حضرت مُعَاذ بن عَمرو بن جَمُوحؓ
حضرت مُعَاذ بن عَمرو بن جَمُوحؓ کا تعلق بنو خزرج کی شاخ بنو سلمہ سے تھا۔ آپؓ بیعت عقبہ ثانیہ اور غزوۂ بدر اور احد میں شامل ہوئے تھے۔ آپؓ کے والد حضرت عَمْرو بن جَمُوحؓ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو غزوۂ احد میں شہید ہوئے تھے۔ آپؓ کی والدہ کا نام ہِنْد بنت عَمْرو تھا۔ موسیٰ بن عُقْبَہ، ابو مَعْشَر اور محمد بن عمر واقِدی کے نزدیک آپؓ کے بھائی مُعَوِّذْ بن عَمْروؓ بھی غزوۂ بدر میں شامل ہوئے تھے اور آپؓ کی بیوی کا نام ثُبَیْتَہ بِنت عَمْرو تھا جو بنو خَزْرَج کی شاخ بنو سَاعِدَہ سے تھیں۔ ان سے آپؓ کا ایک بیٹا عبداللہ اور ایک بیٹی اُمَامَہپیدا ہوئیں۔ (الطبقات الکبریٰ جلد3 صفحہ426-427 معاذ بن عمرو۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء) (السیرۃ النبویۃ لابن کثیر صفحہ 197 فصل فی رجوع الانصار لیلۃ العقبۃ الثانیۃ الی المدینۃ۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت 2005)
حضرت مُعَاذؓ بیعتِ عَقْبہ ثانیہ میں شامل ہوئے تھے لیکن ان کے والد عَمْرو بن جَمُوح اپنے مشرکانہ عقائد پر بہت سختی سے قائم تھے۔ سیرت ابن ہشام میں حضرت معاذؓ کے والد کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ درج ہے۔ کوئی سال ہوا ہے میں نے ان کے واقعہ میں بھی تھوڑا سا بیان کیا تھا کہ جب یہ لوگ، بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل ہونے والے جو لوگ تھے مدینہ واپس آئے تو انہوں نے اسلام کی خوب اشاعت کی اور ان کی قوم میں کچھ بزرگ ابھی تک اپنے شرکیہ دین پر قائم تھے ان میں سے ایک عَمْرو بن جَمُوحؓ بھی تھے۔ آپؓ کے بیٹے مُعَاذ بن عَمرِوؓ بیعتِ عَقَبہ ثانیہ میں شامل ہوئے تھے اور اس موقع پر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر لی تھی۔ عَمرِو بن جَمُوحؓ بنو سلمہ کے سرداروں میں سے تھے اور ان کے بزرگوں میں سے ایک بزرگ تھے۔ انہوں نے اپنے گھر میں لکڑی کا ایک بت بنا کر رکھا ہوا تھا جیسا کہ اس وقت کے بڑے لوگ بنا کر رکھتے تھے۔ اسے‘مَنَاۃ ’کہا جاتا تھا۔ اس کو معبود بنا کر اس کی تزئین و تطہیر کرتے تھے۔ جب بنو سلمہ کے کچھ نوجوان اسلام لے آئے جن میں حضرت مُعَاذ بن جَبَلؓ اور عَمْرو بن جَمُوح کے بیٹے حضرت مُعَاذ بن عَمرو بن جَمُوحؓ تھے۔ یہ ان نوجوانوں میں سے تھے جو اسلام لائے اور عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئے تو یہ لوگ رات کو عَمْرو بن جَمُوح کے بت کدہ میں داخل ہو کر اس بت کو اٹھا کر لے آتے اور اسے بنو سلمہ کے کوڑا کرکٹ میں پھینکنے کے لیے بنائے جانے والے گڑھے میں اوندھا لٹا دیتے، پھینک دیتے۔ جب صبح عمرو اٹھتے تو کہتے تمہارا برا ہو۔ کس نے رات کو ہمارے معبودوں سے دشمنی کی۔ پھر اس کو ڈھونڈنے نکل پڑتے یہاں تک کہ جب اسے پا لیتے تو اسے دھوتے اور صاف کرتے۔ پھر کہتے کہ خدا کی قسم! اگر میں یہ جان لوں کہ کس نے تیرے ساتھ ایسا کیا تو ضرور میں اسے رسوا کروں گا۔ پھر جب رات ہوتی اور عَمرو سو جاتے تو دوبارہ ان کے بیٹے وہی حرکت کرتے۔ پھر عَمْرو بن جَمُوح نے صبح کی اور دوبارہ وہی تکلیف اٹھا کر پھر اسے دھویا۔ پھر صاف کیا۔ جب کئی رات یہ واقعہ ہوا تو عَمْرو بن جَمُوح نے بت کو وہاں سے باہر نکالا جہاں اسے پھینکا گیا تھا پھر اسے دھویا اور صاف کیا۔ پھر وہ اپنی تلوار لائے اور اس کے گلے میں لٹکا دی اور کہا کہ اللہ کی قسم! یقیناً مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ تیرے ساتھ ایسا کون کرتا ہے پس اگر تجھ میں کوئی طاقت ہے تو اس کو روک لے اور یہ تلوار تیرے پاس پڑی ہے۔ بت کے پاس تلوار رکھ دی۔ جب شام ہوئی اور عمرو سو گئے تو ان نوجوانوں نے جن میں ان کا بیٹا شامل تھا اس بت سے دوبارہ وہی سلوک کیا۔ اس کے گلے سے وہ تلوار لی اور ایک مردہ کتے کو لے کر اس بت کو رسی کے ساتھ اس سے باندھ دیا اور بنوسلمہ کے ایک پرانے کنویں میں پھینک دیا جس میں کوڑا کرکٹ وغیرہ پھینکا جاتا تھا۔ صبح جب عَمْرو بن جَمُوح اٹھے تو انہوں نے اس بت کو اس جگہ پر نہ پایا جہاں اسے رکھا جاتا تھا۔ پس وہ اسے ڈھونڈتے رہے یہاں تک کہ اس کنویں میں اوندھے منہ مردہ کتے کے ساتھ بندھا ہوا پایا۔ جب انہوں نے یہ نظارہ دیکھا تو ان پر حقیقت کھل گئی اور ان کی قوم کے مسلمان لوگوں نے بھی انہیں اسلام کی تعلیم دی تو آپؓ خدا کی رحمت سے اسلام لے آئے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 207-208 قصۃ صنم عمرو بن الجَمُوْح، دار ابن حزم بیروت2009ء)
ابن ہشام کی سیرت میں یہ واقعہ اس طرح لکھا ہے کہ بت تو تلوار کے ساتھ بھی کچھ نہیں کر سکا تو ایسے خدا کو پوجنے کا کیا فائدہ!
