حضرت مقداد بن اسودؓ
حضرت مقداد بن اسود کا اصل نام مقداد بن عمروؓ ہے حضرت مقداد کے والد کا نام عمرو بن ثعلبہ تھا جو بنی بَھْرَاء سے تھے۔ البتہ حضرت مقداد کو اسود بن یغوث کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ اس نے انہیں بچپن میں اپنا متبنیٰ بنا لیا تھا۔ اس لیے مقداد بن اسودؓ کے نام سے معروف ہو گئے۔ (سنن الترمذی کتاب الزھد باب مَا جَاءَ فِیْ کَرَاھِیَةِ الْمِدْحَةِ وَالْمَدَّاحِیْنَ حدیث 2393) (ابن ہشام صفحہ 151 باب ذکر ھجرۃ الاولیٰ الی ارض الحبشۃ مطبوعہ دار ابن حزم 2009ء)
حضرت مقداد کے والد عمرو بن ثعلبہ قبیلہ بَھْرَاءسے تعلق رکھتے تھے جو یمن کے علاقے میں قُضَاعَہ کا ایک قبیلہ تھا۔ زمانۂ جاہلیت میں ان کے والد عمرو کے ہاتھوں کسی کا قتل ہو گیا جس وجہ سے وہ بھاگ کر حَضْرِمَوْت، جو سمندر کے کنارے عدن کے شرقی جانب یمن میں ایک علاقہ ہے وہاں چلے گئے اور وہاں کِنْدَہ قبیلے کے حلیف بن گئے جس بنا پر کِنْدِی کہلائے جانے لگے۔ وہاں ایک خاتون سے عمرو نے شادی کر لی جس سے حضرت مقدادؓ پیدا ہوئے۔ جب مقدادؓ بڑے ہوئے تو ان کا ابو شِمَر بن حَجَر کِنْدِی سے جھگڑا ہو گیا۔ انہوں نے شِمَر کی ٹانگ تلوار سے کاٹ دی اور پھر مکہ بھاگ آئے اور اَسْوَد بن عَبْدِ یَغُوث کے حلیف بن گئے۔ مقدادؓ نے اپنے والد کو خط لکھا تو وہ بھی پھر مکہ آ گئے۔ اسودنے مقداد کو اپنا متبنیٰ بنا لیا تھا جس وجہ سے ان کو مقداد بن اسود بھی کہا جانے لگا اور عموماً اسی نام سے مشہور ہو گئے لیکن جب آیت اُدْعُوْہُمْ لِآبَائِہِمْ (الاحزاب: 6) یعنی ان کو، بچوں کو، لے پالکوں کو بھی ان کے باپوں کے نام سے پکاروتو انہیں مقداد بن عمرو کہا جانے لگا لیکن شہرت مقداد بن اسود کے نام سے تھی۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے کہ اُدْعُوْہُمْ لِآبَائِہِمْ کہ لے پالکوں کو بھی اور جو کسی کے ساتھ منسوب ہیں، اصل نسب جو ہے وہ باپ کا ہے اس لیے باپ سے پکارا جانا چاہیے۔ حضرت مقدادؓ کی کنیت ابو مَعْبَد کے علاوہ ابو اسود، ابو عمر اور ابو سعید بھی بیان کی جاتی ہے۔
ایک دفعہ حضرت مقدادؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ نے پوچھا کہ تم شادی کیوں نہیں کرتے؟ حضرت مقدادؓ نے کہا کہ آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں تو پھر اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کر دیں۔ اس پر حضرت عبدالرحمٰنؓ غصّے میں آ گئے اور انہیں ڈانٹ دیا۔ حضرت مقدادؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس امر کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں تمہاری شادی کرواتا ہوں۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت زبیر بن عبدالمطلب کی بیٹی ضباعة سے ان کی شادی کروا دی۔ (شرح الزرقانی جلد 5 صفحہ 213 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت1996ء) (معجم البلدان جلد 2 صفحہ311 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) (ابن ہشام صفحہ 151 باب ذکر ھجرۃ الاولیٰ الی ارض الحبشۃ مطبوعہ دار ابن حزم 2009ء) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 85 مقداد بن عمرو داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء) (الاصابة فی تمییز الصحابة جلد 6 صفحہ 160 المقداد بن الاسود دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2005ء)
حضرت ضُبَاعَۃ حضرت زُبیرؓ اور عاتِکہ بنت ابی وھب کی بیٹی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شادی حضرت مقداد سے جب کروائی تو ان کے ہاں اولاد ہوئی۔ ان کے دو بچے پیدا ہوئے کریمہ اور عبداللہ۔ عبداللہ جنگِ جمل میں حضرت عائشہ کی طرف سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ضباعة کو خیبر میں سے چالیس وسق کھجوریں عطا کی تھیں۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 8 فی النساء ذکر بنات عمومۃ رسول اللہ صفحہ 38 دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 1990ء)
اور یہ تقریباً ڈیڑھ سو من یا کہہ لیں کہ چھ ہزار کلو کے قریب بنتا ہے۔ (لغات الحدیث جلدچہارم صفحہ487 ’’وسق‘‘۔ لغات الحدیث جلد دوم صفحہ 648 ’’صاع‘‘)
حضرت مقدادؓ کے ایک بیٹے کا نام مَعْبَد بھی تھا۔ (الاصابة فی تمییز الصحابة جلد 6 صفحہ 207 معبد بن مقداد، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2005ء)
حضرت مقداد کی بیٹی کریمہ آپؓ کا حلیہ بیان کرتی ہیں کہ ان کا قد لمبا اور رنگ گندمی تھا۔ پیٹ بڑا اور سر میں کثرت سے بال تھے۔ وہ اپنی داڑھی کو زرد رنگ لگایا کرتے تھے جو خوب صورت تھی۔ نہ بڑی تھی اور نہ چھوٹی تھی۔ آنکھیں سیاہ تھیں اور ابرو باریک اور لمبے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 87داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)
حضرت مقدادؓ کے قبولِ اسلام کا واقعہ اس طرح ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مقدادؓ ان سات صحابہ میں سے تھے جنہوں نے مکے میں اپنے اسلام کا سب سے پہلے اظہار کیا تھا۔ (اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ جلد 5 صفحہ 243دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2008ء)
اس کی تفصیل پہلے میں حضرت عمار بن یاسرؓ کے ضمن میں بیان کر چکا ہوں۔ حضرت مقدادؓ کی مدینہ کی طرف ہجرت کے بارے میں آتا ہے کہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں میں حضرت مقدادؓ بھی شامل تھے۔ کچھ عرصے بعد مکہ واپس آ گئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو اس وقت حضرت مقدادؓ ہجرت نہ کر سکے۔ پھر وہ مکّے میں اس وقت تک رہے جب تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عُبَیْدَہ بن حَارِثؓ کی سرکردگی میں ایک سریہ بھیجا۔ حضرت مقدادؓ اور حضرت عُتْبَہ بن غَزْوَانؓ عکرمہ بن ابو جہل کی کمان میں اس غرض سے لشکر میں شامل ہوئے تھے کہ وہ دونوں موقع پا کر مسلمانوں سے جا ملیں گے۔ (اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ جلد 5 صفحہ 242دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2008ء)
