حضرت مُرارہ بن ربیع عَمْرِیؓ
حضرت مُرارہ بن ربیع عَمْرِیؓ کے والد کا نام رَبیع بن عَدِی تھا۔ ان کے والد کا نام رِبْعِیّ اور رَبِیْعَہ بھی بیان کیا جاتا ہے۔ حضرت مُرارہ بن ربیع عَمریؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ اَوس کے خاندان بنو عمرو بن عوف سے تھا جبکہ ایک روایت کے مطابق ان کا تعلق بنو عمرو بن عوف کے اتحادی قبیلہ قُضَاعَہ سے تھا۔ قُضَاعَہ عرب کا ایک مشہور قبیلہ ہے جو مدینے سے دس منزل پر وادی القریٰ سے آگے واقع ہے اور مدائنِ صالح کے مغرب میں آباد ہے۔ (اُسدالغابة فی تمییز الصحابة جلد5 صفحہ129 مُرَارَہْ بِنْ رَبِیْع دارالکتب العلمیہ بیروت 2003ء) (الاصابہ فی معرفة الصحابة جلد6صفحہ52 مُرَارَہْ بِنْ رَبِیْع دارالکتب العلمیہ بیروت1995ء) (فرہنگ سیرت صفحہ237 مطبوعہ زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی 2003ء)
حضرت مُرارہؓ کو غزوۂ بدر میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ امام بخاریؒ اور صحابہؓ کے حالات پر مشتمل کتب میں ان کے غزوۂ بدر میں شامل ہونے کا تذکرہ ملتا ہے جبکہ ابن ہشام نے بدری صحابہ کی فہرست میں ان کا نام درج نہیں کیا۔ یہ ان تین انصار صحابہ میں سے تھے جو غزوۂ تبوک میں شامل نہ ہو سکے تھے جن کا پہلے ذکر ہو چکا ہے اور جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی یہ آیت بھی نازل فرمائی تھی کہ وَ عَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیۡنَ خُلِّفُوۡا ؕ حَتّٰۤی اِذَا ضَاقَتۡ عَلَیۡہِمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ وَ ضَاقَتۡ عَلَیۡہِمۡ اَنۡفُسُہُمۡ وَ ظَنُّوۡۤا اَنۡ لَّا مَلۡجَاَ مِنَ اللّٰہِ اِلَّاۤ اِلَیۡہِ ؕ ثُمَّ تَابَ عَلَیۡہِمۡ لِیَتُوۡبُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ (التوبہ: 118) اور ان تینوں پر بھی اللہ توبہ قبول کرتے ہوئے جھکا جو پیچھے چھوڑ دیے گئے یہاں تک کہ جب زمین ان پر باوجود فراخی کے تنگ ہو گئی اور ان کی جانیں تنگی محسوس کرنے لگیں اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ سے پناہ کی کوئی جگہ نہیں مگر اسی کی طرف پھر وہ ان پر قبولیت کی طرف مائل ہوتے ہوئے جھک گیا تا کہ وہ توبہ کر سکیں۔ یقیناً اللہ ہی بار بار توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
جیساکہ پہلے یہ ذکر ہو چکا ہے کہ یہ تینوں پیچھے رہ جانے والے صحابہ حضرت کعب بن مالکؓ، حضرت مرارہ بن ربیعؓ اور حضرت ھِلَال بن امیہؓ تھے اور یہ تینوں انصار سے تھے۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک حدیث4418) (اُسدالغابة فی تمییز الصحابة جلد5 صفحہ129 مُرَارَہْ بِنْ رَبِیْع دارالکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
اس حوالے سے حضرت مُرارہؓ کا علیحدہ کوئی بیان نہیں ہے حضرت کعب بن مالکؓ کا ہی تفصیلی بیان ہے جو حضرت ھِلَال بن امیہؓ کے تعلق میں گذشتہ خطبے میں بیان کر چکا ہوں اس لیے دوبارہ یہاں بیان کی ضرورت نہیں ہے۔