حضرت مُعَاذ بن عَمرِو بن جَمُوحؓ ابو جہل کو قتل کرنے والوں میں بھی شامل تھے۔ چنانچہ بخاری کی روایت میں درج ہے کہ صالح بن ابراہیم اپنے دادا حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بتایا کہ میں بدر کی لڑائی میں صف میں کھڑا تھا کہ میں نے اپنے دائیں بائیں نظر ڈالی تو کیا دیکھتا ہوں کہ دو انصاری لڑکے ہیں۔ ان کی عمریں چھوٹی ہیں۔ میں نے آرزو کی کہ کاش میں ایسے لوگوں کے درمیان ہوتا جو اُن سے زیادہ جوان، تنو مند ہوتے۔ اتنے میں ان میں سے ایک نے مجھے ہاتھ سے دبا کر پوچھا کہ چچا کیا آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں بھتیجے۔ تمہیں اس سے کیا کام ہے؟ اس نے کہا مجھے بتلایا گیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے اور اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر مَیں اس کو دیکھ پاؤں تو میری آنکھ اس کی آنکھ سے جدا نہ ہو گی جب تک ہم دونوں میں سے وہ نہ مر جائے جس کی مدت پہلے مقدر ہے۔ میں اس پر بڑا حیران ہوا۔ پھر دوسرے نے مجھے ہاتھ سے دبایا اور اس نے بھی مجھے اسی طرح پوچھا۔ ابھی تھوڑا عرصہ گزرا ہو گا کہ میں نے ابوجہل کو لوگوں میں چکر لگاتے دیکھا۔ میں نے کہا دیکھو وہ ہے تمہارا ساتھی جس کے متعلق تم نے مجھ سے دریافت کیا تھا۔ یہ سنتے ہی وہ دونوں جلدی سے اپنی تلواریں لیے اس کی طرف لپکے اور اس پر حملہ کر کے دونوں نے اسے قتل کر ڈالا۔ پھر وہ دونوں لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپؐ کو خبر دی۔ آپؐ نے پوچھا تم میں سے کس نے اس کو مارا ہے۔ دونوں نے کہا میں نے اس کو مارا ہے۔ آپؐ نے پوچھا کیا تم نے اپنی تلواریں پونچھ کر صاف کر لی ہیں؟ انہوں نے کہا نہیں۔ آپؐ نے تلواروں کو دیکھ کر فرمایا کہ تم دونوں نے ہی اس کو مارا ہے۔ اس کا سامانِ غنیمت مُعَاذ بن عَمرو بن جَمُوحؓ کو ملے گا اور ان دونوں کا نام معاذ تھا۔ مُعَاذ بن عَفْرَاءؓ اور مُعَاذ بن عَمرو بن جَمُوحؓ۔ (صحیح البخاری کتاب فرض الخمس باب من لم یخمس الاسلاب حدیث3141)
پہلے بھی شروع میں ایک دفعہ معاذ اور مُعَوَّذ کے واقعات کو بیان کر چکا ہوں اور یہاں پھر ابہام پیدا ہو سکتا ہے۔ اس لیے اس کے قتل کا جو واقعہ متفرق کتب حدیث میں اور سیرت میں بھی بیان ہوا ہے اور یہ جو بخاری سے بھی روایت بیان ہوئی ہے اس میں یہ ذکر ہے کہ حضرت مُعَاذ بن عَمرو بن جَمُوحؓ اور حضرت مُعَاذ بن عَفْرَاءؓ نے ابوجہل پر حملہ کر کے اسے قتل کیا تھا اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ابوجہل کا سر قلم کیا تھا۔ دوسری جگہ معاذ اور مُعَوَّذ کا ذکر ملتا ہے۔ بہرحال اس کے علاوہ بخاری میں ہی ایسی روایات بھی ہیں جن میں یہ ذکر ہے کہ ابوجہل کو عفراءکے دو بیٹوں معاذ اور مُعَوَّذ نے قتل کیا تھا اور بعد میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے جا کر اس کا کام تمام کیا۔ چنانچہ بخاری کی ایک روایت میں اس کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے:
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ ِبدر کے دن فرمایا کون دیکھے گا کہ ابوجہل کا کیا حال ہوا ہے؟ حضرت ابن مسعودؓ گئے اور جا کر دیکھا کہ اس کو عفراء کے دونوں بیٹوں معاذ اور مُعَوَّذ نے تلواروں سے مارا ہے کہ وہ مرنے کے قریب ہو گیا ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ نے پوچھا کیا تم ابوجہل ہو؟ حضرت ابن مسعودؓ کہتے ہیں انہوں نے ابوجہل کی داڑھی پکڑی۔ ابوجہل کہنے لگا کیا اس سے بھی بڑھ کر کوئی شخص ہے جس کو تم نے مارا یایہ کہا کہ اس شخص سے بڑھ کر کوئی ہے جس کو اس کی قوم نے مارا ہو؟ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جہل حدیث 3962)