اس کی تفصیل بھی میں پہلے بیان کر چکا ہوں۔ تھوڑی سی مختصر جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیین میں لکھی ہے وہ کچھ بیان کر دیتا ہوں۔ وہ اس طرح ہے کہ
’’غزوۂ وَدَّان سے واپس آنے پر ماہ ربیع الاول کے شروع میں آپؐ نے اپنے ایک قریبی رشتہ دار عُبَیْدَۃ بِن الْحَارِثْ مُطَّلَبِی کی امارت میں ساٹھ شتر سوار مہاجرین کاایک دستہ روانہ فرمایا۔ اس مہم کی غرض بھی قریش مکہ کے حملوں کی پیش بندی تھی۔‘‘ ان کو روکنا تھا ’’چنانچہ جب عُبَیْدَة بن الحارث اور ان کے ساتھی کچھ مسافت طے کرکے ثَنِیَّةُ الْمَرَّة کے پاس پہنچے توناگاہ کیا دیکھتے ہیں کہ قریش کے دوسو مسلح نوجوان عکرمہ بن ابوجہل کی کمان میں ڈیرہ ڈالے پڑے ہیں۔ فریقَین ایک دوسرے کے سامنے ہوئے اور ایک دوسرے کے مقابلے میں کچھ تیراندازی بھی ہوئی لیکن پھر مشرکین کاگروہ یہ خوف کھا کر کہ مسلمانوں کے پیچھے کچھ کمک مخفی ہوگی۔‘‘ کچھ کمک چھپی ہوئی ہو گی ’’ان کے مقابلہ سے پیچھے ہٹ گیا اور مسلمانوں نے ان کا پیچھا نہیں کیا۔ البتہ مشرکین کے لشکر میں سے دو شخص مِقْدَاد بن عَمْرو اور عُتْبَہ بن غَزْوَان، عِکْرِمَہ بن ابوجہل کی کمان سے خود بخود بھاگ کر مسلمانوں کے ساتھ آملے اور لکھا ہے کہ وہ اسی غرض سے قریش کے ساتھ نکلے تھے کہ موقعہ پاکر مسلمانوں میں آملیں کیونکہ وہ دل سے مسلمان تھے مگر بوجہ اپنی کم زوری کے قریش سے ڈرتے ہوئے ہجرت نہیں کرسکتے تھے اور ممکن ہے کہ اسی واقعہ نے قریش کو بددل کر دیا ہو اور انہوں نے اسے بدفال سمجھ کر پیچھے ہٹ جانے کا فیصلہ کر لیا ہو۔ تاریخ میں یہ مذکور نہیں ہے کہ قریش کایہ لشکر جویقیناً کوئی تجارتی قافلہ نہیں تھا اور جس کے متعلق ابن اسحاق نے جَمْعٌ عَظِیْمٌ (یعنی ایک بڑا لشکر) کے الفاظ استعمال کیے ہیں کسی خاص ارادہ سے اس طرف آیا تھا لیکن یہ یقینی ہے کہ ان کی نیت بخیر نہیں تھی اور یہ خدا کا فضل تھا کہ مسلمانوں کو چوکس پا کر اور اپنے آدمیوں میں سے بعض کو مسلمانوں کی طرف جاتا دیکھ کر ان کو ہمت نہیں ہوئی اور وہ واپس لوٹ گئے اور صحابہ کواس مہم کایہ عملی فائدہ ہوگیاکہ دو مسلمان روحیں قریش کے ظلم سے نجات پا گئیں۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 328-329)
مدینہ ہجرت کے وقت حضرت مقداد بن اسودؓ حضرت کلثوم بن ہِدْمؓ کے گھر ٹھہرے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مقدادؓ اور حضرت جَبَّار بِن صَخْرؓ کے مابین مؤاخات قائم کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مقدادؓ کو بنو حُدَیْلَہ، انصار کے قبیلہ خزرج کی ایک شاخ ہے ان کے محلے میں رہائش کے لیے جگہ عطا فرمائی تھی۔ حضرت اُبَی بن کَعْبؓ نے انہیں اس محلے میں رہنے کی دعوت دی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 86 داراحیاء التراث بیروت لبنان 1996ء)
حدیثوں میں رات کو بکری کا دودھ پینے کا جو ایک واقعہ بیان ہوتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تین شخص جو دودھ رکھتے تھے اس کا تعلق حضرت مقدادؓ سے ہی ہے۔ وہ دودھ بھی ایک صحابی پی گئے۔
حضرت مقدادؓ یہ روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ مَیں اور میرے دو ساتھی مدینہ ہجرت کر کے آئے اور ہمارے کان اور آنکھیں مشقت کی وجہ سے متاثر ہو گئی تھیں۔ ہم اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ پر پیش کرنے لگے کہ کسی کے ساتھ ٹھہر جائیں مگر کسی نے ہمیں قبول نہ کیا تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ آپ ہمیں اپنے گھر لے گئے تو وہاں تین بکریاں تھیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کا دودھ ہم سب کے لیے دوہ لیا کرو۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم دودھ دوہتے اور ہم میں سے ہر شخص اپنا حصہ پی لیتا اور ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آپؐ کا حصہ رکھ دیتے۔ وہ کہتے ہیں کہ رات آپؐ تشریف لاتے اور اتنی آواز میں السلام علیکم کہتے کہ سونے والا بیدار نہ ہو اور جو جاگ رہا ہو وہ سن لے۔ کہتے ہیں کہ پھر آپؐ مسجد تشریف لے جاتے اور نماز پڑھتے۔ پھر اپنے حصے کا دودھ لیتے اور نوش فرماتے۔ کہتے ہیں کہ ایک رات میرے پاس شیطان آیا جبکہ میں اپنا حصہ پی چکا تھا یعنی شیطانی خیال میرے دل میں آیا۔ اس نے کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے پاس جاتے ہیں اور انصار آپؐ کو تحفہ پیش کرتے ہیں۔ آپؐ کو اس گھونٹ کی یعنی تھوڑے سے دودھ کی جو آپؐ کے حصے کا رکھا ہوا تھا کوئی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں میں نے وہ حصہ جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رکھا ہوا تھا وہ لے کر پی لیا۔ جب وہ میرے پیٹ میں چلا گیا، عربوں کا بیان کرنے کا اپنا ایک طریقہ ہے۔ کہتے ہیں میرے پیٹ میں چلا گیا، مَیں جان گیا کہ اب اس کے حصول کی کوئی راہ نہیں۔ بس یہ اب واپس نہیں آ سکتا تو کہتے ہیں کہ شیطان نے مجھے نادم کیا اور کہا کہ تیرا برا ہو یہ تو نے کیا کیا! تو نے محمدؐ کے حصے کا دودھ پی لیا ہے۔ وہ تشریف لائیں گے اور اسے نہ پائیں گے تو وہ تیرے خلاف دعا کریں گے اور تُو ہلاک ہو جائے گا اور تیری دنیا و آخرت تباہ ہو جائے گی۔ شیطان نے ندامت کیوں کی؟ حضرت مقدادؓ نے یہ فقرہ کیوں بولا؟ اس لیے کہ شیطان نے یہ وسوسہ آپ کے دل میں ڈالا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے لیے بددعا کریں گے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو رحمۃ للعالمین ہیں۔ اس چھوٹی سی بات پر انہوں نے کیوں دعا کرنی تھی۔ تو یہ خیال بھی شیطانی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لیے بددعا کریں گے۔ بہرحال کہتے ہیں یہ خیال میرے دل میں آیا کہ دعا کریں گے تو میں ہلاک ہو جاؤں گا اور دنیا و آخرت تباہ ہو جائے گی۔ کہتے ہیں کہ میرے اوپر ایک چادر تھی جب میں اسے اپنے پاؤں پر ڈالتا تو میرا سر باہر رہ جاتا اور جب سر پر ڈالتا تو میرے پاؤں باہر نکل جاتے اور مجھے نیندنہ آتی تھی۔ میرے دونوں ساتھی تو سو گئے تھے۔ انہوں نے وہ نہیں کیا تھا جو میں نے کیا تھا یعنی وہ دودھ پی لیا تھا۔ کہتے ہیں کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپؐ نے السلام علیکم کہا جیسے کہا کرتے تھے۔ پھر مسجد گئے اور نماز پڑھی یعنی نفل پڑھے۔ پھر اپنے مشروب کی طرف آئے۔ دودھ کا جو گلاس رکھا ہوا تھا اس کی طرف آئے۔ اس کا ڈھکنا اٹھایا تو اس میں کچھ بھی نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف سر اٹھایا۔ کہتے ہیں میں جاگ رہا تھا۔ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ مجھے خیال آیا کہ اب آپ میرے خلاف دعا کریں گے۔ یعنی مجھے بددعا دیں گے اور مَیں ہلاک ہو جاؤں گا۔ لیکن آپؐ نے فرمایا کہ اَللّٰہُمَّ أَطْعِمْ مَنْ أَطْعَمَنِیْ، وَأَسْقِ مَنْ أَسْقَانِیْ۔ یعنی اے اللہ! جو مجھے کھلائے اس کو تُو کھلا اور جو مجھے پلائے تُو اس کو پلا۔ کہتے ہیں کہ یہ سن کر مَیں نے اپنی چادر لی۔ اپنے اوپر مضبوطی سے اسے باندھا۔ جاگ تو میں رہا تھا اور چھری لے کر باہر گیا کہ یہ جو باہر بکریاں کھڑی ہیں ان میں سے جو سب سے اچھی، موٹی، صحت مند بکری ہے اس کی طرف چل پڑا کہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ذبح کروں۔ کہتے ہیں جب میں وہاں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ اس کے تھن دودھ سے بھرے ہوئے ہیں بلکہ ان سب کے تھن دودھ سے بھرے ہوئے تھے یعنی ساری بکریوں کے۔ پھر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کا ایک برتن لایا۔ ان کو خیال بھی نہ ہوتا تھا کہ اس میں دودھ دوہ کر اس کو بھریں گے۔ کہتے ہیں کہ میں نے اس میں دودھ دوہا یہاں تک کہ اس کے اوپر تک جھاگ آ گئی، برتن پورا بھر گیا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ نے فرمایا کیا تم لوگوں نے آج رات اپنے حصے کا دودھ پی لیا تھا؟ وہ کہتے ہیں مَیں نے کہا یا رسول اللہ! یہ نہ پوچھیں آپؐ۔ آپؐ یہ دودھ پئیں۔ آپؐ نے پیا پھر مجھے دے دیا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اَور پئیں۔ آپؐ نے پھر پیا۔ پھر مجھے دے دیا۔ جب مجھے محسوس ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیر ہو گئے ہیں، آپؐ کا پیٹ بھر گیا ہے۔ جتنی آپؐ کی خوراک تھی اتنا دودھ آپؐ نے پی لیا ہے اور یہ بھی مجھے خیال آیا کہ میں نے اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا بھی لے لی ہے۔ یہی دعا کی تھی ناں کہ اللہ جو مجھے پلائے اس کو پلا اور جو مجھے کھلائے اس کو کھلا۔ کہتے ہیں اب دودھ بھی پلا دیا تھا اور مَیں نے دعا بھی لے لی تو مَیں ہنس پڑا اور میں اتنا ہنسا کہ بے اختیار زمین پر جا رہا۔ یعنی یہاں تک کہ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ جب آپؐ نے مجھے ہنستے دیکھا تو اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے مقداد! تیری کوئی شرارت ہے۔ آپؐ نے فرمایا مجھے لگتا ہے تم نے کوئی شرارت کی ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے ساتھ یوں ہوا ہے، اور مَیں نے یہ کیا تھا سارا قصہ سنا دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت ہے۔ یہ بات تو نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتائی تا کہ ہم اپنے دونوں ساتھیوں کو جگا لیتے وہ بھی اس سے پیتے۔ رحمت سے حصہ پاتے۔ کہتے ہیں میں نے کہا اس کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے جب آپؐ نے وہ رحمت پا لی اور آپؐ کے ساتھ مَیں نے بھی وہ رحمت پا لی تو اب مجھے کوئی پروا نہیں کہ لوگوں میں سے کون اسے حاصل کرتا ہے۔ مجھے تو اپنی فکر تھی کیونکہ میں نے ہی وہ جرم کیا تھا۔ (صحیح مسلم کتاب الاشربہ باب اکرام الضیف وفضل ایثارہ حدیث (2055))
حضرت مقدادؓ نے غزواتِ بدر، احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شرکت کی تھی۔ حضرت مقداد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تیر اندازوں میں سے بیان کیے جاتے ہیں۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 86 داراحیاء التراث بیروت لبنان 1996ء)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ غزوۂ بدر کے موقع پر میں نے مقداد بن اسودؓ کی بات کا ایک ایسا منظر دیکھا کہ اگر مجھ کو حاصل ہو جاتا تو مجھے وہ ان تمام نیکیوں سے عزیز تر ہوتا جو ثواب میں اس ایک منظر کے برابر ہو۔ کہتے ہیں ہوا یوں کہ مقدادنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے جبکہ آپؐ مشرکوں کے خلاف دعا کر رہے تھے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! ہم اس طرح نہیں کہیں گے جس طرح موسیٰ کی قوم نے کہا تھا کہ
فَاذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَا۔ وَلٰکِنَّا نُقَاتِلُ عَنْ یَمِیْنِکَ وَعَنْ شِمَالِکَ وَبَیَنْ یَدَیْکَ وَخَلْفَکَ، یعنی جا تُو اور تیرا رب دونوں جا کر لڑو۔ نہیں بلکہ ہم تو آپؐ کے دائیں بھی لڑیں گے بائیں بھی اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپؐ کا چہرہ چمکنے لگا اور مقداد کی اس بات نے آپؐ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کر دیا۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب قول اللہ تعالیٰ اذ تستغیثون ربکم…… حدیث 3952)
سیرت خاتم النبیین میں جنگِ بدر کے حوالے سے اس کی کچھ تفصیل اس طرح بیان ہوئی ہے کہ دشمن کی خبر پاکر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ارادے جاننے کے لیے اور اگر وہ حملہ کرتے ہیں تو ان کے حملے کو روکنے کے لیے بدر کی طرف روانہ ہوئے تورَوْحَاءکے قریب پہنچ کر آپؐ نے بَسِیْس اور عَدِی نامی دو صحابیوں کو دشمن کی حرکات وسکنات کاعلم حاصل کرنے کے لیے بدر کی طرف روانہ فرمایا اور حکم دیا کہ وہ بہت جلد خبر لے کر واپس آئیں۔ روحاء سے آگے روانہ ہوکر جب مسلمان وادیٔ صَفْرا کے ایک پہلو سے گزرتے ہوئے زَفْرَان میں پہنچے، یہ بھی ایک جگہ کا نام ہے جو بدر سے صرف ایک منزل ورے ہے تو اطلاع موصول ہوئی کہ قافلےکی حفاظت کے لیے قریش کاایک بڑا جرار لشکر مکہ سے آرہا ہے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر تمام صحابہ کو جمع کرکے انہیں اس خبر سے اطلاع دی اور پھر ان سے مشورہ پوچھا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! ظاہری اسباب کاخیال کرتے ہوئے تو یہی بہتر ہے کہ قافلہ سے سامنا ہو۔ ہم دیکھیں کہ جو تجارتی قافلہ جا رہا ہے ان کی نیت کیا ہے یا وہ کیا چاہتے ہیں؟ کیونکہ وہ لشکر اگر جنگ کے لیے آ رہا ہے تو اس کے مقابلے کے لیے ہم ابھی پوری طرح تیار نہیں ہیں۔ مگر آپؐ نے اس رائے کوپسندنہیں فرمایا۔
