حضرت معاذ بن حارثؓ

خطبہ جمعہ 17؍ اپریل 2020ء

  حضرت معاذ بن حارثؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو مالک بن نجار سے تھا۔ حضرت معاذؓ کے والد کا نام حارث بن رفاعہ تھا۔ ان کی والدہ کا نام عفراء بنت عُبَیْد تھا۔ حضرت معوذؓ اور حضرت عوفؓ ان کے بھائی تھے۔ یہ تینوں بھائی اپنے والد کے علاوہ اپنی والدہ کی طرف بھی منسوب ہوتے تھے اور ان تینوں کو بنو عفراء بھی کہا جاتا تھا۔ حضرت معاذؓ اور ان کے دو بھائی حضرت عوفؓ اور حضرت معوذؓ غزوۂ بدر میں شامل ہوئے۔ حضرت عوفؓ اور حضرت معوذؓ دونوں غزوۂ بدر میں شہید ہو گئے مگر حضرت معاذؓ بعد کے تمام غزوات میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک رہے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت معاذ بن حارثؓ اور حضرت رافع بن مالک زُرَقِیؓ ان اولین انصار میں سے ہیں جو حضور اکرمؐ پر مکّے میں ایمان لائے تھے اور حضرت معاذؓ ان آٹھ انصار میں شامل ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بیعتِ عقبہ اولیٰ کے موقع پر مکے میں ایمان لائے۔ اسی طرح بیعت عقبہ ثانیہ میں بھی حضرت معاذؓ حاضر تھے۔ حضرت مَعْمَر بن حَارِثؓ جب مکے سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور حضرت معاذ بن حارثؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ (اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 190 – 191 حضرت مُعاذ بِنْ اَلْحَارِث بن رِفَاعَۃ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان 2003ء) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 374 حضرت مُعاذ بِنْ اَلْحَارِث دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان 1990ء)

ابوجہل کے قتل کی تفصیل گو پہلے گذشتہ سال کےایک خطبے میں کچھ حد تک بیان ہو چکی ہے (خطبہ جمعہ 05؍ اپریل 2019ء بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 26؍ اپریل 2019ء) لیکن یہاں بھی یہ بیان کرتا ہوں۔ یہ بھی ضروری ہے کیونکہ حضرت معاذؓ سے بھی اس کا تعلق ہے اور یہ بخاری کی روایات ہیں جو بیان کروں گا اور خلاصہ تو ان کا بیان نہیں ہو سکتا، بخاری کی پوری روایت ہی پڑھنی ہو گی۔

صالح بن ابراہیم اپنے دادا حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بتایا کہ مَیں بدر کی لڑائی میں صف میں کھڑا تھا کہ مَیں نے اپنے دائیں بائیں نظر ڈالی تو کیا دیکھتا ہوں کہ دو انصاری لڑکے ہیں۔ ان کی عمریں چھوٹی ہیں۔ مَیں نے آرزو کی کہ کاش مَیں ایسے لوگوں کے درمیان ہوتا جو ان سے زیادہ جوان اور تنو مند ہوتے۔ اتنے میں ان میں سے ایک نے مجھے ہاتھ سے دبا کر پوچھا کہ چچا کیا آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں؟ مَیں نے کہا ہاں بھتیجے۔ تمہیں اس سے کیا کام ہے؟ اس نے کہا مجھے بتلایا گیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے اور اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر مَیں اس کو دیکھ پاؤں تو میری آنکھ اس کی آنکھ سے جدا نہ ہو گی جب تک ہم دونوں میں سے وہ نہ مر جائے جس کی مدت پہلے مقدر ہے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا کہ مجھے اس سے بڑا تعجب ہوا۔ پھر دوسرے نے مجھے ہاتھ سے دبایا۔ دوسری طرف جو کھڑا تھا اور اس نے بھی مجھے اسی طرح پوچھا۔ ابھی تھوڑا عرصہ گزرا ہو گا کہ مَیں نے ابوجہل کو لوگوں میں چکر لگاتے دیکھا۔ مَیں نے کہا دیکھو یہ ہے وہ تمہارا ساتھی جس کے متعلق تم نے مجھ سے دریافت کیا تھا۔ یہ سنتے ہی وہ دونوں جلدی سے اپنی تلواریں لیے اس کی طرف لپکے اور اسے اتنا مارا کہ اس کو جان سے مار ڈالا اور پھر لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپؐ کو خبر دی۔ آپؐ نے پوچھا تم میں سے کس نے اس کو مارا ہے۔ دونوں نے کہا مَیں نے اس کو مارا ہے۔ آپؐ نے پوچھا کیا تم نے اپنی تلواریں پونچھ کر صاف کر لی ہیں؟ انہوں نے کہا نہیں۔ آپؐ نے تلواروں کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم دونوں نے ہی اس کو مارا ہے۔ پھر فرمایا کہ اس کا مال معاذ بن عمرو بن جموح کو ملے گا اور ان دونوں کا نام معاذ تھا۔ مُعَاذ بن عفراء اور مُعَاذ بن عَمرو بن جَموح یہ صحیح بخاری کی روایت ہے۔ (صحیح البخاری کتاب فرض الخمس باب من لم یخمس الاسلاب……… حدیث 3141)

