مقصد صیام ۔ حصولِ تقویٰ
نصیر احمد قمر
اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کے روزے مومنوں پر فرض کرتے ہوئے ان کی غرض و غایت یہ بیان فرمائی ہے ’’لَعلّکُم تَتّقُون‘‘ تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو۔ تقویٰ ایک وسیع المعانی لفظ ہے اور قرآ ن مجید و احادیث نبویہ میں اور اسی طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات و فرمودات میں اس کے مختلف پہلوؤں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ تقویٰ کے لفظ میں بنیادی حروف و، ق اور ی ہیں جس کے معنے بچنے کے ہیں۔ چنانچہ عربی میں اسی مادہ سے ایک لفظ ’ وقایۃ‘ ہے جس کے معنی ڈھال کے ہیں جو دشمن کے حملہ سے بچاؤ اور حفاظت کا ایک ذریعہ ہے۔ حضرت نبی اکرم ﷺ نے اپنے ایک ارشاد مبارک میں روزوں کو بھی ڈھال قرار دیا ہے کیونکہ روز ے انسان کے گناہوں کی بخشش اور نجات کا ایک ذریعہ ہیں۔ روزہ کا مقصد صرف بھوکا اور پیاسا رہنا نہیں بلکہ خدا کے حکم کے تابع اس کی رضا کی خاطر جب انسان بعض حلال چیزوں کو بھی ترک کرتاہے او ر عبادت میں شغف اور کثرت دعا اور انابت الی اللہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہوں میں آگے بڑھنے کی سعی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی بے پایاں رحمت ومغفرت کے ساتھ اس سے زیادہ شفقت اوررحم کے ساتھ اس پر جھکتا ہے یہاں تک کہ وہ اسے اپنی پناہ میں لے لیتاہے۔ اور جو خدا کی پناہ میں آجائے کون ہے جو ایسے شخص کو کسی قسم کی تکلیف یا دکھ پہنچا سکے۔ اور یہی روزے کا مقصود ہے کہ انسان اللہ کا تقویٰ اختیار کرے یعنی خدا کو اپنی سپر بنائے اور اس کی حفظ و امان کے سایہ تلے آ جائے۔ پس روزہ تمام دینی و دنیوی شرور سے حفاظت کا ایک ذریعہ ہے۔
حضرت نبی اکرم ﷺ نے بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ’’ اَلصَّوْمُ لِیْ وَاَنَا اُجْزٰی بِہٖ‘‘ یعنی روزہ میرے لئے ہے اور روزہ کی جزاء خود میری ذات ہے۔ اب جسے خدا مل جائے اسے اور کیا چاہئے
تجھے سب زور و قدرت ہے خدایا
تجھے پایا ہر اک مطلب کو پایا
پس روزوں کا ایک بڑا مقصدیہ ہے کہ تا ان کے ذریعہ مومنین قرب الٰہی حاصل کریں اور خدا تعالیٰ کو اپنی سپر اور پناہ بنائیں۔
اس وقت ہم جس دور سے گزر رہے ہیں یہ دور بہت ہی پرفتن اور پرآشوب ہے ۔دجالیت کے عنکبوتی تاروں نے معاشرہ کو اپنے شکنجوں میں جکڑ رکھا ہے ۔ دہریت اور الحاد کی زہریلی ہوائیں ہرطرف چل رہی ہیں ۔ قسما قسم کی فحشاء اور بدیوں اور طرح طرح کے مکرو فریب نے اس خطہ زمین کا امن اٹھا دیا ہے۔ ’’ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوْئِ‘‘ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ لیکن نفس امّارہ کے اندرونی حملوں اور شیطان کے بیرونی مفاسد سے بچنے کی ایک اور صرف ایک ہی صورت ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کیا جائے اور وہ اپنے فضل اور رحم کے ساتھ ہماری دستگیری فرمائے اور اپنی پناہ میں لے لے ۔
رمضان کا بابرکت مہینہ اور روزوں کے ایام ہمارے لئے اس امر کا بہترین موقعہ ہیں کہ ہم تیزی کے ساتھ قرب الٰہی کی شاہراہ پر آگے بڑھیں اور اپنے رحیم وکریم اللہ کی طرف صدق و انابت کے ساتھ توبہ کرتے ہوئے اس کی رحمت کے لئے ملتجی ہوں۔ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’۔۔۔ پس کیا ہی بدقسمت وہ شخص ہے جو اس مختصر زندگی پر بھروسہ کرکے بکلی خدا سے منہ پھیر لیتا ہے اور خدا کے حرام کو ایسی بے باکی سے استعمال کرتا ہے کہ گویا وہ حرام اس کے لئے حلال ہے۔ غصہ کی حالت میں دیوانوں کی طرح کسی کو گالی، کسی کو زخمی اور کسی کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ اور شہوات کے جوش میں بے حیائی کے طریقوں کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے۔ سو وہ سچی خوشحالی کو نہیں پائے گا یہاں تک کہ مرے گا۔ اے عزیزو! تم تھوڑے دنوں کے لئے اس دنیا میں آئے ہو اور وہ بھی بہت گزر چکے۔ سو اپنے مولا کو ناراض مت کرو۔ ایک انسانی گورنمنٹ جو تم سے زبردست ہو اگر تم سے ناراض ہو تو وہ تمہیں تباہ کر سکتی ہے۔ پس تم سوچ لو کہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے کیونکر بچ سکتے ہو۔اگر تم خدا کی آنکھوں کے آگے متقی ٹھہر جاؤ تو تمہیں کوئی بھی تباہ نہیں کر سکتا۔ اور وہ خود تمہاری حفاظت کرے گا اور دشمن جو تمہاری جان کے درپے ہے تم پر قابونہیں پائے گا۔ ورنہ تمہاری جان کا کوئی حافظ نہیں اور تم دشمنوں سے ڈر کر یا اور آفات میں مبتلا ہو کر بے قراری سے زندگی بسر کرو گے اور تمہاری عمر کے آخری دن بڑے غم اور غصہ کے ساتھ گزریں گے۔ خدا ان لوگوں کی پناہ ہو جاتا ہے جو اس کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔ سو خدا کی طرف آؤ اور ہر ایک مخالفت اس کی چھوڑ دو اور اس کے فرائض میں سستی نہ کرو اور اس کے بندوں پر زبان سے یاہاتھ سے ظلم مت کرو۔ اور آسمانی قہر سے ڈرتے رہو کہ یہی راہ نجات ہے۔‘‘ (کشتی نوح)
(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۹؍جنوری ۱۹۹۸ء تا ۱۵؍جنوری ۱۹۹۸ء)