مدینہ سے چلتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر صحابہؓ کو جو آپؐ کے ساتھ چلے تھے علم نہیں تھا کہ ہم جنگ کے لیے جا رہے ہیں کیونکہ جنگ کی بھی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔ بلکہ ان کو یہ تھا کہ ایک قافلہ ہے اس کو دیکھتے ہیں کہ ان کی نیت کیا ہے؟ اور پھر اگر انہوں نے کوئی حملہ کیا تو چھوٹا قافلہ ہو گا اس سے لڑ لیں گے لیکن لشکر کا اور باقاعدہ جنگ کا تو مدینہ سے نکلتے ہوئے صحابہؓ کو خیال بھی نہیں تھا لیکن بہرحال جب آپؐ نے پوچھا تو بعض نے کہا کہ لشکر کا مقابلہ تو ہم کر نہیں سکتے اس لیے ہمیں نہیں کرنا چاہیے۔ آپؐ نے اس رائے کو پسندنہیں فرمایا۔
دوسری طرف اکابر صحابہ نے یہ مشورہ سنا تواٹھ اٹھ کرجاں نثارانہ تقریریں کیں اور عرض کیا کہ ہمارے جان ومال سب خدا کے ہیں۔ ہم ہر میدان میں ہر خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ چنانچہ مقداد بن اسودؓ نے جن کا دوسرا نام مقداد بن عمروؓ بھی تھا جو اصل نام ہے۔ کہا یارسول اللہ! ہم موسیٰؑ کے اصحاب کی طرح نہیں ہیں کہ آپؐ کو یہ جواب دیں کہ جا تُو اور تیراخدا جا کر لڑو ہم یہیں بیٹھے ہیں بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ آپؐ جہاں بھی چاہتے ہیں چلیں ہم آپؐ کے ساتھ ہیں۔ ہم آپؐ کے دائیں اور بائیں اور آگے اور پیچھے ہوکر لڑیں گے۔ آپؐ نے یہ تقریر سنی تو آپؐ کاچہرۂ مبارک خوشی سے تمتمانے لگامگر اس موقع پر بھی آپؐ انصار کے جواب کے منتظر تھے اور چاہتے تھے کہ وہ بھی کچھ بولیں کیونکہ آپؐ کویہ خیال تھا کہ شاید انصار یہ سمجھتے ہوں کہ بیعتِ عقبہ کے ماتحت ہمارا فرض صرف اس قدر ہے کہ اگرعین مدینہ پر کوئی حملہ ہو تو اس کا دفاع کریں۔ چنانچہ باوجود اس قسم کی جاں نثارانہ تقریروں کے جو مہاجر صحابہ نے کیں آپؐ یہی فرماتے گئے کہ اچھا پھر مجھے مشورہ دو کہ کیا کیا جاوے۔ سعد بن معاذؓ جو اوس قبیلے کے رئیس تھے انہوں نے آپؐ کے منشا کو سمجھا اور انصار کی طرف سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! شاید آپؐ ہماری رائے پوچھتے ہیں۔ خداکی قسم! جب ہم آپؐ کو سچا سمجھ کر آپؐ پر ایمان لے آئے ہیں تو ہم نے اپنا ہاتھ آپؐ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا ہے توپھر اب آپؐ جہاں چاہیں چلیں ہم آپؐ کے ساتھ ہیں اور اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اگرآپؐ ہمیں سمندر میں کود جانے کو کہیں توہم کود جائیں گے اور ہم میں سے ایک فرد بھی پیچھے نہیں رہے گا اور آپؐ ان شاء اللہ ہم کو لڑائی میں صابر پائیں گے اور ہم سے وہ بات دیکھیں گے جوآپؐ کی آنکھوں کوٹھنڈا کرے گی۔ آپﷺ نے یہ تقریر سنی تو بہت خوش ہوئے اور فرمایا۔
سِیْرُوْا وَابْشِرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ قَدْ وَعَدَنِی اِحْدَی الطَّائِفَتَیْنِ وَاللّٰہِ لَکَاَنِّیْ اَنْظُرُ اِلٰی مَصَارِعِ الْقَوْمِ یعنی توپھراللہ کا نام لے کر آگے بڑھو اور خوش ہوکیونکہ اللہ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ کفار کے ان دوگروہوں یعنی لشکر یا قافلہ جو ہے ان میں سے کسی ایک گروہ پر وہ ہم کو ضرور غلبہ دے گا اور خدا کی قسم! میں گویا اس وقت وہ جگہیں دیکھ رہا ہوں جہاں دشمن کے آدمی قتل ہو ہو کر گریں گے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 354-355)
پھر حضرت مقدادؓ کے بارے میں ایک یہ بھی آتا ہے کہ غزوۂ بدر میں اللہ کی راہ میں قتال کرنے والے پہلے گھڑ سوار ہونے کا شرف آپؓ کو حاصل ہوا۔ ان کے گھوڑے کا نام سَبْحَہ تھا۔ ایک روایت کے مطابق غزوۂ بدر میں مسلمانوں کے دو گھوڑوں کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ بدر کے دن ہمارے پاس دو گھوڑے تھے ایک حضرت زبیر بن عوامؓ کا تھا اور دوسرا حضرت مقداد بن اسودؓ کا۔ ابن ہشام کے مطابق غزوۂ بدر کے دن مسلمانوں کے پاس تین گھوڑے تھے۔ حضرت مَرْثَد بن ابو مرثدؓ کے پاس گھوڑا تھا جس کا نام سَبَلْ تھا۔ حضرت مقداد بن عمروؓ کے پاس گھوڑا تھا جس کا نام بَعْزَجَہ تھا یا سَبْحَہ تھا اور حضرت زبیر بن عوامؓ کے پاس گھوڑا تھا جس کا نام یَعْسُوب تھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 86 داراحیاء التراث بیروت لبنان 1996ء) (دلائل النبوة و للبیہقی جلد 3 صفحہ 39 دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2002ء) (السیرة النبویہ لابن ہشام صفحہ 452 اسماء خیل المسلمین یوم بدر، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2001ء)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے مختلف تاریخوں سے سیرت خاتم النبیین میں جو لکھا ہے اس کے مطابق غزوۂ بدر میں مسلمانوں کے پاس صرف دو گھوڑے تھے۔ بعض کتابوں میں جیسا کہ میں نے کہا ہے تین کا ذکر ملتا ہے۔ بعض میں پانچ کا ذکر بھی ملتا ہے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 353) (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ جلد 2 صفحہ260 باب غزوۃ بدر الکبرٰی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء) (السیرۃ الحلبیۃ جلد 2 صفحہ 205 باب ذکر مغازیہﷺ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
بہرحال یہ گھوڑے دو تھے یا تین تھے یا پانچ تھے لیکن یہ ثابت ہے کہ مسلمانوں کے جنگی سامان اور کافروں کے جنگی سامان میں کوئی نسبت ہی نہیں تھی اور کافروں کے سازو سامان کے مقابلے میں مسلمان نہتے ہی کہلا سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود دشمن کے مقابلے کے لیے جب کھڑے ہوئے تو جیسا کہ مہاجرین نے بھی اور انصار نے بھی آپؐ سے جو عہد کیا تھا اس کو پورا کر کے دکھایا۔