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگِ بدر کے دن فرمایا کون دیکھے گا کہ ابوجہل کا کیا حال ہوا ہے؟ حضرت ابن مسعودؓ گئے اور جا کر دیکھا کہ اس کو عفراء کے دونوں بیٹوں حضرت معاذؓ اور حضرت معوذؓ نے تلواروں سے اتنا مارا ہے کہ وہ مرنے کے قریب ہو گیا ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ نے پوچھا کیا تم ابو جہل ہو؟ حضرت ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے ابوجہل کی داڑھی پکڑی۔ ابوجہل کہنے لگا کیا اُس سے بڑھ کر بھی کوئی شخص ہے جس کو تم نے مارا ہے یا یہ کہا کہ اُس شخص سے بڑھ کر کوئی ہے جس کو اس کی قوم نے مارا ہو۔ احمد بن یونس نے اپنی روایت میں یوں کہا کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے یہ الفاظ کہے کہ تم ہی ابوجہل ہو؟ یہ بھی بخاری کی حدیث ہے۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جہل حدیث 3962)

بخاری کی جو روایت ہے اس حدیث کی شرح میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ درج کرتے ہیں کہ

بعض روایات میں ہے کہ عفراء کے دو بیٹوں معوذؓ اور معاذؓ نے ابوجہل کو موت کے قریب پہنچا دیا تھا۔ بعد ازاں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اس کا سر تن سے جدا کیا تھا۔ بخاری کتاب المغازی میں یہ ہے۔ علامہ ابن حجر عسقلانی نے اس احتمال کا اظہار کیا ہے کہ معاذ بن عمروؓ اور معاذ بن عفراءؓ کے بعد معوذ بن عفراءؓ نے بھی اس پر وار کیا ہو گا۔ (ماخوذ از صحیح البخاری کتاب فرض الخمس جلد 5 صفحہ 491حاشیہ، اردو ترجمہ شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)

غزوۂ بدر کے موقعےپر ابوجہل کے قتل میں کون کون شریک تھا۔ اس کے بارے میں ایک جگہ تفصیل یوں ملتی ہے۔

