حضرت مُعَوِّذ بن حارِثؓ
حضرت معوذؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج سے تھا۔ حضرت معوذؓ کے والد کا نام حارث بن رِفاعہ تھا۔ ان کی والدہ کا نام عَفْراء بنت عبید تھا۔ حضرت معاذؓ اور حضرت عوفؓ ان کے بھائی تھے۔ یہ تینوں اپنے والد کے ساتھ ساتھ اپنی والدہ کی طرف بھی منسوب تھے اور ان تینوں کو بنو عفراء بھی کہا جاتا تھا۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جزء 5 صفحہ 231 ’’مُعَوِّذؓ بِنْ عَفْرَاء‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2003ء) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 374 ’’مُعَوِّذؓ بِنْ عَفْرَاء‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
صرف ابنِ اسحاق نے یہ بیان کیا ہے کہ حضرت معوذؓ ستر انصار کے ساتھ بیعتِ عقبہ ثانیہ میں شامل تھے۔ حضرت معوذؓ نے اُمِّ یزید بنتِ قَیس سے شادی کی۔ اس شادی سے ان کے ہاں دو بیٹیاں پیدا ہوئیں جن کے نام حضرت رُبَیّعْ بنتِ مُعَوِّذؓ اور حضرت عُمَیْرَہ بنتِ مُعَوِّذؓ تھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 374 ’’مُعَوِّذؓ بِنْ عَفْرَاء‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
حضرت معوذؓ کو اپنے دونوں بھائیوں حضرت معاذؓ اور حضرت عوفؓ کے ساتھ غزوۂ بدر میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جزء 5 صفحہ 231 ’’مُعَوِّذؓ بِنْ عَفْرَاء‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2003ء)
غزوہ ٔبدر میں حضرت معاذؓ، حضرت عوفؓ اور حضرت معوذؓ جو بنو عفراء کہلاتے تھے وہ اور ان کے آزاد کردہ غلام ابو حَمْرَاء کے پاس ایک ہی اونٹ تھا جس پر وہ باری باری سوار ہوتے تھے۔ (کتاب المغازی للواقدی جزء 1صفحہ38بدرالقتال، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ 2013ء)
یہ روایت حضرت معاذؓ کے ضمن میں پہلے بیان کرچکا ہوں لیکن یہاں حضرت معوذؓ کے ضمن میں بھی اس کا آنا ضروری ہے اس لیے بیان کرتا ہوں۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگِ بدر کے دن فرمایا کہ کون دیکھے گا کہ ابو جہل کا کیا حال ہوا ہے؟ حضرت ابنِ مسعودؓ گئے اور جا کر دیکھا کہ اس کو عفراء کے دو بیٹوں نے تلواروں سے اتنا مارا ہے کہ وہ مرنے کے قریب ہو گیا ہے۔ حضرت ابنِ مسعودؓ نے پوچھا کیا تم ابوجہل ہو؟ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ابوجہل کی داڑھی پکڑی۔ ابوجہل کہنے لگا کیا تم نے اس سے بڑے کسی آدمی کو قتل کیا ہے یا یہ کہا کہ اس کو اس کی قوم نے قتل کیا ہو؟ اس جیسے بڑے آدمی کو کبھی ان کی قوم نے قتل کیا ہو؟ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جہل حدیث نمبر3962)
یہ بخاری کی روایت ہے۔ اس کی شرح میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ بعض روایات میں ہے کہ عفرا ءکے دو بیٹوں مُعوِذؓ اور معاذؓ نے ابوجہل کو موت کے قریب پہنچا دیا تھا۔ بعد میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اس کا سر تن سے جدا کیا تھا۔ امام ابنِ حجر نے اس احتمال کا اظہار کیا ہے کہ حضرت معاذ بن عمروؓ اور حضرت معاذ بن عفراءؓ کے بعد حضرت معوذ بن عفراءؓ نے بھی اس پر وار کیا ہو گا۔ (ماخوذ از صحیح بخاری کتاب فرض الخمس باب من لم یخمس الاسلاب…… حدیث 3141جلد 5 صفحہ 491حاشیہ، اردو ترجمہ شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابو جہل کے قتل کے واقعے کو بیان کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ انسان بڑی خوشیاں کرتا ہے اور اپنے لیے ایک چیز کو مفید خیال کرتا ہے لیکن وہی اس کے لیے تباہی اور بربادی کا باعث ہو جاتی ہے۔ بدر کے موقعے پر کفارِ مکہ جب آئے تو انہوں نے سمجھا کہ بس ہم نے مسلمانوں کو مار لیا اور ابوجہل نے کہا ہم عید منائیں گے اور خوب شرابیں اڑائیں گے اور سمجھا کہ بس اب مسلمانوں کو مار کر ہی پیچھے ہٹیں گے لیکن اسی ابوجہل کو مدینے کے دو لڑکوں نے قتل کر دیا۔ کفارِ مکہ مدینہ والوں کو بڑا ذلیل خیال کرتے تھے اور اسے یعنی ابوجہل کو ایسی حسرت دیکھنی نصیب ہوئی کہ اس کی آخری خواہش بھی پوری نہ ہو سکی۔ عرب میں رواج تھا کہ جو سردار ہوتا وہ اگر لڑائی میں مارا جاتا تو اس کی گردن لمبی کر کے کاٹتے تا کہ پہچانا جاوے کہ یہ کوئی سردار تھا۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے اسے دیکھا جب یہ بے حس وحرکت اور زخمی پڑا ہوا تھا اور پوچھا کہ تمہاری کیا حالت ہے؟ اس نے کہا مجھے اَور تو کوئی افسوس نہیں، صرف یہ ہے کہ مجھے مدینہ کے دو اَرائیں بچوں نے مار دیا یعنی ایسے بچوں نے جو سبزیاں اگانے والوں کی، کھیتی باڑی کرنے والوں کی اولاد ہیں اور مکہ والوں کی نظر میں یہ کام کم درجے کا سمجھا جاتا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ مدینہ کے لوگوں کو جنگ و جدل اور جنگ و قتال کا کیا پتہ؟ لیکن مارا بھی اور اس کے اس تکبر کو توڑا بھی تو کس نے؟ انہی لوگوں نے۔ نہ صرف ان لوگوں نے بلکہ ان کے بچوں نے یا لڑکوں نے جو اتنے تجربہ کار نہیں تھے۔ عبداللہ نے دریافت کیا کہ تمہاری کوئی خواہش ہے؟ اس نے کہا میری یہ خواہش ہے کہ میری گردن ذرا لمبی کر کے کاٹ دو۔ انہوں نے کہا میں تیری یہ خواہش بھی پوری نہیں ہونے دوں گا اور اس کی گردن کو ٹھوڑی کے پاس سے سختی سے کاٹ دیا اور وہ جو عید منانی چاہتا تھا وہی اس کے لیے ماتم ہو گیا اور وہ شراب جو اس نے پی تھی اسے ہضم ہونی بھی نصیب نہ ہوئی۔ (ماخوذ از خطبات محمود(خطبات عید الفطر) جلد 1 صفحہ11)
غزوۂ بدر کے موقعے پر حضرت معوذؓ لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ آپؓ کو ابو مُسَافِع نے شہید کیا تھا۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء 4صفحہ 1442 ’’مُعَوِّذؓ بِنْ عَفْرَاء‘‘ دار الجیل بیروت 1992ء)