حضرت مقداد بن عمرو کندی قبیلہ بنو زُہْرَہ کے حلیف تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر میں شریک تھے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! بتائیں اگر کفار میں سے کسی شخص سے میرا مقابلہ ہو جائے اور ہم دونوں لڑ پڑیں اور وہ میرا ایک ہاتھ تلوار سے کاٹ ڈالے اور پھر مجھ سے ایک درخت کی پناہ لے کر یہ کہے۔ پھر دوڑ جائے اور ایک درخت کے پیچھے چھپ جائے اور یہ کہے کہ میں اللہ کی خاطر مسلمان ہو گیا۔ یا رسول اللہ! کیا اب میں اسے مار ڈالوں جب کہ اس نے ایسی بات کہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اسے قتل نہ کرو۔ حضرت مقدادؓ نے کہا یا رسول اللہ! اس نے میرا ایک ہاتھ کاٹ ڈالا ہے اور پھر اس کے بعد ایسا کہا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے قتل نہ کروکیونکہ اگر تم نے اسے قتل کر دیا تو وہ تمہارے اُس درجے پر ہو جائے گا جو تم کو اُس کے قتل کرنے سے پہلے حاصل تھا یعنی ایمان کا درجہ اور تم اس کے درجے پر ہو جاؤ گے جو اس کو اس کے کلمہ کے کہنے سے پہلے حاصل تھا یعنی کافر ہونے کی حالت میں جس کو اس نے کہا تھا۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب 12 حدیث 4019)
تو یہ قیاسی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کی کہ اس طرح ہو کہ اس نے میرا ہاتھ بھی کاٹ دیا ہو پھر درخت کے پیچھے چھپ کے وہ کلمہ پڑھ لے اور اللہ کی خاطر کہے میں مسلمان ہو گیا ہوں تو کیا میں بدلہ لوں؟ آپؐ نے کہا نہیں۔ اگر لو گے تو وہ کافر مومن ہو گا اور تم ایمان کے باوجود اس کافر کی جگہ کھڑے ہو گے۔
یہ ہے کلمہ پڑھنے والے کا مقام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا اور آج کل کے علماء کہلانے والے اور اسلامی حکومتیں ان کے یہ عمل دیکھیں۔ کاش یہ خود دیکھیں کہ اس حدیث کے مطابق وہ کس مقام پر کھڑے ہیں۔ مومن کے مقام پر یا کافر کے مقام پر؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ قبیلہ بنو غَفَّار کے ایک چرواہے کی نگرانی میں مدینے سے باہر چر رہے تھے اور اس چرواہے کی بیوی بھی ساتھ تھی۔ بنو فَزَارَہ کے عُیَیْنَہ بن حِصْن نے بنو غَطْفَان کے کچھ گھڑ سواروں کے ساتھ مل کر حملہ کیا اور چرواہے کو مار ڈالا اور اس کی بیوی اور اونٹوں کو ساتھ لے گئے۔ حضرت سلمہ بن اکوعؓ کو سب سے پہلے ان لوگوں کا علم ہوا۔ ان کے ساتھ حضرت طَلْحہ بن عُبید اللہ کا غلام گھوڑا لے کر نکلا۔ جب حضرت سلمہؓ ثَنِیَّةُ الْوَدَاع، اس وادی کے نام کے بارے میں مختلف رائے ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ مدینے سے باہر وہ مقام تھا جہاں مکہ کی طرف جانے والے لوگوں کو وداع کیا جاتا تھا جبکہ دوسرے قول کے مطابق یہ ملک شام کی جانب مدینہ سے باہر ایک مقام ہےاور غزوۂ تبوک سے واپسی پر اہل مدینہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہاں استقبال کیا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ سے بعض سرایا کو وداع فرمایا تھا۔ بہرحال یہ جب وہاں پہنچے تو انہوں نے عُیَیْنَہ اور اس کے ساتھی کو دیکھ لیا اور مدینہ کے قریب سَلَعْ پہاڑی پر چڑھ کر مدد کے لیے پکارا جانے والا کلمہ بلند آواز سے کہا، لوگوں کو آواز دی اور کہا کہ يَا صَبَاحَاهْ! پھر حضرت سلمہؓ تیر برساتے ہوئے ان کے پیچھے دوڑ پڑے اور ان کے رخ موڑ دیے۔ حضرت سَلَمہؓ کی مدد کی پکار سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں اعلان کروایا کہ دشمن کے مقابلے کے لیے نکلو تو فوراً گھڑ سوار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آنے شروع ہو گئے اور ان میں سب سے پہلے جو لبیک کہتے ہوئے آئے وہ حضرت مقدادؓ تھے۔ (شرح الزرقانی جلد 2 صفحہ 166تا 169 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء) (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جزء 3-4 صفحہ 174، 175غزوہ ذی قرد، دارالکتاب العربی بیروت لبنان 2008ء) (الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 63 باب غزوۃ رسول اللہؐ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکے پر چڑھائی کرنے کی تیاری فرمائی تو اس مہم کو بہت پوشیدہ رکھا گیا اور باوجود اس کے کہ صحابہ اس مہم کی تیاری کر رہے تھے لیکن یہ عام نہیں تھا کہ مکے کی طرف جانا ہے۔ اس موقعے پر ایک بدری صحابی حضرت حاطِب بن بَلْتَعہؓ نے اپنی سادگی اور نادانی میں مکہ سے آئی ہوئی ایک عورت کے ہاتھ ایک خفیہ خط مکہ روانہ کر دیا جس میں مکہ پر حملہ کرنے کی ساری تیاریوں کا ذکر کر دیا۔ وہ عورت خط لے کر چلی گئی تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دے دی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو دو تین افراد کے ساتھ جن میں حضرت مقداد بھی شامل تھے اس عورت کا پیچھا کرنے اور وہ خط لینے کے لیے روانہ فرمایا۔ چنانچہ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، زبیرؓ اور مقدادؓ کو بھیجا اور فرمایا کہ رَوْضَة خَاخْ جاؤ۔ وہاں ایک شتر سوار عورت ہے۔ اس کے پاس ایک خط ہے۔ اس سے وہ لے لو۔ چنانچہ ہم چل پڑے۔ ہمارے گھوڑے ہمیں لے کر سرپٹ دوڑے۔ ہم اس عورت کے پاس پہنچے تو ہم نے کہا کہ خط نکالو۔ اس نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں۔ ہم نے کہا کہ تم ضرور خط نکالو گی یا تمہیں اپنے کپڑے اتارنے پڑیں گے۔ اس نے وہ اپنے بالوں کے جُوڑے سے نکالا تو ہم اس خط کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جو ان صحابی نے کافروں کے نام لکھا تھا۔ لکھا تو اپنی معصومیت کی وجہ سے تھا لیکن بہرحال یہ معاملہ کیونکہ کچھ خفیہ تھا تو اس پہ یہ سب کچھ راز فاش ہو جانا تھا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے خبر دی اور یہ خط واپس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچ گیا۔ (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب من فضائل اہل بدر رضی اللہ عنہم وقصۃ حاطب بن ابی بلتعہ حدیث (2494))