یہ دونوں روایتیں بخاری میں ہی ملتی ہیں۔ دو نام معاذ کے آتے ہیں اور ایک جگہ معاذ اور مُعَوَّذ کے نام آتے ہیں۔ ایک جگہ دونوں کی ولدیت مختلف ہے۔ ایک جگہ ایک ہی باپ کے دونوں بیٹے کہلاتے ہیں۔ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ ابوجہل کے قاتلین کی کہ کس طرح اس کی تطبیق کی جائے، کس طرح اس کی وضاحت ہو؟ اس کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’بعض روایات میں ہے کہ عفراءکے دو بیٹوں (مُعَوَّذؓ اور معاذؓ) نے ابوجہل کو موت کے قریب پہنچا دیا تھا۔ بعد ازاں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اس کا سر تن سے جدا کیا تھا۔ امام ابن حجر نے اس احتمال کا اظہار کیا ہے کہ معاذ بن عمروؓ اور مُعَاذ بن عَفْرَاءؓ کے بعد مُعَوَّذ بن عفراءؓ نے بھی اس پر وار کیا ہو گا۔‘‘ (صحیح بخاری جلد 5 صفحہ 491حاشیہ، اردو ترجمہ شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
اس لیے پہلی دو روایتوں میں ان دونوں بھائیوں کا بھی ذکر ملتا ہے۔ دوسری روایت میں دو مختلف لوگوں کا ذکر ملتا ہے اور جو شرح فتح الباری ہے اس میں لکھا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ تینوں ہی ہوں۔ علامہ بدرالدین عینی ابوجہل کے قاتلین کی تطبیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ابوجہل کو مُعَاذ بن عَمرو بن جَمُوحؓ اور مُعَاذ بن عَفْرَاءؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے قتل کیا تھا۔ حضرت عبداللہ نے اس کا سر قلم کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے۔ (عمدۃ القاری جلد 17 صفحہ 120، داراحیاء التراث العربی بیروت2003ء)
علامہ بدرالدین عینی مزید لکھتے ہیں کہ صحیح مسلم میں ہے کہ جن دونوں نے ابوجہل کو قتل کیا تھا وہ مُعَاذ بن عَمرو بن جَمُوحؓ اور مُعَاذ بن عَفْرَاءؓ ہیں۔ مُعَاذ بن عَفْرَاءؓ کے والد کا نام حارث بن رِفَاعَہ تھا اور عَفْرَاء ان کی ماں تھیں جو عُبَید بن ثَعْلَبَہ نجاریہ کی بیٹی تھیں۔ اسی طرح بخاری کتاب الجہاد میں باب مَنْ لَّمْ یُخَمِّسِ الْاَسْلَابَ میں ذکر آ چکا ہے کہ حضرت مُعاذ بن عمَروؓ تھے جنہوں نے ابوجہل کی ٹانگ کاٹی اور گرا دیا تھا۔ پھر مُعَوَّذ بن عَفْرَاء نے اس کو مارا یہاں تک کہ اس نے اس کو زمین پر گرا دیا۔ پھر اس کو چھوڑ دیا جبکہ اس میں ابھی کچھ رمق باقی تھی، جان تھی۔ پھر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اس پر کاری ضرب لگائی اور اس کا سر جدا کر دیا۔ پھر یہ لکھتے ہیں کہ اگر تُو کہے کہ ان تمام باتوں کو یوں اکٹھا بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے تو میں یہ کہتا ہوں کہ شاید ابوجہل کا قتل ان سب کا کام تھا اس لیے اکٹھا کیا ہے۔ (عمدۃ القاری جلد 17 صفحہ 121-122 حدیث 3962 داراحیاء التراث العربی بیروت 2003ء)
زرقانی کی ایک روایت کے مطابق حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے جب ابوجہل کو دیکھا تو اس کو اس حال میں پایا کہ آخری سانس لے رہا تھا۔ اس پر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اپنی ٹانگ ابوجہل کی گردن پر رکھ کر کہا کہ اے اللہ کے دشمن! اللہ نے تجھے رسوا کر دیا ہے۔ اس پر ابوجہل نے متکبرانہ انداز میں کہا میں تو کوئی رسوا نہیں ہوا۔ اور کیا تم نے مجھ سے بھی معزّز کسی اَور شخص کو قتل کیا ہے؟ یعنی مجھے تو اس میں کوئی عار محسوس نہیں ہو رہا۔ پھر ابوجہل نے پوچھا کہ مجھے بتاؤ کہ میدان کس کے ہاتھ میں رہا۔ فتح اور کامیابی کس کے ہاتھ میں رہی؟ تو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی فتح ہوئی۔
