حضرت مُجَذَّرْ بن زِیَادؓ
تاریخ اور روایات میں بعض صحابہ کے حالات زندگی اور واقعات بڑی تفصیل سے ملتے ہیں لیکن بہت سے ایسے ہیں جن کے بہت ہی مختصر حالات ملتے ہیں۔ لیکن بہرحال جنگ بدر میں شامل ہونے سے ان کا جو مقام ہے وہ تو اپنی جگہ پر قائم ہے۔ اس لئے چاہے چندسطر کا ہی ذکر ہو وہ بیان ہونا چاہئے۔
غزوہ اُحد میں ان کی شہادت ہوئی۔ مُجَذَّرْ آپ کا لقب تھا اس کا مطلب ہے موٹے جسم والا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مُجَذَّرْ اور عاقل بن بُکَیْر کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ دوسری جگہ یہ آیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مُجَذَّرْاور حضرت عُکَّاشَہ بن مِحْصَن کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ حضرت مُجَذَّرْ غزوہ بدر اور غزوہ اُحد میں شریک ہوئے۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 5صفحہ 572-573 المجذر بن ذیادؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء) (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 417 المجذر بن ذیادؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (عیون الاثر جلد اوّل صفحہ 232-233 باب ذکر المواخاۃ مطبوعہ دار القلم بیروت 1993ء)
ابن اسحاق نے بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اَبُوبَخْتَرِیْ کو قتل کرنے سے منع فرمایا تھا کیونکہ مکّہ میں اس نے لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچانے سے روکا تھا۔ (اس کے عوض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو قتل نہیں کرنا) اور وہ خود بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف نہیں پہنچاتا تھا اور وہ ان لوگوں میں سے تھا جو اس معاہدے کے خلاف کھڑے ہوئے تھے جو قریش نے بنو ہاشم اور بنی مطلب کے خلاف کیا تھا۔ حضرت مُجَذَّرْ اَبُوبَخْتَری سے ملے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تمہارے قتل سے روکا ہے۔ اَبُوبَخْتَری کے ساتھ اس کا ایک ساتھی بھی تھا جو اس کے ساتھ مکّہ سے نکلا تھا۔ اس کا نام جُنَادَۃ بن مُلَیْحَہ تھا جو بنولیث سے تھا۔ ابوبختری کا نام عاص تھا۔ اس نے کہا کہ میرے اس ساتھی کے بارے میں کیا حکم ہے؟ حضرت مُجَذَّرْنے کہا کہ نہیں۔ اللہ کی قسم! ہم تمہارے ساتھی کو نہیں چھوڑیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صرف تمہارے اکیلے کے متعلق حکم دیا ہے۔ اس نے کہا کہ اگر مریں گے تو پھر ہم دونوں اکٹھے مریں گے۔ میں یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ مکہ کی عورتیں یہ بیان کرتی پھریں کہ میں نے اپنی زندگی کی خاطر اپنے ساتھی کو چھوڑ دیا۔ پھر وہ دونوں ان سے (حضرت مجذر سے) لڑائی کے لئے تیار ہو گئےاور لڑائی میں حضرت مُجَذَّرْ نے اسے قتل کر دیا۔ حضرت مُجَذَّرْرضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا مَیں نے اس کو بہت اصرار کے ساتھ کہا کہ وہ اسیر ہو جائے اور اسے مَیں آپ کے پاس لے آتا مگر وہ اس پر رضا مندنہ ہوا اور آخر اس نے مجھ سے لڑائی کی اور مَیں نے اسے قتل کر دیا۔ (اسد الغابہ جلد 5صفحہ 59-60 المجذر بن ذیادؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) (عیون الاثر جلد اوّل صفحہ 301باب غزوہ بدرمطبوعہ دار القلم بیروت 1993ء)
حضرت مُجَذَّرْکی اولاد مدینہ اور بغداد میں موجود تھی۔ ابی وَجْزَہ سے مروی ہے کہ شہدائے اُحد کے جو تین آدمی ایک قبر میں دفن کئے گئے تھے وہ مُجَذَّرْبن زَیَاد، نُعْمَان بن مالِک اور عَبْدَہ بن حَسْحَاس تھے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 417 المجذر بن ذیادؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
لیکن ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ حضرت انیسہ بنت عدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا بیٹا عبداللہ جو بدری ہے غزوہ اُحد میں شہید ہو گیا ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں اپنے بیٹے کو اپنے مکان کے قریب دفن کروں تا کہ مجھے اس کا قرب حاصل رہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت عطا فرمائی اور یہ فیصلہ بھی ہوا کہ حضرت عبداللہ کے ساتھ ان کے دوست حضرت مُجَذَّرْکو بھی ایک ہی قبر میں دفن کیا جائے۔ چنانچہ دونوں دوستوں کو ایک ہی کمبل میں لپیٹ کر اونٹ پر رکھ کر مدینہ بھیجا گیا ان میں سے عبداللہ ذرا دبلے پتلے تھے اور مُجَذَّروْلحیم اور جسیم تھے۔ کہتے ہیں روایت میں آتا ہے کہ اونٹ پر دونوں برابر اترے یعنی وزن ایک جیسا تھا۔ اتارنے والوں نے دیکھا تو لوگوں نے اس پر حیرت کا اظہار کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دونوں کے اعمال نے ان کے درمیان برابری کر دی۔ (اسد الغابہ جلد 7صفحہ 31 انیسۃ بنت عدیؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)