موسیٰ بن یعقوب اپنی پھوپھی سے اور وہ اپنی والدہ سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مقدادؓ کو خیبر کی پیداوار میں سے پندرہ وسق جَو سالانہ عطا فرمایا تھا جو اندازاً سوا چھپن من جَو سالانہ بنتا ہے وہ ہم نے معاویہ بن ابو سفیان کے ہاتھ ایک لاکھ درہم میں فروخت کیا تھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 86داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)
یہ سالانہ مستقل آمد تھی اور ہو سکتا ہے کہ چند سالوں کی پیداوار یا مستقل پیداوار فروخت کی ہو کیونکہ صرف چھپن من کی تو اتنی زیادہ قیمت نہیں ہو سکتی۔ جنگ یرموک میں بھی حضرت مقدادؓ نے شرکت کی تھی اور اس جنگ میں قاری حضرت مقداد تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ بدر کے بعد یہ سنت جاری فرمائی تھی کہ جنگ کے وقت سورۂ انفال کی تلاوت کی جاتی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی لوگ اس بات پر عمل کرتے رہے۔ (تاریخ الطبری جلد 4 صفحہ 59 ثم دخلت سنۃ ثلاث عشرۃ/ خبرالیرموک، دارالفکر بیروت لبنان2002ء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سَرِیہ بھیجا تھا اس پر حضرت مقدادؓ کو امیر بنایا تھا۔ جب وہ واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اے ابو معبد! تُو نے امارت کے منصب کو کیسا پایا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں جب نکلا تو میری یہ حالت ہوئی کہ میں دوسرے لوگوں کو اپنا غلام تصور کر رہا تھا۔ اس پر آپؓ نے فرمایا کہ اے ابومعبد! امارت اسی طرح ہے سوائے اس کے کہ جسے اللہ تعالیٰ اس کے شر سے محفوظ رکھے۔ مقدادؓ نے عرض کیا کوئی شک نہیں۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا ہے! میں دو آدمیوں پر بھی نگران بننا پسندنہ کروں گا۔ (الاصابة فی تمییز الصحابة جلد 6 صفحہ207-208 معبد بن مقداد، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2005ء)
مجھے یہ ایک تجربہ ہوا اور اس میں مَیں نے دیکھا کہ مجھے یوں لگا کہ سب میرے غلام ہیں تو مَیں اس کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مجھے تو یہ پسند ہی نہیں کہ کبھی کسی دو آدمیوں کا بھی نگران بنوں۔ یہ تقویٰ کا معیار تھا ان لوگوں کا کہ افسر بننے سے تکبّر پیدا ہو سکتا ہے۔ اس لیے میں پسندنہیں کرتا کہ دو آدمی بھی میرے ماتحت ہوں۔ پس ہمارے سب افسروں کو بھی ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اول تو خواہش نہیں کرنی اور جب افسر بنایا جائے، عہدہ دیا جائے تو اللہ تعالیٰ سے اس عہدے کے شر سے بچنے کی دعا بھی مانگنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ کبھی تکبر پیدا نہ کرے اور اس کا فضل مانگنا چاہیے۔
حضرت مقدادؓ حمص کے محاصرے میں حضرت ابو عُبَیدہ بن جَرَّاحؓ کے ساتھ تھے۔ (تاریخ الطبری جلد 4 صفحہ 185 ثم دخلت سنۃ خمس عشرۃ/ ذکر فتح حمص، دارالفکر للطباعہ والنشر والتوزیع بیروت لبنان2002ء)
حضرت مقدادؓ نے مصر کی فتح میں بھی حصہ لیا۔ (الاستیعاب فی معرفة الاصحاب جلد 4 صفحہ 43 دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2002ء)
20؍ ہجری میں جب مصر پر فوج کشی ہوئی اور حضرت عمرو بن عاصؓ امیر عسکر نے دربارِ خلافت سے مزید کمک طلب کی تو حضرت عمرؓ نے دس ہزار سپاہی اور چار افسر جن میں سے ایک حضرت مقدادؓ بھی تھے ان کی مدد کے لیے روانہ فرمائے اور لکھا کہ ان افسروں میں سے ہر ایک دشمن کے ایک ہزار سپاہیوں کے برابر ہے۔ چنانچہ درحقیقت اس کمک کے پہنچتے ہی جنگ کی حالت بدل گئی اور نہایت قلیل عرصے میں تمام سر زمین جو فرعون کی زمین تھی توحید کا ورثہ بن گئی۔ (سیر الصحابہ جلد دوم صفحہ 286 حضرت مقداد بن عمرو، دارالاشاعت کراچی 2004ء)
جُبَیر بن نُفَیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت مقداد بن اسودؓ ہمارے پاس کسی کام سے تشریف لائے تو ہم نے کہا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و سلامتی سے رکھے۔ آپ تشریف رکھیں یہاں تک کہ ہم آپ کا کام کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ قوم کی حالت پر تعجب آتا ہے۔ ابھی جب آئے تو کہا میں ان لوگوں کے پاس سے گزرا، کچھ لوگوں کے پاس گزرا تو وہ فتنے کی تمنا کر رہے تھے۔ وہ گمان کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ضرور ویسے ہی آزمائے گا جیسے اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے صحابہ کو آزمایا تھا۔ وہ کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خوش بخت وہ ہے جو فتنوں سے بچایا گیا۔ یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ دہرائی اور آپ نے فرمایا کہ اگر ابتلا آ جائے تو پھر صبر ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی جلد 20 صفحہ 252-253جبیر بن نفیر عن المقداد بن الاسود، دار احیاء التراث العربی بیروت)
کہ فتنوں کی یعنی کسی آزمائش کی اور سختی کی دعا نہیں کرنی چاہیے، نہ خواہش کرنی چاہیے لیکن اگر ابتلا آ جائے، امتحان آ جائے تو پھر اس پہ صبر دکھانا چاہیے اور پھر ثابت قدمی دکھانی چاہیے نہ یہ کہ پھر بزدلی دکھائی جائے۔
حضرت مقداد کا جسم بھاری بھرکم تھا لیکن اس کے باوجود جہاد کے لیے نکلتے تھے۔ ایک دفعہ کسی سنار کے صندوق کے پاس بیٹھے تھے تو حضرت مقداد صندوق سے بھی بڑے نظر آ رہے تھے۔ کسی نے ان سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جہاد سے معذور فرمایا ہے۔ کافی جسیم ہیں اور جیسا کہ ان کی بیٹی نے بتایا ہے کہ پیٹ بڑا تھا۔ حضرت مقدادنے جواب دیا کہ مجھ پر سورہ بَحُوث۔ (بَحُوث سورہ توبہ کا بھی دوسرا نام ہے کیونکہ اس سورت میں منافقین اور ان کے رازوں کو کھولا گیا ہے۔) کہتے ہیں مجھے اس سورت نے لازم قرار دیا ہے کہ اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِقَالًا (التوبہ: 41) کہ جہاد کے لیے نکلو خواہ ہلکے ہو یا بھاری ہو۔ (احکام القران لابن عربی جلد 2 صفحہ444دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2003ء) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 87داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خِفَافًا وَّثِقَالًا کی وضاحت یوں بیان فرمائی ہے کہ اس آیت میں مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کے لیے نکلیں اور کسی قسم کی مشکل ان کے رستے میں نہیں آنی چاہیے۔ خِفَافًا وَّثِقَالًا کے کئی معنی ہیں تم بوڑھے ہو یا جوان ہو فرد، افراد یا گروہوں میں سے ہو۔ پیدل ہو یا سوار ہو۔ تمہارے پاس ہتھیار کافی ہیں یا نہیں ہیں۔ خوراک کافی ہے یا نہیں ہے۔ (ماخوذ از دروس حضرت مصلح موعودؓ غیرمطبوعہ، رجسٹرنمبر 36صفحہ 1006)
