حضرت مُبَشِّر بن عَبْدالمُنْذِرؓ

خطبہ جمعہ 12؍ اپریل 2019ء

حضرت مبشرؓ کے والد کا نام عَبْدُالْمُنْذِر اور آپؓ کی والدہ کا نام نَسِیْبَہ بنت زَیْد تھا۔ آپؓ اَوس کے قبیلے بنو عَمْرو بِن عوف سے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مُبَشِّر بن عبدالمُنْذِرؓ اور حضرت عاقِل بن ابُوبُکَیْرؓ کے درمیان عقد ِمؤاخات قائم فرمایا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عاقِل بن ابوبُکَیر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور حضرت مُجَذَّرْ بن زِیَادؓ کے درمیان عقد ِمؤاخات قائم فرمایا تھا۔ بہرحال آپؓ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے اور اسی جنگ میں آپؓ شہید بھی ہوئے۔ حضرت سَائِب بن اَبُوْلُبَابَہؓ جو حضرت مبشرؓ کے بھائی حضرت اَبُولُبَابَہؓ کے بیٹے تھے ان سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مُبَشِّر بن عبدالمُنْذِرؓ کا مال غنیمت میں حصہ مقرر فرمایا اور مَعْن بن عَدِیؓ ہمارے پاس ان کا حصہ لے کر آئے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ347-248 مبشر بن عبد المنذر، داراحیاء التراث العربی بیروت۔ لبنان 1990ء)

ان کے بھائی، ان کے بھتیجوں کوبھی حصہ ملا۔

ہجرتِ مدینہ کے وقت مہاجرین میں سے حضرت ابو سَلَمَہ بن عبدالْاَسَدؓ اور حضرت عامر بن رَبِیعہؓ اور حضرت عبداللّٰہ بن جَحْشؓ اور ان کے بھائی حضرت ابُو اَحْمَد بن جَحْشؓ نے قبا کے مقام پر حضرت مُبَشِّر بن عبدالمُنْذِرؓ کے ہاں قیام کیا۔ پھر مہاجرین پے در پے وہاں آنے لگے۔ (السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ 335، ذِكْرُ الْمُهَاجِرِينَ إلَى الْمَدِينَةِ، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001)

حضرت مُبَشِّر بن عبدالمُنْذِرؓ اپنے دو بھائیوں حضرت ابولُبَابَہ بن عبدالمنذِرؓ اور حضرت رِفَاعَہ بن عبدِالمنذِرؓ کے ساتھ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ حضرت رِفَاعہؓ ستّر انصار کے ساتھ بیعتِ عقبہ میں شامل ہوئے تھے۔ اسی طرح غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں بھی شریک ہوئے تھے۔ غزوۂ احد کے دن آپؓ شہید ہوئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ بدر کی جانب روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اَبُولُبَابہؓ کو مدینے کا عامل بنا کر رَوْحَاء مقام سے واپس روانہ کیا جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ رَوْحَاء ایک مقام کا نام ہے۔ مدینہ سے چالیس میل کے فاصلے پر ہے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کے لیے مال غنیمت اور ثواب میں حصہ مقرر فرمایا۔ علامہ ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ حضرت مُبَشِّر بن عبدِالمُنْذِرؓ بنو عمرو بن عوف سے تھے۔ آپؓ ان انصاری صحابہ میں سے تھے جو بدر میں شہید ہوئے تھے۔ (اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ، الجزء الخامس، مبشر بن عبد المنذر، صفحہ53، دار الکتب العلمیۃ بیروت۔ لبنان2008) (الطبقات الکبریٰ، الجزء الثالث، صفحہ241، مُبَشِّر بن عبدِالمُنْذِر، داراحیاء التراث العربی بیروت۔ لبنان 1996ء) (لغات الحدیث جلددوم صفحہ149)

حضرت عبداللّٰہ بن عَمْرو بن حرامؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے غزوۂ احد سے پہلے خواب دیکھا کہ گویا حضرت مُبَشِّر بن عبدالمُنْذِرؓ مجھے کہہ رہے ہیں کہ تم چند روز میں ہمارے پاس آ جاؤ گے۔ میں نے پوچھا کہ آپؓ کہاں ہیں تو انہوں نے بتایا کہ میں جنت میں ہوں۔ ہم جہاں چاہتے ہیں جنت میں کھاتے پیتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ کیا آ پؓ بدر میں شہیدنہیں ہو گئے تھے؟ آپؓ نے بتایا ہاں کیوں نہیں۔ لیکن مجھے پھر زندہ کر دیا گیا تھا۔ اس صحابی نے یہ خواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’اے ابو جابر! شہادت یہی ہوتی ہے۔‘ (المستدرك على الصحيحين جلد 5 صفحہ1840، 1841، کتاب معرفة الصحابہ، ذِكْرُ مَنَاقِبِ عَبْدِ اللّهِ بْنِ عَمْرو مکتبہ نزار مصطفے الباز، مکة 2000)

شہید جو ہے وہ پھر اللہ تعالیٰ کے پاس جاتا ہے اور وہاں آزاد پھرتا ہے۔

علامہ زَرْقَانی غزوۂ بدر کے موقع پر شہید ہونے والے صحابہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دو صحابہ قبیلہ اَوس میں سے تھے جن میں سے ایک حضرت سَعْد بن خَیْثَمَہؓ تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ طُعَیْمَہ بن عَدِی نے انہیں شہید کیا جبکہ بعض کہتے ہیں کہ عَمْرِو بنِ عَبدِ وُدّ نے انہیں شہید کیا تھا۔ سَمْہُوْدِی نے اپنی کتاب‘وفا ’میں لکھا ہے کہ اہل سِیَر کے کلام سے ظاہر ہے یعنی جو سیرت لکھتے ہیں کہ غزوۂ بدر کے موقع پر شہید ہونے والے صحابہ ماسوائے حضرت عُبَیْدَہؓ کے بدر میں مدفون ہیں۔ حضرت عُبَیْدَہؓ کی وفات کچھ دیر بعد ہوئی تھی اور وہ صَفْرَاء یا رَوْحَاءکے مقام پر مدفون ہیں۔ طبرانی نے ثِقہ راویوں سے روایت کی ہے کہ حضرت ابنِ مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اصحاب جو بدر کے دن شہید کیے گئے اللہ ان کی روحوں کو جنت میں سبز پرندوں میں رکھے گا جو جنت میں کھائیں پِییں گے۔ وہ اسی حال میں ہوں گے کہ ان کا رب اچانک ان پر مطلع ہو گا، ظاہر ہو گا اور کہے گا اے میرے بندو ! تم کیا چاہتے ہو؟ پس وہ کہیں گے اے ہمارے رب! کیا اس سے اوپر بھی کوئی چیز ہے۔ جنت میں ہم آئے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پھر پوچھے گا تم کیا چاہتے ہو؟ چنانچہ چوتھی مرتبہ صحابہ کہیں گے کہ تُو ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں واپس لوٹا دے تا کہ ہم پھر سے ویسے ہی شہید کیے جائیں جیسے ہم پہلے شہید کیے گئے تھے۔ (شرح العلامہ الزرقانی، الجزء الثانی، صفحہ327، باب غزوة بدر الکبری، مکتبہ دارالکتب العلمیہ بیروت۔ لبنان1996ء)