ابن ہشام نے علامہ ابن اسحاق سے روایت کی ہے کہ مُعاذ بن عَمرو بن جَموحؓ نے ابوجہل کی ٹانگ کاٹی تھی جس کے نتیجے میں وہ گر گیا اور عکرمہ بن ابوجہل نے حضرت معاذؓ کے ہاتھ پر تلوار ماری جس کے نتیجے میں وہ ہاتھ یا بازو الگ ہو گیا۔ پھر مُعوذ بن عَفراءؓ نے ابوجہل پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں وہ نیچے گر گیا اور اس میں زندگی کی کچھ رمق ابھی باقی تھی کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اس کا سر تن سے جدا کر دیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مقتولین میں ابوجہل کو تلاش کرنے کا حکم دیا تھا۔ یعنی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا تھا کہ ابوجہل کو مقتولین میں تلاش کریں تو اس وقت عبداللہ بن مسعودؓ نے اس کا سر تن سے جدا کیا۔ صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق عفراء کے دو بیٹوں نے ابوجہل پر حملہ کیا تھا یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ اسی طرح بخاری میں باب قتلِ ابی جہل میں بھی ایسا ہی ذکر ہے۔ امام قرطبی کے نزدیک یہ وہم ہے کہ عفراء کے دو بیٹوں نے ابوجہل کو قتل کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ بعض راویوں پر معاذ بن عَمرو بن جموحؓ مشتبہ ہو گئے یعنی معاذ بن عَفراءؓ کی بجائے وہ معاذ بن عَمرو بن جموحؓ تھے جنہیں لوگ سمجھے کہ معاذ بن عفراءؓ ہیں۔ کہتے ہیں معاذ بن عمرو بن جموحؓ معاذ بن عفراءؓ کے ساتھ مشتبہ ہو گئے ہیں۔ علامہ ابن الجوزی کہتے ہیں کہ معاذ بن جموحؓ، عفراء کی اولاد میں سے نہیں اور معاذ بن عفراءؓ ابوجہل کو قتل کرنے والوں میں شامل تھا۔ شاید معاذ بن عفراء کا کوئی بھائی یا چچا اس وقت موجود ہو یا روایت میں عفراء کے ایک بیٹے کا ذکر ہو اور راوی نے غلطی سے دو بیٹوں کا کہہ دیا ہو۔ بہرحال ابوعمر کہتے ہیں کہ اس روایت کی نسبت حضرت انس بن مالکؓ کی حدیث زیادہ صحیح ہے جس میں ہے کہ ابن عفراء نے ابوجہل کو قتل کیا تھا یعنی عفراء کا ایک بیٹا تھا۔ ابن تِیْن کہتے ہیں کہ اس بات کا احتمال موجود ہے کہ دونوں معاؓ ذ یعنی معاذ بن عمرو بن جموحؓ اور معاذ بن عفراءؓ ماں کی طرف سے بھائی ہوں یا دونوں رضاعی بھائی ہوں۔ علامہ داؤدی نے عفراء کے دونوں بیٹوں سے مراد سہل اور سہیل لیے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ دونوں معوذ اور معاذ ہیں۔ (عمدۃ القاری جلد 15 صفحہ 100-101 مطبوعہ دار الفکر بیروت)

بہرحال یہ روایتیں آتی ہیں کہ تین نے قتل کیا۔ بعض میں دو نے اور ان میں حضرت معاذ بن حارثؓ کا بھی ذکر ملتا ہے۔

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے غزوہ ٔبدر کے جو حالات لکھے ہیں اور جس میں ابوجہل کے قتل کا واقعہ لکھا ہے اس کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ

’’میدانِ کارزار میں کشت وخون کامیدان گرم تھا۔ مسلمانوں کے سامنے ان سے سہ چند جماعت تھی۔‘‘ تین گنا جماعت تھی ’’جو ہرقسم کے سامانِ حرب سے آراستہ ہوکر اس عزم کے ساتھ میدان میں نکلی تھی کہ اسلام کا نام ونشان مٹا دیا جاوے اور مسلمان بیچارے تعداد میں تھوڑے، سامان میں تھوڑے، غربت اور بے وطنی کے صدمات کے مارے ہوئے ظاہری اسباب کے لحاظ سے اہل ِمکہ کے سامنے چند منٹوں کا شکار تھے مگر توحید اور رسالت کی محبت نے انہیں متوالا بنا رکھا تھا اور اس چیز نے جس سے زیادہ طاقتور دنیا میں کوئی چیز نہیں یعنی زندہ ایمان نے ان کے اندر ایک فوق العادت طاقت بھر دی تھی۔ وہ اس وقت میدانِ جنگ میں خدمتِ دین کا وہ نمونہ دکھا رہے تھے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ہر اک شخص دوسرے سے بڑھ کر قدم مارتا تھا اور خدا کی راہ میں جان دینے کے لیے بے قرار نظر آتا تھا۔ حمزہؓ اور علیؓ اور زبیرؓ نے دشمن کی صفوں کی صفیں کاٹ کر رکھ دیں۔ انصار کے جوشِ اخلاص کا یہ عالم تھا کہ عبدالرحمٰن بن عوفؓ روایت کرتے ہیں کہ جب عام جنگ شروع ہوئی تو مَیں نے اپنے دائیں بائیں نظر ڈالی مگر کیا دیکھتا ہوں کہ انصار کے دو نوجوان لڑکے میرے پہلو بہ پہلو کھڑے ہیں۔ انہیں دیکھ کر میرا دل کچھ بیٹھ سا گیا کیونکہ ایسے جنگوں میں دائیں بائیں کے ساتھیوں پر لڑائی کابہت انحصار ہوتا تھا اور وہی شخص اچھی طرح لڑ سکتا ہے جس کے پہلو محفوظ ہوں۔ مگر عبدالرحمٰنؓ کہتے ہیں کہ مَیں اس خیال میں ہی تھا کہ ان لڑکوں میں سے ایک نے مجھ سے آہستہ سے پوچھا کہ گویا وہ دوسرے سے اپنی یہ بات مخفی رکھنا چاہتا ہے۔‘‘ یہ چاہتا ہے کہ دوسرے کو پتا نہ لگے جو دوسری طرف کھڑا ہے ’’کہ چچا وہ ابو جہل کہاں ہے جومکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ دیا کرتا تھا۔ مَیں نے خدا سے عہد کیا ہوا ہے کہ مَیں اسے قتل کروں گا یاقتل کرنے کی کوشش میں مارا جاؤں گا۔ مَیں نے ابھی اس کا جواب نہیں دیا تھا۔‘‘ عبدالرحمٰن بن عوف کہتے ہیں کہ مَیں نے ابھی جواب نہیں دیا تھا۔ ’’کہ دوسری طرف سے دوسرے نے بھی اسی طرح آہستہ سے یہی سوال کیا۔ مَیں ان کی یہ جرأت دیکھ کر حیران سا رہ گیا کیونکہ ابوجہل گویا سردارِلشکر تھا اور اس کے چاروں طرف آزمودہ کار سپاہی جمع تھے۔ مَیں نے ہاتھ سے اشارہ کرکے کہا کہ وہ ابوجہل ہے۔ عبدالرحمٰنؓ کہتے ہیں کہ میرا اشارہ کرنا تھا کہ وہ دونوں بچے باز کی طرح جھپٹے اور دشمن کی صفیں کاٹتے ہوئے ایک آن کی آن میں وہاں پہنچ گئے اور اس تیزی سے وار کیا کہ ابوجہل اور اس کے ساتھی دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے اور ابوجہل خاک پر تھا۔ عکرمہ بن ابوجہل بھی اپنے باپ کے ساتھ تھا وہ اپنے باپ کو تو بچا نہ سکا مگر اس نے پیچھے سے معاذؓ پر ایسا وار کیا کہ اس کا بایاں بازو کٹ کر لٹکنے لگا۔ معاذؓ نے عکرمہ کا پیچھا کیا مگر وہ بچ کر نکل گیا چونکہ کٹا ہوا بازو لڑنے میں مزاہم ہوتا تھا۔ معاذ نے اسے زور سے کھینچ کراپنے جسم سے الگ کردیا اور پھر لڑنے لگ گئے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 362)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ واقعہ کو بیان کرتے ہوئے اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ

’’ابوجہل جس کی پیدائش پر ہفتوں اونٹ ذبح کر کے لوگوں میں گوشت تقسیم کیا گیا تھا۔ جس کی پیدائش پر دفوں کی آواز سے مکہ کی فضا گونج اٹھی تھی۔‘‘ بڑے ڈھول دھمکے بجائے جا رہے تھے اور بڑے باجے بجائے جا رہے تھے، دف بجائے جا رہے تھے اور اس کی پیدائش پر بڑی خوشی منائی جا رہی تھی کہ مکہ کی فضا بھی گونج اٹھی تھی۔ پھر لکھتے ہیں کہ ’’بدر کی لڑائی میں جب مارا جاتا ہے تو پندرہ پندرہ سال کے دو انصاری چھوکرے تھے جنہوں نے اسے زخمی کیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ جب جنگ کے بعد لوگ واپس جا رہے تھے تو مَیں میدان میں زخمیوں کو دیکھنے کے لیے چلا گیا۔ آپؓ بھی مکہ کے ہی تھے اس لیے ابوجہل آپؓ کو اچھی طرح جانتا تھا۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ مَیں میدان جنگ میں پھر ہی رہا تھا کیا دیکھتا ہوں کہ ابوجہل زخمی پڑا کراہ رہا ہے۔ جب مَیں اس کے پاس پہنچا تو اس نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مَیں اب بچتا نظر نہیں آتا۔ تکلیف زیادہ بڑھ گئی ہے۔ تم بھی مکہ والے ہو۔ مَیں یہ خواہش کرتا ہوں کہ تم مجھے مار دو تا میری تکلیف دور ہو جائے لیکن تم جانتے ہو کہ مَیں عرب کا سردار ہوں اور عرب میں یہ رواج ہے کہ سرداروں کی گردنیں لمبی کر کے کاٹی جاتی ہیں اور یہ مقتول کی سرداری کی علامت ہوتی ہے۔ میری یہ خواہش ہے کہ تم میری گردن لمبی کر کے کاٹنا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے اس کی گردن ٹھوڑی سے کاٹ دی۔‘‘ ٹھوڑی کے قریب سے کاٹی ’’اور کہا تیری یہ آخری حسرت بھی پوری نہیں کی جائے گی۔ اب انجام کے لحاظ سے دیکھو تو ابوجہل کی موت کتنی ذلت کی موت تھی۔ جس کی گردن اپنی زندگی میں ہمیشہ اونچی رہا کرتی تھی وفات کے وقت اس کی گردن ٹھوڑی سے کاٹی گئی اور اس کی یہ آخری حسرت بھی پوری نہ ہوئی۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ 101)

