حضرت مُحْرِزْ بن نَضْلَہؓ
حضرت مُحْرِزْ بن نَضْلَہؓ کی ولدیت نَضْلَۃ بن عبداللّٰہ ہے جبکہ دوسرے قول کے مطابق آپ کے والد کانام وَھْب تھا۔ آپؓ کی کنیت ابو نَضْلَۃ تھی۔ آپؓ گورے اور خوبصورت چہرے والے تھے۔ آپؓ کا لقب فُہَیْرَۃ تھا۔ آپؓ اَخْرَم کے نام سے بھی جانے جاتے تھے۔ آپؓ بنو عبد ِشمس کے حلیف تھے جبکہ بنوعَبْدُالْاَشْھَل انہیں اپنا حلیف بتاتے ہیں۔ مُحْرِزْ یا اَخْرَم دونوں نام آپؓ کے ہیں۔ حضرت مُحْرِزؓ کا تعلق مکہ کے قبیلہ بَنُو غَنَمْ بن دُوْدَان سے تھا۔ یہ قبیلہ مسلمان ہو گیا تھا۔ اس قبیلے کے مردوں اور عورتوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کی توفیق ملی۔ ان مہاجرین میں حضرت مُحْرِزْ بن نَضْلَہؓ بھی شامل تھے۔ واقدی کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم بن اسماعیل کو سنا وہ کہتے تھے کہ یَوْمُ السَّرْح، یہ غزوۂ ذِی قَرَد اور غَزْوَۃُ الْغَابَہ کا نام ہے جو 6 ہجری میں ہوا تھا، میں سوائے حضرت مُحْرِزْ بن نَضْلَہؓ کے بنو عبدالاشھل کے گھر سے کوئی اَور نہیں نکلا۔ وہ حضرت محمد بن مسلمہؓ کے گھوڑے پر سوار تھے جس کا نام ذُو اللَّمَّہتھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مُحْرِزْ بن نَضْلَہؓ اور حضرت عُمَارَہ بن حَزْمؓ کے درمیان عقد ِمؤاخات قائم فرمایا تھا۔ واقدی کے نزدیک آپؓ غزوۂ بدر، غزوۂ احد اور غزوۂ خندق میں شریک ہوئے تھے۔ صالح بن کَیْسَان سے مروی ہے کہ حضرت مُحْرِزْ بن نَضْلَہؓ نے بتایا کہ میں نے خواب میں ورلے آسمان کو دیکھا کہ وہ میرے لیے کھول دیا گیا ہے یہاں تک کہ میں اس میں داخل ہو گیا اور ساتویں آسمان تک پہنچ گیا۔ پھر سِدْرَۃُالمُنْتَھیٰ تک چلا گیا۔ مجھ سے کہا گیا کہ یہ تمہاری منزل ہے۔ حضرت مُحْرِزؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے سامنے یہ خواب بیان کیا جو فن ِتعبیر کے ماہر تھے تو آپؓ نے فرمایا کہ شہادت کی خوشخبری ہو! پھر ایک روز آپؓ شہید کر دیے گئے۔ آپؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے ہمراہ یوم السَّرْح میں غَزْوَۃُ الْغَابَہ کے لیے روانہ ہوئے، یہ غزوہ ذی قَرَد بھی کہلاتا تھا جو 6 ہجری میں ہوا۔ عَمْروبن عثمان جَحْشِی اپنے آباء سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت مُحْرِزْ بن نَضْلَہؓ جب غزوۂ بدر میں شامل ہوئے تو آپؓ 31 یا 32 سال کے تھے اور جب آپؓ شہید ہوئے تو 37 یا 38 سال کے قریب تھے۔ (الطبقات الكبرٰی الجزء الثالث، صفحہ52 ’’مُحْرِزْ بِنْ نَضْلَةَ‘‘ دارا حیاء التراث، بیروت 1996ء) (أسد الغابة في معرفة الصحابة، الجزء الخامس، صفحہ68 ’’مُحْرِزْ بن نضلة‘‘ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء)
