حضرت مُظَھِّر بن رَافِعؓ
حضرت مُظَھِّر کے والد کا نام رافع بن عدی تھا۔ حضرت مُظَھِّر کا تعلق انصار کے قبیلہ اوس کے خاندان بنو حارثہ بن حارث سے تھا۔ حضرت مُظَھِّر اور حضرت ظُھَیْرؓ دونوں سگے بھائی تھے۔ یہ دونوں حضرت رَافِع بن خُدَیج رضی اللہ تعالیٰکے چچا تھے۔ (السیرة النبویۃ لابن ہشام صفحہ324حاشیہ، باب اسماء من شھد العقبہ دارالکتب العلمیہ بیروت2001ء)
یعنی حضرت رَافِع بن خُدَیْجؓ کا بھی ذکر آتا ہے جو بدری صحابی تو نہیں تھے لیکن ان کا بھی تاریخ میں ایک مقام ہے، ان کے یہ چچا تھے یعنی بھتیجے کا نام بھی رافع تھا اور باپ کا نام بھی۔ حضرت رافعؓ کے بارے میں مختصر یہ بتا دوں کہ یہ وہ صحابی تھے جنہوں نے غزوۂ بدر میں جانے کے لیے خود کو پیش کیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کم عمری کی وجہ سے واپس بھیج دیا تھا اور اُحد کے دن ان کو شامل ہونے کی اجازت دے دی تھی۔ حضرت رافعؓ غزوۂ احد اور خندق اور دیگر غزوات میں شریک ہوئے تھے۔ احد کے دن ایک تیر ان کی ہنسلی کی ہڈی میں لگا تھا۔ تیر تو نکال لیا گیا تھا لیکن اس کا اگلا حصہ ان کی وفات تک جسم کے اندر ہی رہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت رافعؓ سے فرمایا کہ قیامت کے دن میں تمہارے لیے شہادت دوں گا۔ ان کی وفات عبدالملک بن مروان کے دور ِحکومت میں 74؍ ہجری میں 86؍ سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ (اسدالغابہ فی معرفة الصحابہ لابن اثیر جلد2 صفحہ232-233، رافع ؓ بن خدیج، دارالکتب العلمیہ بیروت2008ء)
یہ تو ان کے بھتیجے کا ذکر تھا۔ حضرت ظُھَیرؓ کے بارے میں بتاتا ہوں۔ امام بخاریؒ نے اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ حضرت ظُھَیر اپنے بھائی کے ہمراہ غزوۂ بدر میں شامل ہوئے تھے اور اس بھائی کا نام انہوں نے اپنی کتاب میں درج نہیں کیا۔ بخاری کے شارحین نے لکھا ہے کہ حضرت ظُھَیر کے بھائی کا نام مُظَھِّر تھا۔ اسی طرح سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مشتمل کتاب سُبُلُ الْھُدٰی وَالرَّشَاد میں حضرت ظُھَیر بن رافع کے ضمن میں لکھا ہے کہ بخاری کے مطابق ان کے بھائی حضرت مُظَھِّر بھی غزوۂ بدر میں شامل ہوئے تھے۔ حضرت ظُھَیر میں نے کہا تھا۔ حضرت مُظَھِّر کا ذکر ہو رہاہے۔ یہ ان کے بارے میں بتا رہا ہوں۔ صحابہ کے حالات پر مشتمل کتابیں جیسے اُسُد الغابہ، الاِصابة، الاِستِیْعاب وغیرہ جو ہیں ان میں حضرت مُظَھِّر کے حالات کے ضمن میں ان کے غزوۂ بدر میں شامل ہونے کا تذکرہ نہیں ملتا۔ ان تینوں کتابوں میں حضرت مُظَھِّر کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ غزوۂ اُحد اور بعد کے تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک ہوئے تھے۔ حضرت مُظَھِّر حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں فوت ہوئے۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب تسمیۃ من سمی من اھل بدر……) (ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری جلد7 صفحہ195، دارالفکر بیروت2010ء) (سبل الہدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ 106، غزوہ بدر الکبریٰ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء) (اسدالغابہ فی معرفة الصحابہ لابن اثیر جلد5 صفحہ185، مظھر بن رافع، دارالکتب العلمیہ بیروت2008ء) (الاصابۃ فی تمییز الصحابہ جزء6 صفحہ106، مظھر بن رافع دار الکتب العلمیہ بیروت1995ء) (الاستیعاب فی معرفة الاصحاب جلد4 صفحہ 39، مظھر بن رافع، دارالکتب العلمیہ بیروت2002ء)
لیکن جو کتابیں ہیں وہ حضرت مُظَھِّر کو ثابت کرتی ہیں کہ غزوۂ بدر میں شامل ہوئے تھے، اسی پر زیادہ تر اعتماد کیا جاتا ہے۔ یَحْیٰ بن سَہْل بن اَبُو حَثْمَہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مُظَھِّر بن رَافِع حَارِثِی میرے والد کے پاس ملک شام سے چند طاقتور مزدور اپنے ساتھ لے کر آئے تا کہ وہ ان کی زمینوں میں کام کر سکیں۔ جب یہ خیبر میں پہنچے تو وہاں تین دن قیام کیا۔ وہاں یہودنے ان مزدوروں کو حضرت مُظَھِّر کے قتل پر اکسانا شروع کر دیا اور دو یا تین چھریاں مخفی طور پر انہیں دے دیں۔ جب حضرت مُظَھِّر خیبر سے باہر نکلے اور ثبار نامی جگہ پر پہنچے جو خیبر سے 6؍ میل کے فاصلے پر واقعہ ہے تو ان لوگوں نے حضرت مُظَھِّر پر حملہ کر دیا اور پیٹ چاک کر کے انہیں شہید کر دیا۔ پھر وہ لوگ خیبر واپس چلے گئے جس پر یہودنے انہیں زادِ راہ اور خوراک دے کر روانہ کر دیا۔ یہاں تک کہ وہ ملک شام واپس پہنچ گئے۔ جب حضرت عمر بن خطابؓ کو یہ خبر ملی تو فرمایا کہ میں خیبر کی طرف نکلنے والا ہوں اور وہاں موجود اموال کو تقسیم کرنے و الا ہوں اور اس کی حدود کو واضح کرنے والا ہوں اور زمینوں میں حدِ فاصل لگانے والا ہوں یعنی اس کا بدلہ لیا جائے گا اور یہود کو وہاں سے جلاوطن کرنے والا ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ میں تمہیں اس وقت تک ٹھکانہ دوں گا جب تک اللہ نے تمہیں ٹھکانہ دیا اور اللہ نے انہیں جلا وطن کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے پھر ایسا ہی کیا۔ (کنزالعمال جلد 4 صفحہ 509، اخراج الیھود، حدیث نمبر11505، مکتبہ مؤسسة الرسالہ) (الاستیعاب فی معرفة الاصحاب جلد4 صفحہ 39-40، مظھر بن رافع، دارالکتب العلمیہ بیروت2002ء) (معجم البلدان جلد 2 صفحہ6، داراحیاء التراث العربی)
حضرت مُظَھِّر کی شہادت کا واقعہ 20؍ہجری میں پیش آیاتھا۔ (الکامل فی التاریخ لابی الحسن علی جلد2صفحہ410، باب ثم دخلت سنة عشرین، دارالکتب العلمیہ بیروت2006ء)