حضرت رُبَیِّعْبنتِ مُعَوِّذؓ سے مروی ہے کہ میرے چچا حضرت مُعاذ بن عَفراءؓ نے مجھے کچھ تروتازہ کھجوریں دے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے زیور عطا فرمایا جو بحرین کے حاکم نے آپؐ کو بطور ہدیہ بھیجا تھا۔ ایک اَور روایت میں ہے کہ حضرت رُبَیِّعْبنتِ معوذؓ سے روایت ہے کہ میرے چچا حضرت مُعاذؓ نے میرے ہاتھ ایک ہدیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو آپؐ نے اسے زیور عطا فرمایا جو بحرین کے حاکم کی طرف سے آپؐ کو ملا تھا۔ علامہ ابن اَثیرلکھتے ہیں کہ بحرین کے حاکم اور دیگر بادشاہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تب تحائف وغیرہ بھیجے تھے جب اسلام وسعت اختیار کر چکا تھا اور آپؐ نے بادشاہوں کے نام خطوط لکھے تھے اور انہیں تحائف ارسال فرمائے تھے۔ تو انہوں نے بھی آپ کی خدمت میں خطوط لکھے اور اپنے تحائف ارسال کیے۔ (اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 192 ’’حضرت مُعَاذ بِنْ اَلْحَارِث بن رِفَاعَۃ‘‘ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء)

حضرت معاذ بن حارثؓ نے چار شادیاں کی تھیں جن کی تفصیل یہ ہے۔ حَبِیبہ بنتِ قَیس۔ ان سے ایک بیٹا عُبَیْداللہ پیدا ہوا۔ دوسری شادی ام حارث بنت سَبْرَہ سے تھی ان سے حارث، عوف، سلمٰی، ام عبداللہ اور رَمْلَہ پیدا ہوئے۔ ام عبداللہ بنت نُمَیر تیسری بیوی تھیں۔ ان سے ابراہیم اور عائشہ پیدا ہوئے۔ ام ثابت رَمْلَہ بنتِ حارث چوتھی تھیں ان سے سارہ پیدا ہوئیں۔ (الطبقات الکبریٰ الجزء الثالث صفحہ 373 – 374 ’’حضرت مُعَاذ بِنْ اَلْحَارِث‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)

علامہ ابن اَثیرنے اپنی تصنیف اُسد الغابہ میں حضرت معاذؓ کی وفات کے متعلق مختلف اقوال درج کیے ہیں۔ ایک قول کے مطابق حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوۂ بدر میں زخمی ہوئے اور مدینہ واپس آنے کے بعد ان زخموں کی وجہ سے ان کی وفات ہوئی۔ ایک قول کے مطابق وہ حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت تک زندہ رہے۔ ایک قول کے مطابق وہ حضرت علیؓ کے دورِ خلافت تک زندہ رہے۔ ان کی وفات حضرت علیؓ اور امیر معاویہ کے درمیان جنگِ صِفِّین کے دوران ہوئی۔ جنگِ صِفِّین چھتیس اور سینتیس ہجری میں ہوئی تھی اور حضرت مُعاذؓ نے حضرت علیؓ کی طرف سے جنگ میں شرکت کی تھی۔ (اسد الغابہ جلد6صفحہ 191 حضرت مُعَاذ بِنْ اَلْحَارِث بن رِفَاعَۃ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان 2003ء) (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب الجزء الثالث صفحہ 1409-1410 ’’حضرت مُعَاذ بِنْ عَفْرَاء‘‘ دار الجیل بیروت)

بہرحال ان کی وفات کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں بعض باتیں جو ہیں ان سے یہی پتا لگتا ہے اور اگر یہ وہی ہیں تو ان کی اولاد اور بیویوں کو اگر دیکھا جائے تو انہوں نے لمبی زندگی پائی تھی۔