حضرت مُحْرِزؓ کی شہادت کا واقعہ یوں بیان ہوا ہے۔ حضرت اَیَاس بن سَلَمَہؓ غزوۂ ذِی قَرَد کے بارے میں روایت بیان کرتے ہیں کہ میرے والدنے مجھ سے بیان کیا کہ صلح حدیبیہ والے واقعہ کے بعد ہم مدینہ کی طرف واپس جانے کے لیے نکلے۔ پھر ہم ایک جگہ اترے۔ ہمارے اور بنو لِحْیَان کے درمیان ایک پہاڑ تھا۔ وہ مشرک تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس شخص کے لیے دعا کی جو اس پہاڑ پر رات کو چڑھے گویا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کے لیے حالات پر نظر رکھنے اور حفاظت کی غرض سے جاسوس کا کام دے یعنی نگرانی کے لیے، حفاظت کے لیے اوپر چڑھے۔ دیکھے کہ کوئی دشمن وغیرہ حملہ آور نہ ہو جائے۔ حضرت سَلَمَہ بن اَکْوَعؓ کہتے ہیں میں اس رات دو یا تین مرتبہ چڑھا۔ پھر ہم مدینہ پہنچے۔ پھر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رَبَاح نامی آدمی کے ہاتھ اپنے اونٹ بھیجے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام تھا اور میں حضرت طلحہؓ کے گھوڑے کے ساتھ اس پر سوار ہو کر نکلا اور میں اس کو اونٹوں کے ساتھ پانی پلانے کے لیے جا رہا تھا۔ جب صبح ہوئی تو عبدالرحمٰن فَزَارِی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں پر حملہ کیا۔ ساتھ ایک قبیلہ تھا جو دشمن تھا اور سب کو ہانک کر لے گیا اور ان کے چرواہے کو قتل کر دیا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے کہا اے رَبَاح! یہ گھوڑا پکڑو اور اسے طَلْحَہ بن عُبَید اللّٰہ کو پہنچا دو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دو کہ مشرکوں نے آپ کے جانور لوٹ لیے ہیں۔ پھر میں ایک ٹیلے پر مدینے کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوا اور تین دفعہ پکارا یَا صَبَاحَاہُ! یَا صَبَاحَاہُ!یہ کلمہ اہل عرب اس وقت کہا کرتے تھے جب کوئی دشمن لوٹنے والا اور غارت کرنے والا صبح کو آ پہنچتا تھا تو اس کے ساتھ یہ نعرہ مارتے تھے گویا بلند آواز سے فریاد مانگی جا رہی ہے اور امداد کے لیے اعلان کیا جا رہا ہے تاکہ حمایتی جو ہیں وہ فوراً آ جائیں اور دشمن کا مقابلہ کریں اور اس کو دوڑا دیں۔ بعض نے کہا ہے کہ لڑنے والوں کا قاعدہ ہوتا تھا کہ رات ہوتے ہی جنگ بند کر دیتے تھے۔ اپنے ٹھکانوں پر چلے جاتے تھے۔‘صَبَاحَاہُ’کے متعلق دوسری روایت یہ بھی ہے۔ اور پھر صباحاہکہہ کر دوسرے روز لڑنے والوں کو آگاہ کیا جاتا تھا کہ صبح ہو گئی ہے۔ اب جنگ کے لیے پھر تیار ہو جاؤ۔ لغات الحدیث میں یہ وضاحت لکھی گئی ہے۔ بہرحال کہتے ہیں کہ پھر میں ان لوگوں کے پیچھے تلاش کرتا ہوا اور انہیں تیر مارتا ہوا نکلا اور میں رَجْزِیہ اشعار پڑھ رہا تھا اور میں کہہ رہا تھا کہ ؎
اَنَا ابْنُ الْاَکْوَع
وَالْیَوْمُ یَوْمُ الرُّضَّعِ
کہ میں اَکْوَع کا بیٹا ہوں اور یہ دن کمینوں کی تباہی کا دن ہے۔ پس میں ان میں سے جس شخص سے بھی ملتا تو اس کے کجاوے میں تیر مارتا یہاں تک کہ تیر کا پھل نکل کر اس کے کندھے تک جا پہنچتا۔ میں کہتا یہ لو، اَنَا ابْنُ الْاَکْوَع ؍ وَالْیَوْمُ یَوْمُ الرُّضَّعِ کہ میں اَکْوَع کا بیٹا ہوں اور یہ دن کمینوں کی تباہی کا دن ہے۔ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! میں ان کو تیر مارتا رہا اور انہیں زخمی کرتا رہا اور جب میری طرف کوئی گھڑ سوار آتا تو میں کسی درخت کی طرف آتا اور اس کے نیچے بیٹھ جاتا یعنی درخت کے پیچھے چھپ جاتا اور میں اسے تیر مار کر زخمی کر دیتا یہاں تک کہ جب پہاڑ کا راستہ تنگ ہو گیا اور وہ اس تنگ راستے میں داخل ہوئے تو میں پہاڑ پر چڑھ گیا اور انہیں پتھر مارنے لگا۔ یہ لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جانور لُوٹ کر لے کر جا رہے تھے ان پر انہوں نے حملہ کیا۔ اکیلے تھے۔ پہلے تیر مارتے رہے پھر کہتے ہیں کہ درّے پہ پہنچا وہاں سے پتھر مارنے شروع کیے اور اسی طرح میں ان کا پیچھا کرتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں میں سے کوئی اونٹ ایسا پیدا نہیں کیا جسے میں نے اپنے پیچھے نہ چھوڑ دیا ہو یعنی کہ درّے کی وجہ سے وہ پیچھے رہ گئے اور وہ لوگ آگے دَوڑ گئے اور انہوں نے ان کو میرے اور اپنے درمیان چھوڑ دیا۔ پھر میں تیر اندازی کرتا رہا یہاں تک کہ انہوں نے تیس سے زیادہ چادریں اور تیس نیزے یعنی اپنا وزن ہلکا ہونے کے لیے پھینک دیے۔ وہ لوگ دوڑ رہے تھے تو اونٹ چھوڑ دیے۔ پھر اپنا سامان بھی پیچھے پھینکنا شروع کر دیا تا کہ آسانی سے دوڑ سکیں۔ کہتے ہیں جو چیز بھی وہ پھینکتے جاتے تھے میں ان پر نشان کے طور پر پتھر رکھ دیتا تھا تا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ پہچان لیں یہاں تک کہ وہ ایک تنگ گھاٹی میں آئے جہاں انہیں بدر فزاری کا کوئی بیٹا ملا۔ وہ بیٹھ کر کھانا کھانے لگے اور میں ایک چوٹی پر بیٹھا تھا۔ فزاری نے کہا یہ کون شخص ہے جسے میں دیکھ رہا ہوں؟ انہوں نے کہا اس شخص نے تو ہمیں تنگ کر رکھا ہے۔ اللہ کی قسم! یہ صبح سے ہم پر مسلسل تیر اندازی کر رہا ہے یہاں تک کہ اس نے ہم سے سب کچھ چھین لیا ہے۔ اس نے کہا چاہیے کہ تم میں سے چار آدمی اس کی طرف جائیں۔ حضرت سَلَمَہ بن اَکْوَعؓ کہتے ہیں کہ ان میں سے چار آدمی میری طرف پہاڑ پر چڑھے۔ جب وہ میرے اتنے قریب آئے کہ میں ان سے بات کر سکا تو میں نے کہا کہ تم مجھے جانتے ہو؟ انہوں نے کہا نہیں۔ تم کون ہو؟ میں نے کہا کہ میں سَلَمَہ بن اَکْوَع ہوں۔ پھر انہوں نے آگے کافروں کو کہا کہ اس کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو عزت عطا کی ہے کہ مَیں تم میں سے جس شخص کو پکڑنا چاہوں اسے پکڑ سکتا ہوں لیکن تم میں سے کوئی شخص مجھے پکڑنا چاہے تو نہیں پکڑ سکتا۔ چار آدمی جو آئے تھے ان میں سے ایک ذرا ڈر گیا۔ اس نے کہا کہ میرا بھی یہی خیال ہے اور وہ چاروں پھر واپس چلے گئے اور میں اپنی جگہ پر بیٹھا رہا یہاں تک کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھوڑے درختوں کے درمیان آتے ہوئے دیکھے۔ ان میں سے سب سے پہلے اَخْرَم اسدیؓ تھے اور ان کے پیچھے اَبُو قَتَادۃ انصاریؓ تھے اور ان کے پیچھے مِقْدَاد بِن اَسْوَد کِنْدِیؓ تھے میں نے اَخْرَم یعنی حضرت مُحْرِزؓ کے گھوڑے کی لگام پکڑی تو وہ چاروں طرف پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔ یہ ذرا سا confusion ہے میرا خیال ہے۔ وہ جو دوسرے لوگ وہاں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے جب انہوں نے دیکھا کہ یہ لوگ اَور قریب آ گئے ہیں تو وہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔ کہتے ہیں میں نے کہا اے اَخْرَم! یعنی حضرت مُحْرِزؓ کو کہا کہ تُو ان سے بچ، تا کہ وہ تجھے ہلاک نہ کر دیں یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ پہنچ نہ جائیں۔ اس نے کہا اے سَلَمَہ!اگر تو اللہ اور یوم ِآخرت پر ایمان رکھتا ہے اور تُو جانتا ہے کہ جنت حق ہے اور آگ حق ہے یعنی جہنم حق ہے۔ پس تُو میرے اور شہادت کے درمیان حائل نہ ہو۔ مَیں نے اسے چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ یعنی اَخْرَمؓ اور عبدالرحمٰن باہم برسرِ پیکار ہوئے اور انہوں نے عبدالرحمٰن سمیت اس کے گھوڑے کو زخمی کر دیا اور عبدالرحمٰن نے اُن کو یعنی اَخْرَمؓ کو، حضرت مُحْرِزؓ کو نیزہ مار کر شہید کر دیا اور ان کے گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے لوگوں میں جانے کے لیے واپس مڑا تو پھر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگ آ رہے تھے ان میں سے ابوقتادہؓ، عبدالرحمٰن کے پیچھے گئے اور اس کو پکڑ لیا اور نیزہ مار کر اُسے قتل کر دیا جو حضرت مُحْرِزؓ کو شہید کر کے گیا تھا۔ تو یہ کہتے ہیں کہ پس اس کی قسم جس نے محمدؐ کے چہرے کو عزت عطا کی! میں نے دوڑتے ہوئے ان کا تعاقب جاری رکھا۔ میں پھر بھی ان کے پیچھے جاتا رہایہاں تک کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی کو اور نہ ان کے غبار کو اپنے پیچھے پایا یعنی بہت آگے نکل گیا یہاں تک کہ وہ سورج غروب ہونے سے پہلے ایک گھاٹی میں پہنچے جہاں پانی تھا۔ اسے ذی قَرَد کہتے تھے۔ وہ لوگ جو مال لُوٹ کے لے جانے والے چور تھے وہ اس سے پانی پینا چاہتے تھے اور وہ پیاسے تھے۔ پھر انہوں نے مجھے اپنے پیچھے دوڑتے ہوئے دیکھا۔ میں نے ان کو وہاں سے ہٹا دیا اور وہ اس میں سے ایک قطرہ بھی نہ پی سکے۔ وہ وہاں سے نکلے اور ایک گھاٹی کی طرف تیزی سے بڑھے۔ میں بھی دوڑا۔ میں ان میں سے جس شخص کو پیچھے پاتا یعنی چھپ چھپ کے پیچھے دوڑتا رہا اور جو پیچھے رہ جاتا تھا اس کے کندھے کی ہڈی میں تیر مارتا۔ میں کہتا یہ لو أَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ ؍ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ کہ میں اَکْوَع کا بیٹا ہوں اور یہ دن کمینوں کی تباہی کا دن ہے۔ کہتے ہیں کہ اس نے کہا کہ اَکْوَع کو اس کی ماں کھوئے۔ کیا صبح والا اَکْوَع؟ یہ جو لوگوں کو زخمی کر رہے تھے تو ان میں سے ایک نے یہ کہا کہ صبح والا اَکْوَع، جو صبح سےہمارے پیچھے پڑا ہوا ہے؟ میں نے کہا ہاں۔ اے اپنی جان کے دشمن تیرا صبح والا اَکْوَع۔ انہوں نے دو گھوڑے گھاٹی میں پیچھے چھوڑ دیے۔ میں ان دونوں کو ہانکتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چل پڑا۔ مجھے عامر ایک چھاگل میں تھوڑے سے دودھ میں ملا ہوا پانی اور ایک چھاگل میں پانی لاتے ہوئے ملے۔ پھر میں نے وضو کیا اور پیا۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پانی پر تھے جہاں سے میں نے ان لوگوں کو، ان لٹیروں کوصبح بھگایا تھا۔ وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس پانی کے قریب پہنچ چکے تھے۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اونٹ اور وہ سب چیزیں جو میں نے مشرکوں سے چھڑائی تھیں لے لیں اور حضرت بلالؓ نے ان اونٹوں میں سے جو میں نے ان سے چھینے تھے ایک اونٹنی ذبح کی۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کلیجی اور کوہان کے گوشت سے بھون رہے تھے۔ میں نے کہا یا رسولؐ اللہ! آپؐ کے ساتھ جو لوگ آئے ہیں مجھے اس لشکر میں سے سو آدمی منتخب کرنے کی اجازت عطا فرمائیں۔ تو میں ان لوگوں کا پیچھا کر کے ان سب کو قتل کر دوں۔ کوئی ان کے قبیلے کو خبر دینے والا بھی نہ بچے جو یہ سامان لُوٹ کر لَوٹے تھے، لُوٹ کر لے جانے لگے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھلکھلا کر ہنسے یہاں تک کہ آگ کی روشنی میں آپؐ کے دانتِ مبارک دکھائی دینے لگے۔ آپؐ نے فرمایا اے سَلَمَہ! کیا تم سمجھتے ہو کہ تم یہ کر سکتے ہو کہ ان کے گھروں میں پہنچنے سے پہلے ان سب کو مار دو؟ میں نے کہا ہاں اس کی قسم جس نے آپؐ کو عزت عطا کی ہے ! آپؐ نے فرمایا اب وہ غطفان کی سرحد پر پہنچ گئے ہیں۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس جگہ یہ الفاظ بیان ہوئے ہیں کہ جب حضرت سَلَمہ بن اَکْوَعؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کا دوبارہ پیچھا کرنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔’يَا ابْنَ الْأَكْوَعِ مَلَكْتَ فَأَسْجِحْ‘۔ اے ابن اَکْوَع! تم نے جب غلبہ پا لیا ہے تو پھر جانے دو اور درگزر سے کام لو۔ اب پیچھے جانے کا ان کو قتل کرنے کا کیا فائدہ؟۔ تو یہ جو اسوہ ہے اس میں ایک تو یہ ہے کہ یہ اکیلے جنگ کرتے رہے حضرت مُحْرِزؓ آئے تو ان پہ انہوں نے چھپ کے حملہ کیا یا ان کو کسی طرح شہید کر دیا۔ پہلی دفعہ تو ان کے گھوڑے کو پکڑ کے انہوں نے پلٹا دیا اور بچ گئے لیکن پھر حملہ ہوا اور وہ شہید ہو گئے۔ ایک تو یہ حضرت مُحْرِزؓ کی شہادت کا واقعہ ہے۔ دوسرا ان کی بہادری بھی ہے اور ان کو جنگ کے طریقے کا بھی پتا ہے۔ اَکْوَعؓ نے ان لٹیروں سے سب مال چھینا اور پھر اہم بات یہ کہ جب مال واپس لے لیا اور پھر بھی کہا کہ میں ان کا پیچھا کر کے ان سب کو قتل کر دوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو جانے دو۔ جب مال واپس آ گیا ہے تو چھوڑو۔ تو یہ اسوہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیونکہ آپؐ کو قتل و غارت سے غرض نہیں تھی۔ یہ مقصدنہیں تھا۔ لٹیروں سے اور حملہ آوروں سے جب آپؓ نے واپس مال لے لیا اور سب لوگ چھوڑ کر فرار ہو گئے، ان میں سے کچھ زخمی بھی ہو گئے تو آپؐ نے بھی پھر وہاں کسی قسم کی جنگ اور قتل و غارت گری نہیں کی۔
بہرحال یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب ان سے یہ باتیں کر رہے تھے کہ ان کو چھوڑو۔ وہ چلے گئے ہیں تو اب جانے دو۔ اس دوران میں بنی غطفان کا ایک شخص آیا اس نے کہا کہ فلاں شخص نے ان کے لیے اونٹ ذبح کیا ہے۔ جب وہ ان کی جلد اتار رہے تھے تو انہوں نے ایک غبار دیکھا۔ انہوں نے کہا وہ لوگ آ گئے۔ وہ وہاں سے بھی بھاگ گئے۔ جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج ہمارے بہترین شاہ سوار ابوقَتَادہؓ ہیں اور پیادوں میں بہترین پیادہ یعنی پیدل چلنے والوں میں، جنگ کرنے والوں میں سَلَمہؓ ہیں۔ سَلَمَہؓ نے ان لوگوں کو مشکل میں ڈال دیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دو حصّے دیے ایک سوار کا اور ایک پیدل کا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ لوٹتے ہوئے مجھے عَضْبَاءاونٹنی پر اپنے پیچھے بٹھا لیا۔ توکہتے ہیں کہ جب ہم جا رہے تھے تو انصار کے ایک شخص نے جس سے دوڑ میں کوئی آگے نہیں بڑھ سکتا تھا اس نے کہنا شروع کر دیا کہ کوئی مدینہ تک دوڑ لگانے والا ہے۔ اب جنگوں اور دشمنوں کے تنگ کرنے کے باوجود صحابہؓ اپنی تفریح کے سامان بھی کرتے رہتے تھے۔ ایک دوسرے کو ہلکے پھلکے چیلنج بھی دیتے تھے تا کہ وقت بھی گزر جائے اور دشمنوں کا جومستقل ذہنی دباؤ بھی جو ہے وہ بھی کچھ کم ہو۔ بہرحال انہوں نے کہا کہ کوئی ہے جو مجھ سے دوڑ لگائے؟کیا کوئی دوڑنے والا ہے؟ کہتے ہیں انہوں نے کئی دفعہ یہ بار بار دہرایا تو میں نے جب یہ بات سنی تو میں نے دوسرے صحابی کو چھیڑکے کہا اسے کہ تم کسی معزّز کی عزت نہیں کرتے؟ کسی بزرگ سے نہیں ڈرتے؟ اس نے کہا نہیں سوائے اس کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ مجھے کسی کا خوف نہیں تو میں نے کہا یا رسولؐ اللہ! میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں۔ مجھے اس آدمی سے دوڑ لگانے دیں۔ آپؐ نے فرمایا ٹھیک ہے اگر تم چاہتے ہو تو لگاؤ۔ میں نے اس شخص سے کہا کہ چلو۔ پھر کہتے ہیں کہ میں نے اپنے پاؤں موڑے اور چھلانگ ماری اور دوڑ پڑا اور میں ایک یا دو گھاٹیاں اسکے پیچھے دوڑا پھر میں اپنی طاقت بچا رہا تھا پھر میں آہستگی سے اس کے پیچھے دوڑا پھر میں تیز ہوا، اسے جا لیا۔ یہ دوڑ لگتی رہی۔ وہ مدینہ کا سب سے تیز دوڑنے والا شخص تھا۔ کہتے ہیں اَور تیز ہو کے میں نے اسے جا کےپکڑ لیا۔ میں نے اسے کندھے کے درمیان مکا مارا۔ میں نے کہا اللہ کی قسم! تو پیچھے رہ گیا۔
ایک راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے انہوں نے کہا کہ میں مدینہ تک اس سے آگے رہا اور پھر ہم صرف تین راتیں ٹھہرے یہاں تک کہ اس کے بعد پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے۔ (ماخوذ از صحیح مسلم جلد 9 صفحہ 228تا 238کتاب الجھاد والسیر، بَابُ غَزْوَةِ ذِي قَرَدٍ وَغَيْرِهَا، حدیث: 3358، نور فاؤنڈیشن 2008ء) (صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوہ ذات القرد حدیث 4194) وہاں ٹھہرے۔ پھر خیبر کی طرف چلے گئے۔
تاریخ طبری میں اس غزوہ کی بابت کچھ تفصیلات یوں درج ہیں۔ حضرت عاصِم بن عُمر بن قَتادہسے مروی ہے کہ غزوۂ ذِی قَرَد میں دشمن کے پاس سب سے پہلا گھوڑا حضرت مُحْرِزْ بن نَضْلَہؓ کا پہنچا جو بنو اسد بن خُزَیْمَہ میں سے تھے۔ حضرت مُحْرِزْ بن نَضْلَہؓ کو اَخْرَمْ بھی کہا جاتا تھا اسی طرح آپؓ کو قُمَیْر بھی کہا جاتا تھا اور جب دشمن کی طرف سے لُوٹ مار اور خطرے کے لیے اجتماع کا اعلان ہوا تو حضرت محمود بن مَسْلَمَہؓ کے گھوڑے نے جو اُن کے باغ میں بندھا ہوا تھا جب اَور گھوڑوں کی ہنہناہٹ کی آواز سنی تو اپنی جگہ اچھل کود کرنے لگا۔ یہ ایک عمدہ اور سدھایا ہوا گھوڑا تھا۔ تب بَنُو عَبْدِالْاَشْھَل کی عورتوں میں سے بعض عورتوں نے بندھے ہوئے گھوڑے کو اس طرح اچھلتے کودتے دیکھا تو حضرت مُحْرِزْ بن نَضْلَہؓ سے کہا اے قُمَیر! کیا آپؓ طاقت رکھتے ہیں کہ اپنے اس گھوڑے پر سوارہوں اور یہ گھوڑا جیسا ہے وہ آپؓ اسے دیکھ ہی رہے ہیں۔ پھر آپؓ مسلمانوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملیں۔ آپؓ نے کہا ہاں ! میں تیار ہوں۔ پھر عورتوں نے وہ گھوڑا آپؓ کو دیا۔ آپؓ، حضرت مُحْرِزؓ، اس پر سوار ہو کر چل دیے۔ انہوں نے اس گھوڑے کی باگ ڈھیلی چھوڑ دی یہاں تک کہ آپؓ نے اس جماعت کو پا لیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہی تھی اور ان کے آگے آپؓ کھڑے ہو گئے۔ پھر حضرت مُحْرِزْ بن نَضْلَہؓ نے کہا اے تھوڑی سی جماعت! ٹھہرو۔ یہاں تک کہ دوسرے مہاجر اور انصار جو تمہارے پیچھے ہیں وہ بھی تم سے آ ملیں۔ راوی کہتے ہیں کہ دشمن کے ایک شخص نے آپؓ پر حملہ کیا اور آپؓ کو شہید کر دیا۔ پھر وہ گھوڑا بے قابو ہو کر بھاگا اور کوئی اس پر قابو نہ پا سکا یہاں تک کہ وہ بَنُو عَبدِالْاَشْھَل کے محلے میں آ کر اُسی رسّی کے پاس ٹھہر گیا جس سے وہ بندھا ہوا تھا۔ پس مسلمانوں میں اس دن آپؓ کے علاوہ اور کوئی شہیدنہیں ہوا تھا اور حضرت محمودؓ (طبقات ابن سعد کےمطابق ان صحابی کا نام حضرت محمد بن مسلمہؓ تھا۔ ان) کے گھوڑے کا نام ذُو اللَّمَّہ تھا۔ ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت مُحْرِزْ بن نَضْلَہؓ حضرت عُکَّاشَہ بن مِحْصَنؓ کے گھوڑے پر شہادت کے وقت سوار تھے۔ اس گھوڑے کو جَنَاح کہا جاتا تھا اور بعض جانور دشمن کے ہاتھ سے چھڑا لیے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مقام سے روانہ ہوئے اور غزوۂ ذی قَرَد کے پہاڑ پر پہنچ کر ٹھہرے اور وہیں اَور صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن اور ایک رات وہاں مقیم رہے۔ سَلَمَہ بن اَکْوَعؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ! اگر آپؐ سو آدمی میرے ساتھ بھیج دیں تو مَیں بقیہ جانور بھی دشمن سے چھڑا لاتا ہوں اور ان کی گردن جا دباتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہاں جاؤ گے؟ اس وقت تو وہ غطفان کی شراب پی رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو سَو سَو میں تقسیم کرتے ہوئے ان میں کھانے کے لیے اونٹ تقسیم کیے جنہیں صحابہ نے بطور کھانے کے استعمال کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لے آئے۔ (تاريخ الطبري، الجزء الثالث ’’غَزْوَةُ ذِي قَرَدٍ‘‘ صفحہ115، 116مکتبہ دارالفکر، الطبعة الثانیة2002ء) (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 70 مُحْرِزْ بن نضلۃ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
اور ان لوگوں سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ ان کو چھوڑ دیا۔ ان لوگوں کو جانے دیا اور یہی حضرت مُحْرِزْؓ وہاں صرف ایک شہید ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق گھڑ سواروں میں سب سے پہلے شہید تھے اور یہی پہلی روایت میں بھی ہے۔