حضرت مقدادؓ نے اس آیت سے کیونکہ کئی معنی ہیں اس کے جسم کا ہلکا ہونا اور بھاری ہونا مراد لے کر اپنے شوقِ جہاد کا بھی اظہار کیا۔
حضرت مقدادؓ کا پیٹ بہت زیادہ بڑھا ہوا تھا۔ ان کا ایک رومی غلام تھا وہ ان سے کہنے لگا کہ میں آپ کے پیٹ کو کاٹ کر چربی نکال دوں گا (اس زمانے میں جو بھی آپریشن کا طریقہ تھا) اس سے وہ ہلکا ہو جائے گا۔ آج کل بھی لوگ کرتے ہیں۔ چنانچہ اس نے حضرت مقدادؓ کا پیٹ چاک کیا اور چربی نکال کر دوبارہ سی دیا۔ لیکن اس وجہ سے حضرت مقدادؓ کی وفات ہو گئی۔ کوئی انفیکشن وغیرہ ہو گیا۔ ٹھیک نہیں ہو سکے۔ بہرحال وہ غلام یہ دیکھ کے پھر وہاں سے بھاگ گیا۔ (الاصابة فی تمییز الصحابة جلد 6 صفحہ 161 دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2005ء)
لیکن ایک اور روایت بھی ہے اس کے مطابق حضرت مقدادؓ کی وفات دُھْنُ الْخِرْوَعْ یعنی کیسٹر آئل پینے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ یہ ابو فائدنے روایت کیاہے۔ حضرت مقدادؓ کی بیٹی کریمہ کہتی ہیں کہ حضرت مقدادؓ کی وفات مدینے سے تین میل کے فاصلے پر جُرْف مقام پر ہوئی۔ وہاں سے ان کی نعش کو لوگوں کے کندھوں پر اٹھا کر مدینے لایا گیا۔ حضرت عثمانؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں انہیں دفن کیا گیا۔ تینتیس ہجری میں حضرت مقدادؓ کی وفات ہوئی تھی۔ وفات کے وقت ان کی عمر ستر سال یا اس کے قریب تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 87داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)
اِبنِ بُرَیْدَہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے مجھے چار سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے اور مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ بھی ان سے محبت کرتا ہے۔ سوال کیا گیا کہ یا رسول اللہ! وہ کون ہیں؟ آپؐ نے فرمایا (ابن ماجہ کی روایت ہے)۔ مختلف وقتوں میں مختلف ہے۔ بہرحال یہ روایت یہی ہے۔ کہتے ہیں آپؐ نے فرمایا کہ علیؓ ان میں سے ہیں، یہ آپؐ نے تین بار فرمایا اور پھر ابوذرؓ، پھر سلمانؓ اور مقدادؓ ہیں۔ (سنن ابن ماجہ مقدمہ المؤلف باب فضل سلمان وأبی ذر والمقداد حدیث 149)
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر نبی کو سات سات نجیب رفقاء دیے گئے ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ یاآپؓ نے رفقاء کے بجائے نگران کا لفظ استعمال فرمایا تھا لیکن مجھے چودہ عطا کیے گئے ہیں ہم نے عرض کیا کہ وہ کون ہیں تو حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا کہ ایک تو مَیں ہوں یعنی حضرت علیؓ میرے دو بیٹے حسنؓ اور حسیؓن، جعفؓر، حمزؓ ہ، ابوبکؓر، عمؓر، مصعب بن عمیرؓ، بلالؓ، سلمانؓ، عماؓ ر، مقداؓ د، حذیفؓہ، ابو ذرؓ اور عبداللہ بن مسعودؓ۔ یہ سنن ترمذی کی روایت ہے۔ (سنن الترمذی کتاب المناقب باب ان الحسن والحسین سیدا شباب اھل الجنۃ حدیث 3785)
قرآن کریم کی سورۂ انعام کی آیت ہے کہ وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِہِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْہِمْ مِّنْ شَیْءٍ فَتَطْرُدَہُمْ فَتَکُوْنَ مِنَ الظَّالِمِیْنَ۔ (الاَنعام: 53) اور تو ان لوگوں کو نہ دھتکار جو اپنے رب کو اس کی رضا چاہتے ہوئے صبح بھی پکارتے ہیں اور شام کو بھی۔ تیرے ذمہ ان کا کچھ بھی حساب نہیں اور نہ ہی تیرا کچھ حساب ان کے ذمہ ہے۔ پس اگر پھر بھی تو انہیں دھتکار دے گا تو تو ظالموں میں سے ہو جائے گا۔
حضرت سعد اس آیت کے بارے میں بیان کرتے ہیں۔ یہ بھی ابن ماجہ کی روایت ہے کہ یہ آیت چھ اشخاص کے بارے میں نازل ہوئی کہ میں خود یعنی حضرت سعدؓ، ابن مسعودؓ، صہیبؓ، عمارؓ، مقدادؓ اور بلالؓ۔ حضرت سعدؓ نے کہا کہ قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہم اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ ان لوگوں کے تابع ہوں۔ پس تُو انہیں اپنے پاس سے دھتکار دے۔ راوی کہتے ہیں کہ اس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں وہ بات داخل ہوئی جو اللہ نے چاہاکہ داخل ہو تو اللہ عزّ وجل نے آپؐ پر یہ آیت نازل فرمائی وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ (الانعام: 53) اور تُو ان لوگوں کو نہ دھتکار جو اپنے رب کو اس کی رضا چاہتے ہوئے صبح بھی پکارتے ہیں اور شام کو بھی۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب مجالسۃ الفقراء حدیث 4128)
بہرحال اس آیت کی وجہ جو بھی تھی لیکن یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب دیا۔
ایک روایت کے مطابق حضرت مقدادؓ پہلے صحابی تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں گھوڑے پر لڑائی میں حصہ لیا۔ (الاصابة فی تمییز الصحابة جلد 6 صفحہ 160 المقداد بن الاسود دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2005ء)
