حضرت معن بن عدی
حضرت معنؓ انصار کے قبیلہ بنو عمرو بن عوف کے حلیف تھے۔ (ابن ہشام صفحہ 29 اسماء من شھد العقبۃ مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)
حضرت معنؓ حضرت عاصم بن عدیؓ کے بھائی تھے۔ اس حوالے سے پہلے ان کا ذکر ہو چکا ہے۔ حضرت معنؓ ستّر انصار کے ساتھ بیعتِ عقبہ میں شامل ہوئے۔ حضرت معنؓ اسلام قبول کرنے سے پہلے عربی میں لکھنا جانتے تھے، کتابت جانتے تھے۔ جبکہ اس وقت عرب میں کتابت بہت کم تھی۔ حضرت معنؓ غزوۂ بدر، احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔ حضرت زید بن خطابؓ نے مکے سے مدینے ہجرت کی تو اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معن بن عدیؓ اور حضرت زید بن خطابؓ کے درمیان عقد مؤاخات قائم فرمایا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ244-245معن بن عدی دار الاحیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو میں نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ آپؓ ہمارے بھائی انصار کے پاس ہمارے ساتھ چلیں۔ چنانچہ ہم گئے اور ان میں سے دو نیک آدمی ہمیں ملے جو بدر میں شریک ہوئے تھے۔ میں نے عروہ بن زبیر سے بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ حضرت عُویم بن سَاعِدہؓ اور حضرت مَعْن بن عدیؓ ہی تھے۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب شھود الملائکۃ بدراً حدیث 4021)
راوی نے آگے جو لکھا ہے، حضرت عمرؓ کی جو روایت ابھی بیان ہوئی ہے اس کی مزید تفصیلات بخاری کی ایک اَور روایت میں بھی درج ہیں جس کا کچھ حصہ میں پیش کرتا ہوں۔ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں مہاجرین میں سے کئی افراد کو قرآن پڑھایا کرتا تھا۔ ان میں سے عبدالرحمٰن بن عوفؓ بھی تھے۔ ایک بار میں ان کے اس گھر میں تھا جو منیٰ میں ہے اور وہ عمر بن خطابؓ کے پاس گئے ہوئے تھے۔ یہ واقعہ اس آخری حج کا ہے جو حضرت عمرؓ نے کیا تھا۔ جب عبدالرحمٰن بن عوفؓ میرے پاس واپس لوٹ کر آئے تو انہوں نے کہا کاش تم بھی اس شخص کو دیکھتے جو آج امیر المومنین کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ امیر المومنین! کیا آپ کو فلاں حکم کے متعلق علم ہوا کہ جو کہتا ہے کہ اگر عمرؓ گئے تو میں فلاں کی بیعت کروں گا یعنی پہلے ہی بتا رہا ہے حضرت عمرؓ کے خلافت کے وقت میں کہ آپؓ کے بعد پھر میں فلاں کی بیعت کروں گا اور پھر اس نے کہا کہ اللہ کی قسم! ابوبکرؓ کی بیعت تو یوں ہی افراتفری میں ہو گئی تھی۔ پھر یہ ہی نہیں کہ اگلی کا اظہار کر دیا بلکہ یہ بھی اظہار کر دیا کہ حضرت ابوبکرؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت نعوذ باللہ افراتفری میں غلطی سے ہو گئی تھی اور اس طرح ان کی خلافت کا وہ مقام ان کو ملا۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ رنجیدہ ہوئے۔ پھر انہوں نے کہا اگر اللہ نے چاہا تو میں آج شام لوگوں میں کھڑا ہوں گا اور انہیں ان لوگوں سے چوکس کروں گا جو ان کے معاملات کو زبردستی اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔ عبدالرحمٰنؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ امیر المومنین! ایسا نہ کریں کیونکہ حج میں عامی لوگ اور اوباش بھی اکٹھے ہوئے ہوتے ہیں تو جب آپؓ لوگوں میں کھڑے ہوں گے تو یہی لوگ زبردستی آپ کے قریب ہو جائیں گے، اکٹھے ہو جائیں گے اور میں ڈرتا ہوں کہ کہیں آپؓ کھڑے ہو کر ایسی بات نہ کہہ دیں کہ ہر بات اڑانے والا آپؓ کے متعلق کچھ اَور کا اَور نہ اڑا دے۔ اپنی طرف سے باتیں لگا کے کچھ اَور ہی مشہور نہ کر دے اور لوگ اسے نہ سمجھیں اور نہ ہی مناسب محل پر اسے چسپاں کریں۔ سمجھ بھی نہ آئے اور پھر صحیح موقعے پر اس کو چسپاں بھی نہ کریں۔ اس کی وضاحت بھی نہ ہو سکے۔ پھر انہوں نے حضرت عمرؓ کو مشورہ دیا کہ آپؓ اس وقت تک انتظار کریں کہ مدینے میں پہنچیں۔ حج کے دن تھے۔ مدینے پہنچیں گے تو کیونکہ وہ ہجرت اور سنت کا مقام ہے۔ وہاں کیا ہو گا کہ سمجھ دار اور شریف لوگوں کو الگ تھلگ لے کر جو آپؓ نے کہنا ہو انہیں اطمینان سے کہیں۔ اور کہا کہ میں نے کہا کہ اہلِ علم آپؓ کی بات سمجھیں گے اور مناسب محل پر اسے چسپاں بھی کریں گے۔ اپنی اپنی تشریحیں نہیں کرنے لگ جائیں گے۔ پھر حضرت عمرؓ نے کہا کہ اچھا ٹھیک ہے۔ اللہ کی قسم! ان شاء اللہ پہلی بار جو مدینے میں خطبہ کے لیے کھڑا ہوں گا تو پھر میں وہاں جاتے ہی یہ بات بیان کروں گا۔ ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ ہم مدینہ ذوالحجہ کے اخیر میں پہنچے اور جب جمعے کا دن ہوا تو جونہی سورج ڈھلا اور جمعے کا وقت ہوا توہم جلدی مسجد میں آ گئے۔ وہاں پہنچ کر میں نے سعید بن زیدؓ کو منبر کے پاس بیٹھے ہوئے پایا تو میں بھی ان کے پاس بیٹھ گیا۔ میرا گھٹنا ان کے گھٹنے سے لگ رہا تھا۔ اب یہ پوری تفصیل بیان کر رہے ہیں۔ ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ حضرت عمرؓ بن خطاب نکلے۔ جب میں نے انہیں سامنے سے آتے دیکھا تو میں نے سعید بن زیدؓ سے کہا کہ آج وہ ایسی بات کہیں گے جو انہوں نے جب سے کہ وہ خلیفہ ہوئے نہیں کہی۔ انہوں نے میری بات کو عجیب سمجھا۔ ان کے پاس جو صحابی بیٹھا تھا انہوں نے عجیب سمجھا۔ کہنے لگے امیدنہیں کہ وہ ایسی بات کہیں جو انہوں نے اس سے پہلے نہیں کہی۔
حضرت عمرؓ منبر پر بیٹھ گئے۔ جب اذان دینے والا خاموش ہو گیا تو وہ کھڑے ہوئے اور اللہ کی وہ تعریف کی جس کا وہ اہل ہے۔ پھر کہا کہ اما بعد میں تم سے ایک ایسی بات کہنے لگا ہوں کہ میرے لیے مقرر تھا کہ میں وہ کہوں۔ میں نہیں جانتا کہ شاید یہ بات میری موت کے قریب کی ہو۔ اس لیے جس نے اس بات کو سمجھا اور اچھی طرح یاد رکھا تو جہاں بھی اس کی اونٹنی اس کو پہنچا دے وہ اس کو بیان کرے یعنی ان باتوں کو جہاں تک تم پہنچا سکتے ہو دوسروں تک صحیح رنگ میں ان کو پہنچانا اور جس کو یہ خدشہ ہو کہ اس نے اس کو نہیں سمجھا تو میں کسی کے لیے جائز نہیں رکھتا کہ میرے متعلق جھوٹ کہے۔ غلط بات نہ پہنچانا۔ پھر آپؓ نے فرمایا کہ اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سچائی کے ساتھ بھیجا اور آپؐ پر احکام شریعت نازل کیے۔ پھر بعض احکام کا بھی ذکر کیا ایک لمبی تفصیل ہے۔ یہ حدیث ہے اس کو میں چھوڑتا ہوں۔ پھر آپؓ نے فرمایا کہ سنو! پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ بڑھا چڑھا کر میری تعریف نہ کرو جیساکہ عیسیٰ بن مریم کی تعریف میں مبالغہ کیا گیا اور فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ فرمایا تھا کہ میرے متعلق یہ کہا کرو کہ وہ اللہ کا بندہ اور اس کا رسولؐ ہے۔ پھر حضرت عمرؓ نے کہا کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تم میں سے کوئی کہنے والا یہ کہتا ہے۔ اس بات کو بیان کیا کہ حضرت ابوبکرؓ کو تو خلافت یونہی مل گئی۔ آپؓ نے فرمایا کہ اس شخص نے ابوبکرؓ کے متعلق بھی کہا ہے اور پھر میرے متعلق بھی کہا ہے کہ اللہ کی قسم! اگر عمر مر گیا تو میں فلاں کی بیعت کروں گا۔ آپؓ نے فرمایا اس لیے کوئی شخص دھوکے میں رہ کر یہ نہ کہے۔ اس بارے میں وضاحت کر دوں کہ پھر آپؓ بات کو پہلے حضرت ابوبکرؓ کی طرف لے گئے اور آپؓ نے فرمایا کہ کوئی شخص دھوکے میں رہ کر یہ نہ کہے کہ ابوبکرؓ کی بیعت یونہی افراتفری میں غلطی سے ہو گئی تھی اور وہ سرانجام پا گئی اور اس طرح آپؓ خلیفہ بن گئے۔ سنو! یہ درست ہے کہ وہ بیعت اسی طرح ہوئی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس افراتفری کی بیعت کے شر سے بچائے رکھا۔ ٹھیک ہے وہ افراتفری میں ہی ہوئی تھی۔ ایسا موقع آیا تھا لیکن اس کے شر سے اللہ تعالیٰ نے بچایا اور تم میں ابوبکرؓ جیسا کوئی نہیں کہ جس کے پاس اونٹوں پر سوار ہو کر لوگ آئیں۔ یعنی کہ ایسا عالم با عمل اور مخلص اور تقویٰ کے معیار پر پہنچا ہوا اَور کوئی شخص نہیں تھا۔ پھر آگے باقی باتوں کی کچھ تفصیل بیان ہوئی ہے۔ پھر آپؓ نے فرمایا کہ جس نے مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی شخص کی بیعت کی تو اس کی بیعت نہ کی جائے یعنی کہ جو بیعت ہوئی تھی وہ بڑے مشورے سے ہوئی تھی اور یہ بھی یاد رکھو کہ جس نے مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی شخص کی بیعت کی تو اس کی بیعت نہ کی جائے اور نہ اس شخص کی جس نے اس کی بیعت کی۔ اس لیے کہ کہیں وہ اپنے آپ کو مروا نہ ڈالے۔
پھر حضرت عمرؓ نے بیان فرمایااور اصل میں ہمارا واقعہ یوں ہوا تھاکہ جب اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات دی تو انصار ہمارے مخالف ہو گئے اور وہ سب ثقیفہ بنو ساعدہ میں اکٹھے ہوگئے اور علیؓ اور زبیرؓ اور جو ان دونوں کے ساتھ تھے، ہمارے مخالف تھے، اور مہاجر اکٹھے ہو کر ابوبکرؓ کے پاس آئے۔ میں نے ابوبکرؓ سے کہا کہ ابوبکرؓ ! آؤ ہم اپنے ان انصار بھائیوں کے پاس چلیں۔ ہم انہیں کا قصہ بیان کرتے ہوئے چلے۔ وہی باتیں کرتے ہوئے چلے جا رہے تھے کہ وہ کیا باتیں کر رہے ہیں۔ جب ہم ان کے قریب پہنچے تو ان میں سے دو نیک مرد ہمیں ملے اور پہلی روایت جو میں نے بیان کی تھی اس کے مطابق وہ جو دو نیک مرد تھے ان میں سے ایک حضرت معن بن عدیؓ تھے۔ بہرحال آپؓ فرماتے ہیں اور جس مشورے پر وہ لوگ یعنی انصار جو تھے بالاتفاق آمادہ تھے ان دونوں نے جو ہمیں رستہ میں ملے ان کا ذکر کیا اور انہوں نے کہا کہ اے مہاجرین کی جماعت! تم کہاں جانا چاہتے ہو؟ ہم نے کہا کہ ہم ان انصاری بھائیوں کو ملنا چاہتے ہیں۔ تو ان دونوں نے جو راستے میں ملے تھے یہ کہا جن میں حضرت معن بن عدیؓ بھی تھے کہ ہرگز نہ وہاں جانا۔ تمہیں یہی مناسب ہے کہ ان کے پاس نہ جاؤ۔ تم نے جو مشورہ کرنا ہے وہ خود ہی کر لو۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! ہم ضرور ان کے پاس جائیں گے اور یہ کہہ کر ہم چل پڑے اور بنو ساعدہ کے شامیانے میں ان کے پاس پہنچے۔ (صحیح البخاری کتاب الحدودباب رجم الحبلی من الزنا اذا احصنت حدیث نمبر6830)
وہاں انصار کی حضرت ابوبکرؓ کی اور حضرت عمرؓ کی ایک لمبی بحث ہوئی اور جو گفتگو تھی وہ خلافت کے انتخاب کے بارے میں تھی اور پھرآگے اس کی ایک لمبی تفصیل ہے۔ اس ثقیفہ بنو ساعدہ والے واقعہ کی کچھ حد تک تفصیل جو حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمائی ہے وہ میں بیان کر دیتا ہوں۔ یہاں انصار کی جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر صحابہ کے تین گروہ بن گئے تھے۔ ایک گروہ نے یہ خیال کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک ایسا شخص ضرور ہونا چاہیے جو نظام اسلامی کو قائم کرے مگر چونکہ نبی کے منشا کو اس کے اہل و عیال ہی بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل میں سے ہی کوئی شخص مقرر ہونا چاہیے۔ ایک گروہ یہ کہتا تھا کہ آپ کی اولاد میں سے کوئی شخص ہونا چاہیے۔ کسی اَور خاندان میں سے کوئی اَور شخص نہیں ہونا چاہیے۔ اس گروہ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ اگر کسی اَور خاندان میں سے کوئی شخص خلیفہ مقرر ہو گیا تو لوگ اس کی باتیں مانیں گے نہیں اور اس طرح نظام میں خلل واقع ہو گا۔ خاندان سے اولاد مراد ہے یا ان کے قریبی داماد وغیرہ بھی ہو سکتے ہیں۔ بہرحال حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں لیکن اگر آپؐ کے خاندان میں سے ہی کوئی خلیفہ مقرر ہو گیا تو چونکہ لوگوں کو اس خاندان کی اطاعت کی عادت ہے اس لیے وہ خوشی سے اس کی اطاعت قبول کر لیں گے۔ جیسے ایک بادشاہ کی بات ماننے کے لوگ عادی ہو چکے ہوتے ہیں جب وفات پا جاتا ہے تو اس کا بیٹا جانشین بنتا ہے تو اس کی اطاعت بھی شوق سے کرنے لگ جاتے ہیں۔ مگر دوسرا فریق جو تھا اس نے سوچا کہ اس کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل میں سے ہونے کی شرط ضروری نہیں ہے۔ مقصد تو یہ ہے کہ رسول کریمؐ کا ایک جانشین ہو۔ پس جو سب سے زیادہ اس کا اہل ہو اس کے سپردیہ کام ہونا چاہیے۔ اس دوسرے گروہ کے پھر آگے دو حصے ہو گئے اور گو وہ دونوں اس بات پر متحد تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی جانشین ہونا چاہیے مگر ان میں سے اس بات پر اختلاف ہو گیا کہ رسول کریمؐ کا جانشین کن لوگوں میں سے ہو۔ ایک گروہ کا خیال تھا کہ جو لوگ سب سے زیادہ عرصے تک آپؐ کے زیر تعلیم رہے ہیں وہ اس کے مستحق ہیں یعنی مہاجر اور ان میں سے بھی قریش جن کی بات ماننے کے لیے عرب تیار ہو سکتے ہیں اور بعض نے یہ خیال کیا کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات مدینے میں ہوئی ہے اور مدینے میں انصار کا زور ہے اس لیے وہی اس کام کو اچھی طرح چلا سکتے ہیں۔ بہرحال اس پر انصار اور مہاجرین میں اختلاف بھی ہوا۔ غرض اب انصار اور مہاجرین میں اختلاف ہو گیا۔ انصار کا یہ خیال تھا کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل زندگی جو نظام کے ساتھ تعلق رکھتی ہے ہمارے اندر گزاری ہے۔ انصار یہ کہتے تھے کہ مدینے میں گزاری ہے اور مکے میں کوئی نظام نہیں تھا اس لیے نظامِ حکومت ہم ہی بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور خلافت کے متعلق ہمارا ہی حق ہے کسی اور کا حق نہیں ہے۔ دوسری دلیل وہ یہ دیتے تھے کہ یہ علاقہ ہمارا ہے اور طبعاً ہماری بات کا ہی لوگوں پر زیادہ اثر ہو سکتا ہے مہاجرین کا اثر نہیں ہو سکتا۔ پس رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین ہم میں سے ہونا چاہیے مہاجرین میں سے نہیں۔ اس کے مقابلے میں مہاجرین یہ کہتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جتنی لمبی صحبت ہم نے اٹھائی ہے اتنی لمبی صحبت انصار نے نہیں اٹھائی، اتنا عرصہ ان کے ساتھ نہیں رہے اس لیے دین کو سمجھنے کی جو قابلیت ہمارے اندر ہے وہ انصار کے اندر نہیں ہے۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ اس اختلاف پر ابھی دوسرے لوگ غور ہی کر رہے تھے اور وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچے تھے کہ اس آخری گروہ نے جو انصار کے حق میں تھا بنی ساعدہ کے ایک برآمدہ میں جمع ہو کر اس بارہ میں مشورہ شروع کر دیا اور سعد بن عُبادہؓ جو خزرج کے سردار تھے اور نقباء میں سے تھے ان کے بارے میں طبائع کا اس طرف رجحان ہو گیا کہ انہیں خلیفہ مقرر کیا جائے۔ چنانچہ انصار نے آپس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک ہمارا ہے، زمینیں ہماری ہیں، جائیدادیں ہماری ہیں اور اسلام کا فائدہ اسی میں ہے کہ ہم میں سے کوئی خلیفہ مقرر ہو۔ اس بات پر فیصلہ کیا کہ اس منصب کے لیے سعد بن عُبادہؓ سے بہتر اَور کوئی شخص نہیں۔ یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ بعض نے کہا کہ اگر مہاجرین اس کا انکار کریں گے تو کیا ہوگا؟ سوال اٹھا۔ اس پر کسی نے کہا کہ پھر ہم کہیں گے کہ مِنَّا اَمِیْرٌ وَمِنْکُمْ اَمِیْرٌ۔ یعنی ایک امیر تم میں سے ہو اور ایک ہم میں سے۔ سعد جو بہت دانا آدمی تھے انہوں نے کہا کہ یہ تو پہلی کمزوری ہے۔ انصار جن کو امیر خلیفہ بنانا چاہتے تھے، انہوں نے کہا کہ یہ تو پہلی کمزوری ہے یعنی یا تو ہم میں سے خلیفہ ہونا چاہیے یا ان میں سے۔ مِنَّا اَمِیْرٌ وَمِنْکُمْ اَمِیْرٌ کہنا تو گویا خلافت کے مفہوم کو نہ سمجھنا ہے اور اس سے اسلام میں رخنہ پڑے گا اور یہ رخنہ ڈالنا ہے۔ اس مشورے کے بعد جب مہاجرین کو اطلاع ہوئی تو وہ جلدی سے وہیں آ گئے جیسا کہ حضرت عمرؓ نے بیان فرمایا جو پہلے ذکر ہو چکا کہ آپ حضرت ابوبکرؓ اور کچھ اَور لوگ وہاں گئے۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر مہاجرین میں سے کوئی خلیفہ نہ ہوا تو عرب اس کی اطاعت نہیں کریں گے۔ صرف مدینہ کی بات نہیں بلکہ پورے عرب کی بات ہے۔ مدینے میں بے شک انصار کا زور تھا مگر تمام عرب مکہ والوں کی عظمت اور ان کے شرف کا قائل تھا۔ پس مہاجرین نے سمجھا کہ اگر اس وقت انصار میں سے کوئی خلیفہ مقرر ہو گیا تو اہل عرب کے لیے سخت مشکل پیش آئے گی اور ممکن ہے کہ ان میں سے اکثر اس ابتلا میں پورے نہ اتریں چنانچہ جب سب مہاجرین وہیں آگئے اور ان میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت ابوعبیدہؓ بھی شامل تھے۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس موقع پر بیان کرنے کے لیے ایک بہت بڑا مضمون سوچا ہوا تھا اور میرا ارادہ تھا کہ میں جاتے ہی ایک ایسی تقریر کروں گا جس سے تمام انصار میرے دلائل کے قائل ہو جائیں گے اور وہ اس بات پر مجبور ہو جائیں گے کہ انصار کے بجائے مہاجرین میں سے کسی کو خلیفہ منتخب کریں۔ مگر جب ہم وہاں پہنچے تو حضرت ابوبکرؓ تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ انہوں نے بھلا کیا بیان کرنا ہے مگر خدا کی قسم! جتنی باتیں میں نے سوچی ہوئی تھیں وہ سب انہوں نے، حضرت ابوبکرؓ نے بیان کر دیں بلکہ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے پاس سے بھی بہت سے دلائل دیے۔ تب میں نے سمجھا کہ میں ابوبکرؓ کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ غرض مہاجرین نے انہیں بتایا کہ اس وقت قریش میں سے ہی امیر ہونا ضروری ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی پیش کی کہ اَلْاَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ کہ قریش میں سے تمہارے امام ہوں اور ان کی سبقتِ دین اور ان کی قربانیوں کا ذکر کیا جو وہ دین کے لیے کرتے چلے آئے تھے۔ اس پر حُبَاب بن مُنْذِرْ خزرجی نے مخالفت کی اور کہا کہ ہم اس بات کو نہیں مان سکتے کہ مہاجرین میں سے خلیفہ ہونا چاہیے۔ ہاں اگر آپ لوگ کسی طرح نہیں مانتے اور آپ کو اس پر بہت اصرار ہے تو پھر یہی ہے کہ ایک امیر آپ میں سے ہو جائے ایک ہمارے میں سے۔ اس پر عمل کیا جائے کہ ایک خلیفہ ہم میں سے ہو اور ایک آپ لوگوں میں سے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ سوچ سمجھ کر بات کرو۔ تمہیں معلوم نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایک وقت میں دو امیروں کا ہونا جائز نہیں ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیثیں تو ایسی موجود تھیں جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نظامِ خلافت کی تشریح کی ہوئی تھی مگر آپؐ کی زندگی میں صحابہ کا ذہن اُدھر منتقل نہیں ہوا اور اس کی وجہ وہی خدائی حکمت تھی جس کا ذکر حضرت مصلح موعودؓ اپنے اس کے پہلے سیاق میں کر چکے ہیں جو بیان کررہے ہیں۔ بہرحال کہتے ہیں کہ پس حضرت عمرؓ نے کہا کہ تمہارا یہ مطالبہ کہ ایک امیر تم میں سے ہو اور ایک ہم میں سے عقلاً اور شرعاً کسی طرح جائز نہیں۔ پھر حضرت ابوبکرؓ کا انتخاب کس طرح ہوا؟ کچھ بحث مباحثہ کے بعد حضرت ابو عُبیدہؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے انصار کو توجہ دلائی کہ تم پہلی قوم ہو جو مکے کے باہر ایمان لائی۔ اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تم پہلی قوم نہ بنو جنہوں نے دین کے منشا کو بدل دیا اور کہتے ہیں کہ اس کا طبائع پر ایسا اثر ہوا کہ بشیر بن سعد خزرجی کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ یہ لوگ سچ کہتے ہیں۔ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو خدمت کی اور آپؐ کی نصرت و تائید کی وہ دنیاوی اغراض سے نہیں کی تھی اور نہ اس لیے کی تھی کہ ہمیں آپ کے بعد حکومت ملے بلکہ ہم نے خدا تعالیٰ کے لیے کی تھی۔ پس حق کا سوال نہیں ہے کہ ہمارا حق ہے امیر بنے یا ہم میں سے خلیفہ بنے بلکہ سوال اسلام کی ضرورت کا ہے اور اس لحاظ سے مہاجرین میں سے ہی امیر مقرر ہونا چاہیے کیونکہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لمبی صحبت پائی ہے۔ اس پر کچھ دیر تک اَور بحث ہوتی رہی مگرآخر آدھ پون گھنٹے کے بعد لوگوں کی رائے اسی طرف ہوتی چلی گئی کہ مہاجرین میں سے کسی کو خلیفہ مقرر کرنا چاہیے۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعُبیدہؓ کو اس منصب کے لیے پیش کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے پھر خود پیش کیا کہ یا حضرت عمرؓ ہیں یا حضرت ابوعُبیدہؓ ہیں ان دونوں میں سے کسی کی بیعت کر لینی چاہیے مگر دونوں نے انکار کیا اور کہا کہ جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیماری کے دنوں میں نماز کا امام بنایا تھا اور جو سب مہاجرین میں سے بہتر ہے ہم تو اس کی بیعت کریں گے۔
جب حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کا اور حضرت ابو عُبیدہؓ کا نام خلافت کے لیے پیش کیا تو اس پہ حضرت عمرؓ نے خود جو بیان کیا ہے، جو پچھلا تسلسل چل رہا تھا۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ اس بات کے سوا جیسا کہ انہوں نے کہا ناں کہ حضرت ابوبکرؓ نے یہ بڑی اعلیٰ تقریر کی اس میں یہ باتیں بھی ہوئیں۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ ساری باتیں بڑی اعلیٰ تھیں لیکن اس بات کے سوا میں نے اَور کوئی بات ناپسندنہیں کی جو انہوں نے کہی یعنی کہ حضرت عمرؓ کا نام پیش کیا یا حضرت ابوعبیدہؓ کا نام پیش کیا۔ آپؓ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! یہ حال تھا جب حضرت ابوبکرؓ نے میرا نام پیش کیا کہ اگر مجھے آگے بڑھا کر میری گردن اڑاد ی جاتی تا کہ یہ موت مجھے کسی گناہ کے قریب نہ پھٹکنے دے تو مجھے یہ بات اس سے زیادہ پسند تھی کہ میں ایسی قوم کا امیر بنوں جس میں ابوبکرؓ ہوں یعنی ان کا مقام ایسا ہے کہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اس وقت مجھے حضرت ابوبکرؓ کی موجودگی میں امیر بنا دیا جائے تو میں نے اس کو ناپسند کیا۔ باقی تقریر بہت اعلیٰ تھی۔
بہرحال حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں حضرت عمرؓ نے جب کہا کہ جو مہاجرین میں سے سب سے بہتر ہے ہم اس کی بیعت کریں گے تو مطلب یہ تھا کہ اس منصب کے لیے حضرت ابوبکرؓ سے بڑھ کر اور کوئی شخص نہیں۔ چنانچہ اس پر حضرت ابوبکرؓ کی بیعت شروع ہو گئی۔ پہلے حضرت عمرؓ نے بیعت کی۔ پھر حضرت ابوعبیدہؓ نے بیعت کی۔ پھر بشیر بن سعد خزرجی نے بیعت کی اور پھر اوس اور پھر خزرج کے دوسرے لوگوں نے اور اس قدر جوش اس وقت پیدا ہواکہ سعد جو بیمار تھے اور اٹھ نہ سکتے تھے۔ ان کی قوم ان کو روندتی ہوئی آگے بڑھ کر بیعت کرتی تھی۔ چنانچہ تھوڑی ہی دیر میں سعدؓ اور حضرت علیؓ کے سوا سب نے بیعت کر لی۔ حتٰی کہ سعدؓ کے اپنے بیٹے نے بھی بیعت کر لی۔ حضرت علیؓ نے کچھ دنوں بعد بیعت کی۔ چنانچہ بعض روایات میں تین دن آتے ہیں اور بعض روایات میں یہ ذکر آتا ہے کہ آپؓ نے چھ ماہ کے بعد بیعت کی تھی۔ چھے ماہ والی روایت میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ حضرت فاطمہؓ کی تیمار داری میں مصروفیت کی وجہ سے آپ حضرت ابوبکرؓ کی بیعت نہ کر سکے اور جب آپؓ بیعت کرنے کے لیے آئے تو آپؓ نے یہ معذرت بھی کی کہ چونکہ فاطمہؓ بیمار تھیں اس لیے بیعت میں مجھے دیر ہو گئی ہے۔ (ماخوذ از خلافت راشدہ صفحہ 39 تا 42، انوارالعلوم جلد 15)
بہرحال اس وقت سب نے بیعت کی۔
حضرت عُروہ بن زبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ جس وقت اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات دی تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر روئے اور انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! ہم یہ چاہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مر جاتے۔ ہمیں اندیشہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد فتنہ میں نہ پڑ جائیں۔ حضرت معنؓ صحابی جن کا ذکر ہو رہا ہے انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں نہیں چاہتا تھا۔ لوگ تو یہ کہہ رہے تھے کہ ہم پہلے مر جاتے لیکن حضرت معنؓ نے کہا نہیں۔ میں نہیں یہ چاہتا تھا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مر جاتا۔ کیوں؟ اس لیے کہ میں جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُسی طرح تصدیق نہ کر لوں جیسا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ244-245معن بن عدی دار الاحیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
جس طرح میں نے آپؐ کو نبی مانا تھا اسی طرح وفات کے بعد بھی اس بات کی تصدیق نہ کر لوں کہ خلافت راشدہ کا وہی نظام جس کی پیش گوئی آپؐ نے فرمائی تھی وہ جاری ہو چکا ہے اور اسی کو جاری رکھنا ہے اور منافقین اور مرتدین کے جال میں نہیں آنا۔
پس یہی وہ ایمان کا معیار ہے جسے ہر احمدی کو بھی اپنے اندر قائم کرنا چاہیے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت معنؓ حضرت خالد بن ولیدؓ کے ہمراہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرتدین اور باغیوں کی سرکوبی میں شامل تھے اور حضرت خالد بن ولیدؓ نے دو سو گھڑ سواروں کے ہم راہ حضرت معنؓ کو یمامہ کی طرف بطور ہراول دستے کے بھیجا تھا۔ (الاصابۃ فی تمیز الصحابہ جلد6 صفحہ151 معن بن عدی، دارالکتب العلمیہ بیروت 2005ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معنؓ کا حضرت زید بن خطّابؓ کے ساتھ عقدِ مؤاخات قائم فرمایا تھا۔ ان دونوں اصحاب نے حضرت ابوبکرصدیقؓ کے دور ِخلافت میں جنگِ یمامہ میں 12 ہجری میں شہادت پائی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ244 معن بن عدی دار الاحیاء التراث العربی بیروت 1996ء)