ایک دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ ابوجہل نے کہا کہ اُس یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات بھی کہنا کہ میں ساری زندگی اس کا دشمن رہا اور آج اس وقت بھی میں اس کی دشمنی اور عداوت میں انتہا تک ہوں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ابوجہل کا سر قلم کیا اور اس کا سر لے کر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح میں اللہ کے نزدیک تمام نبیوں سے زیادہ معزّز اور مکرّم ہوں اور میری امت اللہ کے نزدیک باقی تمام امتوں سے زیادہ معزّز اور مکرّم ہے اسی طرح اس امت کا فرعون باقی تمام امتوں کے فراعین سے زیادہ سخت اور متشدّد ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَدۡرَکَہُ الۡغَرَقُ ۙ قَالَ اٰمَنۡتُ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیۡۤ اٰمَنَتۡ بِہٖ بَنُوۡۤا اِسۡرَآءِیۡلَ (یونس: 91) قرآن شریف میں سورۂ یونس میں آیا ہےکہ جب اسے غرقابی نے آ لیا تو اس نے کہا مَیں ایمان لاتا ہوں کہ کوئی معبودنہیں مگر وہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے۔ جبکہ اس امت کا فرعون دشمنی اور کفر میں بہت بڑھ کر ہے۔ جس طرح کہ مرتے ہوئے ابوجہل کی باتوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ روایات میں یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ ابوجہل کی ہلاکت کی خبر ملنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل کا سر دیکھنے پر فرمایا کہ اَللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۔ کہ اللہ وہ ذات ہے جس کے سوا اَور کوئی معبودنہیں۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہ فرمایا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ أَعَزَّ الْاِسْلَامَ وَأَھْلَہٗ کہ ہر قسم کی تعریف کا مستحق اللہ ہے جس نے اسلام اور اس کے ماننے والوں کو عزت دی۔ اسی طرح یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یقیناً ہر امت کا ایک فرعون ہوتا ہے اور اس امت کا فرعون ابوجہل تھا جسے اللہ تعالیٰ نے بہت ہی برے انداز میں قتل کروایا۔ (شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ جلد 2 صفحہ 297-298دارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)
حضرت مُعَاذ بن عَمرو بن جَمُوحؓ کی وفات حضرت عثمانؓ کے دور میں ہوئی۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 6 صفحہ 114، معاذ بن عمرو بن جَمُوْح، دارالکتب العلمیۃ بیروت1995ء)
خلیفہ بن خَیَّاطْ بیان کرتے ہیں کہ مُعَاذ بنِ عَمرِو بن جَمُوحؓ کو بدر کے دن ایک زخم لگا تھا۔ آپؓ اس کے بعد حضرت عثمانؓ کے زمانہ تک علیل رہے۔ پھر مدینہ میں وفات پائی۔ حضرت عثمانؓ نے آپؓ کا جنازہ پڑھا اور آپؓ جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔ حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مُعَاذ بن عَمرو بن جَمُوحؓ کیا ہی اچھا شخص ہے۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد4 صفحہ140-141، ذکر مناقب معاذ بن عمرو بن الجَمُوْح حدیث5895-5897 دارالفکر بیروت 2002ء)