ساتھ شامل تھے ان کی وفات بھی طاعون عَمَوَاس سے ہوئی۔ (یعنی طاعون کی وہ وبا جو اس زمانے میں پھیلی تھی) (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3صفحہ 510-511حضرت معاذ بن جبلؓ مطبوعہ دارالاشاعت کراچی)
جب حضرت ابوعبیدہؓ کی طاعون عَمَوَاس سے وفات ہوئی تو حضرت عمرؓ نے حضرت معاذؓ کو شام پر عامل مقرر فرمایا۔ عَمَوَاس یہ ایک بستی کا نام ہے۔ میں اس کی تفصیل پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ یہ رَملہ سے سات میل کے فاصلے پر ہے اور بیت المقدس کے راستے پر واقع ہے۔ حضرت معاذؓ کی بھی اسی سال اسی طاعون سے وفات ہوئی۔ (الاستیعاب جلد3صفحہ 1405معاذبن جبل مطبوعہ دارالجیل بیروت) (معجم البلدان 4صفحہ 177-178)
کثیر بن مُرَّہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت معاذؓ نے اپنی بیماری میں ہمیں فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات سنی تھی جسے میں نے تم سے چھپا کر رکھا تھا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا۔ آپ نے فرمایا جس کا آخری کلام لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہو اس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔ (مسند امام احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 355 مسند معاذ بن جبل حدیث 22383 عالم الکتب بیروت 1998ء)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت معاذؓ نے فرمایا کہ تمہیں یہ حدیث بتانے میں صرف یہ بات مانع تھی کہ کہیں تم اس پر ہی بھروسا نہ کر لو اور باقی عمل چھوڑ دو۔ (مسند امام احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 361 مسند معاذ بن جبل حدیث 22410 عالم الکتب بیروت 1998ء)
جب شام میں طاعون پھیلی اور حضرت معاذ بن جبلؓ کو بھی طاعون ہو گئی تو اس کی وجہ سے ان پر غشی طاری ہو گئی۔ جب ذرا سنبھلے تو کہا اے اللہ !تو اپنا غم مجھ پر مسلط کر دے۔ تیری عزت کی قسم !تُو جانتا ہے کہ مَیں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔ پھر ان پر غشی طاری ہو گئی۔ پھر جب ذرا سنبھلے تو دوبارہ ایسا ہی کہا۔
جب حضرت معاذ بن جبلؓ کی وفات کا وقت قریب پہنچا تو فرمایا دیکھو صبح ہو گئی ہے؟ کہا گیا کہ ابھی صبح نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ جب صبح ہوئی تو کہا گیا کہ صبح ہوگئی ہے۔ حضرت معاذؓ نے کہا کہ میں اس رات سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں جس کی صبح جہنم کی طرف لے جائے۔ میں موت کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ میں اپنے محبوب سے ملنے والے کو خوش آمدید کہتا ہوں جو ایک مدّت کے بعد آ رہا ہے۔ اے اللہ !تُو جانتا ہے کہ مَیں تجھ سے ڈرتا ہوں لیکن آج کےدن مَیں پُرامید ہوں۔ مَیں دنیا اور لمبی زندگی سے اس لیے محبت نہیں کرتا کہ اس میں نہریں کھودوں یا اس میں درخت لگاؤں بلکہ اس لیے کہ دوپہر کی پیاس اور حالات کی تکالیف برداشت کروں اور ان علماء کے ساتھ بیٹھوں جہاں تیرا ذکر کیا جائے۔ پھر ایک اَور روایت میں ہے کہ جب حضرت معاذؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو وہ رونے لگے۔ ان سے کہا گیا کہ آپ کیوں روتے ہیں؟ آپ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ مَیں مرنے کے غم کی وجہ سے نہیں رو رہا اور نہ اس لیے کہ دنیا پیچھے چھوڑے جا رہا ہوں بلکہ مَیں تو صرف اس لیے رو رہا ہوں کہ دو گروہ ہوں گے اور مَیں نہیں جانتا کہ میں کس گروہ میں اٹھایا جاؤں گا۔ (مأخوذ از اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد 5صفحہ 189 ’’معاذ بن جبل‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت) ایک جنتی ہے اور ایک دوزخی اور مجھے تو صرف اللہ کا خوف ہے اس لیے رو رہا ہوں۔ مسند احمد بن حنبل میں روایت ہے کہ حضرت معاذؓ نے کہا کہ مَیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب تم شام کی طرف ہجرت کرو گے اور وہ تمہارے ہاتھوں فتح ہو جائے گا لیکن وہاں تم لوگوں میں ایک بیماری ظاہر ہوگی جو پھوڑے پھنسیوں یا سخت کاٹنے والی چیز کی طرح ہوگی۔ وہ انسان کی ناف کے نچلے حصّے میں ظاہر ہوگی۔ اللہ اس کے ذریعے انہیں شہادت عطا فرمائے گا اور ان کے اعمال کا تزکیہ فرمائے گا۔ اے اللہ! اگر تُو جانتا ہے کہ معاذ بن جبل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے تو اسے اور اس کے اہل خانہ کواس کا وافر حصہ عطا فرما۔ یہ آپؓ ہی فرما رہے ہیں۔ چنانچہ وہ سب اس طاعون میں مبتلا ہو گئے اور ان میں سے ایک بھی زندہ باقی نہیں رہا۔ جب حضرت معاذؓ کی شہادت والی انگلی میں طاعون کی گلٹی نمودار ہوئی تو آپ فرماتے تھے کہ مجھے اس کے بدلے میں سرخ اونٹ ملنا بھی پسندنہیں ہیں۔ میں اسی بات پر خوش ہوں۔ (مسند امام احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 371 مسند معاذ بن جبل حدیث 22439 عالم الکتب بیروت 1998ء)
تاریخ طبری میں ہے کہ آپؓ کی ہتھیلی میں پھوڑا نکلا۔ آپ اپنی ہتھیلی کو دیکھتے اور اس ہاتھ کی پشت کو بوسہ دیتے اور کہتے مجھے یہ پسندنہیں کہ تیرے بدلے میں دنیا کی کوئی چیز ملے۔ (تاریخ الطبری جزء 4 صفحہ 238۔ خروج عمر بن الخطاب الی الشام۔ دار الفکر بیروت)
حضرت معاذ بن جبلؓ نے 18؍ ہجری میں وفات پائی۔ آپؓ کی عمر کے متعلق مختلف آراء ہیں ان کے مطابق تینتیس چونتیس اور اڑتیس سال عمر بیان کی گئی ہے۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد 5صفحہ 190 ’’معاذ بن جبل‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2003ء)
حضرت معاذؓ کی روایات کی تعداد جو حدیثوں میں ہے 157 ہے جس میں سے دو حدیثوں پر بخاری اور مسلم کا اتفاق ہے۔ دونوں میں یہ درج ہیں۔ (سیر الصحابہ جلد سوم، حصہ پنجم صفحہ 156، ادارہ اسلامیات لاہور)