یہ بھی تھوڑا سا پہلے بیان ہو چکا ہے۔ حضرت مقدادؓ سے روایت ہے کہ وہ ایک روز قضائے حاجت کے لیے بقیع کی طرف گئے جو قبرستان ہے۔ لوگ اس وقت دو تین روز بعد قضائے حاجت کے لیے جایا کرتے تھے اور وہ قضائے حاجت کے لیے ایک ویرانے میں داخل ہوئے اور اس دوران میں کیونکہ کھانا بہت کم ہوتا تھا اور کہتے ہیں کہ پاخانہ بھی اونٹ کی مینگنیوں کی طرح ہوتا تھا اور اس دوران میں قضائے حاجت کے لیے بیٹھے ہوئے تھے تو انہوں نے ایک چوہا دیکھا جس نے بِل میں سے ایک دینار نکالا۔ پھر اندر گیا اور ایک اَور دینار نکالا حتیٰ کہ اس نے سترہ دینار نکالے۔ اس کے بعد ایک سرخ رنگ کا کپڑا نکالا۔ حضرت مقدادؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس کپڑے کو کھینچا تو اس میں ایک دینار پایا اس طرح اٹھارہ دینار ہو گئے۔ پھر میں ان کو لے کر نکلا اور انہیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؐ کو ساری بات بتائی اور عرض کیا یا رسول اللہ! اس کا صدقہ لے لیجیے۔ آپؐ نے فرمایا اس کا کوئی صدقہ نہیں ہے۔ انہیں لے جاؤ۔ اللہ تعالیٰ ان میں تمہارے لیے برکت ڈال دے۔ پھر آپؐ نے فرمایا شاید تم نے اس سوراخ میں ہاتھ ڈالا ہو گا۔ میں نے عرض کیا کہ نہیں اس خدا کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ذریعہ عزت بخشی ہے! کہ میں نے ہاتھ نہیں ڈالا تھا بلکہ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے میرے لیے انتظام کر دیا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب اللقطة باب اِلْتِقَاطُ مَا اَخْرَجَ الْجُرَذُ حدیث 2508)
جُبَیر بن نُفَیر روایت کرتے ہیں کہ ایک دن ہم حضرت مقدادؓ کے ساتھ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی گزرا اور اس نے کہا کیا ہی مبارک آنکھیں ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہے۔ اللہ کی قسم! ہماری دلی خواہش ہے کہ ہم بھی دیکھتے جو آپؓ نے دیکھا ہے۔ صحابہ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ جو آپ لوگوں نے دیکھا ہے اور ہم بھی اس کا مشاہدہ کرتے جس کا آپ نے مشاہدہ کیا ہے۔ یہ سن کر حضرت مقدادؓ غصہ میں آ گئے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے بڑے تعجب سے پوچھا کہ اس شخص نے تو محض خیر کی بات کی ہے۔ حضرت مقدادؓ نے اس شخص کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا کہ اس شخص کو کون سی چیز اس زمانے میں حاضر ہونے کی تمنا پر مجبور کر رہی ہے جس سے اللہ نے اسے غائب رکھا۔ پھر کہنے لگے کہ ہمیں کیا معلوم کہ اگر یہ اس وقت ہوتا تو کس مقام پر ہوتا۔ پھر انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تو ایسے لوگوں نے بھی پایا جنہیں اللہ نے اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دیا کیونکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ مانا اور نہ ہی آپؐ کی تصدیق کی۔ اب یہ جو کہہ رہا ہے کہ کیا پتا اس وقت اس کی قسمت میں کیا تھا۔ اگر تصدیق نہ کرتا تو پھر دوزخ میں جاتا۔
پھر آگے کہنے لگے کہ تم اللہ کی حمد کیوں نہیں کرتے کہ اس نے تمہیں ایسے وقت میں پیدا کیا جس میں تم صرف اپنے رب کو پہچاننے والے ہو۔ کسی قسم کا شرک نہیں کرتے۔ اپنے رب کو پہچانتے ہو۔ رسولؐ پر ایمان لاتے ہو اور اپنے نبیؐ کی لائی ہوئی شریعت کی تصدیق کرنے والے ہو اور اللہ نے دوسروں کے ذریعہ تمہیں آزمائشوں سے بچا لیا۔ پہلے لوگ تھے یا اس زمانے کے دوسرے لوگ تھے آزمائشوں میں سے گزرے۔ تمہیں اللہ نے ان آزمائشوں سے بچا لیا ہے۔ تم اس پر خدا کا شکر ادا کرو۔ پھر کہنے لگے کہ خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جاہلیت کے زمانے میں بھیجا اور فترة وحی کے زمانے میں جو کسی بھی نبی کی بعثت کے زمانے سے سب سے زیادہ سخت زمانہ تھا یعنی وہ زمانہ جب ایک لمبا عرصہ کے بعدنزول ہوا۔ ایک نبی کے بعد دوسرے نبی کے درمیان جو وقفہ ہے اس میں وحی نہیں ہوتی یا اس سے ایک لمبا عرصہ تھا جو ایک نبی اور دوسرے نبی کے درمیان کا ہوتا ہے اور اس میں انبیاء کی وحی نہیں ہوتی۔ اس لفظ کو فترةکہتے ہیں۔ تو کہتے ہیں جو لمبا عرصہ تھا جس میں وحی نہیں ہوئی یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث نہیں ہوئے وہ زمانہ بڑا لمبا تھا جس میں شرک بھی پھیل گیا۔ پھر آپؓ نے کہا کہ یہ بڑا سخت زمانہ تھا۔ لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے اور اس سے افضل کسی کو نہیں مانتے تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرقان کے ساتھ مبعوث ہوئے جس نے حق و باطل میں فرق کر دیا اور والد اور بیٹے کے درمیان فرق کر دیا حتیٰ کہ ایک آدمی اپنے والد، بیٹے یا بھائی کو کافر سمجھتا تھا جبکہ اللہ نے اس کے دل کا تالا ایمان کے لیے کھول دیا تھا۔ پھر کہتے ہیں کہ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ کفر کی حالت میں مر گیا تو دوزخ میں جائے گا۔ اس کی آنکھیں ٹھنڈی نہ ہوتی تھیں جب اسے معلوم ہوتا تھا کہ اس کا محبوب جہنم میں رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسلام جو انہوں نے قبول کر لیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیا تو وہ اپنے رشتہ داروں کے بارے میں فکرمند رہتے تھے اور پتا تھا کہ قبول نہیں کریں گے۔ اگر مخالفت کریں گے تو جہنم میں جائیں گے اور اس کے لیے پھر کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّۃَ أَعْیُنٍ (الفرقان: 75)۔ کہ اور وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 890حدیث المقداد بن الاسود حدیث نمبر24311، عالم الکتب بیروت لبنان 1998ء)
تو پس یہ دعا ہے جو ہمیشہ کرنی چاہیے تا کہ نسلوں میں بھی دین قائم رہے۔ اور اللہ کا جو فضل ہوا ہے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
حضرت انس کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے قرآن پڑھنے کی آواز سنی جو اونچی آواز میں تلاوت کر رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ خشیت الٰہی رکھنے والا انسان ہے۔ وہ حضرت مقداد بن عمروؓ تھے۔ (الاستیعاب فی معرفة الاصحاب جلد 4 صفحہ 44 دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2002ء)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اسلام کی حقیقت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہونے کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے اندر خشیت بھی پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